فری لانسرز کی کمائی کی وطن منتقلی میں حائل رکاوٹیں، پاکستان کو لاکھوں ڈالرز کا نقصان
اشاعت کی تاریخ: 20th, November 2025 GMT
پاکستان کی آئی ٹی برآمدات نے اکتوبر 2025 میں ایک نیا سنگِ میل عبور کیا ہے۔ اس ایک مہینے میں برآمدات 384 ملین ڈالر تک پہنچ گئیں، جو اب تک کی سب سے زیادہ ماہانہ برآمدات ہیں۔
ماہرین کے مطابق اکتوبر کی برآمدات پچھلے سال کے مقابلے میں 17 فیصد زیادہ رہیں، جبکہ ستمبر کے مقابلے میں بھی ان میں 5 فیصد سے زائد اضافہ ہوا۔ مالی سال کے ابتدائی 4 مہینوں میں مجموعی آئی ٹی برآمدات ایک اعشاریہ 4 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں، جو گزشتہ سال کی اسی مدت سے زیادہ ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:پاکستان میں پے پال سروس شروع کرنے کے لیے حکومت کیا کوشش کررہی ہے؟
ہر چند ماہ بعد وزارتِ اطلاعاتِ ٹیکنالوجی کی جانب سے پاکستان کی آئی ٹی برآمدات میں اضافے کی نئی رپورٹس سامنے آتی ہیں، اور یہ بات حقیقت بھی ہے کہ یہ شعبہ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔
گزشتہ ماہ ہونے والا اضافہ بھی اسی رجحان کی تصدیق کرتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ ملک کا آئی ٹی شعبہ مسلسل ترقی کے راستے پر گامزن ہے۔ لیکن پاکستان میں باقاعدہ اور مؤثر نظام نہ ہونے کے باعث زیادہ تر فری لانسرز اور آئی ٹی ماہرین پیونئیر(Payoneer) جیسے تیسرے ذرائع استعمال کرتے ہیں، جس سے ملک کو سالانہ ملین ڈالرز کا نقصان ہوتا ہے۔
حکومت ہر کچھ عرصے بعد آئی ٹی برآمدات میں اضافے کا جشن تو ضرور مناتی ہے، مگر اس کمائی کو ملک میں لانے کے دوران ہونے والی کٹوتیوں اور مسائل کے حل کے لیے کوئی مؤثر اور باقاعدہ نظام وضع نہیں کرتی۔
فری لانسرز کو ادائیگی کی رکاوٹیںگزشتہ 10 برس سے فری لانس کرنے والے طاہر عمر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بین الاقوامی پیمنٹ پروسیسنگ سروسز کی محدود دستیابی فری لانسرز اور آئی ٹی برآمدات سے وابستہ افراد کے لیے مسلسل رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
اُن کے مطابق، عالمی سطح پر قابلِ اعتماد سروسز کی عدم موجودگی نہ صرف فری لانسرز کو مالی نقصان پہنچا رہی ہے بلکہ اس کے باعث ملک کو قیمتی زرمبادلہ بھی پورا نہیں مل پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی اصل آئی ٹی برآمدات کا بڑا حصہ باقاعدہ طریقے سے ملک میں منتقل نہیں ہو پاتا اور قومی خزانہ ملین ڈالرز کی کمی کا سامنا کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:جرمنی کا فری لانس ویزا کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟
طاہر عمر کے مطابق اس وقت پاکستان میں ادائیگیوں کے لیے زیادہ تر انحصار چند محدود کمپنیوں خصوصاً پیونئیر(Payoneer) پر ہے۔ چونکہ مارکیٹ میں مقابلہ نہیں ہے، اس لیے فیسیں زیادہ اور شرائط سخت ہوتی جا رہی ہیں، جس کا براہِ راست بوجھ فری لانسرز پر پڑتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اگر زیادہ بین الاقوامی پیمنٹ کمپنیاں پاکستان آئیں تو بہتر نرخ، آسان سہولتیں اور زیادہ شفافیت پیدا ہو سکتی ہے، جس سے نہ صرف فری لانسرز کو فائدہ ہوگا بلکہ ملک میں زیادہ زرمبادلہ بھی آسکے گا۔
طاہر عمر نے خاص طور پر پے پال کی عدم موجودگی کو ایک بڑا نقصان قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی اور یورپی کلائنٹس زیادہ تر پے پال ہی استعمال کرتے ہیں، اور صرف اس سہولت کے نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کو بے شمار فری لانس پراجیکٹس حاصل نہیں ہو پاتے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ملک کو براہِ راست مالی نقصان ہوتا ہے، کیونکہ ادائیگی کا مناسب نظام نہ ہونے کی وجہ سے کثیر رقم پاکستان لائی ہی نہیں جا سکتی۔
ان کے مطابق پے پال اور عالمی سطح کی دیگر کمپنیوں کے پاکستان نہ آنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں سائبر قوانین پر مکمل عملدرآمد نہیں ہوتا اور اداروں کو قانونی تحفظ کا یقین نہیں ملتا۔
یہ بھی پڑھیں:سوشل میڈیا کی کمائی پر ٹیکس کی خبریں، یوٹیوبرز اور فری لانسرز کیا کہتے ہیں؟
طاہر عمر نے زور دیا کہ اگر پاکستان میں رول آف لا بہتر بنایا جائے، سائبر قوانین کو سختی سے نافذ کیا جائے اور بین الاقوامی کمپنیوں کو اعتماد دیا جائے تو نہ صرف پے پال جیسے ادارے پاکستان آنے پر آمادہ ہوں گے بلکہ آئی ٹی برآمدات میں بھی نمایاں اضافہ ہوگا۔
’ایک فعال نظام ملک کو نقصان سے بچا سکتا ہے‘اگر پاکستان ایک فعال اور محفوظ مالیاتی نظام قائم کر دے تو نہ صرف فری لانسرز کا نقصان کم ہوگا بلکہ ملک کو وہ زرمبادلہ بھی مل سکے گا جو آج تھرڈ پارٹی ذرائع کے استعمال کی وجہ سے ضائع ہو رہا ہے۔
طفیل احمد خان، سی ای او پاکستان فری لانس ایسوسی ایشن، کہتے ہیں کہ پاکستانی فری لانسرز کو اپنی بین الاقوامی کمائی واپس پاکستان لانے میں بہت زیادہ مالی بوجھ اور مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کے مطابق دستیاب ادائیگی کے طریقے محدود ہیں اور جو پلیٹ فارمز موجود ہیں وہ منصفانہ شرائط پیش نہیں کرتے۔
طفیل احمد خان بتاتے ہیں کہ پے پال جیسی عالمی سطح کی معروف ادائیگی کی سہولت پاکستان میں دستیاب نہیں، اور موجودہ متبادل ذرائع پر فری لانسرز کو اضافی فیسیں ادا کرنی پڑتی ہیں۔ اس صورتحال کی وجہ سے نہ صرف فری لانسرز کی کمائی متاثر ہوتی ہے بلکہ ملک میں غیر ملکی زرِ مبادلہ کی آمد بھی محدود رہ جاتی ہے، کیونکہ پاکستان کو لاکھوں ڈالرز کا نقصان ہوتا ہے۔
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بین الاقوامی ادائیگی کرنے والی مزید کمپنیوں کو پاکستان میں کام کرنے کی اجازت دے اور آسان قوانین نافذ کرے، تاکہ فری لانسرز اپنی کمائی بآسانی اور کم خرچ وطن واپس لا سکیں اور ملک کی آئی ٹی برآمدات میں اضافہ ہو۔
اصلاحات ناگزیر ہیںپاکستان کی آئی ٹی صنعت اس وقت ریکارڈ سطح پر برآمدات کر رہی ہے، مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ شعبے کی حقیقی ترقی تبھی ممکن ہوگی جب مالیاتی نظام میں ضروری اصلاحات کی جائیں۔
سابق آئی ٹی ایسوسی ایشن کے چیئرمین زوہیب خان کے مطابق اگرچہ برآمدات بڑھ رہی ہیں، لیکن رقم واپس لانے کا موجودہ طریقہ کار ابھی بھی پیچیدہ اور محدود ہے۔
یہ بھی پڑھیں:کیا پاکستان میں پے پال لانچ ہونے والا ہے؟
زوہیب خان نے بتایا کہ آئی ٹی کمپنیوں کو اپنی کمائی کا نصف حصہ رکھنے کی اجازت ہے، مگر مکمل طریقہ کار نہ ہونے کی وجہ سے کمپنیوں کو بیرون ملک اخراجات پورا کرنے کے لیے غیر رسمی ذرائع استعمال کرنے پڑتے ہیں۔ اس سے ادائیگیوں پر معمولی خرچ آتا ہے، جبکہ دیگر غیر رسمی ذرائع زیادہ مہنگے اور پیچیدہ ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ فری لانسرز کی کمائی کو بھی آئی ٹی برآمدات میں شامل کیا جانا چاہیے، کیونکہ ملکی ہوم ریمیٹنس میں بڑی رقم آئی ٹی خدمات سے حاصل ہوتی ہے، لیکن موجودہ حساب میں اسے برآمدات کے طور پر شمار نہیں کیا جاتا۔
زوہیب خان کے مطابق اگر مالیاتی اصلاحات کی جائیں اور کمپنیوں کو آسان اور محفوظ نظام مہیا کیا جائے تو اصل آئی ٹی برآمدات سات سے دس ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ سکتی ہیں اور آنے والے چند سالوں میں یہ شعبہ ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرے گا۔
آئی ٹی برآمدات کی نمو کے عوامل
واضح رہے کہ پاکستان کی آئی ٹی ایکسپورٹ کی بڑھتی ہوئی ترقی کی کئی وجوہات ہیں۔ پاکستانی آئی ٹی کمپنیاں مشرقِ وسطیٰ، یورپ اور دیگر ملکوں میں نئی مارکیٹوں تک رسائی حاصل کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے بیرونِ ملک سے آرڈرز میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملکی معاشی حالات میں کچھ استحکام بھی آیا ہے، جس نے برآمد کرنے والوں کا اعتماد بڑھایا ہے۔
حکومت کی جانب سے دی گئی نئی سہولتوں نے بھی اس شعبے کو مضبوط کیا ہے۔ غیر ملکی کرنسی کے کھاتوں سے کاروباری اخراجات اور سرمایہ کاری میں آسانی ملنے سے کئی کمپنیوں نے اپنی خدمات کو مزید وسیع کیا ہے۔ ایک حالیہ جائزے کے مطابق ملک کی بڑی تعداد میں آئی ٹی کمپنیاں ان سہولتوں سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔
حکومت نے موجودہ مالی سال میں آئی ٹی برآمدات کا ہدف 5 ارب ڈالر رکھا ہے، جبکہ آئندہ برسوں میں اس شعبے کو مزید مضبوط بنانے کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ترقی کی یہ رفتار برقرار رہی تو پاکستان کا آئی ٹی شعبہ آنے والے وقت میں مزید کامیابیاں حاصل کر سکتا ہے۔
واضح رہے کہ جب آئی ٹی منسٹری سے اس حوالے سے مؤقف کے لیے رابطہ کیا گیا تو ان کی جانب سے یہ کہا گیا کہ ان کے پاس فی الحال ایسی کوئی معلومات نہیں ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایکسپورٹ بین الاقوامی دائیگی پاکستان پے پال زوہیب خان فری لانسر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایکسپورٹ بین الاقوامی دائیگی پاکستان پے پال زوہیب خان فری لانسر آئی ٹی برآمدات میں نہ صرف فری لانسرز پاکستان کی آئی ٹی فری لانسرز کی فری لانسرز کو کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی یہ بھی پڑھیں پاکستان میں ان کے مطابق کہ پاکستان کمپنیوں کو زوہیب خان کی وجہ سے کا نقصان اضافہ ہو کی کمائی طاہر عمر ملک میں رہی ہیں نہ ہونے ملک کو کے لیے پے پال کیا ہے کہ ملک
پڑھیں:
اسلام آباد ہائیکورٹ کی منتقلی کے معاملے پر بارز آمنے سامنے آگئیں
اسلام آباد ہائیکورٹ کی شاہراہ دستور سے منتقلی کے معاملے پر بارز آمنے سامنے آگئیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے سیکریٹری نے عدالت کی سیکٹر جی 10 منتقلی کرنے کی مخالفت کردی جبکہ اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار نے ہائیکورٹ کی سیکٹر جی 10 منتقلی کی حمایت کر دی۔
ڈسٹرکٹ بار کے صدر اور سیکریٹری نے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کے نام خط لکھ دیا۔
صدر اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار کے نعیم گجر اور جنرل سیکریٹری عبد الحلیم بوٹو کا خط بھجوایا گیا، جس میں کہا گیا کہ ہائیکورٹ کو جی 10 منتقل کریں ہم مکمل تعاون کے لیے تیار ہیں۔
خط میں کہا گیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی جی 10 منتقلی سے وکلاء سائلین کی مشکلات کم ہوں گی۔