سپر ٹیکس کیس؛ سپریم کورٹ میں سگریٹ پر ٹیکس، قیمت اور منافع پر بحث
اشاعت کی تاریخ: 17th, October 2025 GMT
اسلام آباد:
سپر ٹیکس کیس میں آج سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران سگریٹ پر ٹیکس، قیمت اور منافع پر بحث ہوئی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی آئینی بینچ کے روبرو سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، جس میں درخواست گزاروں کے وکیل اعجاز احمد زاہد نے اپنے دلائل مکمل کیے، جس کے بعد سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی۔
دوران سماعت وکیل اعجاز احمد زاہد نے عدالت کو بتایا کہ ایف بی آر میں کل 10 ٹوبیکو کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں۔ ایف بی آر کے وکلا نے اپنے دلائل کے دوران ایک ٹیبل پیش کیا اور اپنا موقف تبدیل کر لیا۔ ایک سگریٹ کی ڈبی جو 173 روپے کی ہے اس پر 44 ٹیکس ہے۔ ٹوبیکو کی قیمت پاکستان ٹوبیکو کمپنی کنٹرول کرتی ہے۔ ایک سگریٹ کا پیکٹ جس کی قیمت 77 روپے ہے اس پر 44 روپے ٹیکس ہے اور 33 روپے بچت ہے ۔ موجودہ قانونی رجیم کے ہوتے ہوئے ونڈ فال لینا میرے لیے ممکن نہیں ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس یدے کہ ہم مقدمے کے حقائق میں نہیں جائیں گے آپ قانونی سوالات پر دلائل دیں، جس پر وکیل نے کہا کہ اگر قیمت میں اضافہ ہو گا تو ٹیکس بھی بڑھے گا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ نے ٹیکس دینا ہے وہ آپ کے نفع سے ہی ہو گا، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ جو ہمارے سامنے پیش کیا جا رہا ہے وہ اصل بجٹ نہیں ہے۔ سابق وزیر خرانہ شوکت ترین کا بیان موجود ہے کہ آئی ایم ایف بجٹ نافذ کرنے کا کہہ رہا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ چھبیسویں ترمیم کے بعد آئینی بینچ ہیں، ہم نے تمام آئینی مقدمات دیکھنے ہیں، ہم کیسے آئینی سوال کو اگنور کر سکتے ہیں؟۔ 18 ویں ترمیم کے بعد سینیٹ میں نسبتاً زیادہ ٹیکنوکریٹ ہیں، اس لیے وہاں سے مشورے بہتر آسکتے ہیں۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ویسے آپ کی کمپنی کو داد دینی پڑے گی اتنے کم منافع میں 300 ملین روپے کما رہے ہیں۔ چھوٹے مارجن سے اتنا کما رہے ہیں داد تو بنتی ہے۔
وکیل نے بتایا کہ کہا گیا کہ ہمیں آئی ایم ایف کا بڑا پریشر تھا ۔ جسٹس جمال نے استفسار کیا کہ آپ کی سگریٹ افغانستان سے برآمد ہو تو پھر ؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ اگر کسی اور ملک کی سگریٹ برآمد ہوتی تو میں ذمہ دار نہیں ہوں ۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ان سے خرید کر کوئی اور اسمگل کرسکتا ہے ۔ مال ایکسائز افسر کے سامنے باہر جاتا ہے ۔
وکیل اعجاز احمد نے اپنے دلائل میں کہا کہ مالیاتی خسارہ کو ختم کرنا ہے تو وہاں سے کریں جہاں سے لیکیج ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ سارا ٹیکس خود نہیں دے رہے جو سگریٹ نوشی کرتے ہیں وہ بھی دے رہے ہیں ۔ آپ صرف انکم ٹیکس دے رہے ہیں ۔ آپ کے پروڈکٹ کو استعمال کرنے والے مخصوص لوگ ہیں جو اچانک نہیں بڑھتے ۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت پیر کے روز تک ملتوی کردی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جسٹس جمال نے کہا کہ پر ٹیکس وکیل نے رہے ہیں
پڑھیں:
26ویں آئینی ترمیم کیس: ضرورت پڑی تو تمام آئینی بینچ کے ججز کو شامل کیا جاسکتا ہے: جسٹس محمد علی
—فائل فوٹوچھبیسویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران جسٹس محمد علی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئینی بینچ چھبیسویں آئینی ترمیم کا کیس سن سکتی ہے، ضرورت پڑی تو تمام آئینی بینچ کے ججز کو شامل کیا جاسکتا ہے۔
چھبیسویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 8 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
پاکستان بار کونسل کے وکیل عابد زبیری نے کہا کہ بینچز میں تمام ججز بھی بیٹھ سکتے ہیں، آئینی بینچ مزید بینچز بنانےکا اختیار رکھتا ہے، تمام فیصلے بینچز کی تشکیل سے متعلق ہیں، جسٹس محمدعلی کے فیصلے موجود ہیں، فل کورٹ کی تشکیل کے حوالے سے جوڈیشل آرڈر جاری ہونا چاہیے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا پھر ہمیں فل کورٹ کو بینچ کہنا چھوڑنا ہوگا، جس پر وکیل عابد زبیری نے کہا فل کورٹ کو بینچ نہیں بلکہ فل کورٹ ہی کہیں گے۔
چھبیسویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 8 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کسی جج کو فل کورٹ کی تشکیل کی ڈائریکشن نہیں دے سکتے جس کا دائرہ اختیار ہی نہ ہو، جس پر عابد زبیری نے جواب دیا آئینی بینچ کے پاس جوڈیشل آرڈر پاس کرنے کے اختیارات ہیں، آئینی بینچ مزید بینچز بنا سکتا ہے۔
سماعت کے دوران آئینی بینچ کے رکن جسٹس محمد علی نے وکیل عابد زبیری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آئینی بینچ چھبیسویں آئینی ترمیم کا کیس سن سکتی ہے، ضرورت پڑی تو تمام آئینی بینچ کے ججز کو شامل کیا جاسکتا ہے، لیکن آپ کہہ رہے ہیں کہ فلاں بیٹھیں گے اور فلاں نہیں، تو یہ عجیب بات ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے وکیل سے پوچھا کہ آپ چھبیسویں آئینی ترمیم سے قبل کے ججز پر مبنی بینچ کیوں چاہتے ہیں؟
جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل عابد زبیری سے سوال کیا کہ آپ کا مؤقف کیا ہے؟ فل کورٹ بنائیں یا جوڈیشل کمیشن کو ڈائریکشن دیں؟
پاکستان بار کے سابق صدور کے وکیل عابد زبیری نے کہا کہ فل کورٹ آئینی بینچ تشکیل دے، چیف جسٹس سمیت تمام 24 ججز پر مشتمل بینچ بھی ہو سکتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کے پاس بینچ بنانے کا اختیار نہیں، جوڈیشل کمیشن صرف ایک پینل دیتا ہے، تین رکنی کمیٹی بینچز بنا سکتی ہیں۔