آئندہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے کیسے بچا جائے؟
اشاعت کی تاریخ: 29th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ہمارے ملک میں سب کچھ برا نہیں ہے بلکہ بہت کچھ اچھا بھی ہے۔ ملک میں کرپشن عروج پر ہے ایک زمانے میں مختلف اداروں میں کرپشن کا حجم لاکھوں اور کروڑوں میں ہوتا تھا اب تو جس ادارے میں دیکھیں تو اربوں اور کھربوں کی کرپشن کی کہانیاں سنائی دیتی ہے اسی سے انداز لگا لیں کہ ہم کتنے امیر ملک میں رہتے ہیں۔ سرکاری عمال عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے پیٹ کے مسائل حل کرتے ہیں۔ آپ کسی بھی شعبے کو دیکھیں آپ کو کوئی حوصلہ افزا صورتحال نظر نہیں آئے گی۔ ایک ڈیم بنانے کے مسئلے ہی کولے لیں، ہر دفعہ بارشوں میں بڑا شور غوغا ہوتا ہے کہ ڈیم بنائے جائیں تاکہ بارش کا پانی ضائع نہ ہو۔ پانی کا ذخیرہ کیا جائے، بارش نہ ہونے کی صورت میں اسے استعمال کیا جاسکے اور پھر اس سے بجلی بھی پیدا کی جاسکتی ہے۔ آج کل ن لیگ اور پی پی پی کی مشترکہ حکومت ہے یہ دونوں جماعتیں پچھلے 37 سال سے یعنی 1988 سے 2025 تک باری باری اقتدار میں آتی جاتی رہی ہیں درمیان میں پرویز مشرف کے سات برس اگر آپ علٰیحدہ بھی کردیں یہ دونوں آج کی برسراقتدار جماعتیں پچھلے تیس برس کا حساب کتاب دے سکتی ہیں کہ انہوں نے ڈیم بنانے کے سلسلے میں کیا اقدامات کیے۔ سب کالا باغ ڈیم کا رونا روتے ہیں۔ یہ ہمارا آج کا موضوع تو نہیں ہے۔ ملک میں مہنگائی ہے بیروزگاری ہے لا قانونیت عروج پر ہے۔ قانون ہے عملداری نہیں، عدالتیں ہیں انصاف نہیں، بیوروکریسی ہے لیکن حب الوطنی نہیں ہے، ریلوے ہے پابندی اوقات نہیں، بدعنوانیاں ہیں لیکن ختم کرنے کی ول نہیں، انسداد بدعنوانی کے ادارے تو ہیں لیکن ان میں شفافیت نہیں، ملک میں سیاست ہے لیکن استحکام نہیں، معیشت ہے لیکن بلندی کی جانب نہیں، سیاسی جماعتیں ہیں لیکن اکثریت انتشار کا شکار، عام انتخابات تو ہوتے ہیں لیکن رزلٹ نہیں مل پاتے۔ ووٹ تو عوام ڈالتے ہیں لیکن نتائج خواص دیتے ہیں۔ ہماری کمزوریوں اور خامیوں کی بڑی طویل فہرست ہے لیکن ان کمزوریوں اور خامیوں کی اصلاح کا عمل بہت سست ہے۔
پاکستان میں یوں تو بہت کچھ اچھا بھی ہے لیکن ہم اس وقت دو خوبیوں کا ذکر کریں گے پہلی تو یہ کہ بھارت سے جنگ کے موقع پر پوری قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتی ہے، عوام حکومت اور سیاسی جماعتیں سب ایک پیج پر نظر آتے ہیں، 65 کی جنگ میں پوری قوم متحد ہوگئی تھی اور اس سال ماہ مئی کی پانچ روزہ جنگ میں ہم دیکھ چکے ہیں کس طرح پاکستانی قوم اپنی فوج کی پشت پر کھڑی تھی۔ دوسری خوبی کو طنز نہ سمجھا جائے وہ یہ کہ یہ بڑی صابر و شاکر قوم ہے جتنی مہنگائی کا بوجھ اس پر لاد دیا جائے یہ اس مردے کی طرح چپ رہتی جس کی قبر پر دفنانے کے بعد اس پر ایک من مٹی ڈالیں یا دس من ڈالیں اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ حال ہی میں سیلاب کی ملک میں جو تباہ کاریاں ہوئی ہیں اس میں ایک ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوئے ہزاروں زخمی پڑے ہیں اور لاکھوں افراد کے گھر بار تباہ ہوگئے۔ اب سیلاب زدہ علاقوں سے پانی اُتر رہا ہے لوگ اپنے گھروں کو واپس جارہے ہیں اب ان کو نئے سرے سے اپنے لٹے پٹے گھر کو بنانا ہے یقینا اس بحالی کے کام میں حکومت ان کی اپنے وسائل سے مدد کررہی ہے باہر کے ملکوں سے اپیل کرنا بے کار ہے اس لیے کہ اس حوالے سے ہماری ریپو ٹیشن کبھی اچھی نہیں رہی امداد میں آئے ہوئے کمبل بازار میں فروخت کردیے جاتے ہیں اس لیے اب تو اپنی مدد آپ کے اصول کے تحت بحالی کا کام کرنا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی آئندہ برسوں کے لیے ابھی سے تیاری کرنا ہے، جبکہ یہ بات تواتر کے ساتھ آرہی ہے کہ اگلے برس اس سال سے 22 فی صد زیادہ بارشیں ہوں گی اور بھارت نے اگر اپنے ڈیموں کا پانی چھوڑ دیا اور پریشانیاں بڑھ جائیں گی۔
اس سال کی تباہ کاریوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں اگلے سال کے لیے حفظ ما تقدم والے اقدامات Precationary Measurs اُٹھانا ہوں گے تاکہ کم سے کم جانی و مالی نقصانات ہوں۔ جن علاقوں میں سیلاب آیا ہے ان علاقوں کے مکینوں کے لیے متبادل مقامات کا ابھی سے تعین کرلیا جائے اور اس میں جو ضروری لوازمات کرنے ہوں اسے بروقت کرلیا جائے۔ اس دفعہ بعض مقامات پر اچانک سیلاب آیا ہے اگلی مرتبہ پیشگی اطلاع کا جدید اور معقول انتظام کیا جائے نالوں اور دریائوں پر سے تجاوزات کو فوری اور ہنگامی بنیادوں پر ہٹایا جائے۔ ہائوسنگ سوسائٹیاں تو اب ختم نہیں کی جاسکتیں لیکن آئندہ اس پر سختی سے پابندی لگادی جائے کہ کوئی زرعی زمین رہائشی میں تبدیل نہیں کی جائے گی۔ پورے ملک میں شجر کاری مہم سارے سال ہنگامی بنیادوں پر شروع کی جائے۔ موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے شجرکاری بہت اہم ہے۔ کشتیوں کی تعداد پہلے سے دوگنی کردی جائے، جن نجی کشتی والوں نے مجبوریوں سے فائدہ اٹھایا ہے ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے۔ ایک ذمے دار شہری کی حیثیت ہر فرد کی یہ ذمے داری ہے وہ اس قومی آفت کے موقع پر اپنا قومی کردار ادا کرے۔ ایک سال کے اندر ہم جتنے چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا سکتے ہیں ان کا آغاز ابھی سے کردیا جائے، شہروں میں بھی بعض جگہوں پر بارش اور مساجد کے وضو کے پانی کو ایک جگہ اسٹور کرکے پارکوں اور باغوں میں استعمال کرنے کا منصوبہ رو بہ عمل لایا گیا ہے۔
