حماس نے قیدیوں کی رہائی اور اسرائیلی انخلا بدلے جنگ بندی کی شرط مان لی
اشاعت کی تاریخ: 4th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مقبوضہ بیت المقدس: حماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ 20 نکاتی غزہ امن منصوبے پر اپنا باقاعدہ جواب ثالثی کے ذریعے جمع کرا دیا ہے۔
فلسطینی مزاحمتی تنظیم نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس پیکیج کے کئی اہم نکات بڑی حد تک تسلیم کرتے ہیں بشرطِ یہ کہ اس کے بدلے میں فوری اور مکمل اسرائیلی انخلا اور تمام قیدی رہا کیے جائیں۔
تنظیم کی جانب سے بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ وہ غزہ میں جاری عسکری کارروائیوں کے خاتمے اور محاصرے کے اٹھائے جانے کو اپنی اولین شرط قرار دیتی ہے اور اسی بنیاد پر وہ بین الاقوامی ثالثوں کے ذریعے تفصیلی مذاکرات میں شامل ہونے کو تیار ہے۔
خبر رساں اداروں کے مطابق حماس کا کہنا ہے کہ غزہ کا انتظام ایک آزاد، غیرجانبدار اور ٹیکنوکریٹس پر مشتمل تنظیم کے حوالے کیا جانا چاہیے، جسے قومِ فلسطین کے وسیع اتفاقِ رائے اور عرب و اسلامی حمایت کے ساتھ قائم کیا جائے۔
یہ مطالبہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ حماس چاہتی ہے کہ غزہ کی آئندہ حکمرانی مقامی نمائندوں اور شفاف قومی فورم کے ذریعے مرتب کی جائے، نہ کہ بیرونی یا یکطرفہ منصوبوں کے تحت۔ تنظیم نے زور دیا کہ غزہ کے مستقبل اور فلسطینی حقوق کے مسائل کو بین الاقوامی قوانین اور سابقہ اقوامِ متحدہ قراردادوں کے مطابق ایک جامع قومی ڈھانچے کے تحت حل کیا جائے۔
حماس نے پیکیج کے بعض نکات پر تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے، خاص طور پر برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کے مجوزہ کردار کو قبولیت سے خارج کر دیا گیا ہے۔
مزاحمتی تحریک کے سینئر رہنما موسی ابو مرزوق نے واضح کیا کہ اسرائیلی قبضہ ختم ہوئے بغیر حماس غیرمسلح نہیں ہوگی اور غزہ کے حوالے میں 72 گھنٹے کے اندر کسی طرح کی فوری تبدیلی یا رہائی کا مطالبہ غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ ان رہنماؤں نے کہا کہ حقیقی امن اسی وقت قائم ہوگا جب محاصرے اور جارحیت کا خاتمہ ہو، نہ کہ محض عارضی یا سطحی انتظامی تبدیلیوں سے۔
واضح رہے کہ امریکی صدر نے حماس کو ایک سخت ڈیڈ لائن دی تھی اور خبردار کیا تھا کہ معاہدے کی عدم توثیق کی صورت میں سنگین نتائج بھگتنے ہوں گے۔ حماس کی جانب سے جوابی مراسلہ اور ثالثوں کے ذریعے مذاکرات میں شرکت کا اعلان اس کشیدہ منظرنامے میں ایک مثبت رخ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، بشرطیکہ اس کا پیچھے محض دباؤ یا ایک طرفہ رضامندی نہ ہو بلکہ اس کے بدلے واضح، قابلِ پیمائش اور بین الاقوامی ضمانت یافتہ اقدامات ہوں۔
فلسطینی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو حماس کے فیصلے نے ایک اہم پیغام دیا ہے کہ جنگ بندی اور شہریوں کی حفاظت ان کی اولین ترجیحات ہیں، مگر وہ اس کی قیمت اپنے قومی اصولوں اور حق خود ارادیت کو قربان کرکے ادا کرنا نہیں چاہتے۔
موجودہ پیش رفت اس امید کو جلا دے سکتی ہے کہ اگر ثالثی حقیقی ضمانتوں اور تمام فریقین کی شمولیت کے ساتھ آگے بڑھے تو ایک دیرپا اور قانونی طور پر باضابطہ حل ممکن ہے۔
اب بین الاقوامی برادری، عرب ممالک اور بین الاقوامی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مذاکرات کو شفاف، منصفانہ اور فلسطینی قومی مفاد کے مطابق بنائیں۔ اگر مذاکرات حقیقی قومی نمائندوں اور بین الاقوامی قوانین کی بنیاد پر ہوں تو یہ مرحلہ محصور عوام کے لیے ریلیف اور مستقل امن کی جانب اولین قدم ثابت ہوسکتا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بین الاقوامی کے ذریعے
پڑھیں:
حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے لیے تیار ہے، اسرائیل کا حماس کی جانب سے ٹرمپ کے منصوبے کی جزوی منظوری کے بعد اعلان
اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کے تحت حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے لیے تیار ہے۔ یہ اعلان حماس کی جانب سے معاہدے کو مشروط طور پر قبول کرنے کے چند گھنٹوں بعد سامنے آیا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے دفتر سے ہفتہ کو جاری بیان میں کہا گیا کہ اسرائیل ٹرمپ کے منصوبے کے پہلے مرحلے پر فوری عملدرآمد کے لیے تیار ہے تاکہ تمام یرغمالیوں کی رہائی ممکن بنائی جا سکے۔ ہم صدر اور ان کی ٹیم کے ساتھ مکمل تعاون جاری رکھیں گے تاکہ جنگ کو ان اصولوں کے مطابق ختم کیا جا سکے جو اسرائیل نے طے کیے ہیں اور جو ٹرمپ کے ویژن سے مطابقت رکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: حماس کا ٹرمپ کے غزہ پلان پر جزوی اتفاق، مزید مذاکرات کی ضرورت پر زور
بیان میں ٹرمپ کی اس اپیل کا ذکر نہیں کیا گیا جس میں اسرائیل سے غزہ پر حملے روکنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
ٹرمپ کے منصوبے کے مطابق اسرائیل کو اپنی فوجی کارروائیاں معطل کرتے ہوئے فوجیوں کو طے شدہ لائن تک واپس بلانا ہوگا، جس کے 72 گھنٹوں کے اندر حماس کو باقی تمام یرغمالیوں کو رہا کرنا ہوگا۔ یرغمالیوں کی رہائی کے بعد اسرائیل 250 فلسطینی عمر قید قیدیوں اور 7 اکتوبر 2023 کے بعد گرفتار کیے گئے 1,700 فلسطینیوں کو رہا کرے گا۔
یہ بھی پڑھیے: اسرائیلی بمباری روک دے، حماس امن پر آمادہ ہے، صدر ٹرمپ
منصوبے کے تحت غزہ میں ایک غیرجانبدار اور حماس سے آزاد عبوری حکومت قائم کی جائے گی، جسے غیرانتہاپسند، دہشت گردی سے پاک علاقہ بنایا جائے گا تاکہ وہ اپنے ہمسایوں کے لیے خطرہ نہ بنے۔
جمعہ کی شب حماس نے ایک بیان میں کہا کہ وہ اس فارمولے کے مطابق قیدیوں کے تبادلے کے لیے تیار ہے اور اصولی طور پر غزہ کا انتظام ایک آزاد حکومت کے سپرد کرنے پر آمادہ ہے جو فلسطینی قومی اتفاق رائے، اور عرب و اسلامی حمایت کی بنیاد پر قائم ہو۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں