data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی دماغی بیماریوں، خصوصاً الزائمر اور پارکنسنز، کے علاج کے لیے سائنس دان مسلسل نئی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔

تازہ ترین پیش رفت کے مطابق ماہرین نے ایک انوکھا سسٹم تیار کیا ہے جسے ’’آسٹروکیپسولز‘‘ کہا جا رہا ہے۔ یہ چھوٹے مگر مؤثر کیپسول دماغ کے ان مخصوص حصوں تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جہاں سوزش ان بیماریوں کو جنم دیتی ہے یا انہیں مزید پیچیدہ بنا دیتی ہے۔

جرنل بائیومٹیریلز میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق یہ کیپسول ایک محفوظ جیل سے تیار کیے گئے ہیں جن کے اندر دماغ کے خاص خلیے، ’’آسٹروسائٹس‘‘، موجود ہوتے ہیں۔ یہ خلیے انسدادِ سوزش پروٹینز فراہم کرتے ہیں جنہیں بیماری کے شکار حصوں تک پہنچا کر دماغی سوزش کو کم کیا جاتا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ دماغ میں پیدا ہونے والی سوزش الزائمر اور پارکنسنز جیسی مہلک بیماریوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ اس لیے ان بیماریوں کے علاج کے لیے سب سے مؤثر طریقہ یہی ہے کہ براہِ راست دماغ کے متاثرہ حصوں تک علاج پہنچایا جائے۔ ’’آسٹروکیپسولز‘‘ اسی مقصد کو پورا کرتے ہیں۔

خاص طور پر انسدادِ سوزش پروٹین IL-1Ra سے بھرے یہ کیپسولز جب دماغ تک پہنچے تو انہوں نے سوزش میں نمایاں کمی پیدا کی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دریافت مستقبل میں دماغی امراض کے علاج میں ایک انقلابی قدم ثابت ہو سکتی ہے، کیونکہ موجودہ ادویات اکثر دماغ کے حساس حصوں تک مؤثر انداز میں نہیں پہنچ پاتیں۔

اگر یہ ٹیکنالوجی عملی طور پر انسانوں میں کامیاب ثابت ہوئی تو لاکھوں مریضوں کو نئی امید مل سکتی ہے، خاص طور پر وہ لوگ جو طویل عرصے سے الزائمر اور پارکنسنز جیسے جان لیوا مسائل سے دوچار ہیں۔

فی الحال یہ تحقیق تجرباتی مراحل میں ہے لیکن سائنس دانوں کو یقین ہے کہ آنے والے برسوں میں ’’آسٹروکیپسولز‘‘ دماغی امراض کے علاج کے میدان میں ایک اہم سنگِ میل ثابت ہوں گے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: الزائمر اور پارکنسنز کے علاج دماغ کے حصوں تک

پڑھیں:

چھاتی کا سرطان: آگاہی، احتیاط اور بچاؤ کی ضرورت

کراچی:

دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی بیماریوں میں اگر کسی ایک مرض نے خواتین کی زندگیوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے تو وہ چھاتی کا سرطان ہے۔ یہ وہ بیماری ہے جس کا نام سنتے ہی خوف اور بے یقینی کی ایک لہر دل و دماغ پر طاری ہو جاتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں بیماریوں کے بارے میں بات کرنا، بالخصوص خواتین سے متعلق امراض کا ذکر، عموماً معیوب سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر خواتین بروقت تشخیص اور علاج کے موقع سے محروم رہ جاتی ہیں۔ حالانکہ چھاتی کا سرطان ایک ایسا مرض ہے جس کی اگر ابتدائی مرحلے میںتشخیص ہو جائے تو اس کا علاج کامیابی سے ممکن ہے اور مریضہ ایک صحت مند اور نارمل زندگی گزار سکتی ہے۔

چھاتی کے سرطان کی بڑھتی شرح

اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر نو میں سے ایک خاتون کو زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر چھاتی کے سرطان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ تناسب دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ زیادہ تر مریضہ اسپتال میں اس وقت پہنچتی ہیں جب بیماری کافی حد تک بڑھ چکی ہوتی ہے اور علاج کے امکانات محدود ہو جاتے ہیں۔ یہ صورتحال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ خواتین میں زیادہ سے زیادہ آگاہی پیدا کی جائے، تاکہ وہ ابتدائی علامات پر توجہ دے سکیں اور بروقت معائنہ اور علاج کروا سکیں۔