کسی بھی مصیبت اور آزمائش سے بچنے کے قلیل المعیاد اور طویل المعیاد منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ اوپر قلیل المعیاد کے حوالے سے نکات دیے گئے ہیں۔ طویل المعیاد میں بڑے ڈیم کی تعمیر ہے جن میں کچھ پر کام ہورہا ہے اس کی رفتار کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ جس وقت منگلا اور تربیلا ڈیم بنائے گئے اسی وقت کالا باغ ڈیم بھی بننا تھا اس کی فزیبلٹی رپورٹ وغیرہ سب تیار تھی لیکن کہا گیا کہ دوبڑے منگلا اور تربیلا ڈیم بننے کے بعد ہمارے کچھ انجینئرز ٹرینڈ ہوگئے وہ یہ ڈیم بنا لیں گے اگر اسی وقت یہ بھی ڈیم بنالیا جاتا تو آج ہم ملک میں توانائی کے بحران کا شکار نہ ہوتے۔ کالا باغ ڈیم پر دو صوبوں کو اعتراض تھا ایک کے پی کے اور دوسرا سندھ۔ کے پی کے وزیر اعلیٰ نے کہہ دیا کہ یہ ڈیم بنالیا جائے اب صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی سے مذاکرات کرکے اور اس کے تحفظات دور کرکے کالا باغ ڈیم کی تیاری کا بٹن دبایا جاسکتا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کالا باغ ڈیم ہیں لیکن ملک میں ہے لیکن کے لیے لیکن ا
پڑھیں:
یادگار فلم ’’شعلے‘‘ آئندہ ماہ نئے اختتام کیساتھ دوبارہ ریلیز ہوگی
بالی ووڈ کی کلاسک فلم شعلے آئندہ ماہ 2 دسمبر کو بھارت بھر کے سینما گھروں میں نئے اختتام کے ساتھ دوبارہ نمائش کے لیے پیش کی جائے گی۔
1975 میں ریلیز ہونے والی یہ بالی ووڈ فلم اپنی شاندار کہانی، یادگار ڈائیلاگز اور مضبوط کرداروں کی وجہ سے آج بھی شائقین کے دلوں میں زندہ ہے۔
اس فلم میں دھرمیندر، امیتابھ بچن، امجد خان، سنجیو کمار، ہیما مالنی اور جیا بچن نے اہم کردار ادا کیے تھے۔ اب فلم کے مداح اصل اختتام دیکھ سکیں گے جو پہلے کبھی عوام کے سامنے نہیں آیا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق فلم کے اصل کلائمیکس کو پہلے سینسر بورڈ کی ہدایات کے تحت بدلنا پڑا تھا۔ 1975 میں بھارت میں ایمرجنسی نافذ تھی، جس میں آزادی اظہار پر پابندی، سیاسی مخالفین کی گرفتاریاں اور میڈیا پر سخت سینسرشپ شامل تھی۔
اس دور میں اصل اختتام میں ٹھاکر، گبر سنگھ کو کانٹے والے جوتے سے ہلاک کرتا ہے لیکن سینسر بورڈ کے دباؤ کی وجہ سے ریلیز شدہ ورژن میں پولیس گبر کو گرفتار کر لیتی ہے اور ٹھاکر قانون کو ہاتھ میں نہیں لیتے۔
رمیش سپی نے بتایا کہ اب فلم کے 50 سال مکمل ہونے پر مداح وہ اختتام دیکھ سکیں گے جو ان کے مطابق فلم کو مزید تاریخی بناتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فرق صرف یہ ہے کہ اصل کلائمیکس میں ٹھاکر اپنے طریقے سے انصاف کرتے ہیں، جبکہ پچھلے ورژن میں قانون کی بالادستی دکھائی گئی تھی۔
بھارتی میڈیا کے مطابق یہ ری ریلیز تقریباً 1,500 اسکرینوں پر ہوگی، جو کسی ریسٹورڈ کلاسک فلم کے لیے بھارت میں سب سے بڑی نمائش میں سے ایک ہے۔ شعلے کے مداح 12 دسمبر کو اپنے پسندیدہ کرداروں اور اصل اختتام کے ساتھ اس تاریخی فلم کا دوبارہ لطف اٹھائیں گے۔