سارہ مللی برطانیہ کی پہلی خاتون آرچ بشپ آف کینٹربری مقرر
اشاعت کی تاریخ: 3rd, October 2025 GMT
سارہ مللی کو چرچ آف انگلینڈ اور عالمی اینگلیکن برادری کی سربراہی کے لیے نئے آرچ بشپ آف کینٹربری مقرر کیا گیا، وہ اس منصب پر فائز ہونے والی پہلی خاتون ہیں۔
یہ نامزدگی کنگ چارلس نے منظور کی ہے اور اس کا اعلان وزیراعظم کی جانب سے کیا گیا ہے۔ مللی اب لندن کی بپش ہیں، عہدہ سنبھالنے سے پہلے وہ انگلش نیشنل ہیلتھ سروس (NHS) کی چیف نرسنگ آفیسر رہ چکی ہیں۔
ان کی تعیناتی اُس وقت ہوئی ہے جب چرچ کو اندرونی اختلافات، جنسی زیادتی کے معاملات اور دیگر اسکینڈلز کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مللی نے اپنی پہلی تقریر میں چرچ کی حفاظتی ناکامیوں کو تسلیم کیا اور متاثرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔
مزید پڑھیں: برطانوی تاریخ میں پہلی بار کسی خاتون کے آرچ بشپ آف کینٹربری بننے کا امکان
یہ نامزدگی چرچ کے لیے سنگِ میل تصور کی جا رہی ہے، خصوصاً اس پس منظر میں کہ چرچ نے صنفی مساوات کے معاملے میں قدم بڑھائے ہیں۔ چرچ نے پہلی بار 1994 میں خواتین کو پادری بننے کا حق دیا اور 2015 میں خواتین کو بشپ بننے کی اجازت دی گئی تھی۔
مللی قانونی طور پر جنوری 2026 میں خصوصی تقریب میں اس منصب کو سنبھالیں گی، جبکہ رسمی تقریب ان کی تنصیب کینٹربری کیتھیڈرل میں مارچ 2026 میں ہوگی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آرچ بشپ آرچ بشپ آف کینٹربری چرچ آف انگلینڈ سارہ مللی عالمی اینگلیکن برادری.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: آرچ بشپ آف کینٹربری چرچ آف انگلینڈ سارہ مللی آرچ بشپ آف کینٹربری
پڑھیں:
برطانیہ میں پناہ گزینوں کی پالیسی میں تبدیلی؛ مستقل رہائش کے لئے انتظار کی مدت 20 سال کردی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لندن: برطانیہ نے پناہ گزینوں کے لیے پالیسی میں اہم تبدیلی کی ہے جس کے تحت پناہ گزینوں کا درجہ عارضی کیا جائے گا اور مستقل رہائش کے حصول کے لیے انتظار کی مدت کو چار گنا بڑھا کر 20 سال کر دیا جائے گا۔
میڈیاذرائع کی رپورٹ کے مطابق حکومت اپنی امیگریشن پالیسیوں کو سخت کر رہی ہے، خاص طور پر فرانس سے چھوٹی کشتیوں کے ذریعے غیر قانونی طور پر آنے والوں کے خلاف، تاکہ ریفارم یوکے جیسی مقبول جماعت کی بڑھتی ہوئی پذیرائی کو روک سکے، جو امیگریشن کے بیانیے کی قیادت کر رہی ہے۔
برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ڈنمارک کے طریقۂ کار سے رہنمائی لے رہی ہے — جو یورپ میں سخت ترین پالیسیوں میں شمار ہوتا ہے — جہاں کئی ممالک میں تارکین وطن مخالف جذبات بڑھنے سے پابندیاں مزید سخت ہوئی ہیں، جس پر حقوقِ انسانی کے گروہوں نے سخت تنقید کی ہے۔
برطانوی وزارت داخلہ نے ہفتہ کی شب جاری کردہ بیان میں کہا کہ تبدیلیوں کے حصے کے طور پر کچھ پناہ گزینوں کو معاونت فراہم کرنے کی قانونی ذمہ داری — جس میں رہائش اور ہفتہ وار الاؤنس شامل ہیں — ختم کر دی جائے گی۔
وزیر داخلہ کی سربراہی میں چلنے والے محکمے نے کہا کہ یہ اقدامات اُن پناہ گزینوں پر لاگو ہوں گے جو کام کر سکتے ہیں مگر کرتے نہیں، اور ان پر بھی جنہوں نے قانون توڑا ہو۔ وزارت نے کہا کہ ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے فراہم کی جانے والی مدد اُن افراد کو ترجیحی بنیادوں پر دی جائے گی جو معیشت اور مقامی کمیونیٹیز میں کردار ادا کرتے ہیں۔ پناہ گزینوں کو تحفظ اب “عارضی ہوگا، باقاعدگی سے اس کا جائزہ لیا جائے گا، اور اگر اُن کا وطن محفوظ قرار پایا تو درجہ منسوخ کر دیا جائے گا۔”
وزیر داخلہ نے اتوار کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا، “ہمارا نظام دیگر یورپی ممالک کے مقابلے میں خاصا فراخدل ہے، جہاں پانچ سال بعد آپ کو مؤثر طور پر خودکار طور پر مستقل رہائش مل جاتی ہے۔ ہم اس میں تبدیلی لائیں گے۔