زیادہ پرانی بات نہیں جب ہمارا مشترکہ خاندانی نظام اور اِس میں بزرگوں کا مقام دنیا کے لئے باعثِ رشک تھا۔ صنعتی انقلاب ،شہروں کی طرف مراجعت ، رہایش کی تنگی نے مشترکہ خاندان کو’’جوہری کنبہ‘‘ (نیوکلیئر فیملی) میں بدل دیا اور اْس کے جوہر بھی کْھل ہی رہے ہیں۔
وہ گھر جہاں پانچ پانچ نسلیں ہنستے، روتے، گاتے مزے سے زندگی گزار رہیں تھیں، وہاں آج پانچواں فرد بھی خود کو ناجائز سا سمجھتا ہے۔ کیا ذمہ دار مغرب ہے؟ مگر غور فرمائیں صنعتی انقلاب سے پہلے معاشرتی اور معاشی حالات کسی طرح کے بھی ہوں، گھر اْن کے بھی محفوظ ہی تھے۔ موجودہ ابتلا میں اْن کی ریاست نے کسی حد تک ساتھ دینے کی کوشش کی مگر نفسیاتی مسائل اْن کے بھی بس سے باہر ہیں۔
یوٹیوب پر "Strong elderly life" کے نام سے ایک پیلیٹ فارم ہے، جس کا مشن یہ ہے کہ کس طرح 60 برس سے زیادہ عمر کے افراد کو مضبوط بنایا جائے تاکہ وہ جذباتی آزادی اور عزت سے زندگی سے لطف اندوز ہو سکیں۔ زیرنظر مضمون میں بھی اس سیریز کے خیالات سے استفادہ کیا گیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بجا طور پر بزرگی کی’’مضبوطی‘‘ سے زیادہ اس کی’’شفقت‘‘ پر فخر کیا جاتا ہے۔ مگر یہ انقلاب زمانہ اْن کی شفقت کوبھی کھاتا جا رہا ہے۔ وہ بے کارِ ِ محض سمجھے گئے تو مضبوطی کے علاوہ کیا آپشن پچتا ہے اْن کے پاس؟ مستزاد یہ کہ طبی انقلاب نے بڑھاپا بہت طویل کر دیا۔
بزعمِ خود ترقی یافتہ دنیا نے تو اس کا حل اولڈ ہوم کی صورت میں نکالا۔ وہ لوگ جو کچھ نہ کر سکتے تھے ان کو پرانی مشینوں کی طرح وہاں پھینکنا شروع کر دیا۔ جہاں وہ ایڑیاں رگڑتے اپنی موت کا انتظار کرتے۔ مگر یہ انتظار کیسے گوارا بنانا ہے اس پر بات کرنے کے لئے بہت سا کام کیا گیا ہے۔ ہمارے پاس یہ مصائب نہ بھی آئیں تو بھی بدلتی رْتوں میں پیش بندی اور آگہی پر توجہ دینا ضروری ہے۔
آئیے چلیں، سنہرے سفر پر۔
پتنگ اْڑائی ہے کبھی؟
فون کو تکتے کتنی دیر، گھنٹے، دن، ہفتے شاید کئی سال ہو گئے۔ وہ کال آئی تو نہیں؟ خود سے ایک طویل پیغام لکھا، بارہا پڑھا پھر بھیج بھی دیا، مگر جواب نہ ملا!
اکثر سینئرز اس گہری خاموشی کا درد جانتے ہیں۔ مشکل بات رابطوں کی کمی نہیں بلکہ یہ سوچ کہ غلطی کہاں اور کِس سے ہوئی؟ جب آپ کے پیارے اپنی خود کی اْڑان بھرتے ہیں، اپنے آسمانوں میں تو وہ’’ تارہ ‘‘ ہو جاتے ہیں۔ ’’پتنگ باز سجنا‘‘۔ جب وہ پتنگ نظر آنا ہی بند ہوجاتی ہے۔ عید ، سالگرہ پر بھی سالوں بعد ایک میسج اور پھر طویل خاموشی۔ آپ کی آنکھ کے تارے دور سے دور ہوتے جا رہے ہوتے ہیں۔ رابطے کی کوشش اکثر بے کار۔ پاس رہنے کی کوشش اِس سے بھی دْشوار، ایسے میں ہمارا موجود ہونا زیادہ پریشان کْن۔ بات مْشکل ہے مگر اس کی وجہ آپ نہیں ہیں۔ کیا آپ کے پیارے؟ جی نہیں وہ بھی نہیں، تو پھر ہے کون؟
ذمہ دار! وہ دعویٰ ہے کہ ہمیں پتنگ اْڑانا آتی ہے ، اور جب پتنگ کٹ جاتی ہے تو ہم ڈور ہاتھ میں لئے آسمان کو اور ہماری پتنگیں ڈور کو ڈھونڈ رہی ہوتی ہیں۔ اگر ہم اسے سمجھ سکیں تو ایک عمر کی بے سکونی ختم ہو سکتی ہے ’’سب‘‘ کی!
کائنات پھیلے گی تو کیا فاصلے بڑھیں گے؟ رابطوں کے نئے طریقے۔ نئے علوم، نئے مسائل اور نئے حل، کِس شئے سے انکار ممکن ہے؟ سب سے آنکھیں بند کر بھی لیں تو اپنے اندر کی دْنیا کا کیا کریں گے؟
جدید نفسیات اِن رویوں کو آئس برگ کے ظاہری حصے سے تشبیہہ دیتی ہے۔ ہم تاعمر سمجھ ہی نہیں پاتے کہ ہمارے لاشعور میں کیا کیا زخم چْھپے ہیں اور اپنوں سے دْوریاں کسی فوری وجہ سے نہیں بلکہ اکثر بہت گہرے گْم گشتہ مسائل کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ جِس کا خود ہمیں ہی علم نہیں ہوتا تو ہمارے پیارے تو بہرحال ہم سے بہت بعد میں آئے ہیں۔ ذرا سوچیں کہ آپ محبت اور چاہت سے رابطہ کر رہے ہیں اور آپ کے پیارے ایک شرمندگی اور نامعلوم درد لئے جھجھک رھے ہیں۔ جسے وہ کوئی نام بھی نہیں دے سکتے۔آپ کا ساتھ اْنہیں اْن مسائل کی یاد دلاتا ہے، جو وہ حل نہیں کر پا رھے۔ تو اْنہیں کیا کرنا چاہیے؟ اور اگر اْن کی جگہ آپ ہیں تو کیا کریں گے؟
کیا یہ ضروری ہے اور ممکن بھی ہے کہ ہم کائنات کے تمام علوم حاصل کر لیں؟ اگر نہیں تو شعور اور لاشعور سے ابھی بس اتنا سا ہی آگے چلیں کہ ایک اصطلاح ٹرانسفرینس ( Transference) بھی ہے۔ جو کہ پتہ نہیں کہاں کہاں کی محبتیں، مہربانیاں اور سب سے بڑھ کر تلخیاں اور نفرتیں جمع کر کے ایک دستیاب فرد پر اْنڈیل دیتی ہے۔ نظر صرف ناپسندیدہ عوامل ہی آتے ہیں کہ میٹھا میٹھا تو پتہ بھی نہیں چلتا۔
ہم سب پیار کرنا اور جوابی محبت چاہتے ہیں۔ رابطہ، نصیحت اور پیار اس لئے نہیں ہوتا کہ ہم قابو پانا چاہتے ہیں بلکہ اس لئے کہ ہم پروا کرتے ہیں۔ مگر جوابی سرد مہری کا ٹھنڈا خنجر روح تک کو گھائل کردیتا ہے۔ خود کو مورد الزام ٹھہرانا کوئی حل ہے، نہ ہی لاتعلقی! منطق کا اثر کسی حد تک شعور پر ہو تو ہو مگر اس ناسور کی جڑیں تو لاشعور میں کہیں دور تک پھیلی ہیں اور لاشعور صرف جذبات پر ردِعمل دیتا ہے نہ کہ آپ کی سچی اور کھری دلیلوں پر۔ جب تک تکلیف کا احساس نہ ہوگا علاج کیسا؟ صرف دوری بڑھ ہی سکتی ہے تو کیا ہار مان لینا چاہیے؟ جی نہیں!
بات ہار ماننے کی نہیں بلکہ وقار سے پیچھے ہٹنے کی ہے۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ محبت ہمیشہ پیچھا کرنے کا نام نہیں۔ بعض اوقات رْکنا اور موقع دینا کہ خود پر غور کیا جاسکے۔ یہ سزا نہیں، انتقام نہیں بلکہ حکمت اور خود احترامی ہے۔ زور زبردستی، بار بار کی کوششیں شاید اس خلیج کو مزید گہرا ہی کریں گی۔ ایک باوقار توقف اور حکمت بھری خاموشی کسی بھی وضاحت سے زیادہ طاقتور ہو سکتی ہے۔ تعاقب چھوڑنے سے دونوں سروں پر کچھ نہ کچھ بدلاؤ آنے لگتا ہے۔ اور وہ اطمینان وہ سکون واپس آنے لگتا ہے جو کہ کہیں کھو گیا تھا۔ مشکل تو ہے مگر شِفا یہیں سے شروع ہو گی !
نفسیات کا اگلا سبق ’پروجیکشن‘ ہے۔ لوگ غیر شعوری طور پر اپنے وہ جذبات دوسروں پر ڈال دیتے ہیں جو وہ خود محسوس نہیں کرنا چاہتے۔ آپ کی محبت بھری سرگوشی میں آپ کے پیارے کو فیصلہ اور آپ کی مدد ایک چْھپا ہوا پھندہ محسوس ہوتا ہے۔ یہ شاید ناانصافی تو ہے مگر یہ بھی انسان کی رنگارنگی ہے۔ ہم آپ سب علیحدہ علیحدہ فریکونسی پر بات کر رہے ہیں۔ زَبانیں ہی مختلف ہیں۔ شاید یہ وضاحت آپ کو احساسِ ندامت سے نکال سکتی ہے کہ آپ اگر فارسی میں اظہارِ محبت فرما رہے ہیں اور مخاطب اس زبان کو جانتا ہی نہیں۔ تو جتنا زیادہ بولیں گے، صرف شور ہی بڑھے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ان کو چھوڑ دیں، بلکہ یہ ہے کہ آپ خود کو چھوڑنا بند کریں۔کتنا آسان حل ہے؟ مگر صرف کہنے کی حد تک۔
خاموشی! صرف جذباتی ہی نہیں بلکہ ظاہراً بھی اپنا آپ محسوس کرواتی ہے۔ پیاروں کی وہ یادیں، وہ تصویریں وہ نشست، وہ سب کچھ جو کبھی آپ کے دل کو گْدگْداتا تھا۔ اب تِیر برسا رہا ہوتا ہے۔ اس کیفیت کو بیان کرنا آسان نہیں۔ ہمارے پیارے’’ہیں‘‘ بھی مگر کہیں ’’نہیں ہیں‘‘۔ یہ مشکل حقیقت ہے لیکن اگر اس کو سمجھ لیا جائے تو اس سے آزادی کا سفر شروع کیا جا سکتا ہے۔ کہ ہر خاموشی صرف آپ کی ناکامی کو ظاہر نہیں کرتی بلکہ آپ کے پیاروں کی خود سے جدوجہد بھی تو ہو سکتی ہے۔ اْن کو بھی وقت دینا ضروری ہے کہ وہ اپنا علاج کر سکیں۔ اکثر اوقات ہماری قربت اْن میں وہ مسائل پیدا کرتی ہے جو کہ وہ محسوس کرنے کو تیار نہیں۔
کیا یہ کسی بھی طرح ’’فیڈینگ سپون‘‘ سے مختلف ہے؟ ’’میں خود‘‘ کتنی مرتبہ آپ کے پیاروں نے آپ کے ہاتھ سے چمچ چھین کر کہا تھا۔ تب آپ نے خوش ہو کر چمچ پکڑا دیا تھا۔ اب بھی تو وہ جذباتی بلوغت کے نئے مسائل سے نبرد آزما ہیں۔ چمچ چھوڑنے کا مطلب ہار مان لینا نہیں۔ بلکہ یہ ماننا کہ انسانی تعلقات میں کبھی بھی یکسانیت نہ ہو گی۔ ہر طرح سے ٹھیک ہے۔ جو قابو میں نہیں وہ بھی ٹھیک ہے۔ اور کچھ ہو نہ ہو یہ احساس آپ کا درد کم کردے گا۔ پیاروں کو ’’میں خود‘‘ کرنے دیں۔
کون سا سپاہی ہے ،کون سا کھلاڑی ہے جسے پیچھے ہٹنا نہیں سکھایا جاتا؟ سزا کے طور پر نہیں، تلخی سے نہیں بلکہ وقار کے ساتھ خاص طور پر اْس وقت جب آپ بہت دیر سے انتظار میں کھڑے ہوں۔ آپ اس سے کہیں شاندار سلوک کے مستحق ہیں۔ بات دیواریں اْٹھا دینے کی نہیں بلکہ دروازہ بند کرنے کی ہے۔ نرمی اور سکون کے ساتھ۔ یاد رہے کہ یہ کسی بھی وقت کھولا جا سکتا ہے!
ہمارا لاشعور اس سے کہیں زیادہ گہری کہانیاں رکھتا ہے۔ اْنہیں آواز بننے دیں۔ کاغذ پر یا الفاظ میں۔ اپنی توانائی وہاں لگائیں جہاں وہ کام آ سکے۔ اندر کے طوفان کو باہر کا راستہ دِکھائیں۔ اکثر جس پیار تک ہم پہنچنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں وہ کہیں باہر نہیں ہمارے اندر ہی ہوتا ہے۔ اور بے لوث محبت پانے کی تمنا رکھتا ہے۔ اس پر توجہ دیں اس کے لئے کسی دوسرے کی اجازت چاہیے ہی نہیں۔
سب کو ہی اپنی اپنی حدود میں ہونا چاہیئے۔ یہ جملہ بے رحم لگ رہا ہے۔ لیکن سب سے زیادہ قیمتی شئے ہے جو کہ ہم اپنے ساتھ روا رکھ سکتے ہیں۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ محبت ہمیشہ لامحدود نہیں ہوتی۔ ڈور کے دونوں سروں پر تناؤ ہو گا تو ہی ہمیں دوسرے کا احساس بھی ہوگا۔ جب ہم پیچھا کرنا چھوڑتے ہیں تو ہی ایسی نئی دنیائیں دریافت ہوتی ہیں۔ جہاں سے حقیقی تعلق شروع ہوتا ہے۔ لاشعور کوئی دلیل کوئی منطق نہیں سنتا بلکہ جذبات پر ردِعمل دیتا ہے۔ آپ ہر وقت ’’میں ہوں ناں‘‘ آزما چکے۔ نیا طریقہ اپنی عدم موجودگی کا احساس دلانا ہے۔ یہ کوئی کھیل نہیں، چالاکی نہیں بلکہ ایک اور تحفہ ہے۔ جو رشتوں کی اہمیت کا احساس دلائے گا آپ کے پیاروں کو۔جب وہ ہمیشہ موجود کْھلے بازوؤں کو نہیں دیکھتے تو ہی اس کی اہمیت جانتے ہی۔ خاموشی کی آواز اتنی بلند ہوتی ہے کہ ہر دل پر دستک دیتی ہے۔ اور اگر اس کا بھی جواب نہیں آتا تو بھی آپ زندہ سلامت رہتے ہیں۔ اپنی زندگی جیتے ہیں، مزاحمت سے نہیں، شکست سے نہیں بلکہ ایک وقار کے ساتھ!
کوئی ترکِ تعلق نہیں کوئی تلخی نہیں۔ آپ محبت کرنا بند نہیں کرتے صرف خود کو نظراِنداز کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اور اپنے پیاروں کو ایک نئے سفر کے لئے تیار کرتے ہیں۔ ایک نیا مرحلہ ایک نیا سبق۔کل بھی تو آپ نے سکول بھیجا تھا اْنہیں۔ یہ جذباتی بلوغت کا ایک نیا مرحلہ ہے اْن کے لئے بھی اور اکثر اوقات آپ کے لئے بھی۔ آپ وہی ہیں جنہوں نے ہر مقام پر اْن کا ساتھ دیا ہے۔ اور وہ محبت ختم نہیں ہوئی بلکہ ایک نئے امتحان میں اْن کا ساتھ دیں۔ وہ یقیناً کامیاب لوٹیں گے اور اگر کبھی نہ بھی لوٹیں تو آپ کے پاس اپنا آپ تو رہے۔
گہری محبت ایسے بھی تو ہو سکتی ہے کہ وہ آپ کی لائف لائن نہ ہو۔ اور واپسی کی امید بھی ہمیشہ رہنی چاہیئے لیکن صرف آپ کی خوشی کے لئے نہیں۔ وہ تو آپ کے اندر مضبوط اور موجود ہو۔ ایک اپنی قدر کے طور پر۔ کیا رنگ تھا اْس بلی کا جسے پچھلے سال آپ نے دودھ پلایا تھا۔ اور چلیں وہ فاختہ تو آپ سے ملنے آئی ہوگی جسے پچھلے کئی دن آپ دانہ پانی دیتے رہے۔ آپ دْنیا میں رب کے خلیفہ ہیں اور آپ کی ذمہ داریاں PROVIDER کی ہیں۔ ہاں بالکل بھی انکار نہیں کہ خالقِ حقیقی نے بھی شکریہ کی امید رکھی اور چاہا کہ میں پہچانا جاؤں۔ لیکن رزق کس کا بند کیا اور مہربانیاں کِس پر موقوف کر دیں۔ جی نہیں آپ کا پیارا آزاد بھی تو ہو سکتا ہے اور پھر وہ جب بھی واپس آٓئے کْھلے ہوئے بازو منتظر پائے۔
کوئی ڈرامہ نہیں،کوئی بے حِسی بھی نہیں بلکہ ہر طرح کے حالات کے ساتھ وقار کے ساتھ جینا سیکھنا ہے۔ اِسے ورکنگ تَھرْو (working through) کہتے ہیں۔ آپ کے پیاروں کی وہ جگہ خالی ہی ہے اور نشست آنکھوں میں چبھ بھی رہی ہے مگر یہ تو آپ پر منحصر ہے کہ آپ نے زندگی کو اپنی کرسی کے ارد گرد مرکوز کرنا ہے یا کہ جو آپ کے پاس بھی نہیں اور دائرہِ اثر میں بھی نہیں۔ دل کی دْنیا میں بے لوث سکہ ہی چلتا ہے۔ وہ نَپِی تْلی محبت بے کار ہے جو لین دین کے معیاری اصولوں پر بنائی گئی ہو۔ وہ معیاری مگر بازاری ہی ہوگی۔ بلی اور ساری دْنیا پر مہربانی بدلے کی خواہش کے بغیر کریں۔ یہی الوہی اور پاکیزہ ہے !
جب آپ توقعات سے زیادہ سکون کو ترجیح دیتے ہیں تو آپ طاقت کے ایک نئے جہان میں پہنچ جاتے ہیں۔جہاں آپ ایک قابلِ استعمال شے سے زیادہ ایک مکمل فرد ایک مکمل شخصیت کے طور پر موجود ہوتے ہیں۔ جو جانتا ہے کہ محبت میں آزادی بھی شامل ہوتی ہے۔ آپ نے ہر طرح کی مشکلات کے باوجود مہربانی کا انتخاب کیا اور جب بھی آپ کے پیاروں کی واپسی ہو تو اْ ن کا استقبال ایک ادھورا سا شخص نہ کرے بلکہ اْس کی مکمل شخصیت منہ سے بولتی ہو۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ آپ اور آپ کا سکون، آپ کی جامعیت کسی پر بھی منحصر نہیں۔ کسی کے بھی آنے یا جانے پر نہیں بلکہ آپ اپنے آپ میں مکمل اور جامع ہیں۔ یہیں سے ایک نیا سفر شروع ہوتا ہے۔ جب ایک ہی جگہ سے انتظار کی بجائے زندگی سے امید لگائی جاتی ہے اور آپ خواہشات کی بجائے مقصدیت سے جیتے ہیں۔ دنیا میں بہت سا پیار باقی ہے اور ایسی جگہوں پر جہاں ابھی آپ کا خیال بھی نہیں گیا۔ لیکن کیا ہمیں اِس وعدے پر یقین ہے ؟
سورہ الطلاق، آیت نمبر 3! ’’اور اسے وہاں سے رزق دے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہو۔ اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اس کے لیے کافی ہے‘‘
رزق صرف سونے کے سکے ہی نہیں ہوتے۔ بلکہ دوست، پیارے، محبت سبھی اْس کی نعمتیں ہیں اور بے حساب ہیں۔ آپ کے دل میں گہری ہمدردی ہے تو اسے آپ درد سمجھیں یا کہ طاقت، یہ آپ پر منحصر ہے۔ اسے اپنا استاد بننے دیں۔ خود کو یاد دِلائیں کہ اسی طاقت سے آپ نے کیا کیا کمال کئے تھے اور اب بھی کر سکتے ہیں۔ یہ ایسی طاقت تھی، ہے اور رہے گی۔ نادیدہ غیر محسوس اور خاموش۔ جو نہ تو کسی انعام نہ داد کی تمنا رکھتی ہے مگر زندگی کے ہر لمحے میں موجود ہوتی ہے۔ تعاقب کئے بغیر بھی اْتنی ہی طاقتور اور پْر حکمت جو کہ ایک عمر میں پروان چڑھتی ہے۔ لیکن بہت سے پیارے اسے سمجھ ہی نہیں پاتے۔ اور جو سمجھتے ہیں وہ بھی اس کی گہرائی کو نہیں سمجھ پاتے۔ ہم بے وقوف یا نا سمجھ نہیں بلکہ یہ ہم ہی ہیں جہاں ابھی بہت سے لوگ ابھی پہنچ ہی نہیں پائے۔
کسی حقیقت کو قبول کرنا ہار نہیں ہے۔ جب ہم حقیقت کو قبول کرتے ہیں تو ماضی میں جینا یا ایک مثالی مستقبل تراشنا بند کردیتے ہیں اور صاحب حال ہو جاتے ہیں۔ آج میں جیتے ہیں۔ آپ یہ ٹھیک ہے کی بجائے یہ ’’حقیقت‘‘ ہے پر ایک نئی اور ٹھوس بنیاد استوار کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کے پیارے نہ بدلیں مگر اس بات کا تصور کریں کہ آپ کے زور زبردستی یا دباؤ کی بجائے اْن کے اندر کچھ ایسی جوت جَگے کہ وہ کِھچے چلے آئیں۔ چاہے اگلے ہفتے، مہینے یا سال لیکن وہ لمحہ اور آپ کی زندگی دونوں اتنے قیمتی ہیں کہ ان پر سب کچھ وار دیا جائے تو بھی گھاٹے کا سودا نہیں۔
اپنے پیاروں کا دیا ہوا خلا بہ آسانی پْر ہو جاتا ہے؟ یقیناً نہیں۔ یہ کسک تو ساتھ ہی رہے گی مگر اس کے ساتھ جینا بھی سیکھنا ہے۔ بہت سے کٹھن کام آپ نے سرانجام دیے۔ ایک بھاری پتھر اور سہی۔ اسے بھی اْٹھائیں اور اْنہیں چھوڑیں جو اب آپ کے پاس نہیں۔ اْن کی محبت کو نہیں اْن کے انتظار کو بھی نہیں۔ بلکہ دْکھ کو پریشانی کو چھوڑیں اور سکون کو گلے لگائیں۔ یہ صرف تب ہوگا جب آپ ٹوٹے ہوئے دل پر توجہ کی بجائے ’’مکمل‘‘ کو سنبھالنا شروع کرتے ہیں۔ یہ دانائی ہے کہ آپ پورے طو پر جئیں۔ پورے دل سے۔ نرمی سے۔ محبت سے۔ بہادری سے۔ اْٹھیں اور نئی دْنیا میں خوبصورتی تلاش کریں ، صبح کی روشنی میں ، کھڑکی کے باہر پرندوں کے چہچہانے میں ، اپنی پسندیدہ چائے کی گرما گرم پیالی اور نیم گرم دوستی!
آپ کا پیار، حکمت، دانائی آپ کی کہانی ایک نئی دْنیا کے نام جو کہ آپ کے دِل میں اترنا چاہے۔ یہ پیاروں کو بھلانے جیسا نہ ہوگا بلکہ اپنے دل کے چمن کو تروتازہ رکھنے جیسا ہوگا۔ جب بھی اْن کی سرگوشی سنائی دے کہ ’’مجھے معاف کریں‘‘ تو اْن کی ملاقات ایسی ہستی سے نہ ہو جو کہ اْن کے انتظار میں تباہ حال ہو بلکہ ایسی کْھلے بازو سے جو کہ ’’جادو کی جپھی‘‘ کے قابل ہوں۔ لیکن اگر وہ نہ آئیں تو؟ مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے کہ آپ نے اپنا دِل اْن کے لئے کْھلا رکھا، مایوسی پر وقار کو ترجیح دی۔
کئی کہانیاں ادھوری بھی رہتی ہیں لیکن خوشی موجود رہتی ہے۔ سر اْٹھا کر چلیں۔ نہ تو آپ ادھورے نہ ہی شکستہ ہیں۔ آپ ایک نئے باب کے مصنف ہیں جہاں محبت ایک تجارت نہیں بلکہ ایک طاقت ہے جو کہ آپ کے اندر ہے۔ جہاں آپ کا سکون کسی اور پر نہیں بلکہ صرف اور صرف آپ کی ذات پر منحصر ہے۔ آپ محبت کے، آرام کے، احترام کے بالکل درست حقدار ہیں۔ آپ نے سب کچھ صحیح کیا ہے اور آپ ایک اچھے انسان ہیں اور یہ بالکل کافی ہے۔ تو اْٹھیں چہل قدمی کریں، کسی ایسے شخص کو کال کریں جو آپ کی روح کو گرما دے۔ کچھ نیا آزمائیں چاہے معمولی ہی کیوں نہ ہو۔ وہ کیک بنائیں، وہ گانا گائیں، وہ پھول لگائیں خاموشی کو بھرنے کے لیے نہیں، بلکہ اس طاقت کا جشن منانے کے لیے جو آپ کو یہاں لے آئی ہے۔ آپ کی زندگی جینے کے لیے بہترین ہے، کسی بھی عمر میں۔ اپنی عزت کرنا اور خود کے ساتھ مخلص ہونا بھی اچھی بات ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ا پ کے پیاروں ا پ کے پیارے نہیں بلکہ ا ہو سکتی ہے پیاروں کو پیاروں کی موجود ہو بھی نہیں کہ ا پ کے ہے کہ ا پ کی بجائے دیتے ہیں کا احساس کرتے ہیں بلکہ ایک سے زیادہ ہے جو کہ نیا میں کے ساتھ رہے ہیں ایک نئے ایک نیا کی کوشش ہی نہیں نہیں کر ہوتا ہے ہیں اور کسی بھی سے نہیں بلکہ یہ سکتا ہے بھی ا پ اور ا پ جو کہ ا ہیں کہ ہے مگر ہیں وہ ہیں تو کہ ایک بھی نہ نہیں ا جہاں ا ہے اور کے پاس کے بھی بھی تو کے لیے خود کو مگر یہ ہیں ہو کے لئے ا نہیں
پڑھیں:
لال اور عبداللہ جان
کوئی کچھ بھی کہے سوچے،سمجھے یا بولے ہم تو اس کہاوت کے قائل ہیں کہ تلوار چلاؤ تو اپنوں کے لیے لیکن بات کرو تو خدا کے لیے۔جیسے قربانی خدا کے لیے اور کھال شوکت خانم کے لیے یا کماؤ تو اپنے لیے اور بولو تو بانی اور وژن کے لیے۔ چنانچہ سارے واقعات، واردات،بیانات اور’’بیرسٹروں‘‘ کی اطلاعات سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہمارے صوبے کے پی کے خیر پخیر کی حکومت کو اب چھٹی یا پولیس کی اصطلاح کے مطابق ’’شاباشی‘‘ دینی چاہیے۔کیونکہ پانچ سال کا کام اس نے دو سال میں پورا کرلیا ہے جو کچھ کرنا تھا وہ سب کچھ ہوچکا بلکہ جو نہیں کرتا تھا وہ بھی ہوچکا ہے۔
ادارے اور محکمے’’ٹریک‘‘ پر ڈال دیے گئے ہیں، تبادلوں اور تقرریوں کے ذریعے ہر شاخ پر مناسب ’’پرندے‘‘ بٹھائے جا چکے ہیں، منتخب’’ جمہوری شہنشاہ‘‘ اپنی اپنی کٹ میں آنے والوں کو دسترخوان پر بٹھا چکے ہیں، مطلب یہ کہ’’بانی‘‘ کا’’وژن‘‘ وژولائز ہوچکا ہے، اس لیے شاباشی یا چھٹی تو اس کی بنتی ہے انصاف بلکہ تحریک انصاف کی، بات بھی یہی ہے کہ جو اپنا کام پورا کرے اسے چھٹی اور شاباشی دونوں ملنی چاہیے کیونکہ یہ تو مکتب سیاست ہے، کوئی’’مکتب عشق‘‘ نہیں کہ ’’ اسے چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا‘‘ مکتب سیاست میں چھٹی ملنا ضروری ہے کیونکہ اس مکتب کے طالب علم ’’عبداللہ جان‘‘ ہوتے ہیں۔اب لال اور عبداللہ جان کا نام لے لیا ہے تو کہانی بھی سنانا پڑے گی۔
یہ اس زمانے کی بات ہے جب پاکستان ایک زرعی ملک ہوا کرتا تھا۔اب تو خدا کے فضل سے حکومتوں کی مہربانی سے،لیڈروں کی محنت سے اور ہر حکومت کی نئی نئی پالیسیوں اور تجربوں سے یہ ملک صنعتی بھی تجارتی بھی ہے۔جمہوری بھی ہے سیاسی بھی ہے خاندانی بھی ہے اور سائنسی مذہبی اور گینگسٹر بھی ہوگیا ہے لیکن اس زمانے میں یہ زرعی ہوا کرتا تھا اور حکومتیں ’’اگلے سال‘‘ گندم میں چاول میں چینی میں خود کفیل ہونے کی خوش خبریاں سنایا کرتی تھیں۔
اس وقت کے خصوصی اپنے خصوصی کی خصوصیات نشر کرتے جیسے کہ آج کل’’بانی‘‘ اور’’وژن‘‘ کی۔چنانچہ ہمارے علاقے میں ایک سیزن ایسا آتا تھا کہ کھیتوں میں کام بہت بڑھ جاتا تھا۔ان کھیتوں میں جہاں آج کل کالونیاں،ٹاؤن شپ اور سمنٹ اور سریے کے جنگل لہلہا رہے ہیں۔
