بھارت چاہتا ہے پاک، افغان اتنی تلخی ہو کہ وہ فائدہ اٹھا سکے، خورشید قصوری
اشاعت کی تاریخ: 15th, October 2025 GMT
سابق وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان پر پاک فوج کے ہونیوالے حملے سے خوش نہیں، لیکن کابل حکومت نے ہمارے لیے کوئی راستہ نہیں چھوڑا۔ خورشید قصوری کا کہنا تھا کہ ہمارے افسر اور جوان شہید ہو رہے ہیں، پاکستان کب تک سہتا؟ پاک، افغان تنازع میں قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے کہا ہے کہ افغانستان سے روزانہ جھگڑوں سے بھارت خوش ہوگا۔ خصوصی گفتگو میں انہوں نے کہا کہ بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان اور افغان کے درمیان اتنی تلخی ہو کہ وہ فائدہ اٹھا سکے۔ انہوں نے کہا کہ وہ افغانستان پر پاک فوج کے ہونیوالے حملے سے خوش نہیں، لیکن کابل حکومت نے ہمارے لیے کوئی راستہ نہیں چھوڑا۔ خورشید قصوری کا کہنا تھا کہ ہمارے افسر اور جوان شہید ہو رہے ہیں، پاکستان کب تک سہتا؟ پاک، افغان تنازع میں قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
.ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
پاک افغان تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی
ایک عمومی منطق یہ تھی کہ پاک افغان تعلقات میں بہتری نہ صرف دونوں ممالک بلکہ خطہ میں دہشت گردی سمیت مجموعی صورتحال سے نمٹنے میں مدد دے سکے گی۔ پاکستان جو دہشت گردی کے خلاف ایک بڑی داخلی جنگ لڑرہا ہے اس کا بھی ایک بڑا براہ راست تعلق افغانستان کی داخلی صورتحال سے تھا۔لیکن بدقسمتی سے افغانستان میں طالبان حکومت کے آنے کے بعد پاک افغان تعلقات میں بہتری کے امکانات پیدا ہونے کے بجائے نہ صرف بگاڑ پیدا ہوا بلکہ بداعتمادی کا ماحول بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔
اسی تناظر میں حالیہ پاک افغان محاذ پر جو سیاسی اور جنگی کشیدگی بڑھی ہے اس نے تعلقات کو اور زیادہ خرابی کی طرف دھکیلا ہے۔پاکستان کی جانب سے افغانستان کے اندر موجود ان سرحدی علاقوں میں داعش اور خوارج کے ٹھکانوں پر حملے جب کہ افغان فورسز نے پاک افغان بارڈر پر انگور اڈا،باجوڑ ،کرم ،دیر ،چترال سمیت دیگر علاقوں میں فائرنگ کرکے ماحول میں اور زیادہ جنگی جنون پیدا کردیا ہے۔کہا جاتا ہے کہ افغان فورسز کی جانب سے بلا اشتعال فائرنگ کا مقصد خوارج کی ٹولیوں کو بارڈر پار کروانا بھی تھا۔
دونوں ممالک کے درمیان یہ جنگی ماحول ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب افغان وزیر خارجہ دہلی کے دورے پر تھے اور پہلے ہی پاکستان کی مخالفت میں بھارت افغان گٹھ جوڑ کی باتیں ہو رہی تھیں ۔بھارت پر یہ الزام ہے کہ وہ افغانستان اور وہاں موجود کالعدم ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف ایک بڑی پراکسی جنگ کے طورپر بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔
اسی طرح بھارت اور افغان وزرائے خارجہ میں جو اہم ملاقات ہوئی اور اس کا جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا اس پر بھی پاکستان کے سخت تحفظات ہیں خاص طور پر دونوں ممالک میں یہ اتفاق کہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے یقیناً یہ پاکستان کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔پاکستان پہلے ہی علاقائی اور عالمی سیاست میں اس نقطہ پر مسلسل زور دے رہا ہے کہ فتنہ خوارج اور فتنہ الہندوستان افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی پر مبنی کارروائیاں کررہے ہیں اور اس پر افغان حکومت کا ردعمل وہ نہیں جو پاکستان چاہتا ہے۔
بنیادی نقطہ دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی کا یہ ہی ہے کہ افغان سرزمین کو مسلسل پاکستان کے خلاف ٹی ٹی پی استعمال کررہی ہے۔حالانکہ دوحہ مذاکرات میں افغان حکومت نے اسی نقطہ پر پاکستان کو یقین دہانی کروائی تھی کہ مستقبل میں نہ صرف افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہیں ہوگی بلکہ ٹی ٹی پی کے خلاف مشترکہ کارروائی ہوگی ،لیکن افغان حکومت اپنے وعدے کی پاسداری نہیںکرسکی ۔
افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے بقول پاکستان اپنے داخلی معاملات میں دہشت گردی کا علاج خود تلاش کرے اور ان کے بقول یہ کہنا غلط ہے کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی اور اس کے ٹھکانے موجود ہیں۔انھوں نے یہ دعوی بھی کیا کہ ہم نے پاکستان کے خلاف جو سیز فائر کیا ہے اس کی وجہ سعودی عرب اور قطر کی درخواست تھی کہ حملے بند کیے جائیں ۔
اہم بات یہ ہے کہ افغان وزیر خارجہ ٹی ٹی پی کی افغانستان میںموجودگی کا انکار کررہے ہیں حالانکہ سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں نہ صرف ٹی ٹی پی ملوث ہے بلکہ ان کے ٹھکانے بھی اور ان کو سہولت کاری بھی بھارت اور افغان حکومت کی جانب سے مل رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ افغان طالبان حکومت نے ٹی ٹی پی کی بنیاد پر پاکستان سے براہ راست مذاکرات سے کیونکر انکار کیا اور کیوں وہ یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ اس کی سرزمین پاکستان کے خلاف عملا استعمال ہورہی ہے۔
ایسا نہیں کہ پاکستان نے افغان حکومت سے مذاکرات یا سفارت کاری یا ڈپلومیسی کے محاذ پر ان مسائل کو اجاگر نہیں کیا مگر جب افغان حکومت پاکستان کے تحفظات پر حقایق کو تسلیم کرنے سے انکار کرے گی تو تعلقات میں بہتری کیسے پیدا ہوگی ۔
کیا سبب ہے کہ افغان حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی بھی بڑا ایکشن لینے کے لیے تیار نہیں اور جو شواہد پاکستان نے ٹی ٹی پی کے خلاف افغان حکومت کو پیش کیے ان کو بھی کسی سطح پر تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ حتی کہ جو بھارت اور افعانستان کے درمیان مشترکہ اعلامیہ سامنے آیا ہے اس میںبھی ان نکات کو فوقیت دی گئی ہے جن میں پاکستان مخالفت شامل ہے ۔ایسے لگتا ہے افغان وزیر خارجہ کا دورہ دہلی اور پاکستان پر افغان فورسز کا حملہ محض اتفاق نہیں بلکہ ایک مجرمانہ اشارہ ہے جو پاکستان کو بخوبی سمجھ لینا چاہیے کہ افغانستان کہاں کھڑا ہے۔بھارت اور افغانستان کا پاکستان کی مخالفت میں گٹھ جوڑ بہت سے منفی عزائم کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ مستقبل میں افغانستان کا طرز عمل کیا ہوگا۔
پاکستان نے افغانستان کو خبردار کیا ہے کہ اگر طالبان حکومت نے بھارت کے ساتھ مل کر خطہ سمیت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے ایجنڈے کو جاری رکھا تو پاکستان خاموش نہیں رہے گا۔پچھلے دنوں ایسی خبریں سامنے آئی تھیں کہ پس پردہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہت سے امور پر اتفاق ہوا ہے اور معاملات کو بات چیت کی مدد سے حل کرنے کا اعادہ بھی کیا گیا ۔
پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا دورہ کابل بھی اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ایک سوچ یہ بھی تھی کہ ان تعلقات کو بہتر بنانے اور بات چیت کا راستہ کھولنے کے لیے چین نے اہم کردار ادا کیا تھا مگر ایسے لگتا ہے کہ معاملات مذاکرات سے آگے بڑھ گئے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اس کی ایک بڑی وجہ افغان حکومت کا بھارت پر بڑھتا ہوا انحصار ہے اور وہ بھارت کی طرف اپنا جھکاؤ رکھتا ہے اور خود بھارت کی یہ پالیسی ہے کہ وہ افغانستان کو اپنے ساتھ جوڑ کر رکھے تاکہ وہ پاکستان پر نہ صرف اپنا دباؤ بڑھا سکے بلکہ افغانستان کو بھی پاکستان مخالف سرگرمیوں کا مرکز بنایا جائے ۔یہ بات دنیا کو بھی اور دیگر علاقائی ممالک کو بھی سمجھنی ہوگی کہ پاکستان کی افغانستان میں کارروائیاں اپنی ریاستی خود مختاری اور بقا کے زمرے میں آتی ہیں ۔ اگر افغان حکومت پاکستان کے تحفظات پر دھیان دیتی اور ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کو طاقت کے زور سے روکتی تو یقینی طور پر پاکستان کا ردعمل بھی مثبت ہوتا ۔کیونکہ افغانستان کی داخلی صورتحال اور ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کا براہ راست نشانہ پاکستان اور اس کی داخلی سیاست ہے تو اس پر پاکستان کا ردعمل بھی فطری ہے۔کیونکہ پاکستان کے ادارے اور عام شہری ٹی ٹی پی کے نشانے پر ہیں جو پاکستان کی داخلی سیکیورٹی سے جڑے مسائل میں سنگین نوعیت کے اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔
پاکستان کے پاس دو ہی راستے بچے تھے کہ وہ یا تو اس ساری صورتحال پر جو کچھ افغان حکومت اور ٹی ٹی پی کررہی ہے خاموش رہتا یا پھر بھرپور جواب دے کر اپنی داخلی خود مختاری اور سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیںکرتا۔یہ بات بھی سمجھنی ہوگی کہ پاکستان اور افعانستان کے درمیان جو نئی کشیدگی کی صورتحال پیدا ہوئی ہے وہ آج کی بات نہیں بلکہ کئی برسوں سے جاری وعدوں کی خلاف ورزی کا نتیجہ ہے۔
افعان حکومت کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ پاکستان نے ہر مشکل وقت میں نہ صرف افغانستان بلکہ خود طالبان کا بھی بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا اور جو کچھ پاکستان نے کیا اس کی تاریخ میں مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔پاکستان اور افغانستان کے حالات کا بگاڑ یا جنگ دونوں ممالک کے لیے مسائل کا حل نہیں اور اس کا حل جہاںبات چیت یا مذاکرات کے نتیجے سے ممکن ہوگا وہیں افغانستان کو پاکستان کے اہم تحفظات اور ٹی ٹی پی کے تناظر میںاپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ افغان سرزمین پاکستان کی مخالفت اور عدم استحکام پیدا کرنے میںاستعمال ہورہی ہے۔
بھارت اور افغانستان کے تعلقات دونوں ملکوں کی بڑی ضرورت ہوسکتے ہیں لیکن افغانستان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان تعلقات کی بنیاد پاکستان دشمنی یا پاکستان کو غیر مستحکم کرنے سے جڑی نہیں ہونی چاہیے۔کیونکہ یہ خدشات پاکستان کی سطح پر بڑھ رہے ہیں کہ دونوںممالک پاکستان مخالف ایجنڈا رکھتے ہیں جو ہماری داخلی سلامتی کے لیے اور زیادہ خطرات کو پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔
اس سلسلے میں چین کا کردار سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور جہاں آج پاکستان اور افغانستان بداعتمادی کے ساتھ کھڑے ہیں وہیں چین ان تعلقات کے بگاڑ کو بہتر بنانے میں بڑا کردار ادا کرسکتا ہے۔لیکن اس کے لیے پہلی شرط کے طورپر دونوں اطراف سے ایک سازگار ماحول کو پیدا کرنا ہوگا،اشتعال انگیزیوں اور الزام تراشیوں یا طعنہ زنی سے بھی باہر نکلنا ہوگا اور جو بھی دونوں ملکوں کے ایک دوسرے کے بارے میں تحفظات ہیں ان کو مذاکرات کا حصہ بنا کر ہی امن کی طرف جایا جا سکتا ہے۔