سابق سعودی سفیر ڈاکٹر علی عسیری کی پاک سعودی تعلقات پر نئی کتاب
اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT
تاریخ کے صفحات پر بعض نام اپنے مناصب سے نہیں بلکہ اپنے افکار سے زندہ رہتے ہیں۔ سفارت کار بہت آتے ہیں، مگر وہی امر ہوتے ہیں جو تعلقات کو مفاہمت کے دستخطوں سے آگے، فکر اور علم کے دائرے میں لے جائیں۔
سعودی عرب کے سابق سفیر ڈاکٹر علی بن سعید آل عواض عسیری انہی نادر شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے سفارت کو قلم کی سطوت عطا کی، اور دو برادر ممالک کے رشتے کو ایسی علمی جہت بخشی جس نے اسے محض تزویراتی نہیں بلکہ تہذیبی اور فکری وحدت میں بدل دیا۔
ڈاکٹر عسیری کی عربی تصنیف ’سعودی عرب اور پاکستان: ایک متغیر دنیا میں راسخ ودیرپا روابط‘ جو رصانہ انسٹی ٹیوٹ سے شائع ہوئی اپنی نوعیت کی منفرد کتاب ہے۔ دو سو چھپن صفحات پر پھیلی یہ تحقیق چار ابواب پر مشتمل ہے، جو پاک سعودی تعلقات کی تاریخ، سیاست، معیشت اور مستقبل کے امکانات کو یکجا کرتی ہے۔ کتاب اپنے پانچ ابواب میں سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات کے تاریخی، تزویراتی اور اقتصادی سفر کا جامع تجزیہ پیش کرتی ہے۔
پہلا باب دونوں خطوں، جزیرۂ عرب اور برِصغیر، کے قدیم تجارتی و ثقافتی روابط کا جائزہ لیتا ہے اور اٹھارہویں صدی کی اصلاحی تحریکوں کے اثرات کو واضح کرتا ہے جنہوں نے دونوں جدید ریاستوں کی فکری بنیادیں استوار کیں۔ یہ باب 1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد تعلقات کے تدریجی ارتقا پر بھی روشنی ڈالتا ہے، جب ابتدائی غلط فہمیوں کے بعد قربت اور تعاون کی راہ ہموار ہوئی۔
دوسرا باب 1970 اور 1980 کی دہائیوں پر مرکوز ہے، جن میں پاک سعودی تعلقات نے معاشی اور دفاعی شراکت کی نئی جہتیں اختیار کیں۔ اس میں شاہ فیصل بن عبدالعزیز اور وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو جیسے رہنماؤں کے کردار کا جائزہ لیا گیا ہے، جنہوں نے اس دوستی کو مضبوط کیا۔ باب میں افغان جنگ اور سوویت یونین کے خلاف اسلامی یکجہتی کے پس منظر میں دونوں ممالک کے اشتراکِ عمل کو بھی بیان کیا گیا ہے۔
تیسرا باب 1990 کی دہائی کے بعد کی اسٹریٹجک ترجیحات پر روشنی ڈالتا ہے، جس میں دہشتگردی، القاعدہ کے عروج، اور ایرانی اثر و رسوخ جیسے خطرات سے نمٹنے کے لیے دونوں ممالک کے اشتراکِ عمل کا تجزیہ شامل ہے۔ اس میں سعودی عرب کے سیاسی و معاشی تعاون اور ’وژن 2030‘ کے تحت ابھرتے ہوے نئے علاقائی توازن کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔
چوتھا باب اقتصادی اور انسانی تعاون پر مبنی ہے، جو گزشتہ کئی دہائیوں میں سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو دیے گئے مالی وامدادی تعاون کو اجاگر کرتا ہے۔ اس میں 2019 میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورۂ پاکستان کے بعد سامنے آنے والے سرمایہ کاری کے نئے امکانات، پاکستانی ماہر افرادی قوت کے کردار، اور دوطرفہ تجارت کے فروغ پر گفتگو کی گئی ہے۔
اختتامی باب مستقبل کے امکانات پر مرکوز ہے، جہاں مصنف دونوں ممالک کے تعلقات کو مستحکم رکھنے کے لیے سیاسی، اقتصادی، عسکری اور ثقافتی سطح پر ایک جامع روڈمیپ پیش کرتا ہے، تاکہ بدلتی ہوئی عالمی صورتِ حال میں یہ شراکت مزید مضبوط اور مؤثر بن سکے۔
کتاب کے دیباچے میں، جو پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم محمد نواز شریف نے تحریر کیا ہے، اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ یہ منفرد تعلق صرف باہمی مفادات پر مبنی نہیں بلکہ تاریخی، دینی اور ثقافتی رشتوں کی گہری جڑوں پر استوار ہے۔
نواز شریف نے پاکستان کو درپیش بحرانوں کے دوران، بالخصوص ایٹمی تجربات کے بعد، سعودی عرب کے کردار کی تعریف کی ہے، جو اس اسٹریٹجک شراکت کی گہرائی اور پائیداری کو واضح کرتا ہے۔
ڈاکٹر عسیری سے قبل بھی کچھ سعودی سفیروں نے پاکستان میں فکری اور ادبی سطح پر نمایاں خدمات انجام دیں، لیکن عسیری نے ان بکھرے ہوے رنگوں کو تحقیق کی ایک مکمل تصویر میں سمو دیا۔ عبدالحمید الخطیب، جو 1948 میں پاکستان میں پہلے سعودی سفیر مقرر ہوئے، شاعر اور ادیب تھے۔
انہوں نے یومِ اقبال کی تقریبات میں خطابات کے ذریعے شاعرِ اسلام کے فلسفۂ خودی کو عربی دنیا تک پہنچایا۔ ان کے بعد ریاض بن فؤاد الخطیب نے اس روایت کو آگے بڑھایا اور اپنے خطبات میں کہا کہ اقبال نے امتِ مسلمہ کے فکری ضمیر کو جگایا۔ ان دونوں سفیروں کی کاوشوں نے سعودی سفارت کو ایک علمی روایت دی، جسے عسیری نے نئی فکری گہرائی عطا کی۔
اگر عبدالحمید الخطیب نے چراغ جلایا اور ریاض الخطیب نے اس کی روشنی پھیلائی، تو علی عواض عسیری نے اس چراغ کو تحقیق کے مینار پر نصب کر دیا۔ عسیری کا یہ کارنامہ محض علمی نہیں، سفارتی معنویت کا بھی حامل ہے۔ آج جب دنیا Knowledge Diplomacy کے تصور کی طرف بڑھ رہی ہے، جہاں تعلقات کا استحکام تھنک ٹینکس، جامعات اور علمی اداروں کے ذریعے ہوتا ہے، وہاں یہ کتاب سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان فکری مکالمے کا سنگِ بنیاد بن سکتی ہے۔ انہوں نے دکھایا کہ تعلقات کی پائیداری اعلانات سے نہیں، علمی اعتماد سے جنم لیتی ہے۔
یہ حقیقت اب مسلم ہے کہ پاک سعودی تعلقات کا سب سے مضبوط حوالہ صرف حج و عمرہ یا تیل و تجارت نہیں، بلکہ وہ فکری رشتہ ہے جو اقبال کے اشعار سے لے کر عسیری کے صفحات تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ رشتہ کسی سیاسی موسم کا محتاج نہیں؛ یہ عقیدت، اعتماد اور علم کی بنیاد پر قائم ہے۔
