سپر ٹیکس کیس: یہاں انکم ٹیکس نہیں دیتے تو سپر ٹیکس کیسے دیں گے، جج سپریم کورٹ
اشاعت کی تاریخ: 15th, October 2025 GMT
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سپر ٹیکس سے متعلق دائر درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے ہیں کہ یہاں تو انکم ٹیکس نہیں دیتے، سپر ٹیکس کیسے دیں گے، اب تو سیلاب کی وجہ سے یہ نا کہہ دیں کہ جو ٹیکس لگا ہے وہ بھی نہیں دیں گے۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سپر ٹیکس سے متعلق دائر درخواستوں پر سماعت کی، مختلف ٹیکس پیرز کے وکیل فروغ نسیم نے دلائل دیے اور مؤقف اپنایا کہ سپر ٹیکس سیکشن چھ بی (اے) کے تحت ہی لگایا جا سکتا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ یکم جولائی 2021 سے 30 جون 2022 تک کون سا ٹیکس ائیر ہو گا، سادہ لفظوں میں پوچھوں تو پیج نمبر ایک سے ان ورڈز لکھا ہے تو کیا پیج نمبر ایک سے پڑھیں گے؟۔
فروغ نسیم نے مؤقف اپنایا کہ اگر یہ لکھا ہو کہ پیج نمبر ایک سے ان ورڈ تو وہ پیج نمبر دو سے پڑھا جائے گا، جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ جب چارجز سیکشن کے تحت ٹیکس لیا جا سکتا ہے تو پھر کیا مسلئہ ہے؟۔
فروغ نسیم نے جواب دیا کہ چارجز سیکشنز اور انشورنس کمپنیوں کے حوالے سے کئی عدالتی فیصلے موجود ہیں، انشورنس کمپنی پر کون سا اور کتنا ٹیکس نافذ ہو گا اس حوالے سے بھی سیکشن موجود ہے، ٹیکس نافذ کرنے کے لیے شیڈول ضروری ہے بغیر شیڈول کے ٹیکس نہیں لگایا جا سکتا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ یہاں تو انکم ٹیکس نہیں دیتے سپر ٹیکس کیسے دیں گے، اب تو سیلاب کی وجہ سے یہ نا کہہ دیں کہ جو ٹیکس لگا ہے وہ بھی نہیں دیں گے۔
سریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت کل ساڑھے نو بجے تک ملتوی کردی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ٹیکس نہیں سپر ٹیکس پیج نمبر دیں گے
پڑھیں:
‘کیا موجودہ بینچ متعصب ہے؟’ سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت
سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8 رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال شامل تھے۔
یہ بھی پڑھیے: اہم آئینی مقدمہ: سپریم کورٹ میں 26ویں ترمیم کے قانونی جواز پر بحث شروع
سماعت کے دوران سپریم کورٹ بار کے سابق صدور کے وکیل عابد زبیری نے دلائل پیش کیے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا کسی جماعت کا یہ حق بنتا ہے کہ بینچ ہٹا کر دوسرا بینچ بنایا جائے؟ کیا ہم پابند ہیں کہ بینچ تبدیل کریں؟
انہوں نے مزید کہا کہ کیا جماعت چاہتی ہے کہ اسے مخصوص بینچ یا مخصوص ججز دیے جائیں؟ کسی جماعت کا حق نہیں کہ بینچ منتخب کرے۔
عابد زبیری نے مؤقف اپنایا کہ یہ بہت اہم کیس ہے، اسی لیے فل کورٹ تشکیل دیا جانا ضروری ہے۔
جسٹس امین الدین نے استفسار کیا کہ آپ فل کورٹ کیوں چاہتے ہیں؟ جس پر عابد زبیری نے کہا کہ عدالت کے اپنے فیصلے ہیں کہ ایسے آئینی معاملات میں فل کورٹ ہونا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیے: اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی: 26ویں آئینی ترمیم کے خاتمے اور ایس آئی ایف سی تحلیل کرنے کا مطالبہ
جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ آرٹیکل 191 اے فل کورٹ پر بات نہیں کرتا بلکہ بینچ سے متعلق ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آئینی بینچ جوڈیشل کمیشن کے تحت نامزد ہوتا ہے، اس میں فل کورٹ کا ذکر نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ 8 ججز بیٹھ کر فیصلہ کریں تو غلط ہوگا؟ 8 ہم بیٹھیں یا فل کورٹ بیٹھے، بات تو ایک ہی ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ موجودہ بینچ متعصب ہے؟
عابد زبیری نے مؤقف اپنایا کہ ہم کسی جج پر اعتراض نہیں کر رہے، سب ججز قابلِ احترام ہیں، البتہ 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست بہت اہم نوعیت کی ہے، اس لیے تمام ججز پر مشتمل فل کورٹ ہونا چاہیے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ اعتراض اٹھایا جا رہا ہے کہ چیف جسٹس اور موجودہ آئینی بینچ خود 26ویں ترمیم کا نتیجہ ہیں، تو پھر کیا آئینی بینچ فل کورٹ کا آرڈر دے سکتا ہے؟ عابد زبیری نے کہا کہ آئینی بینچ جوڈیشل آرڈر پاس کرسکتا ہے، جبکہ بینچ کی تشکیل انتظامی معاملہ ہوتا ہے۔ اب چیف جسٹس ماسٹر آف دی روسٹر نہیں رہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آرٹیکل 191 اے میں فل کورٹ کا کوئی ذکر نہیں، آئینی بینچ ہی آئینی معاملات سننے کا مجاز ہے۔
یہ بھی پڑھیے: 26ویں آئینی ترمیم کیس: مصطفیٰ نواز کھوکھر کی رجسٹرار آفس کے اعتراضات کیخلاف اپیل دائر
سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ فل کورٹ چاہتے ہیں لیکن محدود ججز کے ساتھ، چوبیس ججز پر مبنی فل کورٹ کیوں نہیں چاہتے؟ عابد زبیری نے جواب دیا کہ ہم کسی جج کو نکالنے کی بات نہیں کر رہے، بس چاہتے ہیں کہ فل کورٹ چھبیسویں آئینی ترمیم سے قبل کے ججز پر مشتمل ہو۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئینی ترمیم سپریم کورٹ سماعت عابد زبیری فل کورٹ