ہندوتوا بیرون ملک پنجے گاڑ رہی ہے!
اشاعت کی تاریخ: 18th, November 2025 GMT
ریاض احمدچودھری
بھارت کی ہندو انتہاپسند تنظیم راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ عالمی سطح پر ہندو انتہا پسندی کی تشہیر کررہی ہے جس سے بھارت کا نام نہاد سیکولر چہرہ بین الاقوامی سطح پربے نقاب ہورہا ہے۔ فسطائی مودی کی سرپرستی میں راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ (آر ایس ایس )عالمی سطح پر انتہا پسندہندوتوا نظریے کے فروغ کیلئے سرگرم ہے۔فسطائی مودی اور آر ایس ایس ریاستی طاقت کے ناجائز استعمال سے اقلیتوں کے حقوق پامال کرنے میں مصروف عمل ہے۔ امریکی جریدے” پریزم” کی تحقیقات کے مطابق آر ایس ایس نے ایک امریکی لا ء فرم کے ذریعے امریکی کانگریس پر اثر ڈالنے کیلئے لابنگ شروع کر دی ہے۔ آرایس ایس بیرون ممالک بالخصوص امریکہ میں لابنگ کیلئے خطیر رقم خرچ کر چکی ہے۔ آر ایس ایس امریکہ میں فارن ایجنٹس رجسٹریشن ایکٹ کے بغیر لابنگ کرا رہی ہے۔ ایک امریکی صحافی نے انکشاف کیا کہ آر ایس ایس نے خلاف ورزی کرتے ہوئے خود کو غیر ملکی ادارے کے طور پر درج کیے بغیر لابنگ کی۔ معروف امریکی صحافی ڈاکٹر آڈری ٹرشکے کے مطابق آر ایس ایس کی لابنگ امریکہ کے لیے بری خبر اور امریکی قوانین کے تحت غیر قانونی ہے۔ماہرین کے مطابق آر ایس ایس کی امریکہ میں سرگرمیاں عالمی سطح پر فسطائی تشخص کو بدلنے کی کوشش ہیں۔انتہا پسند مودی حکومت مسلسل ہندو توا ایجنڈے پر عمل پیرا ہے جوبھارت میں مذہبی آزادی کیلئے سنگین خطرہ بن چکی ہے۔پریزم کی رپورٹ کے مطابق مودی سرکار کی سرپرستی میں یہ تنظیم نہ صرف بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر تشدد کی تاریخ رکھتی ہے بلکہ عالمی سطح پر اپنی فاشسٹ شناخت کو تبدیل کرنے کے لیے بھی سرگرم ہے۔ آر ایس ایس کی بیرون ملک سرگرمیاں ہندوتوا ایجنڈے کو عالمی سطح پر مضبوط کرنے اور بھارت کے اندر مذہبی آزادی کے لیے مزید سنگین خطرات پیدا کرنے کی کوشش ہیں۔
عالمی سطح پر ہندو انتہا پسندی کے فروغ نے بھارت کے نام نہاد سیکولر تشخص کو بری طرح بے نقاب کر دیا۔سفاک مودی حکومت کی سرپرستی میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (RSS) دنیا بھر میں ہندوتوا نظریے کے فروغ اور اقلیتوں کے حقوق کو پامال کرنے میں مصروف ہے۔چند ماہ قبل برطانوی شہر لیسٹرمیں ہونیوالے فسادات نے ثابت کر دیا ہے کہ ہندوتوا انتہا پسندی بیرون ممالک بھی اپنے زہریلے پنجے گاڑرہی ہے۔ہندو توا والوں کی کھلی غنڈہ گردی ،، تشدد، مار دھاڑ پر برطانیہ نے اب تک کوئی ٹھوس ردعمل ظاہر نہیںکیاہے۔ برطانیہ نے دنیا بھر میں انتہا پسندی کی مذمت کی لیکن بی جے پیـآر ایس ایس کی طرف سے پھیلانے جانے والے تشدد پر وہ خاموش ہے۔ برطانیہ نے پہلے ہندو انتہا پسندو کو پناہ دی جنہوں نے بعد میں لیسٹر میں تباہی مچا دی۔ برطانیہ نے خطرے کو نظر انداز کیا۔لیسٹر فسادات ہندو توا جارحیت کا نمونہ تھا۔ برطانیہ کو یاد رکھنا چاہیے کہ انتہا پسندی پروان چڑھتی ہے تو جمہوریت کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
