نئی دہلی (انٹرنیشنل ڈیسک)میں ایک 13 سالہ لڑکی کی موت نے تنازع کھڑا کر دیا ہے۔ لڑکی کے اہلخانہ نے الزام لگایا ہے کہ سکول میں 100 مرتبہ اٹھنے بیٹھنے کی سزا کے بعد اس کی صحت بگڑ گئی۔

ٹیچر نے سکول دیر سے آنے والے طلبا کو مبینہ طور پر 100 مرتبہ اٹھنے بیٹھنے کی سزا دی تھی اور یہ سزا پانے والے طالب علموں میں سے ایک 13 سالہ لڑکی کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی۔

لڑکی کی موت سنیچر کی رات (15 نومبر) کو ممبئی کے جے جے ہسپتال میں دورانِ علاج ہوئی۔

ہلاک ہونے والی طالبہ کی شناخت کاجل (انشیکا) گاؤڈ کے نام سے ہوئی جو وسائی کے ایک سکول میں چھٹی کلاس میں پڑھتی تھیں۔ 8 نومبر کی صبح کچھ طالب علم دیر سے سکول آئے تو ان میں مبینہ طور پر کاجل نامی طالبہ بھی شامل تھیں۔

ٹیچر نے دیر سے آنے والوں طلبا کو 100 مرتبہ اٹھنے بیٹھنے کی سزا دی اور کچھ طلبا نے اپنے بیگ کندھوں پر اٹھاتے ہوئے ایسا کیا۔

سکول سے گھر واپس آنے کے بعد کاجل کی طبیعت بگڑ گئی۔ کاجل کو پہلے علاج کے لیے فوری طور پر وسائی کے آستھا ہسپتال میں داخل کروایا گیا۔ اس کے بعد انھیں ایک دوسرے ہسپتال منتقل کر دیا گیا تاہم حالت مزید بگڑنے پر انھیں ممبئی کے جے جے ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں ان کی موت ہو گئی۔

وسائی پولیس کے سینیئر انسپیکٹر دلیپ گھُگے نےبرطانوی خبررساں ادارے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’8 نومبر کو اس سکول کے کچھ طالبعلم تاخیر سے سکول پہنچے۔ کل 50 کے قریب طالبات تھیں۔ کاجل کے والدین نے شکایت کی ہے کہ اساتذہ نے تاخیر سے آنے والی طالبات کو 100 بار اٹھنے بیٹھنے پر مجبور کیا۔‘

’جب یہ بچی گھر گئی تو اس کی ٹانگوں میں درد ہو رہا تھا۔ اسے وہاں کے ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ اس کے بعد اسے 10 تاریخ کو جے جے ہسپتال میں داخل کرایا گیا اور دوران علاج اس کی موت ہو گئی۔‘

پولیس کے مطابق ’والدین نے شکایت کی ہے کہ ان کی بیٹی کی موت اس وجہ سے ہوئی۔ ہم اس سلسلے میں سکول سے تحقیقات کر رہے ہیں۔‘

فی الحال پولیس نے اس معاملے میں اے ڈی آر (حادثاتی موت کی رپورٹ) درج کی ہے تاہم یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کا انتظار کر رہے ہیں۔

پولیس نے یہ بھی بتایا کہ میڈیکل رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ بچی کا ہیموگلوبین چار تھا جو انتہائی کم ہے۔

پالگھر کے ایجوکیشن آفیسر (پرائمری) سونالی ماٹیکر نےبرطانوی خبررساں ادارے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’طلبہ کو اس طرح سزا دینا غلط ہے۔ یہ حق تعلیم کے قانون کی خلاف ورزی ہے۔ بچوں کو اس طرح کی سزا نہیں دی جا سکتی۔ میں موت کی وجہ تو نہیں بتا سکتا لیکن ہم نے سکول کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔‘

محکمہ تعلیم کے حکام نے کہا ہے کہ حق تعلیم ایکٹ کی خلاف ورزی پر سکول کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور سزا دینے والے استاد کے خلاف بھی فوری کارروائی کی جائے گی۔

محکمہ تعلیم کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق 8 نومبر کو اس سکول کے ایک ٹیچر نے کچھ طلبہ کو تاخیر سے آنے پر سزا دی تھی۔

ان میں سے ایک لڑکی کو اس کے والدین نے ہسپتال میں داخل کرایا تھا اور بعد میں 15 نومبر کو اس کی موت ہو گئی تاہم محکمہ تعلیم کا کہنا ہے کہ موت کی وجہ تاحال واضح نہیں۔

برطانوی خبررساں ادارے نے سکول سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ابھی تک ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: ہسپتال میں داخل کی سزا ہو گئی کے بعد کی موت

پڑھیں:

سندھ کی تقسیم کا معاملہ ایک بار پھر سر اٹھانے لگا، ایم کیو ایم کیا چاہتی ہے؟

سندھ کی تقسیم کا معاملہ پاکستان کی سیاست میں ایک حساس موضوع رہا ہے جو اب ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ کوئی کیک نہیں جو بانٹ دیا جائے، پیپلز پارٹی کا مصطفیٰ کمال کے بیان پر ردعمل

وفاقی وزیر مصطفیٰ کمال نے پیپلز پارٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے  کہ اگرآپ ایم کیو ایم کی بات نہیں سنتے ہیں تو سندھ میں صوبہ بنے گا کیونکہ آپ حالات ایسے بنارہے ہیں اور لوگوں کو محرومیوں کا سامنا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں کے مسائل اور ثقافت میں بڑا فرق ہے۔ ان کے مطابق، شہری علاقوں کے مسائل پر صوبائی حکومت کی جانب سے مناسب توجہ نہیں دی جاتی اور ایک نئے صوبے سے بہتر انتظامی کنٹرول، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور شہری علاقوں کے لوگوں کو زیادہ نمائندگی مل سکے گی۔

سندھ کی تقسیم کی سخت مخالفت صوبے کی بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور سندھی قوم پرست جماعتوں کی طرف سے کی جاتی ہے۔

اس حوالے سے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار رفعت سعید کا کہنا ہے کہ صوبوں کی تقسیم کسی کے حق میں نہیں ہے ویسے تو عام آدمی یا ورکرز کے لیے یہ اچھا لگے گا جیسے قوم پرست نتظیموں نے سندھ کی علیحدگی کے نعرے لگائے تھے۔

مزید پڑھیے: ’دودھ دینے والی گائے، کہیں مر ہی نہ جائے‘: مصطفیٰ کمال کی شہری علاقوں کی محرومیوں‘ پر گفتگو

انہوں نے کہا کہ اس سے سندھ علیحدہ تو نہیں ہوا ایسے ہی مہاجر صوبے کا نعرہ لگا کر شوشا چھوڑ دیا جاتا ہے کچھ لوگوں کو سبز باغ دیکھا دیے جاتے ہیں لیکن عملی طور پر یہ ممکن نہیں اور اگر ہوا ایسا تو حالات بہت خراب ہو سکتے ہیں۔

رفعت سعید کا کہنا ہے کہ اس ملک میں سیاست کی صورت حال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ یہ اتنا آسان کام نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ انتظامی بنیاد پر بھی صوبہ بنانے کو صوبے کی تقسیم سمجھا جاتا ہے اور صوبے کی تقسیم کسی صورت قبول نہیں کی جا رہی سب مرنے مارنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس ملک میں بات چیت کی سیاست نہیں رہی جب مکالمہ ہوا کرتا تھا لیکن اب نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مرزا جواد بیگ ہوا کرتے تھے جنہوں نے کہا تھا کہ انتظامی طور پر پاکستان کے 32 صوبے بنا دو تو کہ مسائل حل ہو سکیں، بات کی جاتی ہے پنجاب کی تو وہاں زبان کی بنیاد پر تقسیم نہیں ہے وہاں بھی بات سب کرتے ہیں لیکن اس وقت عملی طور پر ممکن نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: ایم کیو ایم کی لوکل باڈیز کے حوالے سے مجوزہ ترمیم پر مزید مشاورت کی جائےگی، وزیراعظم

ایم کیو ایم پاکستان کے حوالے سے رفعت سعید کا کہنا تھا کہ 27 ویں آئینی ترمیم میں یہ مطمئن تھے کہ ان کی بات رکھی جائے گی لیکن ان کی باتوں کو جگہ نہ مل سکی، ہو سکتا ہے انہیں 28 ویں ترمیم میں کوئی آسرا دیا جائے۔

رفعت سعید نے کہا کہ ایم کیو ایم کی مجبوری یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ جو بات کہے گی اس کو ماننی ہوگی اور ویسے بھی اب یہ تقسیم ہوچکی ہے اور پہلے جیسی ایم کیو ایم نہیں رہی اور نہ ہی اسے ماضی والی ایم کیو ایم بننے دیا جائے گا۔

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار حمید سومرو نے وی نیوز کو بتایا کہ صوبے کے معاملات 70 کی دہائی میں شروع ہوئے ممتاز علی بھٹو کے دور میں وہ بھی لسانی بنیاد پر اس وقت یہ آواز سامنے آئی کہ شہری علاقوں کو الگ حیثیت دی جائے اس کے بعد پھر ایم کیو ایم سے نقشے بھی برآمد ہوئے اور مطالبات بھی سامنے آئے۔

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم اس معاملے کو مہاجر کارڈ کے طور پر استعمال کرتی ہے اور جیسے پیپلز پارٹی سندھ کارڈ کھیلتی ہے ویسے ایم کیو ایم مہاجر کارڈ کھیلتی ہے کیوں کہ یہ لسانی بنیاد پر تقسیم چاہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: ایم کیو ایم پنجاب کا اجلاس، بلدیاتی انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کا اعلان

ان کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم سیاسی ہمدردیاں حاصل کر رہی ہے اس وقت مسائل حل نہ ہونے کے باعث لوگوں میں احساس محرومی ہے اور یہ اسی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صوبہ بننا اس لیے ممکن نہیں ہے کیوں کہ آئین کے مطابق متعلقہ صوبے کی اسمبلی ایک تہائی اکثریت سے بل پاس کرے گی، اس کے بنا تو ممکن ہی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ صوبائی کارڈ ہے جو ہر صوبے میں مختلف اوقات میں استعمال کیا جاتا ہے لیکن سوائے عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے اس سے حاصل کچھ نہیں ہوگا۔

تاجر رہنما عتیق میر کا کہنا ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سندھ حکومت کی کارکردگی ناقص اور گورننس بدترین ہے جس کی وجہ سے نہ صرف کراچی بلکہ پورے سندھ کی ترقی کو رکی ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی کے تاجر اور عوام کبھی فیلڈ مارشل کو تو کبھی چیف جسٹس آف پاکستان کو پکارتے ہیں اور کراچی کے انتظامی معاملات سمیت دیگر مسائل کے حل کے لیے وزیر اعظم پاکستان سے اپیل کی جاتی ہے۔

مزید پڑھیں: نئے صوبے 3 ٹیلی فون کی مار ہیں، پیپلز پارٹی، ن لیگ اور ایم کیو ایم کو فون کریں اور ترمیم کرالیں، حافظ نعیم

عتیق میر کے مطابق کراچی الگ صوبہ نہ بھی بنائیں لیکن اس کا انتظامی ڈھانچہ سندھ سے الگ ہونا چاہیے تا کہ کراچی کے عوام و تاجر کراچی اور ملک کے لیے مل کر کام کریں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت کراچی کا پورا ڈھانچہ درہم برہم ہے جبکہ میئر کراچی جو پیپلز پارٹی کے ہیں اور ان کا تعلق بھی کراچی سے ہے ان کے بس میں بھی کچھ نہیں ہے۔

عتیق میر نے کہا کہ اگر لفظ صوبہ پیپلز پارٹی کو گراں گزرتا ہے تو صوبہ بھلے نہ بنے لیکن اس کے معاملات الگ ہوں جو صرف اور صرف کراچی کے لیے ہوں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ایم کیو ایم ایم کیو ایم اور مسئلہ کراچی پیپلز پارٹی علیحدگی پسند جماعتیں مسئلہ کراچی

متعلقہ مضامین

  • سندھ کی تقسیم کا معاملہ ایک بار پھر سر اٹھانے لگا، ایم کیو ایم کیا چاہتی ہے؟
  • سرکاری اسکولوں کو 50کمپیوٹرز کی فراہمی گلبرگ ٹائون کا تحفہ ہے ، منعم ظفر خان
  • یوکرین: خارکیف پر روسی حملوں میں ہلاکتیں
  • امریکا میں اعلیٰ تعلیم کے خواہشمند پاکستانی طلبہ کے لیے خوشخبری
  • پاک، ایران سیاسی مشاورت کا تیرھواں دور ،تمام پہلوؤں پر تفصیلی تبادلہ خیال
  • آئی اے ای اے بورڈ آف گورنرز کے اجلاس سے قبل ایرانی و روسی وزرائے خارجہ کی دوسری مرتبہ گفتگو
  • علیمہ خان کے نام موجودجائیداد کی تفصیل عدالت میں پیش، 11ویں مرتبہ ناقابل ضمانت وارنٹ جاری
  • بھارت میں مسلم دشمنی عروج پر
  • وزیر تعلیم آزاد کشمیر دیوان علی چغتائی پیپلز پارٹی میں شامل