Juraat:
2025-10-04@16:51:34 GMT

بے مقصد شہرت اور سطحی نمائش ایک گمراہ کن رجحان

اشاعت کی تاریخ: 2nd, October 2025 GMT

بے مقصد شہرت اور سطحی نمائش ایک گمراہ کن رجحان

محمد آصف

جدید دور اپنی سائنسی ترقی اور میڈیا کی وسعت کے ساتھ بے شمار مواقع اور سہولتیں لایا ہے ۔ لیکن انہی ترقیوں کے ساتھ ساتھ ایک خطرناک سماجی و ثقافتی رجحان بھی ابھرا ہے : عریانی، فحاشی، بے مقصد شہرت اور سطحی نمائش کا فروغ۔ جو رویے کبھی شرمناک، غیر اخلاقی یا ناقابلِ قبول سمجھے جاتے تھے ، آج انہیں ترقی، آزادی اور اظہارِ ذات کے نام پر عام اور قابلِ فخر بنا دیا گیا ہے ۔ یہ گمراہ کن رجحان نہ صرف اخلاقی اقدار کو کھوکھلا کر رہا ہے بلکہ نئی نسل کے ذہن و فکر کو بھی خطرناک سمت میں موڑ رہا ہے ۔ اس رجحان کے مرکز میں عریانی اور فحاشی کی تشہیر ہے ۔ مقبول کلچر، جسے فلمی صنعت، موسیقی، اشتہارات اور سوشل میڈیا بڑھاوا دیتے ہیں، عریانی کو اظہارِ آزادی اور فحاشی کو جرأت مندی کے طور پر پیش کرتا ہے ۔ آج کے دور میں فلموں، ویڈیوز اور اشتہارات میں عریانی اور بے حیائی کو عام کر دیا گیا ہے ، اور یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ بے حجابی ہی طاقت اور آزادی کی علامت ہے ۔ یہ سطحی تصور نہ صرف باوقار انسانی اقدار کو کمزور کرتا ہے بلکہ انسان کو اس کی اصل پہچان علم، کردار اور اخلاقی عظمت سے ہٹا کر محض جسمانی نمائش تک محدود کر دیتا ہے ۔اس کے ساتھ ہی بے مقصد شہرت کی دوڑ نے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ ماضی میں شہرت کسی علمی، ادبی، سائنسی یا سماجی خدمت سے حاصل ہوتی تھی۔ لیکن آج کل ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے شہرت کے پیمانے بدل دیے ہیں۔ کوئی بھی شخص ایک رات میں کسی متنازع یا غیر اخلاقی ویڈیو کے ذریعے مشہور ہو جاتا ہے۔ یہ عارضی اور کھوکھلی شہرت نوجوان نسل کو یہ غلط پیغام دیتی ہے کہ محنت، تعلیم اور ہنر سے بڑھ کر صرف شہرت کمانا ہی اصل کامیابی ہے ، چاہے اس کا کوئی مقصد یا فائدہ نہ ہو۔
سطحی نمائش نے اس رجحان کو مزید گہرا کر دیا ہے ۔ انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمز نے ایک ایسا کلچر پیدا کر دیا ہے جہاں ہر شخص اپنی زندگی کا مصنوعی اور غیر حقیقی عکس پیش کرنے پر مجبور ہے ۔ قیمتی لباس، مہنگی گاڑیاں، مصنوعی خوبصورتی اور پرتعیش طرزِ زندگی کے مظاہرے ہی کامیابی کی پہچان سمجھے جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں معاشرے کی بنیادیں کھوکھلی ہو رہی ہیں، اور اصل معیار یعنی علم، دیانت اور اخلاقی قدریں پسِ پشت چلی گئی ہیں۔یہ گمراہ کن رجحان کئی نقصانات کا باعث ہے ۔ سب سے پہلے تو یہ معاشرتی اقدار کو تباہ کر رہا ہے ۔ جب عریانی اور فحاشی کو عام کر دیا جائے تو حیا، احترام اور شرافت جیسی خوبیاں کمزور پڑ جاتی ہیں۔ دوسرا نقصان یہ ہے کہ بے مقصد شہرت ایک ایسے کلچر کو جنم دیتی ہے جہاں نوجوان محنت یا علم کے بجائے صرف وقتی مقبولیت کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ تیسرا بڑا نقصان یہ ہے کہ سطحی نمائش نے ذہنی و نفسیاتی مسائل کو بڑھا دیا ہے ۔ نوجوان جب اپنی زندگی کا موازنہ سوشل میڈیا پر دکھائی جانے والی مصنوعی دنیا سے کرتے ہیں تو وہ احساسِ کمتری، مایوسی اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔گہرائی میں دیکھا جائے تو یہ رجحان انسان کی فکری اور روحانی بنیادوں کی کمزوری کی علامت ہے ۔ انسان کو ایک بلند مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے :علم حاصل کرنا، تہذیبیں تعمیر کرنا اور اخلاقی عظمت کے ساتھ زندگی گزارنا۔ لیکن جب سماج ان اقدار کے بجائے سطحی نمائش اور وقتی شہرت کو کامیابی سمجھنے لگے تو نتیجہ اندرونی خلا اور بے سکونی کی صورت میں نکلتا ہے ۔ چاہے شہرت اور توجہ کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ملے ، وہ انسان کے دل کو سکون نہیں دے سکتی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ رجحان محض ذاتی انتخاب نہیں بلکہ ایک منظم کاروبار ہے ۔ فیشن انڈسٹری، تفریحی ادارے اور ٹیکنالوجی کمپنیاں انسانی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر کھوکھلی نمائش اور فحاشی کو بڑھاوا دیتی ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ سنسنی خیزی اور بے حیائی ہی تیزی سے شہرت اور منافع دیتی ہے ۔ اس طرح یہ رجحان نہ صرف گمراہ کن ہے بلکہ استحصالی بھی ہے ۔ اس مسئلے کا حل صرف اسی وقت ممکن ہے جب اجتماعی طور پر اقدار پر دوبارہ غور کیا جائے ۔ خاندان، تعلیمی ادارے ، مذہبی مراکز اور میڈیا سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ حیا اور شرافت کو کمزوری کے بجائے طاقت کے طور پر پیش کرنا ہوگا۔ نوجوانوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ اصل کامیابی علم، محنت اور کردار میں ہے ، نہ کہ وقتی شہرت یا سطحی نمائش میں۔ ساتھ ہی افراد کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھنی ہوگی۔ ہر لائیک، شیئر اور سبسکرپشن اس رجحان کو مزید بڑھاتا ہے ۔ اگر ہم بامقصد اور بااخلاق مواد کو فروغ دیں تو یہ رجحان کمزور پڑ سکتا ہے ۔ ذاتی سطح پر انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی میں سادگی، خلوص اور سچائی کو اپنائے اور محض دکھاوے کے پیچھے نہ بھاگے ۔
آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ عریانی، فحاشی، بے مقصد شہرت اور سطحی نمائش ایک ایسا گمراہ کن رجحان ہے جو معاشروں کو اخلاقی، ذہنی اور روحانی سطح پر نقصان پہنچا رہا ہے ۔ یہ رجحان بظاہر دلکش نظر آتا ہے لیکن درحقیقت اندرونی خلا، عدمِ استحکام اور بے سکونی پیدا کرتا ہے ۔
حقیقی ترقی اسی وقت ممکن ہے جب انسان اپنی اصل پہچان علم، کردار اور اقدار کو اپنائے اور سطحی نمائش کے چکر سے نکلے ۔ ورنہ یہ رجحان معاشروں کو مزید تباہی اور زوال کی طرف لے جائے گا۔
٭٭٭

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: اور سطحی نمائش گمراہ کن رجحان اور فحاشی یہ رجحان شہرت اور اقدار کو کے ساتھ کر دیا رہا ہے اور بے

پڑھیں:

مصر میں نکاح رجسٹر کرائے بغیر شادیوں کے رجحان میں تشویشناک اضافہ؛ وجہ کیا ہے؟

مصر میں کم عمری، پنشن کے حصول اور دیگر فوائد کے لیے جعلی نکاح یا بغیر نکاح رجسٹر کرائے شادیوں کے رجحان میں تشویشناک اضافہ ہوا ہے۔

عرب میڈیا کے مطابق اس چونکا دینے والی خبر کا انکشاف شرعی نکاح رجسٹراروں کی سینڈیکیٹ کے سربراہ اسلام عامر نے کیا۔

انھوں نے کہا کہ ملک میں ’’عرفی شادیوں‘‘ (غیر رجسٹرڈ نکاح) کا رواج تیزی سے پھیل رہا ہے، اور دلچسپ بات یہ ہے کہ کئی لڑکیاں یہ قدم اپنی پنشن برقرار رکھنے کے لیے اٹھاتی ہیں۔

العربیہ سے گفتگو میں اسلام عامر کا مزید کہنا تھا کہ جعلی نکاح رجسٹرار دھڑا دھڑ پھیل رہے ہیں، جو عوام کی کم علمی سے فائدہ اٹھا کر پیسے بٹورتے ہیں۔

انھوں نے خبردار کیا کہ ایسی شادیوں میں نہ تو بچوں کا اندراج ممکن ہوتا ہے اور نہ ہی نکاح کو قانونی طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔

اسلام عامر نے مزید بتایا کہ کم عمری کی شادیاں عموماً انھیں جعلی رجسٹراروں کے ذریعے ہوتی ہیں، جن کا کوئی قانونی اختیار نہیں ہوتا۔

انھوں نے مثال دی کہ مرحوم اداکار محمود عبدالعزیز نے اپنی اہلیہ، صحافی بوسی شلبي سے پہلے شرعی نکاح کیا تھا، پھر طلاق کے بعد دوبارہ ’’عرفی شادی‘‘ کے ذریعے رجوع کر لیا تھا۔

اسلام عامر کے بقول، عرفی شادی شرعی اعتبار سے جائز ہے، خاص طور پر دور دراز دیہاتوں میں، لیکن چونکہ یہ سرکاری طور پر رجسٹر نہیں ہوتی، اس لیے بعد میں بڑے قانونی مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں۔

 

متعلقہ مضامین

  • وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی زیر صدارت انسداد پولیو کے حوالے سے اعلیٰ سطحی اجلاس
  • سعودی عرب میں بین الاقوامی باز اور شکار کی نمائش 2025 کا آغاز، 45 ملکوں کے 1300 سے زائد شرکا شریک
  • اسٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی کا رجحان، انڈیکس آج بھی نئی بلند ترین سطح پر
  • بیلاروس :عالمی صنعتی نمایش میں 24 ممالک کے 14 ہزار افراد کی شرکت
  • نبی مکرم ؐ کی آمد کا مقصد’اللہ کے دین کا نفاذ تھا، اسما عالم
  • مصر میں نکاح رجسٹر کرائے بغیر شادیوں کے رجحان میں تشویشناک اضافہ؛ وجہ کیا ہے؟
  • پانچ سال تک استعمال شدہ گاڑیوں کی کمرشل درآمد پر 40 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد
  • مسلسل 4 روز اضافے کے بعد آج سونے کی قیمت میں کمی کا رجحان
  • وزیراعظم کا اعلیٰ سطحی مذاکراتی کمیٹی کا اعلان، امن اور مفاہمت کی راہ ہموار