بھارت دہشت گردی کا واویلا کرتے نہیںتھکتالیکن اس نے لیسٹر میںکھلی دہشت گردی کرائی ، کینیڈا میں آزادی پسند سکھ رہنما کا قتل بھارتی دہشت گردی کا ایک واضح ثبوت ہے۔ بھارت پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے یہاں بڑے پیمانے پر دہشت گردی کرا رہا ہے۔بی جے پی آرایس ایس جس طرح ملک میں اقلیتوں خاص طورپرمسلمانوں کونشانہ بنارہی ہیںاب وہ بیروں ممالک بھی مسلمانوں، سکھوںکو نشانہ بنارہی ہیں۔ لیسٹرمیں دوڈھائی برس قبل جوکچھ ہوا اورہند و تواغنڈوں نے جس وحشیانہ طریقے سے مسلمانوں کونشانہ بنایاوہ بی جے پی اور آرایس ایس کی نفرت انگیز پالیسیوں کاشاخسانہ ہے۔ اگر برطانوی حکومت نے ہندو تواغنڈہ کو نظر اندازکیاتو مستقبل میں اسکے بھیانک نتائج نکلیں گے۔اس وقت ہندوتوا صرف بھارت کا مسئلہ نہیں بلکہ عالمی مسئلہ بن چکاہے۔ بیرون ممالک بی جے پیـآر ایس ایس کی غنڈہ گردی کو برداشت کرنے کا مطلب ایک بڑی تباہی کو دعوت دینا ہے۔
برطانوی پولیس کی ایک رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ برطانیہ میں موجود ہندوانتہا پسند مسلمانوں کے تئیں اپنی نفرٹ کی وجہ سے انتہائی دائیں بازو کے گروہوں کے ساتھ اتحاد بنا رہے ہیں۔رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہندو انتہا پسند برطانیہ میں تارکین وطن بھارتیوں کو یہ ہدایات بھی دے رہے ہیں کہ کس پارٹی کو ووٹ دینا ہے اور کس کو نہیں۔نیشنل پولیس چیفس کونسل (این پی سی سی) کی طرف سے مرتب کردہ خفیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندو انتہا پسندی جسے ہندوتوا کہا جاتا ہے کی وجہ سے مسلمانوں، سکھوں اوردیگر مذہبی گروہوں کے ہندو?ں کے ساتھ تعلقات خراب ہوسکتے ہیں۔رٹگرز کی رپورٹ میں جائزہ لیا گیا ہے کہ کس طرح امریکہ میں ہندوتوا گروپس، ہندو قوم پرستی اور اسلاموفوبیا کو فروغ دیتے ہیں، تاریخ کو سفید کرنے کی کوشش کرتے ہیں، شہری حقوق کی مخالفت کرتے ہیں، ذات پات کے استحقاق کو تحفظ دیتے ہیں، تنقید کو "ہندوفوبیا” کے طور پر پیش کرتے ہیں، امریکی ثقافتی جنگوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں، سیاستدانوں پر لابنگ کرتے ہیں اور امریکی خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
٭٭٭
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: ہندو انتہا پسند آر ایس ایس کی عالمی سطح پر انتہا پسندی امریکہ میں برطانیہ نے رپورٹ میں کے مطابق کرتے ہیں کے لیے
پڑھیں:
وینزویلا میں فوجی کارروائی کرنے کیلئے اپنا فیصلہ کرچکا ہوں، ٹرمپ
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اشارہ دیا ہے کہ اس ہفتے کئی اعلیٰ سطح کی بریفنگز اور خطے میں امریکی فوجی قوت کی بڑھتی ہوئی موجودگی کے بعد انہوں نے وینزویلا میں ممکنہ کارروائی کے لیے فیصلہ لے چکا ہوں۔
