نیتن یاہو کا یوٹرن؛ فلسطینی ریاست کے قیام سے مُکر گئے
اشاعت کی تاریخ: 30th, September 2025 GMT
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو امریکی دورے پر واشنگٹن پہنچے تھے جہاں انھوں نے صدر ٹرمپ کے غزہ کے 20 نکاتی امن منصوبے پر پریس کانفرنس میں علی الاعلان اتفاق کیا تھا۔
تاہم مجوزہ غزہ جنگ بندی منصوبے کے اعلان کے چند گھنٹے بعد ہی اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اپنے وطن پہنچتے ہی اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹ گئے۔
اسرائیلی وزیراعظم نے یوٹرن لیتے ہوئے واضح کیا کہ فلسطینی ریاست کے قیام پر ٹرمپ سے کوئی اتفاق نہیں کیا اور نہ ہی یہ بات کسی معاہدے میں درج ہے۔
نیتن یاہو کا مزید کہنا تھا کہ ہم نہ صرف فلسطینی ریاست کی سختی سے مخالفت کریں گے بلکہ اسرائیلی فوج بھی غزہ کے بیشتر حصوں میں غیر معینہ مدت تک موجود رہیں گی۔
اسرائیلی وزیراعظم کے اس بیان نے سب کو حیران کردیا ہے۔ مبصرین نے بھی اسے نیتن یاہو کا ایک بڑا یوٹرن قرار دیا۔
یہ صورت حال اس امر کی عکاس ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم داخلی اور خارجی دباؤ کے باعث ایک طرف ٹرمپ کے ساتھ کھڑے دکھائی دے رہے ہیں اور دوسری طرف فلسطینی ریاست کے معاملے پر سخت رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران دونوں رہنماؤں نے جنگ بندی منصوبے پر یکجہتی کا تاثر دیا تھا۔
صدر ٹرمپ کے بقول اس امن منصوبے کو پاکستان، سعودی عرب، ترکیہ، مصر، اردن، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا اور قطر سمیت دیگر مسلم ممالک کی حمایت حاصل ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسرائیلی وزیراعظم فلسطینی ریاست نیتن یاہو ٹرمپ کے
پڑھیں:
بالفور ڈیکلریشن میں اسرائیل جیسی ریاست کا کوئی ذکر نہیں تھا، لارڈ روڈریک بالفور کا انکشاف
العربیہ نیوز چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں سابق برطانوی وزیر خارجہ پے پرپوتے نے کہا کہ ڈیکلریشن کو اکثر غلط سمجھا جاتا ہے۔ "اس میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ حکومتِ برطانیہ فلسطین میں یہودی عوام کیلئے قومی وطن کے قیام کی حامی ہے، لیکن اسرائیلی ریاست کے قیام کا وعدہ کہیں نہیں، یہ صرف ہمدردی کا اظہار تھا، بس۔ اسلام ٹائمز۔ برطانیہ کے سابق وزیرِخارجہ آرتھر بالفور کے پڑپوتے لارڈ روڈریک بالفور نے کہا ہے کہ1917 کا بالفور ڈیکلریشن صرف یہودیوں کیلئے "قومی وطن" کے قیام پر ہمدردی ظاہر کرتا تھا، لیکن اس میں کہیں بھی اسرائیل جیسی ریاست بنانے کا ذکر نہیں تھا۔ العربیہ نیوز چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ڈیکلریشن کو اکثر غلط سمجھا جاتا ہے۔ "اس میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ حکومتِ برطانیہ فلسطین میں یہودی عوام کیلئے قومی وطن کے قیام کی حامی ہے، لیکن اسرائیلی ریاست کے قیام کا وعدہ کہیں نہیں، یہ صرف ہمدردی کا اظہار تھا، بس۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ڈیکلریشن کی وہ شرط اکثر نظرانداز کی جاتی ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ فلسطین میں موجود غیر یہودی برادری کے شہری اور مذہبی حقوق متاثر نہیں ہوں گے۔
ان کے مطابق جو کچھ آج ہو رہا ہے، وہ اُس وقت کے برطانوی موقف کے مطابق نہیں۔ لارڈ بالفورکا کہنا تھا کہ اس معاملے پر ان کے خاندان میں کبھی زیادہ بات نہیں ہوئی، مگر وہ اپنے خاندانی نام کی وجہ سے وضاحت کیلئے سامنے آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اُس دور میں فلسطینی آبادی کو مظلوم یا مظلومیت زدہ نہیں سمجھا جاتا تھا، اس لیے چند یہودیوں کے پرامن طور پر آ کر بسنے میں کسی مسئلے کی توقع نہیں کی گئی۔ برطانیہ کے حال ہی میں فلسطین کو تسلیم کرنے پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ علامتی لیکن اہم قدم ہے، مگر اصل حل دو ریاستی فارمولے میں ہے، جس کیلئے علاقائی تعاون اور بڑی طاقتوں کی ضمانت درکار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈیکلریشن کو جیسے لکھا گیا، ویسے ہی سمجھنا چاہیے، اور یہ افسوس کی بات ہے کہ فلسطینی اور یہودی مل کر ایک مضبوط معیشت قائم نہیں کر سکے۔