سہیل آفریدی نے پاکستانی کی جگہ پارٹی پرچم‘قائداعظمؒ کی تصویر کی بجائے بانی کی لگا دی: خواجہ آصف
اشاعت کی تاریخ: 17th, October 2025 GMT
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) وزیر دفاع خواجہ آصف نے بیان میں کہا ہے کہ وزیراعلیٰ خیبر پی کے کے آفس سے قومی پرچم ہٹا دیا گیا۔ سہیل آفریدی نے آفس میں پارٹی پرچم لگا دیا ہے۔ قائداعظم کی تصویر کی جگہ عمران خان کی تصویر نے لے لی۔ پی ٹی آئی شہداء کے جنازے نہیں پڑھتی اور فوج کے جنازے نہیں پڑھتی۔ دہشت گردی کی مذمت سے گریز کرتی ہے اور خیبر پی کے میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن کی اجازت سے بھی انکاری ہے۔ کیا پی ٹی آئی کی پاکستان کے ساتھ حب الوطنی اقتدار سے مشروط ہے، کیا اگر قومی پالیسیاں آپ کی مرضی کے مطابق نہ ہوں تو وہ وفاق پر حملہ آور ہوں گے، کیا یہ حب الوطنی ہے؟ وطن سے محبت اقتدار سے مشروط ہے؟
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
بانو قدسیہ ، حب الوطنی اور قرۃ العین
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">انٹرویو نما رائٹ اَپ کے مطابق بانو قدسیہ نے کہا تھا کہ وہ ممتاز ناول نگار قرۃ العین حیدر اور معروف افسانہ نگار عصمت چغتائی کے بارے میں رائے نہیں دینا چاہتیں کیونکہ بقول بانو قدسیہ کے، وہ انڈین رائٹر ہیں
ایسا لگتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی اور کنٹونمنٹ کے علاقوں کی زمینوں کے سوا ہر چیز سستی چیز یعنی Cheap ہوگئی ہے… یہاں تک کہ حب الوطنی بھی۔ مگر یہ تو بعض حقائق کا اجمال ہے۔ اس اجمال کی تفصیل کے لیے ہمیں معروف ڈراما نگار اور افسانہ نویس بانو قدسیہ کے ایک رائٹ اَپ نما انٹرویو یا انٹرویو نما رائٹ اَپ کے بعض جملوں سے گزرنا پڑے گا۔
انٹرویو نما رائٹ اَپ کے مطابق بانو قدسیہ نے کہا تھا کہ وہ ممتاز ناول نگار قرۃ العین حیدر اور معروف افسانہ نگار عصمت چغتائی کے بارے میں رائے نہیں دینا چاہتیں کیونکہ بقول بانو قدسیہ کے، وہ انڈین رائٹر ہیں اور جب تک کشمیر آزاد نہیں ہوجاتا، وہ ان ادیباؤں کے کام کا نام نہ لیں گی۔
بانو قدسیہ کا ناول ”راجا گدھ“ ہمیں اور ہمارے بعض احباب کو اتنا پسند ہے کہ ہم نے اسے تین بار خریدا اور تینوں مرتبہ کچھ دن بعد احباب میں سے کوئی نہ کوئی اسے لے اُڑا۔ لیکن یہ اس ناول سے پیدا ہونے والا واحد مسئلہ نہ تھا، اس ناول کی بابت ہمیں یہ مسئلہ بھی درپیش ہوا کہ اسے کتنی بار پڑھا جائے۔ اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ہم نے یہ رائے قائم کی کہ بانو قدسیہ قارئین کے لیے مسائل کھڑے کرنے والی ادیبہ ہیں، اور ادب میں یہ صورتِ حال کم کم پیش آتی ہے کہ کوئی لکھنے والا اپنے قارئین کے لیے مختلف قسم کے مسائل کھڑے کردے۔ اتفاق دیکھیے کہ بانو قدسیہ کے ناول ہی نہیں، ان کے انٹرویو کے مذکورہ نکات نے بھی ہمارے لیے سنگین مسائل پیدا کردیے ہیں۔ ان مسائل کا اجمال یہ ہے۔
عصمت چغتائی تو نہیں البتہ قرۃ العین حیدر ہمیں بہت پسند ہیں، لیکن بانو قدسیہ نے حب الوطنی کا جو پیمانہ مقرر کیا تھا اور کشمیر کے کاز سے جس وابستگی کا مظاہرہ کیا تھا، اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم بھی قرۃ العین حیدر کے کام کے ذکر سے کشمیر کی آزادی تک توبہ کرلیں۔ لیکن یہ تو مسئلے کا محض ایک سرسری سا پہلو ہے۔ ہمیں تو دہلی کی جامع مسجد اور آگرہ کا تاج محل بھی بہت پسند ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کشمیر کی آزادی تک ہم جامع مسجد اور تاج محل کی تعریف و توصیف سے بھی گئے۔ اب کہنے کو تو ہم نے حب الوطنی کو سستا کہہ دیا ہے، لیکن اس صورتِ حال کو دیکھا جائے تو حب الوطنی خاصی مہنگی پڑتی نظر آتی ہے۔
اتفاق سے ہم ایک قوم کے فرد اور ایک وطن کے شہری ہی نہیں، ایک ملّت کا بھی حصہ رہے ہیں اور ہیں! اس ملّت کو برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ کہا جاتا ہے۔ اتفاق سے کسی زمانے میں برصغیر پر اس ملّت کی حکمرانی تھی اور جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، انگریزوں نے سازش اور طاقت کے بَل پر ہمیں ایک عظیم اقتدار سے محروم کردیا تھا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں برطانیہ کا شاعر جان کیٹس اور نقاد ٹی ایس ایلیٹ بہت پسند ہیں، چونکہ انگریزوں نے ہم سے برصغیر کی حکمرانی چھینی تھی، چونکہ انھوں نے طویل عرصے تک برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ کی زندگی کو جہنم بنائے رکھا تھا، اور چونکہ انھوں نے اپنے گھناؤنے تسلط پر ہم سے ابھی تک معافی نہیں مانگی ہے، اس لیے حُبِّ ملّت کا تقاضا ہے کہ جب تک انگریز ہم سے اپنے مظالم اور استبداد کی معافی نہ مانگیں، ہم جان کیٹس اور ٹی ایس ایلیٹ کے کام کا ذکر نہ کریں۔
جہاں تک روس کے عظیم ناول نگار دوستو وسکی کا تعلق ہے، تو اس کا کیا کہنا! اس کے ناول تو ہمیں اتنے پسند ہیں کہ ان کے سامنے ہمیں ہر ناول معمولی محسوس ہوتا ہے۔ لیکن جناب یہاں بھی ایک مسئلہ ہے، اور وہ مسئلہ یہ ہے کہ سابق سوویت یونین کے کمیونسٹ حکمرانوں نے سوویت یونین میں مسلمانوں کی کئی ریاستوں کو ہڑپ کرلیا۔ بعد ازاں سوویت یونین نے برادر ملک افغانستان پر قبضہ کرکے وہاں انسانی تاریخ کے بدترین مظالم کیے۔ ہرچند کہ روس کو وہاں ذلت آمیز شکست ہوئی اور اسے افغانستان سے جانا پڑا، مگر سابق سوویت یونین یا موجودہ روس نے اس عظیم سانحے پر معافی مانگنا تو درکنار، ہم سے معذرت تک نہیں کی۔ چنانچہ حُبِّ ملّت کا تقاضا ہے کہ ہم دوستووسکی کے نام اور کام کا ذکر بند کردیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر ہم بانو قدسیہ سے اس سلسلے میں مشورہ کرتے تو وہ ہم سے یہی کہتیں کہ جو میں نے کیا وہی کرو۔ لیکن ذرا آئیے، اس سلسلے میں اپنی اسلامی تاریخ سے بھی مشورہ کرلیں، غالباً اس حوالے سے ایک مشورہ کافی ہوگا۔
یہ اسلامی تاریخ کا وہ زمانہ ہے جب امتِ مسلمہ کو تاتاریوں کے طوفانِ بلاخیز کا سامنا تھا۔ جلال الدین خوارزم چنگیز خان سے لڑتے لڑتے تھکا جارہا تھا۔ ایسے میں اُسے ایک دن چنگیز خان کے انتقال کی اطلاع موصول ہوئی۔ اس موقع پر جلال الدین نے اُس چنگیز خان کے بارے میں، جس نے لاکھوں مسلمانوں کو تہ تیغ کردیا تھا، کہا کہ وہ ایک بہادر دشمن تھا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اپنے دشمن کی خوبیوں کی تعریف سے کبھی نہیں گھبرائے، اور انھیں کبھی کسی کی تعریف معرضِ التوا میں نہیں ڈالنی پڑی۔ اس لیے کہ ان کا دین، ان کا تصورِ کائنات، ان کا تصورِ انسان اور تصورِ زندگی ان میں ایسی کشادگی اور ایسی خوداعتمادی پیدا کرتا ہے کہ جس میں کم ظرفی، تھڑدلی اور تنگ نظری کے لیے کوئی گنجائش نہیں نکلتی۔
جہاں تک ہمیں معلوم ہے قرۃ العین حیدر یا راجندر سنگھ بیدی (جن کی توصیف سے بھی بانو قدسیہ نے گریز کیا تھا) بھارت کے شہری ضرور تھے، لیکن وہ بھارتی حکومت نہیں تھے، اور نہ ہی مسئلہ کشمیر کی پیدائش اور اس کے استقرار میں ان کا کوئی کردار تھا۔ لیکن اس کے باوجود بانوقدسیہ ان کی تعریف سے گریز کررہی تھیں اور اس گریز کے لیے انھوں نے نام نہاد حب الوطنی کا سہارا لیا تھا۔ کشمیر کی تحریکِ آزادی صرف ایک جغرافیے میں نہیں… لاکھوں مسلمانوں کے دلوں، دماغوں اور روحوں میں چل رہی ہے، اور یہ ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ لیکن اس کے باوجود بانو قدسیہ کے رویّے کا کوئی جواز نہیں۔ اس لیے کہ اس کا مسلمانوں کی تاریخ اور مسلمانوں کے مجموعی مزاج سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو نہ اتنی سستی حب الوطنی کی ضرورت تھی اور نہ ہونی چاہیے۔ اس سے پاکستان مضبوط نہیں بلکہ کمزور ہوگا اور ہوا ہے، اس لیے کہ اُس کے حصے میں ایسی ہی حب الوطنی آئی ہے۔ اس حب الوطنی کے کئی چہرے ہیں۔ ایک چہرہ وہ ہے جو پاکستان کو 1947ء سے شروع کرنا چاہتا ہے اور اس سے پہلے کی ہر چیز اور ہر بات کو بھلا دینا چاہتا ہے۔ ایک چہرہ وہ ہے جو پاکستان کی تاریخ کو موہن جودڑو کے مُردہ خانے میں تلاش کرتا ہے۔ ایک چہرہ وہ ہے جو پاکستان کو ”سندھ ساگر“ کی کابُک میں بند کردینے کی خواہش رکھتا ہے۔
شاہنواز فاروقی
دانیال عدنان