وقوع قیامت، نشانیاں اور ظہور امام مہدی (علیہ السلام)
اشاعت کی تاریخ: 14th, November 2025 GMT
اسلام ٹائمز: دنیا تیزی سے گزر رہی ہے، وقت سمٹ رہا ہے اور قیامت کے آثار واضح ہو رہے ہیں۔ رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا: "قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی، جب تک زمانہ تیزی سے نہ گزرنے لگے۔۔۔"(صحیح مسلم، حدیث: 157) آج وقت اسی تیزی سے گزر رہا ہے، سال مہینے، مہینے ہفتوں اور ہفتے دنوں جیسے لگنے لگے ہیں۔ لہٰذا اب وقت ہے کہ ہم اپنے آپ کو اللہ کے سامنے جواب دہی کے لیے تیار کریں، قرآن و سنت کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں اور امتِ مسلمہ کے اتحاد کو اپنا مقصد بنائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان، عمل صالح اور آخرت کی تیاری کی توفیق عطا فرمائے۔ تحریر: مفتی گلزار احمد نعیمی
امیر جماعت اہل حرم پاکستان
مرکزی نائب صدر ملی یکجہتی کونسل پاکستان
محترم قارئین کرام ہم اہل اسلام ہیں اور ہمارے اسلام اور ایمان کی کچھ اہم بنیادیں ہیں۔ ان میں توحید، رسالت اور یوم قیامت پر ایمان لانا اسلام کا ایک لازمی اور اہم اساس ہے۔ قیامت کے حوالہ سے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں واضح طور پر ارشاد فرمایا ہے: "وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ"(سورۃ البقرۃ: 4) "اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔" یوم آخرت پر ایمان رکھنا، اس کے وقوع کا یقین کرنا اور اس کے لیے تیاری کرنا دینِ اسلام کی بنیادی ضرورتوں میں سے ہے۔ اگر کوئی شخص اللہ کو ایک مانے، رسول اللہﷺ کو خاتم النبیین مانے، لیکن قیامت پر ایمان نہ رکھے تو وہ مومن نہیں کہلا سکتا۔ ایمان کے باب میں یہ تین چیزیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔۔۔۔۔ توحید، رسالت اور معاد (یعنی قیامت)۔ قرآنِ مجید میں قیامت کا تذکرہ کثرت سے کیا گیا ہے۔ حجۃ الاسلام امام محمد الغزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قرآنِ مجید میں قیامت کے اکتالیس (41) نام بیان کیے گئے ہیں۔ ان میں سے چند یہ ہیں: یومُ الوعید (وعید کا دن)، یومُ البعث (دوبارہ اٹھائے جانے کا دن)، یومُ الحساب (حساب کا دن)، یومُ الدین (بدلے کا دن)، یومُ الحشر (جمع ہونے کا دن) یومُ الحسرة (حسرت کا دن)، یومُ القارعہ، یومُ الغاشیہ اور یومُ الحاقّہ۔
قرآن مجید میں قرب قیامت کے بارے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا: "اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ"(سورۃ القمر: 1) "قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا۔" یہ آیت اُس عظیم معجزے کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ جب رسولِ اکرمﷺ نے جبل ابی قبیس پر کھڑے ہو کر چاند کو اپنی مبارک انگلی کے اشارے سے دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ یہ واقعہ دراصل قربِ قیامت کی ایک علامت کے طور پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن مجید میں نازل فرمایا۔ قرآن و حدیث کے مطالعہ سے ہمیں وقوع قیامت کے حوالے سے بہت اہم رہنمائی ملتی ہے اور قیامت کی علامات بہت وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔ احادیثِ نبویہﷺ میں قیامت کی دو قسم کی نشانیاں بیان کی گئی ہیں۔
(1) علاماتِ صُغریٰ (چھوٹی نشانیاں)
(2) علاماتِ کبریٰ (بڑی نشانیاں)
چھوٹی نشانیاں:
