اللہ تعالیٰ کی یہ بھی سنت ہے کہ اگر وہ کسی ملت کو اپنے پیغام کو انسانوں تک پہنچانے کی ذمے داری سونپے، اس کے لیے انھیں تیار کرے، اسے مواقع اور سہولیات بھی فراہم کرے مگر وہ پھر بھی نہ صرف یہ کہ اس میں تساہل سے کام لیں بلکہ اپنی اس تفویض کردہ خدمت کو اپنے لیے اعزاز کے بجائے ایک سزا سمجھ بیٹھے۔
اس سے اعراض کرے اور مسلسل تفویض کردہ فرائض کی خلاف ورزی کرے تو پھر اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہو جاتا ہے۔
جب انسانی تاریخ میں انبیا کی آمد کا سلسلہ جاری تھا اس وقت جب اللہ کسی قوم سے ناراض ہو جاتا تو ان کی جگہ دوسری قوم کو لاکھڑا کرتا اور یوں ایک ترقی یافتہ اور پسندیدہ قوم، ناپسند ہو کر عذاب کی مستحق ہو جاتی تھی اور اس لیے اس پر عذاب الٰہی مسلط کیا جاتا تھا۔
کبھی طوفانی ہواؤں کے ذریعے، کبھی نہ رکنے والی بارش کی شکل میں، کبھی پتھروں کی بارش کرکے اور کبھی ان کی زمین کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا جاتا تھا۔
مگر اب عذاب کی شکل مختلف نظر آتی ہے، اب نہ زلزلوں کے ذریعے، نہ دھماکوں اور چیخ کے ذریعے، نہ زمین سے اگلنے والے پانی کے ذریعے قوم پر عذاب مسلط نہیں کیا جاتا، اب اگر کوئی قوم بدکردار ہو جائے اور اس کی سلامت روی کا کوئی امکان باقی نہ رہے تو پھر اس قوم کو اس کی ہم عصر، کمزور اور بے طاقت قوم کے آگے اس طرح ڈال دیا جاتا ہے کہ ایک ناتواں طاقت سے کہہ دیا جاتا ہے کہ لو اسے نوچ نوچ کر کھا لو۔
غزہ ملت اسلامیہ کا ایک ہی ایک عضو ہے اور ملت اسلامیہ کے کسی حصے کو تکلیف پہنچے تو پورے جسم کو تکلیف ہوتی ہے مگر اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اہل غزہ کو ملت اسلامیہ کے من حیثیت القوم بدعہدی اور اپنے منصب کی خلاف ورزی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ یہ اہل غزہ کو سزا نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کو سزا ہے۔
اسرائیل جسے اپنے وقت کے فرعونوں کی حمایت حاصل ہے، اس طرح غزہ پر ٹوٹ پڑا ہے جیسے گدھ کسی مردار جانور پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ غزہ اور اسرائیل کے ارد گرد تقریباً 57 مسلم ممالک موجود ہیں مگر اہل غزہ پر ہونے والے مظالم پر کسی ایک مسلم ملک کی طرف سے کوئی آواز نہیں اٹھ رہی۔
غزہ میں روزانہ کے حساب سے مرنے، زخمی ہونے والے لوگوں کی تعداد اس طرح بیان کی جاتی ہے جیسے کرکٹ کے میچ میں کسی ماہر بلے باز کے چھکے اور چوکوں کی تعداد فخریہ پیش کی جاتی ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اسرائیل کے سرپرست امریکا نے جو اپنا جنگ بندی کا منصوبہ پیش کیا ہے اس میں دیگر باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حماس 48 گھنٹوں کے اندر اندر اپنے آپ کو غیر مسلح کر دے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو پھر امریکا کی طرف سے اسرائیل کو آزادی ہوگی وہ اہل غزہ سے جو سلوک چاہے کرے۔
ایسے بے رحمانہ انداز گفتگو کے بعد بھی امریکا بہادر کو امن کا علم بردار قرار دے کر اسے امن کے نوبل پرائز کے لیے امیدوار قرار دینا ملت اسلامیہ کی کمزوری کے علاوہ کیا کہا جاسکتا ہے۔ اب متعدد ممالک کے نمایندوں پر مشتمل اہل غزہ کے لیے غذائی اجناس، ادویہ اور طبی آلات لے کر جانے والا جہاز غزہ کے پانیوں میں داخل تو ہو گیا ہے مگر اب تک موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اس جہاز پر اسرائیلی جنگی بحری جہازوں نے قبضہ کر لیا ہے اور اس پر موجودہ 500 افراد میں سے دو سو کو اب تک گرفتار کیا جا چکا ہے۔
اور خبر ہے کہ اسرائیل ’’انسانی ہمدردی‘‘ کے اس اعلیٰ منصب پر فائز ہو گیا ہے کہ اس نے اس جہاز میں موجود امدادی سامان پر یہ کہہ کر قبضہ کر لیا ہے کہ اب یہ سامان اسرائیل اہل غزہ کو پہنچائے گا۔
اہل غزہ کے توسط سے ملت اسلامیہ پر یہ احسان اسرائیل کیوں فرمائے گا جب کہ غزہ کے لوگ ساحل پر کھڑے اس امداد کے منتظر ہیں، انھیں اس امداد سے بھی محروم کر دیا گیا ہے اور اس پر بھی دعویٰ یہ ہے کہ انسانیت کا دشمن اپنے سرپرستوں کی نگرانی میں ان کے منہ سے نوالے اور ان زخمیوں سے دوائیں بھی چھین چکے ہیں۔
امدادی سامان لے کر جانے والا یہ بحری جہاز ان اقوام اور افراد پر مشتمل ہے جن کی اکثریت مسلمان نہیں ہے، مگر اسرائیل کو غزہ کے ان زخم خوردگان کی مرہم پٹی، علاج معالجے اور بھوک پیاس سے کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ ان کو اس نہج پر خود اسرائیل ہی نے تو پہنچایا ہے۔
دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کی یہودیوں کی نسل کشی کا بڑا چرچا کیا جاتا ہے مگر اس ’’دور مہذب‘‘ میں غزہ کے مسلمانوں پر جس نوعیت کے مظالم توڑے جا رہے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے ہٹلر کے مظالم کی کوئی وقعت ہی نہیں رہتی۔
غزہ کے لیے امداد کے لیے جانے والا یہ بحری جہاز مسلمان یا ملت اسلامیہ کا نمایندہ نہیں ہے۔ اس میں یورپی، افریقی اور ایشیائی غیر مسلموں کی بڑی تعداد شامل ہے مگر اسرائیل کو ان کی کاوشوں پر بھی شرم نہیں ہے اور وہ بے شرمی اور دیدہ دلیری سے بین الاقوامی دہشت گردی میں مصروف ہے اور یہ سب کچھ اسرائیل کے بس کی بات نہ تھی یہ اس کے سرپرستوں کی سرپرستی کی برکات ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ملت اسلامیہ کے ذریعے جاتا ہے اہل غزہ غزہ کے ہے اور کے لیے ہے مگر گیا ہے اور اس
پڑھیں:
پنجاب میں پہلی بار شتر مرغ کی افزائش نسل کا آغاز
پنجاب میں پہلی بار وزیراعلی مریم نواز شریف کی ہدایات پر جنگلی حیات کے فروغ میں اہم پیش رفت ہوئی ہے جس کے تحت شتر مرغ کی افزائش نسل کا آغاز کردیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق پنجاب میں سفاری پارک میں شترمرغ کی افزائش نسل کے جدید مرکز نے کام شروع کر دیا گیا ہے۔ شتر مرغ کی نسل بڑھانے کے لئے انڈوں کی ہیچری میں افزائش نسل کا آغاز کیا گیا ہے۔ شترمرغ کے انڈوں کو الیکٹرک بس کے ذریعے ہیچری میں پہنچایا جاتا ہے۔ پھر شتر مرغ کے انڈوں کو بیماریوں سے پاک کرنے کے لئے سپرے اور صفائی کے عمل سے گزارا جاتا ہے اور پھر انڈوں کا وزن اور دیگر معلومات کا ڈیٹا مرتب کیا جاتا ہے۔ لاہور کے سفاری پارک میں اس آزمائشی منصوبے کے بعد پنجاب شتر مرغ کی پیداوار میں خودکفیل ہو جائے گا۔ پارک میں پروان چڑھنے والے شتر مرغ پنجاب کے دیگر چڑیا گھروں میں بھی بھجوائے جائیں گے۔ وزیراعلی مریم نواز شریف نے لاہور سفاری پارک اور منصوبے میں شریک تمام ٹیم کو شاباشی دی اور کہا کہ پنجاب کی جنگلی حیات کا تحفظ اور فروغ ماحولیاتی توازن بنانے میں سنگ میل ثابت ہوگا۔