Juraat:
2025-11-19@09:02:21 GMT

بے مقصد شہرت اور سطحی نمائش ایک گمراہ کن رجحان

اشاعت کی تاریخ: 2nd, October 2025 GMT

بے مقصد شہرت اور سطحی نمائش ایک گمراہ کن رجحان

محمد آصف

جدید دور اپنی سائنسی ترقی اور میڈیا کی وسعت کے ساتھ بے شمار مواقع اور سہولتیں لایا ہے ۔ لیکن انہی ترقیوں کے ساتھ ساتھ ایک خطرناک سماجی و ثقافتی رجحان بھی ابھرا ہے : عریانی، فحاشی، بے مقصد شہرت اور سطحی نمائش کا فروغ۔ جو رویے کبھی شرمناک، غیر اخلاقی یا ناقابلِ قبول سمجھے جاتے تھے ، آج انہیں ترقی، آزادی اور اظہارِ ذات کے نام پر عام اور قابلِ فخر بنا دیا گیا ہے ۔ یہ گمراہ کن رجحان نہ صرف اخلاقی اقدار کو کھوکھلا کر رہا ہے بلکہ نئی نسل کے ذہن و فکر کو بھی خطرناک سمت میں موڑ رہا ہے ۔ اس رجحان کے مرکز میں عریانی اور فحاشی کی تشہیر ہے ۔ مقبول کلچر، جسے فلمی صنعت، موسیقی، اشتہارات اور سوشل میڈیا بڑھاوا دیتے ہیں، عریانی کو اظہارِ آزادی اور فحاشی کو جرأت مندی کے طور پر پیش کرتا ہے ۔ آج کے دور میں فلموں، ویڈیوز اور اشتہارات میں عریانی اور بے حیائی کو عام کر دیا گیا ہے ، اور یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ بے حجابی ہی طاقت اور آزادی کی علامت ہے ۔ یہ سطحی تصور نہ صرف باوقار انسانی اقدار کو کمزور کرتا ہے بلکہ انسان کو اس کی اصل پہچان علم، کردار اور اخلاقی عظمت سے ہٹا کر محض جسمانی نمائش تک محدود کر دیتا ہے ۔اس کے ساتھ ہی بے مقصد شہرت کی دوڑ نے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ ماضی میں شہرت کسی علمی، ادبی، سائنسی یا سماجی خدمت سے حاصل ہوتی تھی۔ لیکن آج کل ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے شہرت کے پیمانے بدل دیے ہیں۔ کوئی بھی شخص ایک رات میں کسی متنازع یا غیر اخلاقی ویڈیو کے ذریعے مشہور ہو جاتا ہے۔ یہ عارضی اور کھوکھلی شہرت نوجوان نسل کو یہ غلط پیغام دیتی ہے کہ محنت، تعلیم اور ہنر سے بڑھ کر صرف شہرت کمانا ہی اصل کامیابی ہے ، چاہے اس کا کوئی مقصد یا فائدہ نہ ہو۔
سطحی نمائش نے اس رجحان کو مزید گہرا کر دیا ہے ۔ انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمز نے ایک ایسا کلچر پیدا کر دیا ہے جہاں ہر شخص اپنی زندگی کا مصنوعی اور غیر حقیقی عکس پیش کرنے پر مجبور ہے ۔ قیمتی لباس، مہنگی گاڑیاں، مصنوعی خوبصورتی اور پرتعیش طرزِ زندگی کے مظاہرے ہی کامیابی کی پہچان سمجھے جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں معاشرے کی بنیادیں کھوکھلی ہو رہی ہیں، اور اصل معیار یعنی علم، دیانت اور اخلاقی قدریں پسِ پشت چلی گئی ہیں۔یہ گمراہ کن رجحان کئی نقصانات کا باعث ہے ۔ سب سے پہلے تو یہ معاشرتی اقدار کو تباہ کر رہا ہے ۔ جب عریانی اور فحاشی کو عام کر دیا جائے تو حیا، احترام اور شرافت جیسی خوبیاں کمزور پڑ جاتی ہیں۔ دوسرا نقصان یہ ہے کہ بے مقصد شہرت ایک ایسے کلچر کو جنم دیتی ہے جہاں نوجوان محنت یا علم کے بجائے صرف وقتی مقبولیت کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ تیسرا بڑا نقصان یہ ہے کہ سطحی نمائش نے ذہنی و نفسیاتی مسائل کو بڑھا دیا ہے ۔ نوجوان جب اپنی زندگی کا موازنہ سوشل میڈیا پر دکھائی جانے والی مصنوعی دنیا سے کرتے ہیں تو وہ احساسِ کمتری، مایوسی اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔گہرائی میں دیکھا جائے تو یہ رجحان انسان کی فکری اور روحانی بنیادوں کی کمزوری کی علامت ہے ۔ انسان کو ایک بلند مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے :علم حاصل کرنا، تہذیبیں تعمیر کرنا اور اخلاقی عظمت کے ساتھ زندگی گزارنا۔ لیکن جب سماج ان اقدار کے بجائے سطحی نمائش اور وقتی شہرت کو کامیابی سمجھنے لگے تو نتیجہ اندرونی خلا اور بے سکونی کی صورت میں نکلتا ہے ۔ چاہے شہرت اور توجہ کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ملے ، وہ انسان کے دل کو سکون نہیں دے سکتی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ رجحان محض ذاتی انتخاب نہیں بلکہ ایک منظم کاروبار ہے ۔ فیشن انڈسٹری، تفریحی ادارے اور ٹیکنالوجی کمپنیاں انسانی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر کھوکھلی نمائش اور فحاشی کو بڑھاوا دیتی ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ سنسنی خیزی اور بے حیائی ہی تیزی سے شہرت اور منافع دیتی ہے ۔ اس طرح یہ رجحان نہ صرف گمراہ کن ہے بلکہ استحصالی بھی ہے ۔ اس مسئلے کا حل صرف اسی وقت ممکن ہے جب اجتماعی طور پر اقدار پر دوبارہ غور کیا جائے ۔ خاندان، تعلیمی ادارے ، مذہبی مراکز اور میڈیا سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ حیا اور شرافت کو کمزوری کے بجائے طاقت کے طور پر پیش کرنا ہوگا۔ نوجوانوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ اصل کامیابی علم، محنت اور کردار میں ہے ، نہ کہ وقتی شہرت یا سطحی نمائش میں۔ ساتھ ہی افراد کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھنی ہوگی۔ ہر لائیک، شیئر اور سبسکرپشن اس رجحان کو مزید بڑھاتا ہے ۔ اگر ہم بامقصد اور بااخلاق مواد کو فروغ دیں تو یہ رجحان کمزور پڑ سکتا ہے ۔ ذاتی سطح پر انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی میں سادگی، خلوص اور سچائی کو اپنائے اور محض دکھاوے کے پیچھے نہ بھاگے ۔
آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ عریانی، فحاشی، بے مقصد شہرت اور سطحی نمائش ایک ایسا گمراہ کن رجحان ہے جو معاشروں کو اخلاقی، ذہنی اور روحانی سطح پر نقصان پہنچا رہا ہے ۔ یہ رجحان بظاہر دلکش نظر آتا ہے لیکن درحقیقت اندرونی خلا، عدمِ استحکام اور بے سکونی پیدا کرتا ہے ۔
حقیقی ترقی اسی وقت ممکن ہے جب انسان اپنی اصل پہچان علم، کردار اور اقدار کو اپنائے اور سطحی نمائش کے چکر سے نکلے ۔ ورنہ یہ رجحان معاشروں کو مزید تباہی اور زوال کی طرف لے جائے گا۔
٭٭٭

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: اور سطحی نمائش گمراہ کن رجحان اور فحاشی یہ رجحان شہرت اور اقدار کو کے ساتھ کر دیا رہا ہے اور بے

پڑھیں:

میری بوا مہرو!

جوں ہی میں بوا کے گھر کے دروازے پہ پہنچا، دروازہ کھلا پایا۔ رات کے پونے تین بج رہے تھے؛ اور، دروازہ کھلا تھا! میں داخل ہوگیا۔ حدِ وحشت کو چھوتی ہوئی خامشی اور رات کا پچھلا پہر، مجھ پر کسی پہاڑ کی طرح ٹوٹتا محسوس ہوا۔

میں گھر کی لابی میں داخل ہوا ہی تھا کہ سرد ہوا کے جھونکے نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا اور مجھے ایک مانوس سی خوشبو اپنے گرد مہکتی محسوس ہونے لگی۔ یہ بوا مہرو کی خوشبو تھی، اس کے گھر کی خوشبو، میرے گھر کی خوشبو، جو مجھ سمیت میرے خانوادے کا اثاثہ رہی ہے۔ سامنے سنگھار تھا، خاموش، اور شاید میں نے اس کی خاموشی کو پڑھ لیا تھا۔

بوا مہرو اپنی آخری سانسیں لے چکی تھیں۔ سنگھار نے مجھے بتایا کہ میں گھر میں داخل ہوا ہی تھا کہ بوا مہرو کے دنیاوی سفر کی آخری ساعتیں تھیں اور وہ اپنے مالکِ حقیقی سے جا ملیں۔ مجھے لگا کہ شاید ان کو میرے آنے کا ہی انتظار تھا! یا شاید یہ میری خام خیالی تھی اور ان کو اس مخصوص وقت پہ جانا ہی تھا! میرا اُسی وقت گھر میں داخل ہونا محض ایک اتفاق تھا؛ ہاں مگر ایک بات تو طے تھی، بوا مہرو کی ہم بچوں میں جان رہتی تھی اور جب انہوں نے دیکھا ہوگا کہ سب اکٹھے ہوگئے ہیں تو وہ اپنے ابدی زندگی کی طرف چل پڑی ہوں گی۔ بہرحال اس لمحے میری زندگی سمٹ کے ایک نکتے پہ آن کھڑی ہوئی اور یادوں کا تانتا بندھ گیا۔

بڑے علم کے پاس ہمارا آبائی گھر ہے۔ گھر کیا، ہماری جنت! وہ جنت ہماری دادی، جسے ہم اماں مٹھی کہتے تھے، کی وجہ سے جنت تھا۔ میرے گھر میں سورج اماں مٹھی کی آواز سے اُگتا تھا۔ اماں صبح صبح وظائف الابرار سے تلاوت کرتیں اور گھر کو برکتوں سے بھر دیتیں۔ وہ مانوس آواز آج بھی میرے ذہن میں تازہ ہے اور میرے کانوں میں رس گھولتی ہے۔

کئی بار صبح صبح میرا ذہن، لاشعوری طور پر، میرے آبائی گھر کے صحن کی آغوش بیدار ہوتا ہے؛ وہی دھیمی آواز میں تلاوت، وہی مانوس خوشبو، میرے گھر کی خوشبو! ہماری شامیں بھی منفرد ہوتی تھیں۔ عصر سے مغرب تک محلے کی بچیاں مفت ٹیوشن کےلیے آتیں اور سبق دیا جاتا۔ یہ تھا ہمارا گھر، آپا خیرالنساء کا گھر۔ آپا خیرالنساء جس نے اپنی علم کی وارث بوا مہرو کو بنایا تھا اور وہ وعدہ بوا مہرو اپنی آخری سانس تک نبھاتی رہیں۔ ان دو عورتوں نے اپنی بہنوں، شاہدہ، شہناز اور تسلیم کے ساتھ مل کر علم و شعور کی شمعیں روشن کیں، جن سے کئی خاندان منور ہوئے۔ یوں ہمارا گھر پہلے آپا خیرالنساء اور بعد میں آپا مہرالنساء کے گھر کے طور پر پہچانا جانے لگا اور یہ پہچان آج تک قائم ہے۔

آپا مہرالنساء نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغار درس و تدریس کے شعبے سے کیا۔ ابتدا میں وہ اس وقت کے گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول اور موجودہ ہائیر سیکنڈری اسکول میں پڑھاتی تھیں۔ اس کے بعد انہوں نے ایڈمنسٹریشن کے شعبے میں بطور ایس ڈی اِی او قدم رکھا۔ وہ نوے کی دہائی کے اوائل میں ایس ڈی اِی او کوٹ ڈیجی تعینات ہوئیں۔ کوٹ ڈیجی ایک پسماندہ علاقہ تھا جہاں انہوں نے بچیوں کی تعلیم کےلیے گوناگوں خدمات سرانجام دیں۔ گاؤں گاؤں جانا پرائمری اسکولوں کی انسپیکشن کرنا، اساتذہ کی تربیت اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا اور تعلیمی ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا، ان کا وتیرہ رہا۔ ان کی گراں قدر خدمات کی وجہ سے وہ ہر دل عزیز تھیں۔ آپ نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں مختلف اضلاع کے  شعبہ تعلیم میں بطور ایس ڈی ای او، ڈی اِی او، اِی ڈی او خدمات سرانجام دیں اور آخر 2015 میں ڈائریکٹر کالجز کے عہدے سے ریٹائر ہوئیں۔ اس کے علاوہ، آپ نے غیر نصابی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے بھی کام کیا؛ بالخصوص بچیوں میں خود انحصاری و خوداعتمادی  پیدا کرنے کےلیے اسکاؤٹنگ میں گرلز گائیڈ کے تربیتی پروگراموں کا انعقاد کیا۔

بوا مہرو 2015 میں ریٹائر تو ہوئیں لیکن سرگرمیوں پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ انہوں نے اپنی زندگی نڈر گزاری۔ ہم بچوں کےلیے وہ جستجو، ہمت اور جدوجہد کے حوالے سے ایک رول ماڈل تھیں۔ مجھے لگتا رہا ہے کہ ان کے پاس ہر مسئلے کا حل ہوتا تھا۔ آپ بیمار پڑ جائیں، وہ کوئی ایسا ٹوٹکا بتاتیں کہ بیماری رفوچکر ہوجاتی۔ آپ کسی تقریب میں شریک ہونے جارہے ہوں، کپڑے نہیں ہوں، جادو کرتیں اور مناسب کپڑے آجاتے۔ آپ کی جیب خالی ہوتی، فیس کے پیسے نہیں ہوتے، وہ جادو کی چھڑی گھماتیں، آپ کی جیب میں کالج کا خرچہ بھی آجاتا اور، فیس بھی جمع ہوجاتی۔ سب سے بڑھ کر، آپ اگر کسی پریشانی سے دوچار ہوں، تمام دروازے بند ملیں اور کوئی سبیل نظر نہ آئے؛ آپ کو بوا مہرو کے پاس بیٹھ جانا ہوتا تھا اور تمام مسائل حل ہوتے محسوس ہوتے۔ بند کواڑ کھلنے لگتے اور آپ کی مشکل آسان ہوجاتی۔ یہ تھیں ہماری بوا مہرو۔ سب کی غمگسار، چارہ گر؛ سب کی مشکل کشا!

چند سال پہلے، بوا مہرو کو کینسر کا عارضہ لاحق ہوا۔ کینسر ایک ایسا مرض ہے کہ مریض کے ساتھ ساتھ اس سے پیار کرنے والے بھی شدید کرب سے گزرتے ہیں۔ بوا مہرو کی جب کیمو تھراپی ہورہی تھی تو میرا کلیجہ پھٹا جاتا۔ میں نے کئی بار ان کو دیکھ کر اپنے آنسوؤں کو پیا۔ دل چاہتا کہ پھوٹ پھوٹ کر روؤں لیکن میرا عجیب معاملہ ہے؛ جذبات کے اظہار سے میری جان جاتی ہے اور ردعمل میں غائب ہوجاتا ہوں۔ بوا کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا۔ میں ادھر اُدھر سے حال پوچھتا اور اپنے آپ کو تسلی دیتا۔ بوا ہمیشہ کی طرح بہادری سے لڑیں اور کینسر کو مات دے دی۔ یوں ان کی زندگی معمول پر آگئی۔ مجھے اطمینان ہوا لیکن گزشتہ سال نومبر میں ان کی طبیعت خراب ہوئی۔ ڈاکٹروں کو دکھایا۔ کینسر کا جن جو بوتل میں بند تھا، اس نے پھر اپنا غلبہ دکھانا شروع کیا اور اس کے بعد طبیعت نہیں سنبھلی، بگڑتی چلی گئی۔ بوا مہرو نے آخری سانس تک ہمت نہیں ہاری۔ وہ اس بیماری میں بھی ہمیں دلاسہ دیتیں، ہماری دل جوئی کا سامان کرتیں۔ ہم انہیں اپنی آنکھوں سے گھلتا دیکھتے لیکن وہ عجیب دیومالائی طاقت کی مالک تھیں۔ ان کا جسم تو ڈھلتا جارہا ہوتا لیکن ان کی روح جواں ہوتی چلی جاتی۔ اپنے آخری سفر سے تین دن پہلے تک، جبکہ ان کو اندازہ تھا کہ اور زندگی موت کا آخری معرکہ لڑ رہی ہیں، ان کا حوصلہ پست نہیں تھا۔ وہ کراچی آنے کا پروگرام بنارہی تھیں، انہوں نے کپڑے خرید کے دینے تھے۔ انہوں نے بال بھی بنوانے تھے۔ وہ زندگی سے بھرپور تھیں۔ میں نے اپنی زندگی میں کئی ایک بہادر لوگ دیکھے ہیں جو زندگی کو جینے کا حق ادا کرتے ہیں لیکن بوا مہرو سے بڑھ کر ابھی تک کوئی نہیں دیکھا۔

میرا آبائی گھر، صحن چھوٹا ہوگیا ہے، بوا مہرو اپنا آخری دیدار دے رہی ہیں۔ میں اور سنگھار جاتے ہیں۔ سہ پہر تین بجے جنازہ اٹھنا ہے۔ میں عجیب کشمکش سے گزر رہا ہوں۔ جس بوا نے ہمیں اپنی گود میں کھلایا، اس کو اپنے کندھوں پر لے جانے کی ذمے داری ہے۔ ہائے، یہ کیا ظلم ہے! اتنا بڑا امتحان۔ سنگھار آگے بڑھتا ہے اور آواز دیتا ہے۔ میں بھی اس کے ساتھ شامل ہوجاتا ہوں، ’’ہم اماں کو لیے جارہے، اگر کسی کا کوئی قرض یا لین دین ہے تو ابھی بتا دے۔ ہم ادا کردیں گے۔‘‘ یہ کہنا تھا کہ رونے اور بین کی آواز بلند ہوتی ہے۔ بوا شہناز جملہ ادا کرتی ہیں، ’’اس پہ کس کا قرض ہوگا، یہ تو وہ ہے جو تا عمر سب کی حاجت روائی کرتی رہی ہے-‘‘ یہ سنتے ہی میں عجیب کیفیت سے گزرنے لگتا ہوں۔ کلمہ شہادت کی آواز بلند ہوتی ہے اور میرے گھر کی روشنی ماند پڑجاتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • میری بوا مہرو!
  • ’’شہرت دماغ پر چڑھ گئی ہے‘‘ مشی خان کا طلحہ انجم کے بھارتی پرچم لہرانے پر سخت ردعمل
  • اسٹاک ایکسچینج میں تیزی کا رجحان برقرار، انڈیکس میں 500 پوائنٹس کا اضافہ
  • پاکستان سٹاک ایکسچینج میں کاروبارکے آغاز پر مثبت رجحان
  • غزہ منصوبےکی قرارداد کےحق میں ووٹ دیا، مقصد اسرائیلی فورسز کا مکمل انخلا، فلسطینیوں کا قتل عام روکنا ہے: پاکستان
  • غزہ منصوبےکی قرارداد کےحق میں ووٹ دیا، مقصد اسرائیلی فورسز کا مکمل انخلا، فلسطینوں کا قتل عام روکنا ہے: پاکستان
  • پیما کا مقصد ڈاکٹروں کو اسلامی بنیادوں پر عمل کرانا ہے، ڈاکٹر عاطف حفیظ
  • تبدیلی کا نعرہ جعلی اور گمراہ کن تھا، وزیر مملکت عون چودھری
  • تکاثر کی جنت
  • افغانستان کی صنعتی و تجارتی نمائش میں ایران کی بھرپور شرکت