چھوٹی نشانیوں میں رسولِ اکرمﷺ کا تشریف لانا، فتنوں کا ظاہر ہونا، علم کا اٹھ جانا، جھوٹ کی کثرت، موسیقی، شراب، سود، زنا اور ظلم کا عام ہو جانا شامل ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: "جب میری امت پندرہ کاموں میں مبتلا ہو جائے گی تو ان پر مصیبتوں کا نزول واجب ہو جائے گا۔" (سنن الترمذی) پوچھا گیا: یارسول اللہ! وہ پندرہ کام کون سے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا:
1۔ جب مالِ غنیمت ذاتی دولت بنا لیا جائے گا۔
2۔ امانت ضائع کر دی جائے گی۔
3۔ زکوٰۃ کو جرمانہ سمجھا جائے گا۔
4۔ بیوی کی اطاعت اور ماں کی نافرمانی کی جائے گی۔
5۔ دوستوں سے بھلائی اور والد سے بدسلوکی کی جائے گی۔
6۔ مسجدوں میں آوازیں بلند ہوں گی۔
7۔ قوم کا سردار ذلیل انسان ہوگا۔
8۔ شراب پی جائے گی، ریشم پہنا جائے گا، گانے بجانے کے آلات حلال سمجھے جائیں گے۔
9۔ پہلے لوگوں پر طعن کیا جائے گا۔
آپﷺ نے فرمایا: "اس وقت سرخ آندھی، زمین کے دھنسنے اور شکلوں کے مسخ ہونے کا انتظار کرنا۔(سنن الترمذی، حدیث: 2210)
بڑی نشانیاں:
حضرت حذیفہ بن اسیدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: "قیامت اسوقت تک قائم نہ ہوگی، جب تک تم دس نشانیاں نہ دیکھ لوگے۔" (صحیح مسلم، حدیث:2901)
وہ دس نشانیاں یہ ہیں:
1۔ دھواں (دخان)
2۔ دجال کا خروج
3۔ دابۃ الارض (زمین سے ایک جانور کا نکلنا)
4۔ سورج کا مغرب سے طلوع ہونا
5۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول
6۔ یاجوج و ماجوج کا خروج
7۔ زمین کا مشرق میں دھنسنا
8۔ زمین کا مغرب میں دھنسنا
9۔ زمین کا جزیرۃ العرب میں دھنسنا
10۔ یمن سے ایک آگ کا ظاہر ہونا، جو لوگوں کو محشر کی طرف لے جائے گی۔
قیامت کی اہم نشانیوں میں سے ایک نشانی ظہور امام مہدی علیہ السلام ہے، جس کی پیشن گوئی جناب رسالت مآبﷺ نے فرما دی تھی۔ آپﷺ نے فرمایا، جسے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر دنیا کا ایک دن بھی رہ جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس دن کو لمبا کر دے گا، یہاں تک کہ اس میں ایک شخص کو مجھ سے یا میرے اہل بیت میں سے اس طرح برپا کرے گا کہ اس کا نام میرے نام پر اور اس کے والد کا نام میرے والد کے نام پر ہوگا، وہ عدل و انصاف سے زمین کو بھر دے گا، جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھر دی گئی ہے۔" (سنن ابوداؤد، حدیث: 4282)۔ یہ ظہورِ امام مہدی علیہ السلام کی واضح پیشین گوئی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: "المهدي من عترتي من ولد فاطمة"(سنن ابوداؤد، حدیث: 4283) "امام مہدی میری اہلِ بیت میں سے ہیں، فاطمہؑ کی اولاد میں سے ہوں گے۔"
جب دنیا ظلم و فساد سے بھر جائے گی، امام مہدی علیہ السلام ظاہر ہوں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ امام مہدی علیہ السلام کے ظہور سے قبل حالات کو سازگار بنانا امت پر واجب ہے۔ ہمیں اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ کرنا چاہیئے اور باہمی اختلافات کو ختم کرتے ہوئے ایک اسلامی جھنڈے کے نیچے جمعہ ہونا چاہیئے۔ مکمل یگانگت امام مہدی علیہ السلام کے انقلابی ظہور کے لیے خشت اول کا درجہ رکھتی ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ ہم آج شدید ترین اختلافات کا شکار ہیں۔ اللہ کی عبادت نماز میں ہاتھ باندھنے پر اختلاف کرتے ہیں، ایک دوسرے پر طعن کرتے ہیں۔ ہم نماز پڑھنے میں ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں۔ ہاتھ باندھ کر یا ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنا ہمارے لیے اختلافی نہیں بلکہ ایک چیلنج بن چکا ہے، جبکہ دشمن ہمارے ہاتھ کاٹنا چاہتا ہے۔ ہم شیعہ، سنی، بریلوی، دیوبندی اور اہلِ حدیث کے خانوں میں بٹ گئے ہیں، مگر دشمن ہم سب کو "مسلمان" سمجھ کر نشانہ بناتا ہے اور بنا رہا ہے۔یہی وقت ہے کہ ہم اختلافات سے اوپر اٹھ کر امتِ مسلمہ کے اتحاد کی بنیاد رکھیں، کیونکہ فرمایا گیا ہے: "إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ"(سورۃ الحجرات: 10) "بے شک مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔"
آخرت کی تیاری اور محاسبہ نفس:
قرآنِ مجید میں ارشاد ہے: "فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُۥ، وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّۭا يَرَهُۥ"(سورۃ الزلزال: 7-8) "جس نے ذرّہ برابر نیکی کی ہوگی، وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرّہ برابر بدی کی ہوگی، وہ بھی اسے دیکھے گا۔" قیامت کا دن محاسبے کا دن ہے۔ ہر انسان سے سوال ہوگا: "میں نے تمہیں عمر دی تھی، تم نے اسے کہاں گزارا؟ میں نے رزق دیا تھا، تم نے کہاں خرچ کیا؟ میں نے اولاد دی تھی، تم نے کس طرح تربیت کی؟" اسی لیے ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنی زندگیاں قرآن و سنت کے مطابق گزاریں۔ جو بندہ دنیا میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کا مطیع ہوگا، اللہ اسے قیامت کی ہولناکیوں سے محفوظ رکھے گا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ قیامت کے بپا ہونے سے پہلے اپنے نیک بندوں کو موت دے دے گا۔" (مسندامام احمد، حدیث: 23408)
دنیا تیزی سے گزر رہی ہے، وقت سمٹ رہا ہے اور قیامت کے آثار واضح ہو رہے ہیں۔ رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا: "قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی، جب تک زمانہ تیزی سے نہ گزرنے لگے۔۔۔"(صحیح مسلم، حدیث: 157) آج وقت اسی تیزی سے گزر رہا ہے، سال مہینے، مہینے ہفتوں اور ہفتے دنوں جیسے لگنے لگے ہیں۔ لہٰذا اب وقت ہے کہ ہم اپنے آپ کو اللہ کے سامنے جواب دہی کے لیے تیار کریں، قرآن و سنت کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں اور امتِ مسلمہ کے اتحاد کو اپنا مقصد بنائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان، عمل صالح اور آخرت کی تیاری کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: امام مہدی علیہ السلام ا پﷺ نے فرمایا تیزی سے گزر رسول اللہﷺ اللہ تعالی ہے کہ ہم ا قیامت کے قیامت کی کرتے ہیں جائے گی جائے گا ہے اور رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
تربیت و حقوق اطفال کے اسلامی احکامات
اﷲ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو جو رحمت عطا فرمائی اس کا حصہ بچوں نے بھی پایا بلکہ ’’چھوٹے‘‘ ہونے باوجود ’’بڑا‘‘ حصہ پایا۔ انتہائی اختصار و جامعیت سے چند باتیں لکھی جا رہی ہیں تاکہ معلوم ہو کہ ہمیں بچوں کے بارے میں قرآن و سنّت رسول کریم ﷺ سے کیا راہ نمائی ملتی ہے؟
اسلام نے کبھی بھی بھوک و افلاس کے خوف سے بچوں کی پیدائش پر سختی نہیں کی بلکہ قرآن کریم میں ایسا کرنے والوں کی پرزور طریقے سے حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور انسان کو تسلی دی ہے کہ ان کے روزی کے اسباب ضرور اپنائے لیکن روزی کے خوف سے اولاد کو قتل نہ کرے، کیوں کہ اﷲ تعالیٰ نے احسان کرتے ہوئے ان کی اور ہماری روزی کا ذمہ خود لیا ہے اور اﷲ رب العزت جس بات کو احساناً اپنے ذمہ لے لیں تو اس میں پریشان اور مایوس نہیں ہونا چاہیے۔
ارشاد باری تعالی کا مفہوم:
’’اور تم اپنی اولاد کو بھوک کے خوف سے مار مت ڈالو ہم انھیں بھی اور تمھیں بھی رزق دیتے ہیں۔ یقیناً ان کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔‘‘ ( سورۃ الاسراء)
بچوں کی دنیاوی تربیت کے ساتھ مذہبی تربیت کرنا بھی ان کے بنیادی حقوق میں سے ہے اور بچے اس کو جلد قبول کرتے ہیں بہ شرطے کہ انھیں تربیت کا ماحول دیا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی پیدائش فطرت کے مطابق ہوئی ہوتی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے اس کے بعد اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی (وغیرہ) بنا دیتے ہیں۔‘‘ (البخاری)
اس سے معلوم ہوا کہ بچوں کی فطرت اور جبلت میں اسلام موجود ہوتا ہے اگر ان کو اسلامی احکامات و آداب سے رُوشناس کرایا جائے تو وہ اسے جلد قبول کر لیتے ہیں۔ حضرت حسینؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جب کسی کے ہاں بچہ پیدا ہو تو اس کے دائیں کان میں کلمات اذان اور بائیں کان میں کلمات اقامت کہے اس کی وجہ سے ام الصبیان (یہ ایک بیماری کا نام ہے جس میں بچہ سوکھ کر کانٹا ہو جاتا ہے) نہیں لگے گی۔‘‘ (عمل الیوم واللیلۃ)
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کے پاس چھوٹے بچوں کو لایا جاتا آپؐ ان کو برکت کی دعا دیتے اور انھیں گھٹی دیتے تھے۔ (صحیح مسلم)
رسول اﷲ ﷺ نے (بچے کی پیدائش کے) ساتویں دن (اس بچے) کا نام رکھنے، اور اس سے تکلیف دہ چیزوں (بال، ناخن، ختنے کی چمڑی وغیرہ) کو دور کرنے اور عقیقہ کرنے کا حکم دیا ہے۔(جامع الترمذی)
حضرت ابُو وہب رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’نبیوں والے نام رکھو اﷲ کو سب سے زیادہ محبوب نام عبداﷲ، عبدالرحمٰن ہیں۔ (سنن ابی داؤد)
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’اﷲ عزوجل کے ہاں سب سے محبوب اور پسندیدہ نام عبداﷲ اور عبدالرحمٰن ہیں۔‘‘ (جامع الترمذی)
یہ بات بھی یاد رکھیں کہ نام اچھا ہو، انبیاء کرامؑ، صحابہؓ، صحابیاتؓ اور نیک لوگوں والا نام ہو۔ نام کی اپنی تاثیر ہوتی ہے اس لیے اچھے نام والے میں برکات ہوں گی اور جس کا نام اچھا نہیں ہوگا اس میں برکات بھی نہیں ہوں گی۔ اچھے ناموں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فلاں نام وزنی اور بھاری ہے بچہ اس کو اٹھا نہیں سکے گا یا یہ نام رکھنے کی وجہ سے بچہ بیمار رہتا ہے۔ یہ سراسر غلط بات ہے، اچھے نام بالخصوص انبیاء کرامؑ اور صحابہ کرامؓ والے ناموں میں برکت ہوتی ہے جس کی برکات بچے میں بھی منتقل ہوتی ہیں۔ ان ناموں کو وزنی کہنا غلط ہے اور ان کی وجہ سے بچوں کو بیمار بتلانا بھی انتہائی معیوب بات ہے۔
حضرت بریدہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں جب ہم میں سے کسی کے ہاں بچہ پیدا ہوتا تو وہ ایک بکری ذبح کرتا اور اس بکری کے خون کو بچے کے سر پر مَلتا اس کے بعد جب اﷲ تعالیٰ نے ہمیں اسلام کی دولت سے نوازا تو ہم ایک بکری ذبح کرتے اور بچے کے سر کو مونڈاتے ہیں اور اس پر زعفران مل دیتے ہیں۔ (سنن ابی داؤد)
قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالی کا مفہوم: ’’اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال تک دودھ پلائیں یہ (دودھ پلانے والا حکم) اس کے لیے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے۔‘‘ ( سورۃ البقرۃ)
حضرت ا بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’بچوں کو سب سے پہلے کلمہ (لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ) سکھلاؤ۔‘‘ (شعب الایمان للبیہقی)
حضرت وہب بن کیسانؒ سے مروی ہے کہ میں نے عمر بن ابی سلمہؓ سے سنا وہ فرماتے تھے کہ میں آپ ﷺ کی زیر تربیت تھا (ایک دن میں آپ ﷺ کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا) اور میرا ہاتھ سالن والے برتن میں گھوم رہا تھا (جیسا کہ عام طور پر بچوں کی عادت ہوتی ہے اپنے سامنے سے بھی کھاتے ہیں اور دوسروں کے سامنے سے بھی چیزیں اٹھا لیتے ہیں) تو مجھے رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: اے بچے! بسم اﷲ پڑھو، دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھاؤ۔ (صحیح البخاری)
اس حدیث مبارک میں تین باتیں سکھائی جا رہی ہیں کہ کھانا شروع کرتے وقت بسم اﷲ پڑھنی چاہیے، دائیں ہاتھ سے کھانا چاہیے اور اپنے سامنے سے کھانا چاہیے۔
ابُو رافع بن عمرو الغفاری رضی اﷲ عنہ کے چچا سے مروی ہے کہ جب میں بچہ تھا ان دنوں میں انصار کی کھجور توڑ رہا تھا مجھے نبی کریم ﷺ کے پاس لایا گیا تو آپ ﷺ نے مجھے فرمایا: اے بچے! تم (بغیر اجازت) کیوں کھجور توڑ رہے تھے؟ تو میں نے کہا کہ اپنے کھانے کے لیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: (کسی کی کھجور) مت توڑو۔ ہاں! جو نیچے گری ہوئی ہیں ان کو کھا لو۔ پھر میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور مجھے یہ دعا دی: اے اﷲ! اس کے پیٹ کو سیر کر دے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی)
حضرت عمرو بن شعیبؓ اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جب اولاد سات سال کی ہو جائے تو ان کو نماز پڑھنے کا کہو اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں پھر بھی نماز نہ پڑھیں تو ان کو مارو اور ان کے بستر بھی الگ الگ کردو۔‘‘
(سنن ابی داؤد)
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ میں ایک دن رسول اﷲ ﷺ کے پیچھے تھا تو آپ ﷺ نے مجھے فرمایا: اے بچے! میں تجھے چند (عقیدے کی) باتیں سکھلاتا ہوں: اﷲ کے دین کے احکام کی حفاظت کر اﷲ تیری حفاظت کرے گا۔ اﷲ کے احکام کی حفاظت کر تو اسے اپنا مددگار پائے گا جب تو مانگے تو اﷲ ہی سے مانگ اور جب تجھے مدد کی ضرورت ہو تو اﷲ سے مانگ اور اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلے کہ اگر سارے لوگ مل کر تجھے نفع دینا چاہیں تو وہ تجھے نہیں دے سکتے جتنا اﷲ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے اور اگر سارے لوگ اکٹھے ہوجائیں اور تجھے نقصان پہنچانا چاہیں تو نقصان نہیں پہنچا سکتے مگر جتنا اﷲ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے، تقدیر لکھنی والی قلموں کو اٹھا لیا گیا اور صحائف خشک ہوچکے ہیں۔ (جامع الترمذی)
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم:
’’گھر میں کوڑا اس طرح لٹکاؤ کہ وہ اسے دیکھتے رہیں یہ ان کو ادب سکھلانے کے لیے ہے۔‘‘
(یعنی کہ سرزنش بھی ہو سکتی ہے)
(المعجم الکبیر للطبرانی)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ چیزیں دینے میں اپنی اولاد میں برابری کا معاملہ کرو۔ (صحیح البخاری)
حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم:
’’اپنے آپ پر بددعا نہ کرو، نہ اپنی اولاد کو بددعا دو اور نہ ہی اپنے خدمت کرنے والوں کو بددعا دو اور نہ اپنے مالوں پر بددعا کرو بعض اوقات اﷲ کی طرف سے قبولیت کی گھڑی ہوتی ہے تو وہ بددعائیں قبول ہو جاتی ہیں۔‘‘ (سنن ابی داؤد)
بعض لوگوں جن میں اکثریت خواتین کی ہوتی ہے معمولی باتوں پر بچوں کو بددعائیں دیتی ہیں، انھیں اس حدیث مبارک سے سبق لینا چاہیے۔
اﷲ تعالیٰ ہمارے بچوں کو بلکہ ہماری نسلوں کو ایک اچھا مسلمان اور ایک اچھا شہری بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین