سندھ ہائیکورٹ میں کراچی چڑیا گھر کی مادہ ریچھ ’رانو‘ کو قدرتی ماحول میں منتقل کرنے سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی، جس دوران عدالت نے سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا 21ویں صدی میں جانوروں کو بھی پنجروں میں قید رکھا جاسکتا ہے؟

جسٹس کلہوڑو کے ریمارکس

جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے ریمارکس دیے کہ جب میں چھوٹا تھا تو چڑیا گھر جاتا تھا، اس وقت سارے جانور زخمی ہوتے تھے۔ جانوروں کو چھوٹے چھوٹے پنجروں میں بند رکھنے کا کیا مطلب ہے؟

یہ بھی پڑھیں:کراچی چڑیا گھر میں مادہ بنگال ٹائیگر کی ہلاکت کیسے ہوئی؟

عدالت نے کہا کہ چڑیا گھروں کو بند کردیا جائے، جانوروں کو کھلے مقامات پر رکھا جائے جیسے نیشنل پارکس میں رکھا جاتا ہے۔

دنیا بھر کے زو اور پاکستان کا نظام

جسٹس کلہوڑو نے مزید کہا کہ دنیا بھر میں زو موجود ہیں مگر اس طرح نہیں جیسے ہمارے یہاں ہیں، جانوروں کو قید خانوں میں رکھنا ظلم ہے۔ عدالت نے کہا کہ بندر ہو یا کوئی اور جانور، انہیں قید خانے میں بند نہ رکھا جائے۔

ریچھ کی منتقلی سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش

سماعت کے دوران سینیئر ڈائریکٹر کراچی زو نے عملدرآمد رپورٹ پیش کی، جس میں بتایا گیا کہ اسلام آباد وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ، فور پاز اور قومی ایئرلائن سے ریچھ کی منتقلی کے لیے رابطہ کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق قومی ایئرلائن نے ہوائی سفر کے لیے ضروری ہدایات جاری کردی ہیں جبکہ محفوظ پنجرے اور پروٹوکولز پر بات چیت جاری ہے۔

فور پاز کی تجویز اور کے ایم سی کا مؤقف

رپورٹ میں بتایا گیا کہ فور پاز کی ٹیم اس وقت ارجنٹینا میں مصروف ہے اور انہوں نے ریچھ ’رانو‘ کی منتقلی 15 نومبر کے بعد کرنے کی تجویز دی ہے۔ کے ایم سی نے مؤقف اپنایا کہ اسے بین الاقوامی تنظیم کی تجویز پر کوئی اعتراض نہیں۔

جنگلی حیات کے کنزرویٹر جاوید مہر کے مؤقف

کنزرویٹر جنگلی حیات جاوید مہر نے عدالت کو بتایا کہ ایک ریچھ کی منتقلی کے لیے بین الاقوامی ماہرین کی خدمات لینا مناسب نہیں، قومی ماہرین یہ کام بہتر طور پر کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے اقدامات سے ملک کا تماشا بنتا ہے۔

کراچی زو میں صرف ایک ویٹرنری ڈاکٹر، عدالت کا اظہار حیرت

عدالت نے استفسار کیا کہ کراچی زو میں کتنے ویٹرنری ڈاکٹرز ہیں، جس پر بتایا گیا کہ صرف ایک ویٹرنری ڈاکٹر موجود ہے۔ عدالت نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کراچی جیسے بڑے شہر کے سب سے بڑے زو میں صرف ایک ڈاکٹر؟

بھرتیوں پر پابندی اور عدالت کی ہدایت

کے ایم سی کے وکیل نے بتایا کہ نئی بھرتیوں پر پابندی ہے، اس لیے دوسرا ویٹرنری بھرتی نہیں کیا گیا۔ عدالت نے اس پابندی سے متعلق رپورٹ آئندہ سماعت پر طلب کرلی اور کراچی زو میں موجود جانوروں کی تعداد و حالت زار پر بھی تفصیلی رپورٹ مانگ لی۔

’پہلے ریچھ کو منتقل کیا جائے‘،عدالت کی ہدایت

عدالت نے کہا کہ پہلے ریچھ رانو کو منتقل کیا جائے، پھر دیگر جانوروں کے بارے میں بھی دیکھا جائے گا۔ سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کردی گئی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

چڑیا گھر ریچھ رانو سندھ ہائیکورٹ کراچی زو.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: چڑیا گھر ریچھ رانو سندھ ہائیکورٹ کراچی زو جانوروں کو کی منتقلی نے کہا کہ کراچی زو عدالت نے چڑیا گھر کے لیے

پڑھیں:

کراچی : رات گئے کھلے مین ہول میں گرنے والا بچہ صبح تک نہ مل سکا، تلاش جاری، شہریوں کا احتجاج

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی: شہر کے مصروف علاقے گلشن اقبال میں نیپا چورنگی کے قریب گزشتہ رات کھلے مین ہول میں گر کر لاپتا ہونے والا بچہ صبح تک نہیں مل سکا، جس کی تلاش جاری ہے۔

اتوار کی شب تقریباً گیارہ بجے ایک ڈیپارٹمنٹل اسٹور سے خریداری کے بعد گھر لوٹتے ہوئے کمسن بچہ ابراہیم اپنے والد کا ہاتھ چھڑا کر بھاگا اور کچھ ہی فاصلے پر موجود بغیر ڈھکن والے گٹر میں جا گرا۔ اہلخانہ کے مطابق واقعہ چند لمحوں میں اس وقت پیش آیا جب بچے کے والد موٹر سائیکل پارک کر رہے تھے اور بچہ انہی کے پیچھے چلتے ہوئے اس کھلے مین ہول میں جا گرا جس کا ڈھکن غائب تھا۔

حادثے کے فوراً بعد ریسکیو اداروں نے جائے وقوع پر پہنچ کر بچے کی تلاش شروع کی، تاہم ابتدائی کوششیں ناکام رہیں۔ اہلکاروں نے کچھ دیر تک کوشش کی لیکن محدود وسائل اور مناسب مشینری کی عدم دستیابی کے باعث ریسکیو آپریشن روکنا پڑا۔

موقع پر موجود افراد نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سرکاری اداروں سے کوئی افسر جائے وقوع پر موجود نہیں تھا اور نہ ہی کھدائی کے لیے ضروری مشینیں فراہم کی گئیں۔

ریسکیو اداروں کی بے بسی دیکھتے ہوئے علاقے کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ہیوی مشینری منگوائی، جس کے ذریعے کھدائی کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا اور گھنٹوں بعد بھی جاری رہا۔ ابراہیم کے والدین اور دیگر اہلخانہ جائے وقوع پر موجود رہے جب کہ بچے کی ماں شدید صدمے کے باعث بار بار بے ہوش ہوتی رہی۔

بچے کے دادا محمود الحسن نے بتایا کہ ابراہیم والدین کا اکلوتا بیٹا ہے۔ ریسکیو ٹیموں کی سست رفتاری نے ان کی پریشانی مزید بڑھا دی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ تلاش کے عمل کو تیز کرنے کے لیے اضافی مشینری اور عملہ فوری فراہم کیا جائے۔

حادثے کے بعد علاقے میں شدید غم و غصہ پھیل گیا اور رہائشیوں نے نیپا چورنگی کے مختلف راستے بند کر کے احتجاج شروع کر دیا۔ مشتعل شہریوں نے ٹائر جلا کر ٹریفک معطل کر دی، جبکہ حسن اسکوائر اور جامعہ کراچی جانے والے راستوں پر بھی رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں۔ احتجاج کے دوران بعض مظاہرین نے میڈیا وین پر پتھراؤ بھی کیا جس سے صورتحال مزید کشیدہ ہوگئی۔

سندھ حکومت نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے غفلت پر تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔ صوبائی حکومت کی ترجمان سعدیہ جاوید نے کہا کہ اس  بات کی جانچ کی جائے گی کہ مین ہول کا ڈھکن کیوں غائب تھا اور اس میں کس ادارے یا افسر کی کوتاہی شامل ہے۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ غفلت ثابت ہونے پر سخت کارروائی کی جائے گی۔

متعلقہ مضامین

  • سندھ ہائیکورٹ کا 27 ویں ترمیم کے حوالے سے اہم فیصلہ آ گیا
  • سندھ ہائیکورٹ: مائینز اینڈ منرل کے رولز میں ترمیم، متعلقہ افسر طلب
  • میئر بتائے معصوم بچے کا خون کس کے ہاتھ پر تلاش کیا جائے‘ سنی تحریک
  • سانحہ کراچی کی بدحالی اور بلدیاتی اداروں کی نااہلی کا کھلا ثبوت ہے
  • سندھ ہائیکورٹ کا27ویں ترمیم پراہم فیصلہ آ گیا
  • کراچی میں گٹروں کے کھلے ڈھکن حکومتی نااہلی کا پلندہ ثابت ہوچکے ہیں، حلیم عادل شیخ
  • سندھ ہائیکورٹ میں دودھ کی قیمتوں سے متعلق کیس کی سماعت، کراچی میں فروخت ہونے والا دودھ ناقص قرار
  • سینیٹری پیڈز پر عائد ٹیکس کیخلاف کیس: لاہور ہائیکورٹ نے ایف بی آر کے اعتراضات مسترد کردیے
  • کمسن بچہ کھلے مین ہول میں گرنے کے بعد لاپتہ، ’ایف آئی آر میئر کراچی پر کاٹی جائے‘
  • کراچی : رات گئے کھلے مین ہول میں گرنے والا بچہ صبح تک نہ مل سکا، تلاش جاری، شہریوں کا احتجاج