سی این این کی رپورٹ کے مطابق 4 ذرائع نے بتایا کہ حکام نے اس ہفتے صدر ٹرمپ کو وینزویلا میں ممکنہ فوجی کارروائیوں کے آپشنز کے بارے میں بریف کیا ہے، جب کہ وہ یہ اندازہ لگا رہے ہیں کہ صدر نکولس مادورو کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے کسی مہم کی ابتدا کے کیا فوائد اور خطرات ہیں۔
اس دوران، امریکی فوج نے خطے میں ایک درجن سے زائد جنگی جہاز اور 15 ہزار فوجی اہلکار تعینات کر دیے ہیں، جسے پینٹاگون نے ’آپریشن سدرن اسپئیر‘ کا نام دیا ہے۔
جمعہ کو صدر ٹرمپ نے اشارہ دیا کہ وہ غیر قانونی مہاجرین اور منشیات کے بہاؤ کو کم کرنے کی کوششوں اور رجیم چینج کے امکان پر آگے بڑھنے کے راستے کے قریب ہیں۔
ٹرمپ نے ایئر فورس ون میں صحافیوں سے کہا کہ میں نے کچھ حد تک فیصلہ کر لیا ہے، ہاں، میں یہ نہیں بتا سکتا کہ یہ کیا ہوگا، لیکن میں نے کچھ حد تک فیصلہ کر لیا ہے۔
ٹرمپ کو کس بارے میں بریف کیا گیا؟
سیکریٹری دفاع پیٹ ہیگسیتھ اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل ڈین کیئن نے بدھ کے روز صدر کو بریف کیا تھا، جب کہ قومی سلامتی کے بڑے گروپ (جس میں سیکریٹری اسٹیٹ مارکو روبیو اور دیگر اعلیٰ حکام شامل تھے) نے جمعرات کو صدر سے سیچویشن روم میں ملاقات کی تھی۔
دونوں اجلاسوں میں ٹرمپ اور ان کی ٹیم نے ہدف کے آپشنز کا جائزہ لیا۔
صدر کو وینزویلا کے لیے مختلف آپشنز پیش کیے گئے، جن میں فوجی یا حکومتی تنصیبات پر فضائی حملے اور منشیات کی اسمگلنگ کے راستوں پر کارروائی، یا مادورو کو براہ راست ہٹانے کی کوشش شامل ہے، پہلے رپورٹس کے مطابق صدر وینزویلا میں کوکین پیداوار کی سہولیات اور منشیات کے راستے نشانہ بنانے پر غور کر رہے تھے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کوئی کارروائی نہ کریں۔
ٹرمپ نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ انہوں نے سی آئی اے کو ملک میں آپریشن کی اجازت دی تھی، لیکن انتظامیہ کے اہلکاروں نے قانون سازوں کو بتایا کہ امریکی حملوں کے لیے قانونی جواز موجود نہیں، اگرچہ ممکن ہے کہ بعد میں یہ امکان پیدا کیا جا سکے، حالاں کہ ٹرمپ نے حال ہی میں ’سی بی ایس‘ کے پروگرام ’سکسٹی منٹس‘ میں کہا تھا کہ وہ وینزویلا میں فضائی حملوں پر غور نہیں کر رہے، حالاں کہ پہلے وہ اس خیال کے حق میں نظر آ رہے تھے۔
ماہرین کے مطابق ملاقاتوں میں صدر نے ناکامی یا امریکی فوجی اہلکاروں کے خطرے کے امکانات کے پیش نظر کارروائی کے احکامات دینے میں احتیاط کا مظاہرہ کیا۔
خطے میں دستیاب فوجی وسائل
حالیہ ہفتوں میں امریکی بحریہ نے کیریبین میں اپنی فوجی قوت جمع کی ہے، جب کہ ٹرمپ انتظامیہ نے منشیات کی اسمگلنگ کرنے والے کم از کم 20 جہازوں پر حملے کیے، جس کا مقصد امریکی حکام کے مطابق منشیات کے بہاؤ کو روکنا ہے۔
دنیا کا سب سے بڑا ایئرکرافٹ کیریئر یو ایس ایس جیرالڈ آر فولڈ اس ہفتے خطے میں پہنچ گیا تھا، ایئرکرافٹ کیریئر کے علاوہ، امریکی فوج نے تقریباً 15 ہزار فوجی اہلکار تعینات کیے ہیں۔
اس کے علاوہ ایک درجن سے زائد جنگی جہاز، بشمول کروزر، ڈیسٹروئرز، ایئر اور میزائل دفاعی کمانڈ شپ، ایمفیبیئن حملہ آور جہاز، اور ایک حملہ آور سب میرین۔ اس کے علاوہ 10عدد ایف-35 فائٹر جیٹس پورٹو ریکو بھیج دیے گئے ہیں، جو کیریبین میں امریکی فوج کے بڑھتے ہوئے فوکس کا مرکز بن گیا ہے۔
ماہرین اس سطح کی فوجی تیاری کو اہم اور غیر معمولی قرار دیتے ہیں۔
سینئر ایسوسی ایٹ سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز ایریک فارنس ورتھ نے کہا کہ میں اس پیمانے اور رفتار سے حیران ہوں، اور یہ بے مثال ہے، یہ اس صدی کی سب سے اہم فوجی تیاری ہے، حقیقت میں 1989 میں امریکا کی پاناما پر انٹری تک جانے کی ضرورت ہے کہ اس کے مترادف کچھ ہو۔
وینزویلا نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ فوجی اہلکاروں، ہتھیاروں اور سازوسامان کی بڑی تعیناتی کر رہا ہے۔
ممکنہ خطرات اور فوائد
وینزویلا میں رجیم چینج کے لیے امریکا کی سنجیدہ وابستگی ضروری ہوگی اور یہ اعلیٰ خطرہ رکھتی ہے، لیکن صدر مادورو کو ہٹانے سے ٹرمپ اور ان کی ٹیم کو وہ کریڈٹ مل سکتا ہے جو متعدد امریکی انتظامیہ میں سے کوئی حاصل نہیں کرسکا۔
اپنے پہلے دور میں، ٹرمپ نے وینزویلا کے اپوزیشن لیڈر جوان گوائیڈو کو ملک کا جائز رہنما تسلیم کیا تھا، لیکن 2019 میں ناکام بغاوت کے بعد گوائیڈو اقتدار حاصل نہیں کر سکے۔
اگر ٹرمپ مادورو کو ہٹاتے ہیں تو وہ بڑے فوائد کا دعویٰ کر سکتے ہیں کہ طاقتور شخص کو ہٹاکر اور منتخب رہنما کو اقتدار میں لے آئے ہیں، منشیات اور مہاجرین کے بہاؤ پر تعاون، اور ممکنہ تیل کے معاہدے جیسے فوائد سمیٹ سکتے ہیں۔
لیکن ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر ٹرمپ نے مادورو کو ہٹانے کے لیے وینزویلا میں حملوں کے احکامات دیے تو امریکی صدر کو اپوزیشن کے ٹوٹے ہوئے عناصر اور بغاوت کے لیے تیار فوج کے ساتھ سنگین چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
جمعہ کو کراکس سے مادورو نے خبردار کیا تھا کہ امریکی فوجی مداخلت ایک اور غزہ، نیا افغانستان یا دوبارہ ویتنام کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔
انہوں نے امریکی عوام کے لیے براہ راست پیغام دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان لوگوں کے پاگل ہاتھ کو روکو جو بمباری، قتل اور جنوبی امریکا اور کیریبین میں جنگ لا رہے ہیں، جنگ بند کرو جنگ نہیں چاہیے۔
امریکی فوجی مداخلت کی توسیع اس سیاسی اتحاد کو بھی خطرے میں ڈال سکتی ہے جس نے ٹرمپ کو وعدوں پر ووٹ دیا تھا کہ امریکا کو بیرونی جنگوں میں نہیں داخل کیا جائے گا، نائب صدر جے ڈی وینس اور ہیگسیتھ نے عراق جنگ میں خدمات انجام دی ہیں اور بعد میں غیر ملکی تنازعات میں امریکی مداخلت پر شکوک کا اظہار کیا تھا۔
ایک کانگریسی اہلکار نے کہا کہ امریکی عوام نے ٹرمپ کو اس لیے ووٹ نہیں دیا کہ وہ امریکا کو لاطینی امریکا میں مسلسل تنازع میں کھینچے، اپوزیشن کے لیے طویل مدتی حمایت کے لیے ٹرمپ کی وابستگی حاصل کرنا ایک چیلنج ہوگا، اور اس حمایت کے بغیر یہ کام نہیں کرے گا۔