نیپرا نے کےالیکٹرک پر ڈھائی کروڑ روپے جرمانہ عائد کردیا، 15 روز میں جمع کروانے کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے کےالیکٹرک پر ڈھائی کروڑ روپے جرمانہ عائد کردیا، 15 روز میں جرمانہ بینک میں جمع کروانے کا حکم دیا گیا ہے۔
نیپرا نے جرمانہ جنوری 2023 میں پاور بریک ڈاؤن کے بعد بحالی میں ناکامی پر لگایا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ کے الیکٹرک اپنی آپریشنز ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام رہا، بار بار ٹریپنگ سے ظاہر ہوا بلیک اسٹارٹ فیسلیٹی کی موک ٹیسٹنگ کا فقدان تھا۔
دوسری جانب ترجمان کےالیکٹرک کا کہنا ہے کہ جنوری 2023 میں این ٹی ڈی سی سسٹم میں خرابی کے باعث پاور بریک ڈاؤن پر کےالیکٹرک کو جرمانہ باعث حیرت ہے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ نیپرا اتھارٹی کے فیصلے کا تفصیلی جائزہ لے رہے ہیں، نیپرا کے فیصلے کے جائزے کے بعد آگے کا لائحہ عمل طے کریں گے۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
حکومت نے آئی ایم ایف کا گردشی قرضے کا 200 ارب کا ہدف ماننے سے انکار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: پاکستان کے پاور سیکٹر میں ایک بار پھر مالی بحران نے سر اٹھا لیا ہے اور حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مقرر کردہ 200 ارب روپے کے گردشی قرضے کے ہدف کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیاہے کہ رواں مالی سال کے دوران بجلی کے شعبے میں مجموعی طور پر 535 ارب روپے کے اضافی نقصانات کا امکان ہے، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 35 فیصد زیادہ ہیں۔ ان نقصانات کی سب سے بڑی وجوہات لائن لاسز، ناقص وصولیاں اور پاور کمپنیوں کی غیر تسلی بخش کارکردگی بتائی جا رہی ہیں۔
پاور ڈویژن کے مطابق صرف بلوں کی کم وصولیوں کی وجہ سے 260 ارب روپے کا نقصان متوقع ہے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں تقریباً دو گنا اضافہ ظاہر کرتا ہے۔ علاوہ ازیں بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے نظام میں موجود تکنیکی خامیوں کے سبب مزید 276 ارب روپے کے نقصانات سامنے آ سکتے ہیں۔
ان اعداد و شمار نے آئی ایم ایف کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے، کیونکہ عالمی ادارہ چاہتا ہے کہ پاکستان گردشی قرضے کے اضافے کو 200 ارب روپے تک محدود رکھے، مگر پاور ڈویژن نے واضح کر دیا ہے کہ موجودہ حالات میں یہ ممکن نہیں۔
آئی ایم ایف کے نمائندوں نے پوچھا کہ اگر جولائی اور اگست میں کارکردگی بہتر رہی ، جب نقصانات 153 ارب روپے تک محدود رہے اور پچھلے سال کے مقابلے میں 37 فیصد کمی دیکھی گئی ، تو پھر باقی مالی سال میں یہ رجحان برقرار کیوں نہیں رکھا جا سکتا؟ تاہم پاور ڈویژن نے مؤقف اختیار کیا کہ بجلی چوری، بلوں کی عدم ادائیگی اور انتظامی کمزوریوں کے باعث بہتری کی گنجائش محدود ہے۔
واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے حالیہ بجٹ میں دی گئی سبسڈی اور چند اصلاحی اقدامات کے نتیجے میں جون 2024 تک گردشی قرضے کا حجم 2.42 ٹریلین روپے سے کم ہو کر 1.6 ٹریلین روپے تک لایا گیا، جس پر آئی ایم ایف نے اطمینان کا اظہار کیا ہے، لیکن ماہرین کے مطابق اگر بجلی کے نرخ بڑھائے بغیر یا چوری اور نقصانات پر قابو پائے بغیر اصلاحات نہ کی گئیں تو یہ کمی عارضی ثابت ہوگی۔
پاور سیکٹر کا بحران دراصل پاکستان کے معاشی ڈھانچے کی ایک کمزور کڑی بن چکا ہے، جو نہ صرف توانائی کی فراہمی بلکہ صنعتی پیداوار اور عام صارفین کی زندگی پر بھی براہِ راست اثر ڈال رہا ہے۔ مسلسل بڑھتے ہوئے نقصانات سے حکومت کے مالی اہداف بھی خطرے میں ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاور کمپنیوں کی کارکردگی بہتر نہ ہوئی اور بجلی چوری پر قابو نہ پایا گیا تو گردشی قرضے دوبارہ اسی رفتار سے بڑھنے لگیں گے، پاور ڈویژن کے ترجمان نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا، تاہم اندرونی ذرائع کے مطابق حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کا اگلا دور آئندہ ہفتے متوقع ہے۔