چنانچہ اوپر کے پہاڑی علاقوں سے لوگ مزدوری کے لیے آجاتے تھے۔عام مزدور تو دیہاڑی پر کام کرتے تھے صبح سے دوپہر تک دیہاڑی ہوتی تھی لیکن’’لال‘‘ اور’’عبداللہ‘‘ دو بھائی دیہاڑی نہیں کرتے تھے بلکہ کام ٹھیکے پر لے لیتے تھے، مالک سے کوئی کام پانچ دہاڑی پر لیے لیتے تھے اور دو دن میں کام ختم کردیتے تھے، یوں وہ ایک ایک دن میں کبھی دو کبھی تین دہاڑیاں کما لیتے تھے، اگر سیزن دو مہینے پر رہتا تو وہ دو مہینے میں چار مہینے کی کمائی کرلیتے تھے، وجہ یہ تھی کہ وہ دونوں بڑے مضبوط، جفاکش اور ان تھک تھے، ہماری موجودہ صوبائی حکومت کی طرح۔ یوں ہم ان لال اورعبداللہ جان کو آج کے ’’بانی‘‘ اور’’وژن‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں اور ہماری یہ جو صوبائی حکومت ہے اس نے بھی’’بانی‘‘ اور’’وژن‘‘ کی برکت سے پانچ سال کا کام دوسال میں ختم کر ڈالا ہے۔ اور یہ ہم نہیں کہہ رہے ہیں ہم تو آج کل
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
خود ہماری خبر نہیں آتی
لیکن ’’بیان نامے‘‘ یوں آتے ہیں جن کو اگلے زمانوں میں ’’اخبار‘‘ کہا کرتے ہیں اور ان بیان ناموں میں سب سے مستقل سب سے موثق اور سب سے معتبر و مستند بیان معاون خصوصی کے بیان ہوتے ہیں۔ان موثق،معتبر اور بالکل سچے مچے بیانات سے ہی پتہ چلا ہے کہ بانی اور وژن یا لال و عبداللہ نے پانچ دیہاڑیوں کا کام دو دیہاڑیوں میں ختم کرڈالاہے، سارا صوبہ سب کچھ میں خودکفیل ہوچکا ہے۔کوئی بیمار نہیں رہا ہے کوئی بیروزگار نہیں رہا ہے اور کوئی ناانصافی کا شکار نہیں رہا ہے۔
سوائے ایک کام کے کہ چین سے چین کی بانسریاں بس پہنچنے والی ہیں جو عوام میں تقسیم کرکے بجوائی جائیں گی۔لیکن اور ایک ضمنی سوال یہ پیدا ہوا کہ موجودہ ’’کام تمام‘‘ حکومت جائے گی کہاں یعنی۔ ’’کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد‘‘۔کیونکہ سب کام کرنے،کام دکھانے اور کام تمام کرنے والے لوگ ہیں، بیکار بھی تو نہیں بیٹھ سکتے۔’’یک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے‘‘۔اور پھر’’بانی‘‘ اور وژن کی برکت سے لال اور عبداللہ جان بھی ہیں۔تواس کا ایک حل بھی ہمارے پاس موجود ہے اسی موثق، معتبر اور سچے مچے ذریعے سے پتہ چلا ہے کہ پڑوسی صوبہ نہایت ہی بُرے حال میں ہے کیونکہ جدی پشتی حکمرانوں نے صوبے کو اتنا برباد کر ڈالا ہے کہ صوبے کے سارے لوگ نقل مکانی کرکے کسی سیارے پر چلے گئے ہیں۔ اور اگر یہ ہمارے چھٹی اور شاباشی کا مستحق لال اور عبداللہ جان کو وہاں بھیجا جائے اور یہ بانی اور وژن کا نام لے کر کام شروع کردیں تو آنے والے دو سالوں میں پچھلے پانچ سالوں کا کام ممکن ہوسکتا ہے اور صوبہ بچ سکتا ہے ورنہ ممکن ہے پنجاب پاکستان کا سب سے پسماندہ ترین صوبہ بن جائے۔