خیبر پختونخوا بھر میں پیر کے روز عدالتی کارروائیاں معطل رہیں جب پشاور ہائیکورٹ سمیت ماتحت عدالتوں کے ججز نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔

ذرائع کے مطابق پیر کی صبح جب عدالتی کارروائی شروع ہونے کا وقت ہوا تو ججز عدالتوں میں آئے مگر کارروائی شروع کیے بغیر واپس چلے گئے، جس کے بعد صوبے بھر میں عدالتی امور معطل رہے۔

یہ بھی پڑھیں: پشاور ہائیکورٹ میں پشتو ٹک ٹاک لائیو پر پابندی کی درخواست کیوں دائر کی گئی؟

بتایا جاتا ہے کہ چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ اور دیگر ججز کو گزشتہ جمعے کے روز ہائی کورٹ میں پیش آنے والے پرتشدد واقعے پر شدید تحفظات ہیں۔

تاہم دوپہر کے وقت چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ اور بار کے نمائندوں کے درمیان ملاقات کے بعد ججز نے اپنے تحفظات دور کر لیے، جس کے بعد دن 2 بجے کے بعد عدالتی کارروائیاں دوبارہ شروع ہو گئیں۔

پشاور ہائیکورٹ کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا کہ چیف جسٹس نے جمعے کے روز پیش آنے والے واقعے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ چیف جسٹس کے مطابق عدالتی احاطے میں اس نوعیت کے واقعات ناقابلِ قبول ہیں۔

بیان کے مطابق واقعے کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی قائم کر دی گئی ہے جو ذمہ داروں کا تعین کرے گی اور ان کے خلاف سخت کارروائی کی سفارش کرے گی۔

جمعے کے روز پشاور ہائیکورٹ میں کیا ہوا تھا؟

ذرائع کے مطابق جمعے کے روز پشاور ہائیکورٹ میں اس وقت ناخوشگوار صورتحال پیدا ہوئی جب چارسدہ میں وکیل کے مبینہ قتل میں نامزد ایس ایچ او اپنی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست کے لیے عدالت پہنچا۔

پولیس افسر سادہ کپڑوں میں ملبوس تھا، اور وکلا نے اعلان کیا تھا کہ وہ اس کا کیس نہیں لڑیں گے۔ تاہم ایک سینیئر وکیل شبیر حسین گگیانی عدالت میں پیش ہوئی۔

اس کے بعد وکلا اور ایس ایچ او کے ساتھیوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی جو بعد ازاں تشدد میں بدل گئی۔ واقعے کے دوران عدالتی حدود میں بدنظمی پیدا ہو گئی تھی۔

ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کا مؤقف

پشاور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امین الرحمان یوسف زئی نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ حالیہ واقعے کے بعد چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ نے بار نمائندوں کو طلب کیا اور ملاقات کے دوران تمام معاملات پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ بار نے ٹاؤٹ ازم کے خلاف کارروائی شروع کر رکھی ہے اور اس سلسلے میں کچھ وکلا کی رکنیت معطل کی گئی ہے۔ ’جن کی رکنیت معطل ہے وہ بار روم میں داخل نہیں ہوسکتے، تاہم اگر کسی کا لائسنس فعال ہے تو وہ عدالت میں پیش ہوسکتا ہے۔‘

امین الرحمان یوسف زئی نے مزید کہاکہ شبیر حسین گگیانی نے بار کے خلاف شکایت درج کرائی ہے جو چیف جسٹس کے علم میں لائی گئی۔ چیف جسٹس نے بار سے وضاحت طلب کی کہ آئندہ اس نوعیت کے واقعات دوبارہ پیش نہ آئیں۔

انہوں نے کہاکہ چیف جسٹس نے یہ تاثر ظاہر کیا کہ وکلا نے ایس ایچ او کی ضمانت منسوخ کرانے کے لیے دباؤ ڈالا، تاہم ہم نے واضح کیا کہ یہ تاثر غلط ہے۔ ’ہم ہمیشہ عدالتوں کی آزادی اور وقار کے لیے کھڑے رہے ہیں اور رہیں گے۔‘

یہ بھی پڑھیں: سزا یافتہ افراد الیکشن کمیشن یا پارلیمنٹ کا حصہ نہیں بن سکتے، پشاور ہائیکورٹ

آخر میں صدر بار نے بتایا کہ میٹنگ میں اتفاق ہوا ہے کہ عدالتوں میں صرف وہی وکلا پیش ہو سکیں گے جن کا لائسنس درست اور فعال ہوگا، جبکہ جن کی بار رکنیت معطل ہے انہیں بار روم میں داخلے کی اجازت نہیں ہوگی۔

چیف جسٹس نے بھی یقین دہانی کرائی کہ عدالتی احاطے میں غیر متعلقہ افراد کو داخل ہونے دینے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews پشاور ہائیکورٹ پشاور ہائیکورٹ بار چیف جسٹس خیبرپختونخوا عدالتی کارروائی معطل ناخوشگوار واقعہ وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پشاور ہائیکورٹ پشاور ہائیکورٹ بار چیف جسٹس خیبرپختونخوا عدالتی کارروائی معطل ناخوشگوار واقعہ وی نیوز عدالتی کارروائی پشاور ہائیکورٹ جمعے کے روز چیف جسٹس نے کے مطابق کے خلاف کے بعد کے لیے

پڑھیں:

محمد علی مرزا کا بیان: اسلام آباد ہائیکورٹ نے اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے معطل کردی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے انجینئر محمد علی مرزا کے بیان سے متعلق اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے پر حکم جاری کر دیا۔ 

اسلام آباد ہائیکورٹ نے 4 دسمبر تک اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے معطل کر دی۔ عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے کا حوالہ کسی عدالتی فورم پر نہیں دیا جا سکے گا۔ 

یہ بھی پڑھیے انجینئر محمد علی مرزا کو گستاخی کا مرتکب قرار دینے کی اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے معطل کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ انجینئر محمد علی مرزا کے خلاف توہینِ مذہب اور سائبر کرائم قوانین کے تحت مقدمہ درج

عدالت عالیہ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے دو صفحات کا تحریری آرڈر جاری کر دیا۔ 

عدالت عالیہ کے حکم کے مطابق کس اتھارٹی کے تحت ایف آئی اے، پولیس یا دیگر اداروں کو اسلامی نظریاتی کونسل رائے دے سکتی ہے، اس معاملے پر عدالت کو مطمئن کریں۔ 

عدالت عالیہ نے 12 نومبر کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کر دیا۔

متعلقہ مضامین

  • آئینی عدالتوں میں دائرہ اختیار کا مسئلہ درپیش رہتا، جسٹس کیانی
  • محمد علی مرزا کیس: اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے معطل ،سماعت ملتوی
  • محمد علی مرزا کا بیان: اسلام آباد ہائیکورٹ نے اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے معطل کردی
  • 27ویں آئینی ترمیم پر عدالتی کارروائی، 4 ججز سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کو تیار
  • سیکیورٹی فورسز کی خیبرپختونخوا میں کارروائیاں، چار دہشت گرد ہلاک
  • سیکیورٹی فورسز کی خیبرپختونخوا میں کارروائیاں،4 دہشت گرد ہلاک
  • عدالتی احکامات تک شہر کے پارکوں میں کوئی تعمیراتی کام نہیں ہوگا: لاہور ہائیکورٹ
  • قلعہ بالاحصار پشاور میں ایف سی خیبرپختونخوا نارتھ کے زیر اہتمام قبائلی عمائدین کا جرگہ
  • شدید دھند ،موٹروے ایم ون پشاور سے رشکئی انٹرچینج تک بند  
  • آئینی عدالت  میں اپیلوں  کی سماعت لاہور  ہائیکورٹ کا فیصلہ  کالعدم  ‘ پشاور  کا معطل : مزید 2ججز  کا حلف  تعداد  3,7پنچ تشکیل