ڈاکٹر عسیری نے اپنی تصنیف کے ذریعے ہمیں یاد دلایا کہ تعلقات صرف سرکاری بیانات سے نہیں بلکہ باہمی فہم و احساس سے زندہ رہتے ہیں، اور جب یہ فہم قلم کے ذریعے ظاہر ہو تو وہ دوستی نہیں، تاریخ بن جاتی ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب کے سفیروں نے پاکستان میں جو فکری چراغ جلایا، عسیری نے اسے تحقیق کے نور میں بدل دیا۔ ان کی کتاب اس بات کی علامت ہے کہ دوستی اگر علم سے گزر کر دل میں اترے تو وہ محض پالیسی نہیں، ایک وراثت بن جاتی ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سعودی عرب اور پاکستان ایک متغیر دنیا میں راسخ ودیرپا روابط ڈاکٹر علی بن سعید آل عواض عسیری سعودی عرب اور پاکستان پاک سعودی تعلقات سعودی عرب کے پاکستان کے نہیں بلکہ ممالک کے کے ذریعے کرتا ہے گیا ہے کے بعد
پڑھیں:
ہڈیاں آپ کی توجہ چاہتی ہیں
آرتھوپیڈک ڈاکٹر (ہڈیوں کے معالج)ان سب لوگوں سے خفا رہتے ہیں جو یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ روزانہ اپنے ساتھ ایک نہایت اہم ڈھانچہ لیے پھرتے ہیں۔ ہم اپنی پسلیاں، ریڑھ کی ہڈی یا بازو کی ہڈیاں تو دیکھ نہیں سکتے پھر بھی ان کی حالت عمدہ رکھنے کو اولیّں ترجیح دینا ضروری ہے کہ یہ ہماری مجموعی صحت کے ہر پہلو سے جڑی ہیں۔ہڈیوں کی صحت کا خیال نہ رکھنے پر ہر سال دنیا میں کروڑوں مردزون آسٹیوپوروسس (ہڈیوں کے بھربھرے پن)، کمزور ہڈیوں یا دونوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔امراض ہڈی میں مبتلا ہو کر لاکھوں افراد فریکچر بھی کرا بیٹھتے ہیں۔
ایسی صورت میں صحت یابی اور بحالی کے لیے طویل عرصہ درکار ہوتا ہے۔اس دوران آپ اپنے گھر والوں کے ساتھ فعال نہیں رہ سکتے۔ سفر نہیں کر پاتے، ورزش نہیں کر سکتے اور دل کی صحت بھی کمزور ہوتی ہے۔ میٹابولک مسائل سمیت دیگر بیماریاں پیدا ہونے لگتی ہیں۔غرض ہڈیوں کی بیماری کا خطرناک سلسلہ مستقبل میں بڑی پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔
ڈاکٹروں کے مطابق ایک انسان کی عمر جب بیس کی دہائی کے وسط میں ہو تو ہڈیوں کی کثافت اپنی انتہا پر ہوتی ہے۔اس کے بعد یہ آہستہ آہستہ کم ہوتی ہے۔ اس سے آسٹیوپینیا عمل پیدا ہو سکتا ہے یعنی ہڈیوں کی کثافت میں ایسی کمی جو مکمل طور پر آسٹیوپوروسس پیدا نہ کرے مگر فریکچر کے زیادہ خطرے سے جڑی ہو۔ ایک بار جب آسٹیوپوروسس ہو جائے تو ہڈیاں معمولی حادثات سے بھی ٹوٹنے لگتی ہیں۔لیکن یہ ایک خاموش بیماری ہے، اکثر لوگ اسی وقت جان پاتے ہیں جب ان کی ہڈیاں ٹوٹنا شروع ہو جائیں۔اسی پس منظر میں ہڈیوں کی صحت محفوظ رکھنے کے لیے آرتھوپیڈک ماہرین کے مشورے درج ذیل ہیں۔
حرکت میں رہیں
لوگ ہڈیوں کو جسم کا جامد حصہ سمجھتے ہیں حالانکہ وہ دراصل متحرک ہیں۔ پرانی ہڈیاں مسلسل ٹوٹتی اور خون میں جذب ہوتی ہیں اور نئی ہڈیاں بنتی رہتی ہیں۔ اس عمل کو "ری ماڈلنگ" کہا جاتا ہے جس پر کئی عوامل اثر انداز ہوتے ہیں۔ان میں وزن اٹھانے والی ورزش سے پیدا ہونے والا میکانیکی دباؤ بھی شامل ہے۔مثال کے طور پر چلنا، سیڑھیاں چڑھنا، کھیل کھیلنا ، پْش اَپس کرنا اور رسی کودنا۔
ڈاکٹر جیک اسٹیل امریکی یونیورسٹی آف میری لینڈ سینٹ جوزف میڈیکل سینٹر میں آرتھوپیڈک سرجن ہیں۔کہتے ہیں’’جہاں ہڈی پر دباؤ پڑے وہاں ہڈیوں کی کثافت بڑھتی ہے۔ اور جہاں ہڈیوں پر دباؤ نہیں ڈالا جاتا، وہاں جسم اْس ہڈی کو تحلیل کرنے لگتا ہے اور یوں ہڈیوں کی کثافت کم ہو جاتی ہے جو آسٹیوپینیا یا آسٹیوپوروسس کا سبب بن سکتی ہے۔
اگرچہ یہ بیماریاں واپس نہیں پلٹ سکتیں لیکن مختلف ادویات کے ذریعے قابلِ علاج ہیں اور ان کی بڑھوتری کو سست کیا جا سکتا ہے تاکہ نقصان کم سے کم ہو۔مریض اکثر ڈاکٹر اسٹیل سے پوچھتے ہیں کہ انہیں کتنی ورزش کرنی چاہیے؛ کچھ لوگ روزانہ 30 منٹ چلنا پسند کرتے ہیں، جبکہ دوسرے لوگ ہفتے کے آخر میں دو گھنٹے ٹینس کھیل لیتے ہیں۔ دونوں طریقے مؤثر ہیں۔ وہ مریضوں کو بتاتے ہیں کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ باقاعدگی اختیار کریں اور جتنا ممکن ہو سکے حرکت میں رہیں، بجائے اس کے کہ کئی دن بغیر کسی جسمانی سرگرمی کے گزر جائیں۔
سن یاس کا دور
تحقیقات بتاتی ہے کہ سن یاس ہڈیوں کی صحت پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ اس سے ہڈیوں کی کثافت کم ہو سکتی ہے جس سے آسٹیوپوروسس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ایسٹروجن میں کمی کے باعث بھی پٹھوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس نقصان کا مقابلہ کرنے کا ایک مؤثر طریقہ ہے: وزن اٹھانا۔ڈاکٹر پامیلہ مہتا امریکی شہر سان ہوزے، کیلیفورنیا میں ریزیلینس آرتھوپیڈکس کمپنی کی بانی اور آرتھوپیڈک سرجن ہیں۔ کہتی ہیں:
‘‘یہ خواتین کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ اپنی روزمرہ کی ورزش میں طاقت بڑھانے والی ورزش شامل کریں، کیونکہ سن یاس اور اس کے قریب کے برسوں میں پٹھوں اور ہڈیوں کا بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے۔وزن اٹھانے کی ورزشیں کرنے کے سلسلے میں یوٹیوب پر دستیاب مستند ڈاکٹروں کی ویڈیوز سے مدد لیجیے۔‘‘
دو بنیادی غذائی اجزا
کئی معدنیات اور غذائی اجزاہڈیاں مضبوط بنانے میں کردار ادا کرتے ہیںلیکن دو پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے:اول کیلشیم جو صرف غذا یا سپلیمنٹس سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ اسے مناسب مقدار میں نہ لیں تو جسم اسے ہڈیوں سے لینے لگتا ہے جس سے ہڈیاں کمزور ہوتی ہیں۔دوم وٹامن ڈی جو جسم کو کیلشیم جذب کرنے میں مدد دیتا اور آسٹیوپوروسس سے بچاؤ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ڈاکٹر شاؤ کے مطابق:’’ان دونوں کی اچھی مقدار لینا بہت ضروری ہے۔‘‘
عمر کے حساب سے زیادہ تر بالغوں کو روزانہ 1000 سے 1200 ملی گرام کیلشیم اور 15 سے 20 مائیکروگرام وٹامن ڈی کی ضرورت ہوتی ہے۔کیلشیم حاصل کرنے کے لیے وہ مشورہ دیتے ہیں کہ دودھ، پنیر، دہی، گہرے سبز پتوں والی سبزیاں جیسے کیل اور سویا مصنوعات ( ٹوفو) استعمال کریں۔وٹامن ڈی کچھ مقدار میں ٹونا، سارڈین، سالمن، پنیراور انڈے کی زردی میں ملتا ہے۔
روزانہ دھوپ لیجے
دھوپ سینکنا ہڈیوں کی صحت کے لیے بہترین ہے۔ ڈاکٹر اسٹیل کہتے ہیں:’’جب سورج کی روشنی آپ کی جلد پر پڑے تو جسم وٹامن ڈی پیدا کرتا ہے۔ آپ اپنی خوراک سے بھی کچھ وٹامن ڈی لے سکتے ہیں، لیکن اس کی زیادہ مقدار سورج کی روشنی سے حاصل ہوتی ہے۔‘‘یقیناً سورج کے مضر اثرات بھی ہیں، اس لیے احتیاط ضروری ہے۔ کوشش کریں کہ اس وقت باہر جائیں جب یو وی انڈیکس 8 سے کم ہو، یعنی صبح سویرے یا شام کے وقت اور ہمیشہ سن اسکرین لگائیں۔وہ مزید کہتے ہیں:’’گھنٹوں باہر رہنے کی ضرورت نہیں ۔ یہاں تک کہ 30 منٹ باہر چلنے اور دھوپ میں رہنے سے بھی وٹامن ڈی پیدا ہوجاتا ہے۔ ساتھ ساتھ دھوپ میں چہل قدمی وزن اٹھانے والی ورزش بھی ہے یعنی ہڈیوں کے لیے دوہرا فائدہ۔‘‘
کیلشیم اور وٹامن ڈی سپلیمنٹس
اگر آپ کیلشیم یا وٹامن ڈی کافی مقدار میں نہیں لے رہے تو سپلیمنٹس فائدے مند ہو سکتے ہیں۔ڈاکٹر کرسٹین جابلونسکی امریکی ادارے، اورلینڈو ہیلتھ میں ہڈیوں کی صحت اور آسٹیوپوروسس پروگرام کی سربراہ ہیں۔ مشورہ دیتی ہیں کہ ایک ’’فوڈ ڈائری‘‘ رکھیں۔ کہتی ہیں:’’آپ اسے دیکھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک عام دن میں کیا کھاتا/کھاتی ہوں؟اگر آپ روزانہ کم از کم 1000 ملی گرام کیلشیم لے رہے ہیں تو آپ کی حالت اچھی ہے۔ اگر آپ مسلسل اس سے کم مقدار لے رہے تو اپنی خوراک میں تبدیلیاں کیجیے یا اپنے ڈاکٹر سے سپلیمنٹس کے بارے میں بات کریں۔‘‘
ڈاکٹر جابلونسکی مانتی ہیں کہ وٹامن ڈی کا حساب رکھنا نسبتاً مشکل ہے، خاص طور پر اس لیے کہ اس کا زیادہ حصہ سورج کی روشنی سے حاصل ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہیں:’’بہت سے لوگ اس کی کمی کا شکار ہوتے ہیں مگر انہیں علم نہیں ہوتا۔‘‘اگر آپ کو پہلے ہی آسٹیوپوروسس ہے تو ڈاکٹر کو باقاعدگی سے بلڈ ٹیسٹ کے ذریعے آپ کے جسم میں کیلشیم اور وٹامن ڈی کی سطح چیک کرنی چاہیے۔ اگر آپ کا حالیہ ٹیسٹ نہیں ہوا، تو اگلے معائنے پر لازماً اس کا ذکر کریں، خاص طور پر اگر آپ ہڈیوں میں درد، تھکن یا مزاج میں تبدیلی جیسی علامات محسوس کرنے لگیں۔
ادویات چیک کریں
کچھ دوائیں ہڈیوں کی صحت پر منفی اثر ڈالتی ہیں۔ مثال کے طور پر:
٭ پروٹون پمپ انہیبیٹرز (جو ہارٹ برن کے علاج میں استعمال ہوتے ہیں)
٭ سیلیکٹیو سیروٹونن ریسیپٹر انہیبیٹرز (اینٹی ڈپریشن ادویات)
٭ اینٹی کنولسنٹس (دورے قابو کرنے کی دوائیں)
٭ گلوکوکورٹیکوئڈز (اسٹرائیڈ ہارمون)
٭ خون پتلا کرنے والی دوا ہیپرین
ڈاکٹر جابلونسکی کہتی ہیں:’’اگر یہ دوائیں ضروری ہیں تو آپ کو لینی پڑیں گی۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ آپ اپنے ڈاکٹر سے کسی متبادل دوا پر بات کریں، یا انہیں کم عرصے کے لیے استعمال کریں۔ وہ مشورہ دیتی ہیں:’’ہمیشہ سوال پوچھیں اور معتبر ذرائع سے اپنی تحقیق کریں۔‘‘
الکحل، کیفین اور سگریٹ نوشی
کیفین یا الکحل لینے کی عادت ہڈیوں کی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ ڈاکٹر اسٹیل کہتے ہیں’’یہ چیزیں بنیادی طور پر جسم کی شفا پانے کی صلاحیت کو محدود کر دیتی ہیں۔ ہڈی ہمیشہ ٹوٹتی اور بنتی رہتی ہے۔ زیادہ کیفین یا الکحل کا استعمال یہ عمل متاثر کرتا اور وقت کے ساتھ ہڈیوں کی کثافت میں کمی لاتا ہے۔‘‘
سگریٹ نوشی کے بھی یہی اثرات ہیں: تحقیق کے مطابق وہ بزرگ افراد جو سگریٹ پیتے ہیں، ان کے کولہے کی ہڈی ٹوٹنے کے امکانات 30 سے 40 فیصد زیادہ ہوتے ہیں بہ نسبت ان لوگوں کے جو نہیں پیتے۔سگریٹ نوشی نہ صرف آسٹیوپوروسس کا خطرہ بڑھاتی بلکہ ہڈی بنانے والے خلیات کی پیداوار بھی سست کرتی ہے۔ کیلشیم کے جذب ہونے کی مقدار کم کر دیتی ہے۔ ڈاکٹر مہتا کا کہنا ہے کہ بعض سرجن تو سگریٹ نوش مریضوں کا آپریشن کرنے سے بھی انکار کر دیتے ہیں، کیونکہ سگریٹ نوشی سرجری کے بعد ہڈی جْڑنے کا عمل متاثر کرتی ہے اور ان مریضوں میں پیچیدگیاں بھی زیادہ ہوتی ہیں۔اسی لیے بہتر ہے کہ آپ سگریٹ نوشی چھوڑنے کی کوشش کریں،چاہے آپ نے پہلے کوشش کی ہو اور ناکام ہوئے ہوں۔
گرنے کا خطرہ
ہڈیوں کا خیال رکھنے کا ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ گرنے کے امکانات کم کرنے کے اقدامات کریں۔ ڈاکٹر شاؤ کہتے ہیں’’خاص طور پر جیسے جیسے عمر بڑھے، آپ کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ گھر کس طرح ترتیب دیا گیا ہے تاکہ گرنے کا خطرہ کم ہو سکے۔‘‘اس کے لیے آپ یہ کر سکتے ہیں:
٭ راستوں سے ڈبے اور برقی تاریں ہٹا دیں
٭ غسل خانے میں پھسلن روکنے والی چٹائیاں استعمال کریں
٭ فرش کے تختے مرمت کریں
٭ راہداریوں میں نائٹ لائٹس لگائیں
ڈاکٹر شاؤ امید کرتے ہیں کہ زیادہ لوگ اپنی ہڈیاں مضبوط اور صحت مند رکھنے کو ترجیح دیں گے۔ وہ کہتے ہیں:’’میں چاہتا ہوں، لوگ ہڈیوں کی صحت کو نظرانداز نہ کریں۔ ظاہری چیزوں کے بارے میں سوچنا اور انہیں محسوس کرنا آسان ہے۔ لیکن آپ کا ڈھانچا (skeleton) ہی بنیاد ہے…آپ کے پورے جسم کی ساختی مدد۔ ہم جانتے ہیں کہ ہڈیوں کی صحت کا اثر صرف ان تک محدود نہیں رہتا بلکہ یہ انسان کی مجموعی تندرستی سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔‘‘