Jasarat News:
2025-11-19@01:41:28 GMT

بغاوتِ ضمیر اور احتجاجِ انسانیت

اشاعت کی تاریخ: 29th, September 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

’’بمباری بند کرو! بمباری بند کرو!!‘‘ یہ الفاظ محض ایک ہجوم کا احتجاج نہیں بلکہ انسانیت کی اجتماعی روح کی پکار ہیں۔ یہ وہ آواز ہے جو کسی ایک قوم، نسل یا خطے تک محدود نہیں، بلکہ پوری دنیا کے دلوں میں گونجتی ہے۔ یہ وہی پکار ہے جو کبھی ویتنام کے گھنے جنگلوں میں زخمی درختوں اور اجڑی بستیوں سے بلند ہوئی تھی۔ یہ وہی صدا ہے جو عراق کی مٹی سے اٹھتی تھی جب معصوم بچّے ’’تباہی کے ہتھیار‘‘ کے جھوٹے بہانے پر قربان کیے جا رہے تھے۔ یہ وہی نوحہ ہے جو افغانستان کے پہاڑوں سے بلند ہوا جب انسانیت کو دہشت گردی کی جنگ کے نام پر مسلا گیا۔ اور آج یہ پکار غزہ کی تنگ گلیوں سے، شہید بچّوں کے خون آلود کھلونوں سے، اور بے کس ماں کے سینے سے اٹھنے والی آہوں سے دنیا کو جھنجھوڑ رہی ہے۔ یہ احتجاج ایک اجتماعی ضمیر کی بازگشت ہے جو ہمیں یاد دلا رہا ہے کہ ظلم کے سامنے خاموش رہنا خود ظلم کا حصہ بن جانا ہے۔ تاریخ کے اوراق ہمیں بار بار یہ سچائی سکھاتے ہیں کہ ظلم وقتی طور پر غالب آ سکتا ہے، مگر اس کی جڑوں میں کھوکھلا پن ہوتا ہے۔ طاقت کے بل بوتے پر قائم نظام بظاہر مضبوط دکھائی دیتے ہیں مگر حقیقت میں وہ ریت کے گھروندے ہوتے ہیں جنہیں ایک چھوٹی سی لہر بھی بہا لے جاتی ہے۔

فرعون کے محلات بھی ظلم و غرور کی بنیاد پر کھڑے ہوئے تھے۔ وہ دریائے نیل کے کنارے اپنی طاقت کے مظاہرے کرتا اور خود کو ’’انا ربکم الاعلیٰ‘‘ کہتا، لیکن ایک دن وہی دریا اس کی بغاوت کو نگل گیا۔ نمرود کے ایوان بھی آسمان کو چھونے کی آرزو میں تھے، مگر ایک حقیر مچھر نے اس کی طاقت کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔ رومیوں اور تاتاریوں کی شان و شوکت بھی ظلم کے بوجھ تلے ڈھیر ہو گئی۔ آج اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں کے لیے بھی یہی سبق ہے۔ وہ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی، ایٹمی ہتھیار اور سیاسی لابی ان کے اقتدار کو دائمی بنا دیں گے، لیکن وہ بھول رہے ہیں کہ ظلم کی عمر تاریخ کے کسی بھی دور میں طویل نہیں رہی۔

ظلم چاہے کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو، اس کا انجام ایک دن زوال ہے۔ جب کہ حق اور انصاف کی کرنیں، چاہے کمزور ہی کیوں نہ لگیں، ہمیشہ باقی رہتی ہیں۔ فلسطینی بچّوں کے ننھے ننھے ہاتھ جو آسمان کی طرف اٹھتے ہیں، وہ محض دعا نہیں بلکہ انسانیت کے مستقبل کی ضمانت ہیں۔ اور یہ ضمانت تاریخ کا اٹل اصول ہے کہ ظلم مٹ جائے گا اور انصاف باقی رہے گا۔ یہ لمحہ صرف فلسطین یا غزہ کا لمحہ نہیں بلکہ پوری دنیا کا امتحان ہے۔ یہ پکار ’’بمباری بند کرو!‘‘ ایک عہد ہے جو انسانیت کو یاد دلاتا ہے کہ ظلم کی طاقت وقتی ہے اور انصاف کی روشنی دائمی۔ آج اگر دنیا نے اس صدا کو نہ سنا تو کل تاریخ اپنے فیصلے صادر کر دے گی، اور اس فیصلے میں ظالموں کے ساتھ ساتھ خاموش رہنے والے بھی مجرم شمار ہوں گے۔

فوجی اہلکاروں کی بغاوت دراصل اس بات کا اعلان ہے کہ ظلم کا بوجھ کتنا ہی میٹھے الفاظ اور سیاسی جوازوں میں لپیٹ دیا جائے، آخرکار وہی بوجھ ظالم کے ساتھیوں کے کندھوں پر بھی بھاری ہونے لگتا ہے۔ وہ جو کل تک خاموش تماشائی تھے، آج زبان کھولنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ یہ حقیقت اس بات کی شہادت ہے کہ: ظلم کے ساتھی بھی کبھی ضمیر کی خلش سے لرز اٹھتے ہیں۔ طاقتور کی زبان سے بھی اعترافِ جرم ممکن ہے۔ انسانیت کی اصل قوت عوام کے اجتماعی ضمیر میں چھپی ہے، نہ کہ ایٹمی ہتھیاروں اور بارودی انباروں میں۔

یہ صدائیں دراصل اس سچائی کی بازگشت ہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت بھی اپنے شہریوں کے دل و دماغ پر پہرے بٹھانے میں ناکام رہی ہے۔ واشنگٹن کے ایوانوں میں ابھرتی یہ آوازیں محض شور نہیں بلکہ تاریخ کے نئے موڑ کی علامت ہیں۔ جب ظلم کے ایوانوں کے اندر سے سوالات اٹھنے لگیں تو یہ اس بات کا اعلان ہے کہ حقیقت اپنی راہ بنا رہی ہے۔ یہ آوازیں بیک وقت ایک سوال، ایک چیلنج اور ایک نوید ہیں۔ سوال اس نظام کے لیے جو اپنے آپ کو انصاف کا علمبردار کہتا ہے مگر ظلم کا سہولت کار ہے۔ چیلنج ان طاقتوں کے لیے جو یہ سمجھتی ہیں کہ فوجی طاقت اور سرمایہ ہی ہمیشہ دنیا کو جھکائے رکھیں گے۔ نوید انسانیت کے لیے کہ اگر یہ صدائیں سنی گئیں تو وہ دن دور نہیں جب ظلم کے اندھیروں کو انصاف کی روشنی چیر ڈالے گی۔

اگر دنیا نے اس پکار کو نظر انداز کیا تو کل یہ طوفان صرف غزہ کے مکانوں کو نہیں، بلکہ عالمی امن کے ایوانوں کو بھی بہا لے جائے گا۔ ظلم کا لاوا جب پھٹتا ہے تو وہ کسی ایک قوم یا خطے تک محدود نہیں رہتا، بلکہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ لیکن اگر یہ پکار سنی گئی، اگر انسانیت نے اس آواز کو اپنی آواز بنا لیا، تو یہی لمحہ تاریخ کا سنگ میل بن سکتا ہے۔ یہی وہ موڑ ہے جہاں سے دنیا ظلم کے اندھیروں سے نکل کر انصاف اور روشنی کے سفر پر گامزن ہو سکتی ہے۔ ظالم چاہے کتنا ہی مضبوط کیوں نہ دکھائی دے، اس کے زوال کا دن مقرر ہے۔ لیکن مظلوم کی صدا، چاہے وہ کتنا ہی کمزور کیوں نہ لگے، ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ یہی صدا آج واشنگٹن کی دیواروں سے ٹکرا رہی ہے، اور یہی صدا آنے والے کل میں تاریخ کے اوراق پر روشن سچائی کے طور پر ثبت ہوگی۔

مسعود محبوب خان.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: نہیں بلکہ ہے کہ ظلم تاریخ کے کتنا ہی کیوں نہ ہیں کہ ظلم کے کے لیے رہی ہے ظلم کا

پڑھیں:

بنگلہ دیش کی عدالت نے حسینہ واجد کو انسانیت کیخلاف جرائم کا مرتکب قرار دیدیا

ڈھاکا(انٹرنیشنل ڈیسک) بنگلہ دیش کی عدالت نے سابق وزیراعظم حسینہ واجدکو انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے مجرم ٹھہرادیا۔

سابق وزیراعظم حسینہ واجد کیخلاف انسانیت کے جرائم کا مقدمہ گزشتہ سال سے زیر سماعت تھا جس میں انہیں سزائے موت دینے کی استدعا کی گئی تھی۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں قرار دیا گیا تھا کہ گزشتہ سال 15 جولائی سے 5 اگست کے درمیان حکومت مخالف مظاہروں کے دوران سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے تقریباً 1400 افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے، جو 1971 کی آزادی کی جنگ کے بعد سے بنگلہ دیش میں سب سے بدترین سیاسی تشدد تھا۔

17 کروڑ سے زائد آبادی والا بنگلہ دیش دنیا کے بڑے گارمنٹس برآمد کنندگان میں شامل ہے اور بڑے عالمی برانڈز کو سامان فراہم کرتا ہے، پچھلے سال کے احتجاجات کی وجہ سے اس صنعت کو سخت نقصان پہنچا۔

شیخ حسینہ اگست 2024 میں بنگلہ دیش چھوڑ کر نئی دہلی میں جلاوطنی میں رہ رہی ہیں۔

78 سالہ حسینہ نے عدالت کے احکامات کو رد کرتے ہوئے عدالت میں پیشی کے لیے بھارت سے واپس آنے سے انکار کر دیا تھا، جس میں یہ تعین ہونا تھا کہ آیا انہوں نے اگست 2024 میں طلبہ کی قیادت میں ہونے والے احتجاج پر جان لیوا کریک ڈاؤن کا حکم دیا تھا جس کے نتیجے میں وہ برطرف ہو گئیں۔

اگر انہیں مجرم قرار دیا گیا تو انہیں ممکنہ طور پر موت کی سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

حسینہ کی آمرانہ حکومت کے خاتمے کے بعد سے بنگلہ دیش سیاسی ہلچل کا شکار ہے، اور فروری 2026 میں متوقع انتخابات کی مہم میں تشدد نے بھی معاملات خراب کیے ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق کریک ڈاؤن کے دوران 1,400 تک افراد ہلاک ہوئے، جو اس مقدمے کے لیے مرکزی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ حسینہ اقتدار پر قابض رہنے کی کوشش کر رہی تھیں۔

گزشتہ ہفے فیصلے کی تاریخ مقرر کیے جانے پر چیف پراسیکیوٹر تاج الاسلام نے صحافیوں سے کہا تھا کہ ’انصاف قانون کے مطابق فراہم کیا جائے گا‘۔

انہوں نے مزید کہاتھا کہ ’ہم امید کرتے ہیں کہ عدالت دانشمندی سے کام لے گی، انصاف کی پیاس بجھائی جائے گی، اور یہ فیصلہ جرائمِ انسانی کے خاتمے کا نشان بنے گا‘۔

پراسیکیوٹرز نے پانچ الزامات دائر کیے، جن میں قتل کو روکنے میں ناکامی بھی شامل ہے، جو بنگلہ دیش کے قانون کے تحت انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔

عدالت نے غیر حاضری میں مہینوں تک شہادت سنی، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ حسینہ نے بڑے پیمانے پر قتل کا حکم دیا تھا، شیخ حسینہ واجد نے اس مقدمے کو ’قانونی مذاق‘ قرار دیا۔

ان کے شریک ملزمان میں سابق وزیر داخلہ اسدالزمان خان کمال(مفرور) اور سابق پولیس چیف چوہدری عبداللہ المامون شامل ہیں، جو حراست میں ہیں اور جرم قبول کر چکے ہیں۔

حسینہ واجد کو عدالت کے لیے ریاستی وکیل فراہم کیا گیا لیکن انہوں نے عدالت کے اختیار کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ وہ تمام الزامات کو رد کرتی ہیں۔

اکتوبر میں اے ایف پی کے ساتھ تحریری انٹرویو میں حسینہ نے کہا کہ مجرم قرار دینے کا فیصلہ پہلے سے طے شدہ ہے اور جب فیصلہ آئے گا تو انہیں حیرت نہیں ہوگی۔

بحران کی شدت:
فیصلے کی تاریخ مقرر ہونے پر عدالت کے اردگرد سیکیورٹی فورسز موجود تھیں اور بکتر بند گاڑیوں کے ذریعے چیک پوائنٹس مضبوط کیے گئے۔

ڈھاکہ میونسپل پولیس کے ترجمان طالب الرحمٰن نے کہا کہ پیر کے فیصلے کے لیے پولیس ہائی الرٹ پر ہے اور دارالحکومت کے اہم چوراہوں پر چیک پوائنٹس قائم کیے گئے ہیں، تقریباً آدھی تعداد یعنی 34 ہزار میں سے 17ہزار پولیس اہلکار ڈیوٹی پر ہوں گے۔

وزارت داخلہ کے عارضی سربراہ جہانگیر عالم چوہدری نے صحافیوں سے کہا کہ حکومت تیار ہے اور کوئی تشویش کی بات نہیں ہے۔

اس ماہ محمد یو نس کی حکومت کی عمارتوں، بسوں اور مسیحی مقامات پر دیسی ساختہ بم پھینکے گئے تھے، زیادہ تر پیٹرول بم تھے۔

بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ نے اس ماہ بھارت کے نمائندے کو طلب کرکے مطالبہ کیا تھا کہ نئی دہلی مفرور حسینہ واجد کو صحافیوں سے بات کرنے اور نفرت پھیلانے کے لیے پلیٹ فارم دینے سے روکے۔

حسینہ واجد اب بھی سرکشی کر رہی ہیں، انہوں نے اکتوبر میں کہا کہ وہ ’ان بھیانک دنوں میں جانیں کھونے والے سب افراد کے لیے غمگین ہیں، جب طلبہ کو سڑکوں پر گولیوں کا نشانہ بنایا گیا، ان کے بیانات نے کئی افراد کو غصہ دلا دیا جو کہتے ہیں کہ انہوں نے اقتدار قائم رکھنے کے لیے بے رحم کوشش کی۔

حسینہ نے یہ بھی خبردار کیا کہ ان کی سابقہ حکمران جماعت عوامی لیگ پر عبوری حکومت کی پابندی ملک میں 170 ملین افراد خاص طور پر انتخابات سے قبل کے لیے سیاسی بحران کو بڑھا رہی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • چار محاذ، ایک ریاست؛ پاکستان کی بقا کی حقیقی لڑائی
  • ہم نے حکمرانوں کے شعور اور ضمیر کو جھنجھوڑنا ہے،فضل الرحمان
  • آئینی ترمیم کیخلاف آزاد عدلیہ کے حامیوں سے ملکر احتجاج کرینگے،تحریک تحفظ آئین پاکستان
  • اقبال کے شاہین کی زندہ تصویر
  • آئینی ترمیم کیخلاف آزاد عدلیہ کے حامیوں سے مل کر احتجاج کرینگے، تحریک تحفظ آئین پاکستان
  • آئینی ترمیم کیخلاف آزاد عدلیہ کے حامیوں سے مل کر احتجاج کرینگے، تحریک تحفظ آئین پاکستان
  • ججز کے استعفوں پر جشن نہیں بلکہ نظام مضبوط کرنا ضروری ہے، سعد رفیق
  • بنگلہ دیش کی عدالت نے حسینہ واجد کو انسانیت کیخلاف جرائم کا مرتکب قرار دیدیا
  • ٹی ٹی پی نہیں، بلکہ ٹی ٹی اے یا ٹی ٹی بی
  • فیلڈ مارشل امریکی صدر کو ہمارے معدنیات پیش کر رہے ہیں، ایاز جوگیزئی