دائمی اورمتعدی بیماریوں میں مبتلاافراد کےحج ادا کرنےپرپابندی عائد
اشاعت کی تاریخ: 16th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مکہ مکرمہ:سعودی عرب کی حکومت نے آئندہ سال حج کی ادائیگی کے لیے کچھ خاص طبّی حالتوں کے شکار عازمین پر پابندی عائد کر دی ہے، جس میں دائمی اور متعدی بیماریوں میں مبتلا افراد شامل ہیں۔
وزارتِ مذہبی امور کی ویب سائٹ پر جاری ایک نوٹس میں سعودی وزارتِ صحت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ گردوں کی خرابی جس میں ڈائیلاسس ضروری ہو، دل کے ایسے امراض جن میں مریض معمولی مشقت بھی برداشت نہ کر سکے، دائمی پھیپھڑوں کے امراض جن میں وقفے وقفے سے یا مسلسل آکسیجن درکار ہو، اور جگر کی ناکامی یا جگر کا سیروسس — یہ سب حالتیں حج کے معیار پر پورا نہیں اترتیں۔
فہرست میں ایسے افراد کا بھی ذکر ہے جو اعصابی یا دماغی امراض جیسے یادداشت کی کمزوری، ڈیمینشیا، اور شدید جسمانی معذوری کا شکار ہوں۔ اسی طرح الزائمر میں مبتلا بوڑھے افراد، ہاتھ پاؤں میں رعشہ کے مریض، اور ایسے حاملہ خواتین جو حمل کے آخری مرحلے میں ہوں یا پیچیدگیوں کا شکار ہوں—ان پر بھی حج کی پابندی عائد ہو گی۔
میڈیا ذرائع کے مطابق مزید یہ کہ متعدی بیماریاں جن سے بڑے اجتماعات میں دوسروں کو خطرہ لاحق ہو، مثلاً کالی کھانسی، اوپن پلمونری تپ دق (ٹی بی)، اور وائرل ہیمرجک فیور— ان امراض میں مبتلا افراد کو بھی حج ادا کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
فہرست میں کینسر کے آخری مراحل کے مریض اور وہ افراد جو کیموتھراپی، بائیولوجیکل یا ریڈیولوجیکل علاج سے گزر رہے ہوں، ان کا بھی نام شامل ہے۔
پاکستان کی وزارتِ مذہبی امور نے ڈاکٹروں پر زور دیا ہے کہ وہ عازمین کو صرف مکمل جانچ پڑتال کے بعد ہی طبی سرٹیفکیٹ جاری کریں تاکہ کسی قانونی کارروائی سے بچا جا سکے۔ وزارت نے خبردار کیا کہ اگر کسی نے اپنی صحت سے متعلق غلط یا جھوٹا بیان دیا تو اسے سعودی عرب سے اپنے خرچے پر واپس بھیج دیا جائے گا۔
نوٹس کے مطابق، اگر ویکسینیشن کے دوران کسی فرد میں مذکورہ بیماریوں میں سے کوئی بیماری پائی گئی تو حج کیمپ میں موجود میڈیکل افسران کو اسے سفر سے روکنے کا اختیار ہو گا۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
27ویں ترمیم شفاف حکمرانی کے اصولوں کیخلاف ہے، جاوید قصوری
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور(وقائع نگارخصوصی)امیر جماعت اسلامی پنجاب محمد جاوید قصوری نے 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کو جمہوریت، پارلیمانی نظام اور آئینِ پاکستان کے بنیادی ڈھانچے کی نفی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ترمیم نہ صرف عوامی حقوق اور شفاف حکمرانی کے اصولوں کے خلاف ہے بلکہ اس سے ملک کے اندر بداعتمادی اور طاقت کی کھینچا تانی میں مزید اضافہ ہوگا۔یہ ترمیم ایسے وقت میں لائی گئی ہے جب ملک معاشی بحران، سیاسی انتشار اور ادارہ جاتی کمزور یوں کا شکار ہے، اس لیے ایسے اقدامات ملک کو استحکام دینے کے بجائے مزید غیر یقینی کی طرف دھکیل دیں گے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے مختلف تقریبات سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 27ویں آئینی ترمیم کو تیزی سے منظور کروانے کا عمل پارلیمانی روایات کے منافی ہے۔ ملک پہلے ہی معاشی ابتری اور مہنگائی کے شدید دباؤ میں پسا ہوا ہے۔ لاکھوں نوجوان بے روزگاری کا سامنا کر رہے ہیں، کاروباری سرگرمیاں سکڑ رہی ہیں اور عوام اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں۔ ایسے حالات میں پارلیمنٹ کی اولین ترجیح عوام کو ریلیف دینا ہونی چاہیے تھی، مگر بدقسمتی سے نظام کو مستحکم کرنے کی بجائے ایسے آئینی تجربات کیے جا رہے ہیں جو عوامی اعتماد کو مزید مجروح کریں گے۔انہوں نے کہا کہ عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں معاشی شرح نمو مسلسل کم ہو رہی ہے، افراطِ زر بلند ترین سطحوں پر ہے، جب کہ 40 فیصد سے زائد عوام خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔انہوں نے خبردار کیا کہ سیاسی قوتیں اگر اسی طرح ایک دوسرے کو دیوار سے لگاتی رہیں گی تو نتیجہ قومی وحدت کی کمزوری اور عوام کے ریاستی اداروں سے اعتماد کے مکمل خاتمے کی صورت میں نکلے گا۔محمد جاوید قصوری نے مزید کہا کہ ملک کو بحرانوں سے نکالنے کا حل آئین کی بالادستی، شفاف انتخابات، مضبوط مقامی حکومتوں کے قیام اور کرپشن سے پاک نظام میں ہے۔ جب تک حکمران طبقہ اپنی سوچ تبدیل نہیں کرتا، پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا۔ جماعت اسلامی پاکستان کے عوام کے ساتھ ہے اور ان کے حقوق اور آئین کی حفاظت کے لیے ہر سطح پر اپنا کردار ادا کرتی رہے گی۔