Islam Times:
2025-11-19@01:29:28 GMT

سمجھ کیوں نہیں آتی کہ امریکہ ناقابل اعتبار ہے

اشاعت کی تاریخ: 2nd, October 2025 GMT

سمجھ کیوں نہیں آتی کہ امریکہ ناقابل اعتبار ہے

اسلام ٹائمز: تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فیول ٹینکرز کی یہ غیر معمولی نقل و حرکت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ممکنہ طور پر کوئی بڑی فضائی کارروائی یا طویل فوجی آپریشن زیرِ غور ہے۔ ان ٹینکروں کی موجودگی لڑاکا طیاروں کو زیادہ وقت تک فضا میں رہنے اور دور دراز اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران پر حملے کا خطرہ بھی موجود ہے۔ موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے پاسداران انقلاب نے کہا ہے کہ کسی بھی جارحیت کی صورت میں ہم پہلے سے زیادہ سخت جواب دیں گے۔ کچھ خدشات یہ بھی ہیں کہ اہل غزہ کو سینا منتقل کرنے کی تیاری ہے، جس کے خلاف کسی بھی ردعمل کو روکنے کے لیے یہ سب کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح حزب اللہ کے خلاف اقدامات کے بارے میں بھی باتیں کی جا رہی ہیں۔ جنگ بندی محض لولی پاپ تھا، اصل منصوبہ آٹھ ممالک کی سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ تمہیں مذاکرات پر لگا کر مزید کشت و خون کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

اقوام متحدہ میں سربراہان مملکت کی ہر سال حاضری ہوتی ہے، کافی مدت سے میں اسے بین الاقوامی رہنماوں کے وقت کا ضیاع سمجھتا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عصر حاضر میں اقوام متحدہ بین الاقوامی مسائل میں کوئی بھی کردار ادا کرنے سے قاصر رہی ہے۔ یوکرین سے لے کر کشمیر تک اور فلسطین سے لے کر شام تک کسی مسئلے میں اس کا کوئی مثبت بلکہ منفی کردار بھی نہیں رہا۔ امریکہ پہلے اقوام متحدہ کا نقاب اوڑھ کر ممالک کا استحصال کرتا تھا۔ اب اس نے تمام نقاب اتار پھینکے ہیں اور پوری بربریت کے ساتھ سامنے آگیا ہے۔ بعض فیصلے ممالک کی فکر کے عکاس ہوتے ہیں، مثلاً اب امریکہ نے منسٹری آف ڈیفنس کا نام تبدیل کرکے منسٹری آف وار، یعنی وزارت جنگ رکھ دیا ہے۔ دوسری جنگ عظیم تک اکثر ممالک میں وزارت جنگ ہوتی تھی، دوسری جنگ عظیم کے بعد اس کا نام تبدیل کرکے وزارت دفاع کر دیا گیا تھا۔ اب امریکہ دوبارہ اپنی اصل کی طرف پلٹ گیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ امریکی معیشت جنگی معیشت ہے، یہ جنگ چاہتی ہے۔ اگر کچھ عرصے کے لیے جنگ رک جائے تو یہ امریکی معیشت کے لیے موت ہوگی۔ اسی لیے دیکھیے امریکہ دنیا میں جنگ ختم نہیں ہونے دیتا۔ ایک ختم ہوتی ہے تو دوسری شروع کرا دیتا ہے۔ پاکستان اور چند دوسرے ممالک کو لگنے لگا ہے کہ شائد امریکہ تبدیل ہوچکا ہے اور اب اس پر اعتماد کرتے ہوئے غزہ کے حوالے سے کوئی بہتر فیصلہ کرایا جا سکتا ہے۔ اسی نیت سے پاکستان اور دیگر ممالک نے امریکی صدر سے ملاقاتیں کیں اور ہمارے وزیراعظم نے تو بغیر دیکھے امریکی صدر کے پیس پلان کا خیر مقدم کر دیا۔ یہ اصطلاحات کا دھوکہ ہے، یہ پیس پلان نہیں، غزہ پر مکمل قبضہ ہے، جس کی تصدیق بھی اہل غزہ سے لینی ہے کہ جو قبضہ کیا گیا ہے، وہ درست ہے۔ آپ نے حمایت کا اعلان کر دیا، اب پتہ چل رہا ہے کہ یہ تو وہ نکات ہی نہیں، جن پر اتفاق رائے ہوا تھا، ویسے حماقت کی حد ہے۔

وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار آج کل میڈیا پر فلسطین کے موضوع پر بہت بات کر رہے ہیں۔ انہوں نے وادیلا کیا ہے کہ صدر ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے میں جنگ بندی، انسانی امداد کی فراہمی اور جبری بے دخلی کے خاتمے جیسے اہم نکات شامل نہیں ہیں، اس لیے پاکستان اس کی تائید نہیں کرتا اور واضح کیا کہ یہ ہماری دستاویز نہیں ہے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ میڈیا کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو اور امریکی صدر ٹرمپ کی ملاقات کے دوران منصوبے میں ترامیم کی گئی ہیں۔ اس کے نتیجے میں اسرائیلی فوج کی واپسی مخصوص شرائط سے مشروط کر دی گئی اور بعد ازاں ایک حفاظتی زون کی تجویز بھی شامل کی گئی۔ ڈار صاحب کے بقول ان تبدیلیوں کے باعث وہ تمام ترامیم شامل نہیں ہوسکیں، جو پاکستان نے سات دیگر مسلم ممالک کے ساتھ مل کر پیش کی تھیں اور جن پر صدر ٹرمپ نے قابلِ عمل حل دینے کا وعدہ کیا تھا۔

ڈار صاحب امریکی صدر اتنا ہی قابل اعتبار ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے پوچھا کہ ڈار صاحب نیتن یاہو کی ضمانت کون دے گا۔؟ کیا آپ ٹرمپ پر بھروسہ کرتے ہیں کہ وہ اس کی پاسداری کرائیں گے۔؟ ڈار صاحب نے کہا کہ گارنٹی کون دے سکتا ہے۔؟ اسی وجہ سے ہم نے اسرائیل سے براہِ راست رابطہ نہیں کیا، یورپی کوششیں ناکام رہیں۔ اب چوائس یہ ہے کہ مزید فلسطینیوں کی جانیں خطرے میں ڈالیں یا فوری طور پر بچاؤ کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ صدر ٹرمپ کے ذریعے بہتر طریقے سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ جی وہی صدر ٹرمپ جس نے آپ کو کوئی اور معاہدہ دکھا کر حمایت وصول کر لی اور اب وہ معاہدہ ہی تبدیل کر ڈالا۔ امریکہ کا ماضی یہی بتاتا ہے کہ وہ کبھی بھی اپنے معاہدے کی پاسداری نہیں کرتا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ مذاکرات میں تھا، جب ایران پر براہ راست حملہ کر دیا۔

اسرائیل کی بربریت جاری ہے۔ بینجمن نیتن یاہو نے غزہ کے لیے کسی بھی حالت میں خوراک نہ دینے کا اعلان کیا۔ گلوبل صمود فلوٹیلا کے بحری جہازوں کو کسی بھی حالت میں غزہ پہنچنے کی اجازت نہ دی جائے۔ ابھی ابھی اطلاعات آرہی ہیں کہ فوٹیلا پر حملہ ہوگیا ہے اور اسرائیلی فورسز نے قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بین الاقوامی ایڈ ورکرز کو گرفتار کر لیا ہے۔ یہ عمل بتا رہا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کسی بھی قانون ضابطے کی روشنی میں قابل اعتبار نہیں ہیں۔ حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ امریکی فضائیہ کے درجنوں فیول ٹینکر طیارے (KC-135 اور KC-46) اس وقت مشرقِ وسطیٰ کی فضاؤں میں سرگرم ہیں۔ ماہرین کے مطابق ایک غیر معمولی فضائی سرگرمی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ یہ طیارے بڑی تعداد میں خطے کی جانب روانہ ہوچکے ہیں اور ان میں سے کئی قطر میں "العدید ایئر بیس" پر اتر بھی چکے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فیول ٹینکرز کی یہ غیر معمولی نقل و حرکت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ممکنہ طور پر کوئی بڑی فضائی کارروائی یا طویل فوجی آپریشن زیرِ غور ہے۔ ان ٹینکروں کی موجودگی لڑاکا طیاروں کو زیادہ وقت تک فضا میں رہنے اور دور دراز اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران پر حملے کا خطرہ بھی موجود ہے۔ موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے پاسداران انقلاب نے کہا ہے کہ کسی بھی جارحیت کی صورت میں ہم پہلے سے زیادہ سخت جواب دیں گے۔ کچھ خدشات یہ بھی ہیں کہ اہل غزہ کو سینا منتقل کرنے کی تیاری ہے، جس کے خلاف کسی بھی ردعمل کو روکنے کے لیے یہ سب کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح حزب اللہ کے خلاف اقدامات کے بارے میں بھی باتیں کی جا رہی ہیں۔ جنگ بندی محض لولی پاپ تھا، اصل منصوبہ آٹھ ممالک کی سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ تمہیں مذاکرات پر لگا کر مزید کشت و خون کا انتظام کیا جا رہا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کیا جا رہا ہے امریکی صدر ڈار صاحب کے خلاف کسی بھی کرتی ہے گیا ہے کر دیا کے لیے ہیں کہ

پڑھیں:

بھارت پر لگے امریکی ٹیرف

بھارت کے شہر ممبئی میں مقیم سریندر گپتا ایک ایسی کمپنی کا مالک ہے جو ملبوسات میں استعمال ہوتی اشیا جیسے فیتے اور بٹن بنا کر بڑے عالمی برانڈز کو فراہم اور برآمد کرتا ہے۔ لیکن صدرِ امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ سخت ٹیرف نے گپتا کے کاروبار کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے۔

ماہ اگست کے اواخر میں ایک صبح بھارت نے آنکھ کھولی تو امریکہ کو فروخت کے لیے جانے والی تمام بھارتی مصنوعات پر 50 فیصد ٹیرف عائد ہو چکا تھا۔ یہ اس وقت ہوا جب ٹرمپ انتظامیہ نے روسی تیل کی بھارتی خریداری پر 25 فیصد ڈیوٹی کو دگنا کرنے کی دھمکی پہ عمل درآمد کر دیا۔ وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کی حکومت، جو روسی خام تیل کے بڑے خریداروں میں سے ایک ہے، ماسکو کی جنگی مہمات بالخصوص یوکرین جنگ میں مالی معاونت فراہم کر رہی ہے۔ بھارتی حکام نے جبکہ واشنگٹن پر دوہرا معیار اپنانے کا الزام لگایا اور نشاندہی کی کہ یورپی یونین اور چین روس سے زیادہ خریداری کرتے ہیں اور خود واشنگٹن بھی ماسکو سے تجارت جاری رکھے ہوئے ہے۔

سریندر گپتا بتاتے ہیں،فیشن کی دنیا میںچکر ایک سال پہلے سے چلتا ہے۔ماہ اگست میں اس کی کمپنی خزاں 2026 ء کے ملباسات کی خاطر اشیا ڈیزائن اور تیار کر رہی تھی۔ لہٰذا بھارتی مارکیٹ میں چھائی غیر یقینی صورتحال نے کام کو بری طرح متاثر کیا اور ایک ‘‘بڑا دھچکا’’ پہنچایا ۔گپتا کے کاروبار کا تقریباً 40 فیصد حصہ امریکی مارکیٹ سے وابستہ ہے۔

گپتا بتاتا ہے’’ بدھ کی صبح، 27 اگست تک میں کسی معجزے کی امید لگائے بیٹھا تھا ۔میں سوچتا تھا،شاید ٹرمپ محض ہمیں دباؤ میں لانے کے لیے ڈراما کر رہے ہوں یا شاید مودی کے امریکہ سے اچھے تعلقات صورتحال کو سنبھال لیں گے۔مگر کچھ نہ ہوا۔ایسی صورت حال میں سب سے زیادہ نقصان ان کمپنیوں کو ہوا جو امریکہ مال بھجواتی ہیں۔‘‘

واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان پانچ دور ہوئے لیکن بات چیت کسی تجارتی معاہدے پر ختم نہیں ہو سکی۔ گپتا نے کہتا ہے،بھارتی برآمد کنندگان کو اب خدشہ ہے کہ ان کے غیر ملکی خریدار بھارت کو مکمل طور پر چھوڑ سکتے ہیں۔ اگر امریکہ اور بھارت کے مابین کشیدگی برقرار رہی، تو خریدار متبادل منڈیاں تلاش کرلیں گے۔

مودی سرکار ٹرمپ کے اقدامات سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے جو امریکہ کو بھارت کے ساتھ دو دہائیوں کی سفارتی اور اسٹریٹجک سرمایہ کاری سے پیچھے لے جا رہے ہیں۔اس دوران ماہرین اور معاشی مبصرین کا کہنا ہے ، یہ ٹیرف بھارتی معیشت کے کلیدی برآمدی شعبے تباہ کر سکتے ہیں اور لاکھوں نوکریاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔

بہت بے بسی ہے

فیڈریشن آف انڈین ایکسپورٹ آرگنائزیشن (FIEO) بھارتی برآمد کنندگان کا سب سے بڑا سرکاری سرپرست ادارہ ہے ۔اس کے سی ای او اجے ساہے نے امریکی ٹیرف لگنے کے بعد وزیر خزانہ نرملا سیتارمن سے ملاقات کی۔ وہ چاہتے ہیں کہ مودی حکومت ٹیرف سے متاثرہ کمپنیوں کی مدد کرے۔وہ دعوی کرتے ہیں’’حکومت نے ہمیں مکمل یقین دلایا ہے کہ وہ اس مسئلے سے نکلنے کے لیے ہر طرح کی مدد فراہم کرے گی۔ شاید اس میں ایک معاشی پیکیج بھی شامل ہو۔‘‘

انہوں نے کہا،حکومت نے ہم سے ایک رپورٹ تیار کرنے کو کہا ہے اور پھر وہ ایک اسکیم لے کر آئے گی۔’’نرملا سیتارمن نے یقین دہانی کرائی ہے کہ کسی کی ملازمت نہیں جائے گی۔ اور یہ ایسی بات ہے جس کا ہمیں احترام کرنا چاہیے۔‘‘

 کہنا آسان ہے کرنا مشکل

ٹیکسٹائل، قیمتی پتھر، زیورات، قالین اور جھینگے (شرمپ) بھارت کی سب سے بڑی برآمدات میں شامل ہیں جو امریکہ کو جاتی ہیں اور توقع ہے کہ ٹیرف سے یہ سب سے زیادہ متاثر ہوں گی۔

کے انند کمار جھینگے برآمد کرنے والی کمپنی ،سندھیا میرینز چلاتے ہیں۔ان کی کمپنی خلیج بنگال پر واقع آندھرا پردیش کے ایک ساحلی قصبے میں تقریباً 3,500 مزدوروں کو روزگار فراہم کرتی ہے۔ مگر اب انند کمار کا کاروبار تباہی کے دہانے پر ہے کہ ان کی کمپنی کی 90 فیصد سے زائد برآمدات امریکی منڈی میں جاتی ہیں۔

گزشتہ سال بھارت نے ریکارڈ 1.78 ملین میٹرک ٹن سمندری غذا برآمد کی تھی جس کی مالیت 7.38 ارب ڈالر تھی۔ اس میں جھینگے کا سب سے بڑا حصہ تھا جو کل مالیت کا 92 فیصد بنتا ہے۔ امریکہ بھارت کے جھینگوں کی کل برآمدات کا 40 فیصد سے زیادہ خریدتا ہے۔

’’جھینگوں کی صنعت بہت زیادہ مزدوروں پر انحصار کرتی ہے اور اس میں چھوٹے کسان شامل ہیں۔انند کمار کہتے ہیں۔وہ سمندری غذا برآمد کرنے والے ادارے کے آندھرا پردیش چیپٹر کے سربراہ بھی ہیں۔ کمار کے مطابق اگرمجموعی افرادی قوت کو شامل کیا جائے تو تقریباً 20 لاکھ افراد جھینگے کی برآمد سے وابستہ ہیں۔ اور ان میں سے 50 فیصد سے زیادہ کارکنان ٹرمپ کے ٹیرف کا براہِ راست نشانہ بنیں گے۔

 انند کمار کہتے ہیں’’میری کمپنی نے ملازمین کو گھر بھیجنا شروع کر دیا ہے کیونکہ ہمارے پاس کوئی نیا آرڈر نہیں اور ہم مزید تنخواہ نہیں دے سکتے۔ چھوٹے کسان، جو جھینگے چھیلتے ہیں، سب سے زیادہ متاثر ہوں گے کیونکہ اب ان کے لیے کوئی کام باقی نہیں رہا۔‘‘

بھارت ہر سال امریکہ کو 87 ارب ڈالر مالیت کی برآمدات بھجواتا ہے۔ برآمد کنندگان کی ایسوسی ایشنز کا اندازہ ہے کہ امریکی ٹیرف سے برآمدات کا تقریباً 55 فیصد حصہ متاثر ہو گا۔ اور اس تبدیلی سے ویتنام، بنگلہ دیش، چین اور پاکستان جیسے حریفوں کو فائدہ ہوگا جن پر کم شرح کے ٹیرف لگے ہیں۔

امریکی ادارے،موڈیز ریٹنگز (Moody's Ratings)نے خبردار کیا ہے کہ بھارتی مال پر ٹرمپ کے بھاری ٹیرف 2025 ء کے بعد بھارت کی معاشی ترقی کو سست کر سکتے ہیں۔ موڈیز کا مذید کہنا ہے، دیگر ایشیا پیسیفک ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ٹیرف لگنے سے بھارت میں مینوفیکچرنگ سیکٹر کو ترقی دینے کی خواہش بری طرح متاثر ہو گی اور حالیہ برسوں میں سرمایہ کاری کھینچنے کے حوالے سے مودی حکومت کو جو کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں، وہ بھی الٹ سکتی ہیں۔

آنندکمار کا کہنا ہے’’یہ سب کچھ ایک ڈراؤنے خواب کی طرح ہے، جس میں آپ کو معلوم نہیں ہوتا ، اگلی صبح اٹھتے ہی کون سا نیا اور غیر متوقع ٹیرف آپ کے سامنے ہوگا۔‘‘

امریکہ کے ساتھ تیس سالہ کاروباری تعلقات میں کمار کے مطابق، ایسا بحران پہلے کبھی نہیں آیا۔ وہ کہتے ہیں ‘‘امریکہ ہمارے ساتھ کھیل رہا ہے، جو چاہے کر رہا ہے۔ اور ہم مجبور ہیں کہ اس کی کہی ہر بات مان لیں۔ ایسا کرتے ہوئے بہت بے بسی محسوس ہوتی ہے۔’’

بھارتی اشیا پر عملاً پابندی

 خوف و ہراس نے کمار کی فیکٹری سے تقریباً ایک ہزار کلومیٹر دور واقع تروپور کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جو بھارتی جنوبی ریاست تامل ناڈو کا ایک قصبہ ہے ۔یہ بھارت کی ملبوساتی برآمدی صنعت کا مرکز کہلاتا ہے۔

دریائے نویال کے کنارے اور پتھریلے ٹیلوں کے قریب آباد تروپور بھارت کی 16 ارب ڈالر مالیت والی ریڈی میڈ ملبوسات برآمدات میں تقریباً ایک تہائی کا حصہ ڈالتا ہے۔ امریکی ڈالر میں کمائی کی وجہ سے تروپور کو ‘‘ڈالر سٹی’’ کہا جاتا ہے۔ دنیا کے بڑے فیشن برانڈز بشمول زارا اور گیپ یہاں سے کپڑے خریدتے ہیں۔

ایس این کیو ایس انٹرنیشنل گروپ کے منیجنگ ڈائریکٹر وی. ایلانگوون ملبوسات برآمد کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے’’ بڑے برانڈز کے ساتھ کاروبار میں زیادہ منافع ہوتا ہے اور یہ امر وقتی سہارا فراہم کر سکتا ہے۔ لیکن بحران طویل ہوا تو یہ ہمارا کاروبار مفلوج کر دے گا۔ اس وقت بھی جس ادارے کا منافع کم ہے، وہاں پیداوار مکمل طور پر روک دی گئی ہے ۔‘‘ایلانگوون کی کمپنی میں 1,500 لوگ کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تروپور میں ٹرمپ کے ٹیرف کی وجہ سے تقریباًڈیرھ لاکھ مزدوروں کی نوکریاں خطرے میں ہیں۔

وہ مذید کہتے ہیں ’’عالمی طور پر بحران زدہ معیشت میں نیا گاہک ڈھونڈنا بہت مشکل ہے۔ گاہکوں میں تنوع پیدا کرنا کوئی بٹن دبانے جیسا نہیں کہ جب چاہیں کر لیں۔ جلد ہی ہمیں کیش فلو کے مسائل کا سامنا ہوگا اور مزدوروں کی بڑی تعداد کو نکالنا پڑے گا۔‘‘

دوسری طرف بھارت کے وزیرِاعظم مودی نے امریکہ کے ساتھ تجارتی جنگ میں سخت مؤقف اختیار کیا ہے۔مودی نے 15 اگست کو یومِ آزادی کے موقع پر لال قلعے کی فصیل سے اپنے خطاب میں کہا: ’’اب بھارت کو خود کفیل بننا چاہیے … دنیا بھر میں معاشی خود غرضی بڑھ رہی ہے اور ہمیں اپنی مشکلات پر بیٹھ کر رونا نہیں چاہیے۔‘‘

بھارتی وزیرِاعظم نے کہا’’مودی ہر اس پالیسی کے سامنے ایک دیوار کی طرح کھڑا ہوگا جو ہمارے مفادات کو خطرہ پہنچائے گی۔ بھارت کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گا جب بات ہمارے کسانوں کے مفادات کے تحفظ کی ہو۔’’ وہ بالواسطہ طور پر امریکہ کے ساتھ تجارتی مذاکرات کے تنازعات کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔یاد رہے، واشنگٹن بھارت کے زرعی اور ڈیری شعبوں میں زیادہ رسائی چاہتا ہے۔ بھارت کی 1.4 ارب آبادی میں سے تقریباً نصف اپنی روزی روٹی کے لیے زراعت پر انحصار کرتی ہے۔

بھارتی تاجروں کو مگر خدشہ ہے کہ وہ اس سودے بازی میں بدترین نقصان اٹھائیں گے۔ ایلانگوون کا کہنا ہے ’’حکومت ہمیں ایک آنکھ پر مکے کھانے دے رہی ہے تاکہ دوسری آنکھ بچی رہے۔ 50 فیصد ٹیرف تو بھارتی اشیا پر عملاً پابندی کے مترادف ہے۔‘‘

اعدادوشمار

حالیہ اعدادوشمار کی رو سے امریکہ بھارتی اشیاء کی سب سے بڑی غیر ملکی منڈی ہے اور اس منڈی میں بھارتی برآمدات ماہ ستمبر کے دوران 20 فیصد اور پچھلے چار مہینوں میں تقریباً 40 فیصد تک تیزی سے گر گئی ہیں، کیونکہ صدر ٹرمپ کی جانب سے سخت محصولات نافذ ہو چکے ۔ستمبر وہ پہلا مکمل مہینہ تھا جب واشنگٹن نے بھارتی مصنوعات پر 50 فیصد محصولات عائد کیے جو 27 اگست سے نافذ ہوئے۔ ان میں 25 فیصد جرمانہ بھی شامل ہے جو دہلی کے روس سے تیل خریدنا بند نہ کرنے کے فیصلے پر لگایا گیا ہے۔

گلوبل ٹریڈ ریسرچ انیشی ایٹو (GTRI) دہلی میں قائم ایک تھنک ٹینک ہے ۔اس کے ماہر ، اجے سریواستو کا کہنا ہے :’’امریکہ کے محصولات میں اضافے کے بعد بھارت سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک بن چکا۔"دونوں ممالک کے درمیان تجارتی معاہدے پر مذاکرات جاری ہیں جنہیں نومبر تک مکمل کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔

GTRI کے مطابق محصولات کا سب سے زیادہ اثر محنت کش صنعتوں پر پڑا ہے جیسے ٹیکسٹائل، قیمتی پتھر اور زیورات، انجینئرنگ مصنوعات، اور کیمیکلز جنہیں سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔امریکہ کو بھیجی جانے والی ترسیلات گزشتہ چار مہینوں سے مسلسل کم ہو رہی ہیں، جو 37.5 فیصد گر کر مئی میں 8.8 ارب ڈالر سے ستمبر میں 5.5 ارب ڈالر رہ گئی ہیں۔

برآمدات میں کمی نے بھارت کے تجارتی خسارے (یعنی درآمدات اور برآمدات کے فرق) میں بھی اضافہ کیا ہے، جو ستمبر میں بڑھ کر 13 ماہ کی بلند ترین سطح … 32.15 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔امریکہ کو برآمدات میں کمی کو کچھ حد تک متحدہ عرب امارات اور چین جیسے ممالک کے ساتھ بہتر تجارتی تعلقات نے سہارا دیا۔

بھارت اور امریکہ کے درمیان تجارتی مذاکرات ماہ ستمبر میں دوبارہ شروع ہوئے جو کئی اختلافات کی وجہ سے رکے ہوئے تھے۔ ایک بھارتی وفد اس وقت مذاکرات کے لیے امریکہ میں موجود ہے۔ ٹرمپ نے دعوی کیا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے روسی تیل کی خریداری روکنے پر رضامندی ظاہر کی ہے، کیونکہ امریکہ یوکرین کی جنگ ختم کرنے کی کوششوں کے تحت کریملن پر معاشی دباؤ ڈالنا چاہتا ہے۔

بھارتی وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ بات چیت "جاری" ہے، اور واشنگٹن نے "بھارت کے ساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔"تاہم تجارت سے متعلق بڑے اختلافات اب بھی باقی ہیں، جن میں زرعی اور ڈیری شعبے تک رسائی شامل ہے۔

کئی سال سے واشنگٹن بھارت کے زرعی شعبے میں زیادہ رسائی حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جسے وہ ایک بڑی غیر استعمال شدہ منڈی سمجھتا ہے۔ لیکن بھارت نے خوراک کی سلامتی، روزگار اور لاکھوں چھوٹے کسانوں کے مفادات کا حوالہ دیتے ہوئے اس شعبے کا سختی سے دفاع کیا ہے، ۔

ٹیرف لگنے سے پہلے تک امریکہ بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار تھا اور 2024 ء میں دونوں کے درمیان دو طرفہ تجارت 190 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ ٹرمپ اور مودی نے اس اعداد و شمار کو دوگنے سے زیادہ بڑھا کر 500 ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا ہے مگر مستقبل میں کیا ہو گا، کوئی نہیں جانتا۔

متعلقہ مضامین

  • 27 ویں ترمیم: اتنی جھنجھناہٹ کیوں
  • امریکہ سے پاکستان تک سب بھارت کو یاد دلاتے رہیں گے کہ جنگ میں 7 جہاز گرے تھے، بلاول بھٹو
  • واویلا کیوں؟
  • عرب ممالک بھی ''فلسطینی ریاست کا قیام'' نہیں چاہتے، نیا اسرائیلی دعوی
  • ہر آنے والی سیریز کو ورلڈ کپ کی تیاریوں کا حصہ سمجھ کر کھیلا جائے گا: سلمان علی آغا
  • خاندان کا ادارہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار کیوں؟
  • وقت پر اسلحہ کیوں نہیں ملتا؟ بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف نے شکایتوں کے انبار لگا دیے
  • بھارت پر لگے امریکی ٹیرف
  • یہ اسرائیلوے اورٹرمپوے
  • وقت پر اسلحہ کیوں نہیں ملتا؟ بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف نے شکایتوں کے انبار لگا دیے