خطرے کے عوامل

چھاتی کے سرطان کی اصل وجوہات ابھی تک سو فیصد واضح نہیں ہیں، لیکن کچھ عوامل ایسے ہیں جو اس مرض کے امکانات کو بڑھا دیتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم جینیاتی یا خاندانی پس منظر ہے۔ اگر خاندان کی کسی خاتون کو یہ مرض لاحق ہوا ہو تو دیگر خواتین میں اس کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں۔

عمر بھی ایک اہم فیکٹر ہے۔ عموماً 40 سال سے زیادہ عمر کی خواتین اس بیماری کی زد میں زیادہ آتی ہیں۔ تاہم، آج کل کم عمر خواتین میں بھی یہ مرض تیزی سے سامنے آ رہا ہے۔ موٹاپا، غیر متوازن غذا، ورزش کی کمی، تمباکو نوشی، زیادہ عرصے تک ہارمونز پر مشتمل ادویات کا استعمال اور پہلی بار دیر سے ماں بننا بھی اس بیماری کے امکانات میں اضافہ کرتا ہے۔

چھاتی کے سرطان کی علامات

اکثر خواتین اس مرض کو اس وقت تک سنجیدہ نہیں لیتیں جب تک بیماری آخری مراحل میں داخل نہ ہو جائے۔ حالانکہ کچھ علامات ایسی ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر:

٭چھاتی میں کسی گلٹی یا سختی کا محسوس ہونا

٭ چھاتی یا بغل کے حصے میں درد یا دباؤ

٭ چھاتی کی جلد پر سرخی، کھنچاؤ یا زخم

٭ نپل (چھاتی کے ابھار) سے غیر معمولی رطوبت یا خون آنا

٭ چھاتی کے سائز یا شکل میں اچانک تبدیلی

یہ تمام علامات فوری توجہ کی متقاضی ہیں۔ ہر خاتون کو چاہیے کہ ایسی کسی بھی تبدیلی کو نظر انداز نہ کرے اور فوراً کسی مستند ڈاکٹر سے رجوع کرے۔

بروقت تشخیص کی اہمیت

چھاتی کے سرطان کے علاج میں سب سے اہم مرحلہ اس کی بروقت تشخیص ہے۔ جدید سائنسی تحقیق اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ اگر یہ مرض ابتدائی درجے میں دریافت ہو جائے تو اس کا علاج نہ صرف ممکن ہے بلکہ مریضہ مکمل صحتیاب بھی ہو سکتی ہے۔ اسی لیے ڈاکٹروں کی جانب سے بار بار یہ تاکید کی جاتی ہے کہ خواتین خود بھی اپنے جسم میں ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھیں اور باقاعدگی سے میڈیکل چیک اپ کروائیں۔

موجودہ دور میں تشخیص کے کئی جدید ذرائع موجود ہیں، جیسے میموگرافی، الٹراساؤنڈ اور بائی اوپسی۔ ان ٹیسٹوں کے ذریعے چھاتی میں کسی بھی مشکوک تبدیلی کو بروقت جانچا جا سکتا ہے۔

علاج کے طریقے

چھاتی کے سرطان کا علاج مریضہ کی حالت اور بیماری کے مرحلے پر منحصر ہوتا ہے۔ عمومی طور پر اس کے علاج میں سرجری، ریڈیو تھراپی، کیموتھراپی اور ہارمونل تھراپی شامل ہیں۔ بعض اوقات ایک سے زیادہ طریقوں کو بیک وقت استعمال کیا جاتا ہے تاکہ زیادہ مؤثر نتائج حاصل کیے جا سکیں۔

یہاںیہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ علاج صرف جسمانی نہیں بلکہ نفسیاتی اور جذباتی پہلوؤں کا بھی متقاضی ہوتا ہے۔ چھاتی کے سرطان سے متاثرہ خواتین عموماً ذہنی دباؤ، خوف اور مایوسی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اس موقع پر خاندان اور دوستوں کی حوصلہ افزائی اور سماجی تعاون مریضہ کے حوصلے کو بلند رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

احتیاطی تدابیر

چونکہ چھاتی کے سرطان کے امکانات بعض عوامل سے جڑے ہوئے ہیں، اس لیے کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کر کے اس کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے متوازن غذا اور باقاعدہ ورزش کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا ضروری ہے۔ موٹاپا اور غیر صحت مند طرزِ زندگی کئی بیماریوں کی جڑ ہے، جن میں چھاتی کا سرطان بھی شامل ہے۔

اسی طرح تمباکو نوشی اور الکحل سے پرہیز بھی نہایت ضروری ہے۔ خواتین کو چاہیے کہ ہارمونل ادویات کا استعمال ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر نہ کریں۔ شادی اور ماں بننے میں غیر ضروری تاخیر بھی بعض اوقات خطرے کو بڑھا دیتی ہے، اس لیے اس پہلو کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

خود معائنہ: ہر خاتون کی ذمہ داری

ہر خاتون کو ماہانہ بنیاد پر اپنے جسم کا خود معائنہ کرنا چاہیے۔ یہ عمل نہ صرف سادہ ہے بلکہ جان بچانے والا بھی ہو سکتا ہے۔ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر چھاتی کی شکل، سائز اور جلد کا بغور جائزہ لینا اور ہاتھوں سے چھو کر کسی غیر معمولی گلٹی یا سختی کو محسوس کرنا اس عمل کا حصہ ہے۔ اگر کسی بھی تبدیلی کا پتہ چلے تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔

معاشرتی رویے اور خاموشی کی دیوار

ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ خواتین اپنے مسائل کو چھپاتی ہیں۔ وہ بیماری کے بارے میں بات کرنے سے کتراتی ہیںیا معاشرتی دباؤ اور شرم و جھجک کے باعث بروقت ڈاکٹر سے رجوع نہیں کرتیں۔ یہی خاموشی اکثر بیماری کو خطرناک مراحل تک پہنچا دیتی ہے۔ ہمیں اس رویے کو بدلنا ہوگا اور خواتین کو یہ یقین دلانا ہوگا کہ اپنی صحت کے بارے میں بات کرنا معیوب نہیں بلکہ زندگی بچانے کے مترادف ہے۔

آگاہی مہمات کی ضرورت

پاکستان جیسے ملک میں جہاں چھاتی کے سرطان کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے، وہاں آگاہی مہمات نہایت ضروری ہیں۔ میڈیا، تعلیمی ادارے، مساجد اور کمیونٹی سینٹرز کو اس ضمن میں کردار ادا کرنا ہوگا۔ ڈاکٹروں، سماجی تنظیموں اور حکومت کو مل کر ایسی حکمت عملی اپنانا ہوگی جو زیادہ سے زیادہ خواتین تک یہ پیغام پہنچا سکے کہ بروقت تشخیص اور علاج ہی اس بیماری سے بچنے کا مؤثر ذریعہ ہے۔

سنجیدہ لیکن قابل علاج مرض

چھاتی کا سرطان ایک سنجیدہ مگر قابلِ علاج مرض ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ خواتین اپنی صحت کے بارے میں سنجیدہ ہوں، علامات کو نظر انداز نہ کریں اور وقت پر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ معاشرے کو بھی چاہیے کہ وہ خواتین کی حوصلہ افزائی کرے، انہیں سہارا دے اور بیماری کے خلاف ان کی جنگ میں ان کا ساتھ دے۔

یاد رکھیے، زندگی قیمتی ہے۔ چند لمحے نکال کر خود معائنہ کرنے، باقاعدہ چیک اپ کروانے اور صحت مند طرزِ زندگی اختیار کرنے سے نہ صرف بیماری سے بچاؤ ممکن ہے بلکہ ایک بہتر اور محفوظ مستقبل بھی یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ملک کے مختلف حصوں میں بارشوں کا امکان، الرٹ جاری
  • ملک کے مختلف حصوں میں بارشوں کی پیشگوئی، الرٹ جاری
  • نیند کی کمی دماغ کو وقت سے پہلے بوڑھا کر دیتی ہے، تحقیق میں انکشاف
  • کردار اور امید!
  • غزہ: زخمیوں کو کئی سالوں تک دیکھ بھال کی ضرورت رہے گی، ڈبلیو ایچ او
  • آزاد کشمیر میں قیام امن کیلئے آج پھر مذاکرات ہوں گے، حکومتی کمیٹی کامیابی کیلئے پر امید
  • سردار عبدالرحیم اسپتال میں زیر علاج، دعاؤں کی اپیل
  • ڈوپامین ڈی ٹاکس کیا ہے؟
  • چھاتی کا سرطان: آگاہی، احتیاط اور بچاؤ کی ضرورت