قال اللہ تعالیٰ و قال رسول اللہ ﷺ
اشاعت کی تاریخ: 3rd, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اور ان سے کہہ دیا جائے گا کہ ’’آج ہم بھی اْسی طرح تمہیں بھلائے دیتے ہیں جس طرح تم اِس دن کی ملاقات کو بھول گئے تھے تمہارا ٹھکانا اب دوزخ ہے اور کوئی تمہاری مدد کرنے والا نہیں ہے۔ یہ تمہارا انجام اس لیے ہوا ہے کہ تم نے اللہ کی آیات کا مذاق بنا لیا تھا اور تمہیں دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال دیا تھا لہٰذا آج نہ یہ لوگ دوزخ سے نکالے جائیں گے اور نہ ان سے کہا جائے گا کہ معافی مانگ کر اپنے رب کو راضی کرو‘‘۔ پس تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو زمین اور آسمانوں کا مالک اور سارے جہان والوں کا پروردگار ہے۔ زمین اور آسمانوں میں بڑائی اْسی کے لیے ہے اور وہی زبردست اور دانا ہے۔(سورۃ الجاثۃ:34تا37)
ایک مرتبہ کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے اور فرمایا: ’’کیا میں تمہیں بتاؤں کہ تم میں سے اچھے کون ہیں اور برے کون ہیں؟‘‘ لوگ خاموش رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے تین مرتبہ یہی فرمایا تو ایک شخص نے عرض کیا: ’’کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول! بتلائیے!‘‘ آپؐ نے فرمایا:’’تم میں بہتر لوگ وہ ہیں جن سے لوگ خیر کی امید رکھیں اور شر سے محفوظ رہیں، اور تم میں برے لوگ وہ ہیں جن سے لوگ خیر کی امید تو رکھیں مگر شر سے محفوظ نہ ہوں‘‘۔ (ترمذی، مسند احمد)
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
نظام بدلنا ہوگا۔
نظام بدلنا ہوگا۔ WhatsAppFacebookTwitter 0 19 November, 2025 سب نیوز
تحریر۔۔۔اویس۔۔۔انقلابی۔۔۔
شخصیات کتنی بھی اچھی،،کامل،،اور طاقتور کیوں نہ ہو دنیا کے کسی دستور ،،کسی قانون میں نظام شخصیات کے تابع نہیں ہوتے
بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مدبر،،مفکر،،اعلی و ارفع ،،طاقتور،،کامل و مکمل شخصیت نہ ہی نظام کائنات میں کوئی آئی ہے اور نہ آئے گی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں آپکی ریاست مدینہ کے اندر بنو مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی
رائج الوقت قانون کے تحت عورت کے ہاتھ کاٹے جانے کا حکم صادر ہوا دربار رسالت میں وفد آیا اور کہنے لگا معزز قبیلے کی عورت ہے کوئی گنجائش اگر نکل سکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تاریخی جملہ کہا جو قیامت تک کے لیے ایک مثال بن گیا آپ نے فرمایا اگر اس فاطمہ کی جگہ فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو اس نظام اور قانون سے اسکے لیے بھی یہی حکم صادر ہوتا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بڑے بڑے صحابہ کرام خود پر ضبط نہ رکھ سکے اور غم سے نڈھال ہو گئے زار و قطار رونے لگے کیونکہ صدمہ ہی ایسا تھا
حقائق جاننے کے باوجود حضرت عمر فاروق جیسے عظیم صحابی بھی کہنے لگے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حیات ہیں
