سیٹیزن فاؤنڈیشن پاکستان کا وہ روشن چہرہ ہے، سفیر پاکستان احمد فاروق
اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سیٹیزن فاؤنڈیشن پاکستان کا وہ روشن چہرہ ہے جس نے نہ صرف تعلیم کے میدان میں انقلاب برپا کیا ہے بلکہ کمیونٹی کو بھی اس مشن میں شامل کیا ہے ۔ یہ بات مہمانِ خصوصی سفیر پاکستان احمد فاروق نے ایک پروقارتقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہی جو سعودی دارالحکومت ریاض میں پاکستانی سفارتخانے کے تحت سیٹیزن فاؤنڈیشن پاکستان کی جانب س منعقد کی گئی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کا تعاون قابلِ تعریف ہے جو ہمیشہ وطنِ عزیز کی فلاحی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔ تقریب میں پاکستانی کمیونٹی، کاروباری رہنماؤں، سماجی شخصیات اور سفارتخانہ پاکستان کے افسران کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ تقریب کا آغازقرآنِ پاک کی تلاوت سے ہوا اور میزبانی کے فرائض معروف کالم نگار مبشر انوار نے سرانجام دیئے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فاونڈیشن کے سی ای او ضیا اخترعباس نے فاؤنڈیشن کی تاریخ، مقاصد اور اب تک کی شاندار کامیابیوں پر روشنی ڈالی۔ پروگرام کے دوران بتایا گیا کہ سیٹیزن فاؤنڈیشن ملک کے پسماندہ اور دور دراز علاقوں میں تعلیم کی شمعیں روشن کر رہی ہے اور ہزاروں بچے اور بچیاں معیاری تعلیم حاصل کر کے معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کر رہے ہیں ۔ تقریب میں معروف پاکستانی بزنس مین محمد غزالی نے اس امر پر زور دیا کہ ہمیں اس سفر کی روداد سے واقفیت انتہائی ضروری ہے کہ کس طرح اور کن حالات میں سیٹیزنز فاؤںدیشنز نے اپنا سفر شروع کیا اور فاؤنڈیشن نے کیا کیا کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ علاوہ ازیں! مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ تعلیم بدلے زندگی، مستحقین میں بامقصد تعلیم کے فروغ کے لئے کوشاں ہیں اور تعلیم ہی قوموں کی ترقی کا زینہ ہے اور سیٹیزن فاؤنڈیشن اسی وژن کے تحت آنے والی نسلوں کو بااختیار بنا رہا ہے۔ حاضرین نے فاؤنڈیشن کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ تقریب میں معروف پاکستان کلچرل گروپ سے ظفر اللہ خان اور مشتاق ورک، ڈاکٹرز گروپ ریاض سے ڈاکٹر اسد اللہ رومی، ڈاکٹر شہزاد اور ڈاکٹر ندیم، پاکستان رضا کار گروپ سے ابرار تنولی ، پاکستان انوسٹرز فورم سے رانا عبد الرؤف اور ظفر جاوید کے علاوہ دیگر نے شرکت کی۔ آخر میں سفارتخانہ پاکستان کے افسران اور کمیونٹی نمائندوں کے درمیان خوشگوار تبادلۂ خیال ہوا اور فاؤنڈیشن کی مزید ترقی و فروغ کے لئے دعا کی گئی۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
مشتاق احمد اور دیگر پاکستانی اسرائیلی فوج کی حراست میں مگر خیریت سے ہیں: دفترِ خارجہ
وزارتِ خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ صمود فلوٹیلا میں شریک پاکستانی شہری، جن میں سابق سینیٹر مشتاق احمد بھی شامل ہیں. اس وقت اسرائیلی قابض افواج کی تحویل میں ہیں۔ ترجمان دفترِ خارجہ کے مطابق حکومتِ پاکستان اپنے شہریوں کی محفوظ اور فوری واپسی کے لیے بھرپور سفارتی کوششیں کر رہی ہے۔ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے اپنے بیان میں کہا کہ سابق سینیٹر مشتاق احمد محفوظ اور خیریت سے ہیں۔ ان کی قانونی کارروائی بین الاقوامی ضابطوں کے مطابق ہوگی اور اسرائیلی عدالت میں انہیں پیش کیا جائے گا۔وزارتِ خارجہ کے مطابق ایک دوست یورپی ملک کے ذریعے سفارتی ذرائع سے مشتاق احمد کی صورتحال کی تصدیق کی گئی ہے۔ترجمان نے مزید بتایا کہ ڈی پورٹیشن آرڈر جاری ہونے کے بعد مشتاق احمد کی وطن واپسی عمل میں لائی جائے گی۔دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ حکومت اپنے تمام شہریوں کے تحفظ اور جلد رہائی کے لیے پرعزم ہے۔ پاکستان اس معاملے کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر عالمی سطح پر بھی اجاگر کر رہا ہے تاکہ تمام فلوٹیلا شرکا کو بین الاقوامی قوانین کے مطابق تحفظ فراہم کیا جائے۔واضح رہے کہ یہ قافلہ 31 اگست کو اسپین سے روانہ ہوا تھا اور راستے میں مختلف ممالک کی کشتیاں اس میں شامل ہوتی گئیں۔ تاہم اسرائیلی بحریہ نے اسے فلسطینی سمندری حدود سے تقریباً 70 ناٹیکل میل کے فاصلے پر روک کر نشانہ بنایا تھا۔دوسری جانب اسرائیلی حراست سے رہائی پانے والے گلوبل صمود فلوٹیلا کے 137 سماجی کارکن استنبول پہنچ گئے ہیں۔ ان میں 36 ترک شہریوں کے علاوہ امریکا، برطانیہ، اٹلی، اردن، کویت، لیبیا، الجزائر، ماریطانیہ، ملائیشیا، بحرین، مراکش، سوئٹزرلینڈ اور تیونس کے رضاکار شامل ہیں۔عرب میڈیا کے مطابق اب بھی تقریباً 450 سماجی کارکن اسرائیلی حراست میں ہیں، جن میں پاکستانی شہریوں سمیت سابق سینیٹر مشتاق احمد بھی شامل ہیں۔ ان کارکنوں کو صمود فلوٹیلا کے ذریعے غزہ کے مظلوم عوام کے لیے امدادی سامان پہنچانے کی کوشش کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔استنبول پہنچنے والے ترک صحافی ایرسن سیلک نے ہولناک انکشافات کرتے ہوئے بتایا کہ اسرائیلی فوج کی حراست میں صمود فلوٹیلا کے متعدد رضاکاروں پر تشدد کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق معروف ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور زبردستی اسرائیلی پرچم چومنے پر مجبور کیا گیا۔ایرسن کے مطابق کم عمر ہونے کے باوجود گریٹا کے ساتھ انتہائی ظالمانہ سلوک کیا گیا ہے۔اسی دوران اسرائیلی جارحیت کے باوجود امدادی سامان لے کر ایک نیا فلوٹیلا قافلہ غزہ کی جانب روانہ ہو گیا ہے، جس میں مختلف ممالک کے بین الاقوامی سماجی کارکن شریک ہیں۔پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں صمود فلوٹیلا کی حمایت اور اسرائیل کے خلاف احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ عوامی حلقے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اسرائیل بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی بند کرے اور تمام گرفتار سماجی کارکنوں کو فوری طور پر رہا کرے۔