نواز شریف کے حق میں بیان حلفی، سابق چیف جج گلگت کے خلاف توہین عدالت کیس ختم
اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)اسلام آباد ہائی کورٹ نے تین سال بعد سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم و دیگر کے خلاف توہین عدالت کا کیس ختم کر دیا۔
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق پاناما کیس سے متعلق نواز شریف کے حق میں سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے مبینہ بیان حلفی کے حوالے سے توہین عدالت کا کیس عدالت نے غیر مؤثر ہونے پر نمٹا دیا۔
چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر نے کیس کی سماعت کی، سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم عدالت میں پیش نہ ہوئے۔
وکیل نے بتایا کہ رانا شمیم نے معافی نامہ جمع کروایا تھا اس کے بعد کیس لگا ہی نہیں، اب یہ کیس غیر مؤثر ہوچکا ہے، ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ کیس کافی عرصے بعد مقرر ہوا ہے، اس کیس میں فرد جرم صرف رانا شمیم پر عائد ہوتی تھی۔
سابق انگلش کپتان کی آئی سی سی کو پاک بھارت میچز نہ کرانے کی تجویز
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آخری سماعتوں میں رانا شمیم نے عدالت میں معافی نامہ جمع کروایا تھا، اس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سرفراز ڈوگر نے کہا کہ پھر ہم اس کیس کونمٹا دیتے ہیں۔
واضح رہے کہ سابق چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بیان حلفی کے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے توہین عدالت کی کاروائی شروع کی تھی۔
یاد رہے کہ رانا شمیم نے اپنے بیانِ حلفی میں دعویٰ کیا تھا کہ اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار جولائی 2018 میں عام انتخابات سے قبل مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت رکوانے کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ پر اثر انداز ہوئے تھے۔
عدالت نے فلک جاوید کا 4روزہ جسمانی ریمانڈ منظورکرنے کا تحریری فیصلہ جاری کردیا
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: سابق چیف جج گلگت توہین عدالت چیف جسٹس
پڑھیں:
مودی راج میں مسلمانوں پر مظالم کی انتہا، مساجد و قبروں کی توہین معمول بن گیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بھارت میں مودی سرکار کے دور میں ہندوتوا نظریہ پوری شدت کے ساتھ غالب آ چکا ہے، جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنتی جا رہی ہے۔
خبر رساں اداروں کے مطابق اتر پردیش سے لے کر متھرا تک پولیس اور ریاستی ادارے ہندو انتہا پسند تنظیموں کے زیرِ اثر آ چکے ہیں۔ بھارتی میڈیا دی وائر کی رپورٹ کے مطابق متھرا کو مقدس شہر قرار دیے جانے کے بعد سے وہاں کے مسلم اکثریتی علاقوں میں گوشت کی دکانیں اور ہوٹل بند کر دیے گئے ہیں، جس کے سبب سیکڑوں خاندانوں کا روزگار ختم ہو گیا ہے۔
ریاستی پولیس کو گائے کے تحفظ کے قوانین کے تحت وسیع اختیارات حاصل ہیں، جنہیں صرف مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ جھوٹے مقدمات، ناحق گرفتاریاں اور بلاوجہ تلاشیوں کا سلسلہ عام ہو چکا ہے۔
صورتحال اس قدر خوفناک ہو گئی ہے کہ مسلمان گوشت خریدنے یا کھانے سے بھی گریز کرنے لگے ہیں تاکہ انتہا پسندوں کے حملوں سے بچ سکیں۔
رپورٹ کے مطابق متھرا اور دیگر شہروں میں ہندو شدت پسند رہنما مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کرتے ہیں، انہیں “دیمک” کہہ کر بلاتے ہیں جب کہ مسلم نوجوان خود کو محفوظ رکھنے کے لیے زعفرانی رنگ کے کپڑے پہننے پر مجبور ہیں۔ یہ سب اس بات کا مظہر ہے کہ بھارت میں ہندوتوا کے عروج نے مذہبی آزادی کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے۔
مزید افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ مسلمانوں کے قبرستانوں کے قریب کچرے کے ڈھیر لگائے جا رہے ہیں، جب کہ مساجد کے اردگرد بیت الخلا تعمیر کیے جا رہے ہیں۔
کئی مقامات پر مساجد پر قبضوں، اذان پر پابندی اور مسلم آبادیوں میں گھروں کی مسماری کی کارروائیاں بھی تیز کر دی گئی ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ تمام اقدامات آر ایس ایس کے اُس ایجنڈے کا حصہ ہیں جو بھارت کو ’’ہندو راشٹر‘‘ میں تبدیل کرنے کے لیے سرگرم ہے۔
سماجی ماہرین کے مطابق بھارت میں بڑھتی ہوئی مسلم دشمنی نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ ملک کے سیکولر آئین اور جمہوری تشخص کے لیے بھی خطرہ بن چکی ہے۔