جو یہ کہے گا کہ حضور رخصت ہو گئے میں اسکی گردن کاٹوں گا
حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسیٰ کی طرح اللہ سے ملاقات کے لیے گئے ہیں واپس آ جائیں گے
لیکن اللہ پاک نے اس کڑے اور غمگین ترین وقت میں بھی حضرت ابو بکر صدیق کو حوصلہ حکمت و دانائی عطاء کی
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک اونچے ٹیلے پر کھڑے ہو کر خطاب کیا اور کہا سنو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نبی اللہ کے پاس چلے گئے ہیں انکا وصال ہو چکا ہے بقاء صرف رب کو ہے باقی ہم سب پر فناء ہے رب تعالیٰ کے رائج نظام کو چلنا ہے اور قیامت تک چلتے رہنا ہے بہتری اور مضبوطی اسی میں ہے کہ حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بنائے ہوئے نظام اور دئیے ہوئے دین پر عمل کرو
قارئین محترم اتنی لمبی تمہید باندھنے اور اسلامی ٹچ دینے کا مقصد یہ ہے کہ مندرجہ بالا ذکر شخصیات میں بھی بات نظام کی تقویت کی ہوئی ،،مضبوط ترین شخصیات میں بھی ترجیح نظام ہی رہا ہے شخصیات نہیں،
اقتدار کی روح نظام کی شفافیت اور مضبوطی سے ہے
جب طاقتور اور کمزور دونوں کے لیے نظام یکساں ہو گا تو افراد بھی مضبوط ہوں گے ،،ملک بھی مضبوط ہو گا ،،جمہوریت اور اقتدار بھی مضبوط ہو گا
بہت دکھ کے ساتھ یہ تحریر کر رہا ہوں کے آج ہی پاکستان پاپولیشن کونسل کی ایک رپورٹ پڑھی ہے جس میں ریاست پاکستان کے بیس کمزور ترین اضلاع کا ذکر تھا
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انتظامی لحاظ سے،،انفسٹرکچر کے لحاظ سے،،تعلیم و صحت کے لحاظ سے،، پاکستان کے بیس اضلاع سر فہرست ہیں جن میں تین اضلاع خیبرپختونخوا کے ہیں
جبکہ سترہ اضلاع کا تعلق بلوچستان سے ہے یہ پڑھتے ہی بلوچستان کے حالات ،،بی ایل اے کی کاروائیاں،،سوئی گیس سمیت نایاب معدنیات کے ذخائر ،،قبائلوں کی بغاوت،،بیرونی قوتوں کی مداخلت،، کا سارا نقشہ میرے سامنے آ گیا،،پھر میرے ذہن میں یہ معمہ بھی حل ہونے لگا کہ نواب اکبر بگٹی جس نے مختلف قبائل سے مخالفت مول لے کر پاکستان کو تسلیم کیا تھا وہ کیوں مزاحمت کی راہ پر چل پڑا،،وزیر اعلی بلوچستان سمیت صوبے کی انتہائی اہم پوزیشنوں پر رہنے والا شخص کیوں اور کیسے باغی ہوا
قارئین محترم جب بنگلہ دیش الگ ہوا تو اس سے دس سال پہلے ایک گراؤنڈ سیٹ ہوا جس کی بنیاد نفرت تھی جب بنگالیوں نے یہ اعتراض کیا کہ بنگال میں پیداء ہونے والی کپاس سے اسلام آباد اور کراچی کی سڑکیں بن رہی ہیں حالانکہ اس پر حق بنگالیوں کا ہے تو اس وقت کے مقتدر حلقوں نے نظام کی بہتری کے بجائے سسٹم میں موجود شخصیات کو مضبوط کرنے کی کوشش کی محبت سے بات سننے کے بجائے نفرت سے نفرت کو کچلنے کی کوشش کی جو بےسود ثابت ہوئی
میں نہ بغاوت کا حامی ہوں،،نہ ہی بی ایل اے یا دیگر نفرت پھیلانے والے گروہوں کا سپورٹر ہوں مگر شخصیات پرستی کے بجائے حقائق کی دنیا میں سچ تسلیم کرنے اور جمہوری رویوں کے فروغ کا حامی ہوں میں ڈائلاگ پر یقین رکھتا ہوں اور گفت و شنید کا حامی ہوں
میں اس بات کا حامی ہوں کہ کہ چاروں صوبے وفاق کی اکائیاں ہیں تو سب یکساں سلوک کے مستحق ہیں میں اس سوال کا حامی ہوں کہ اگر چاغی ریکوڈک دنیا کے پانچویں بڑے معدنیاتی ذخائر کا مرکز ہے ہے تو پھر بلوچستان اتنا پسماندہ کیوں ہے
اگر مسلہء وسائل کی کمی ہے تو پنجاب اور سندھ میں بھی پسماندہ ضلعے ہوتے مگر ایسا نہیں ہے مسلہء وسائل کی کمی کا نہیں بلکہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور اچھے برے تصوراتی معیار کا ہے ملک کی بہتری کا ایک ہی راستہ ہے کہ نفرتوں کو کچلا جائے اور محبتوں کو فروغ دیا جائے
ہم لکھنے ،،بولنے،،اور سننے والے،،اگر سب خاموشی ہی اختیار کریں گے اور ان مسائل کو ڈسکس ہی نہیں کریں گے جو ذرا سی توجہ پر حل طلب ہیں جو ایک شفقت بھرے دلاسے کی مار ہیں
اگر ایسے مسائل کو طاقت کی زور آزمائی پر چھوڑ دیں گے
تو میرا نہیں خیال
کہ ان مسائل کا کوئی سدباب ہو سکے
مسائل کے مکمل خاتمے کے لیے وسائل کی منصفانہ تقسیم ضروری ہے پاکستان پاپولیشن کونسل کی رپورٹ واضح کر رہی ہے کہ بلوچستان میں وسائل کی تقسیم شدید امتیازی سلوک کا شکار ہے
میں ماہ رنگ بلوچ اور بی ایل اے جیسے کرداروں کا سخت ناقد ہوں
مگر میرے قلم کی روشنائی اس بات کی بھی متقاضی ہے کہ میں حقائق کے روشنی میں قلم کی نوک سے کسی جائز سوال کو بھی جنم دے سکوں میں ارباب اختیار اور ریاست کے ہر باشعور شہری سے یہ عاجزانہ اپیل کروں گا کہ ریاست کی بہتری اور نظام کی مضبوطی کے لیے شخصیات کے بجائے نظام کی طرف توجہ دی جائے نظام کی تبدیلی کے لیے جد وجہد کی جائے ہم ہمیشہ سے سسٹم کے ذریعے شخصیات اور افراد کو جنم دیتے آئے ہیں جنہوں نے نفرت اور کھوکھلے نعروں کے سواء ہمیں کچھ نہ دیا اب کوشش کریں کہ ایک بہتر ،،فعال،،طاقتور اور مضبوط نظام کو جنم دیں تاکہ اسلام آباد ،،کراچی،،پشاور اور لاہور کے باسیوں کو اگر 1 کلومیٹر کی مسافت پر علاج معالجے کے لیے ایک بہترین ہسپتال میسر ہے تو ،،حضدار اور قلعہ سیف اللہ میں بھی عوام کو کم سے کم بیس ،،تیس،، کلو میٹر پر ایک بی ایچ یو لازماً میسر ہونا چاہیے
یہ تب ہو گا جب نظام بدلے گا سو آج سے تہیہ کر لیں کے پارٹی کوئی بھی ہو شخصیت کوئی بھی ہو میری جد وجہد صرف نظام کی تبدیلی کے لیے ہو گی۔۔۔۔۔۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراسحاق ڈار کی قطری وزیراعظم سے غیر رسمی ملاقات، دو طرفہ تعلقات پر گفتگو صدارتی استثنیٰ: اختیار اور جواب دہی کے درمیان نازک توازن ایوب خان ۔۔۔ کمانڈر ان چیف سے وزیرِاعظم اور صدرِپاکستان تک ستائیسویں آئینی ترامیم۔ مجسٹریٹی نظام کی واپسی ،بیورو کریسی کو مزید طاقتور بنانے کا منصوبہ۔ بھارتی سازش 1947 نومبر 6 مسلمانوں کا جموں میں قتل عام “ژالہ باری کی سرد چپ” میرا لاہور ایسا تو نہ تھاCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم