سپر ٹیکس سرمایہ کاروں کیلیے سزا کے طور پر لاگو کیا گیا‘عدالت عظمیٰ میں وکیل کے دلائل
اشاعت کی تاریخ: 17th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251017-08-20
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) عدالت عظمیٰ میں سپر ٹیکس کیس کی سماعت کے دوران وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ یہ سرمایہ کاروں کے لیے سزا کے طور پر لاگو کیا گیا ہے۔ جسٹس امین الدین کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 5 رکنی آئینی بینچ نے سپر ٹیکس کیس کی سماعت کی، جس میں مختلف کمپنیوں کے وکیل فروغ نسیم نے اپنے دلائل مکمل کیے۔ دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ سپر ٹیکس میں مقررہ رقم لکھی ہوئی کہ کتنے پر ٹیکس لگے گا۔ کمپنیز اپنے اپنے حصے کا ٹیکس دیں گی جو ان پر بنتا ہوگا۔ آپ جو کہہ رہے اس سے یہ لگ رہا کہ جن پر ٹیکس نہیں لگایا گیا ان پر بھی ٹیکس لگا دیا جائے۔ وکیل فروغ نسیم نے جواب دیا کہ شاید میں اپنے دلائل ٹھیک سے بریف نہیں کر پایا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے فروغ نسیم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ کسی کے ساتھ فرق نہ ہو۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ فائنل ٹیکس رجیم میں جو ٹیکس لگ گیا، اس کے بعد اور نہیں لگ سکتا۔ سپر ٹیکس الگ کیٹیگری میں لگایا گیا ہے۔ بعد ازاں عدالت نے سماعت میں وقفہ کردیا اور دوبارہ سماعت شروع ہونے پر پاکستان ٹوبیکو کمپنی کے وکیل عزیز نشتر اور نجی کمپنی کے وکیل اعجاز احمد زاہد نے اپنے دلائل شروع کیے۔ وکیل عزیز نشتر نے اپنے دلائل میں کہا کہ آرٹیکل 18 مجھے کاروبار کی اجازت دیتا ہے تو اسی طرح ریاست کو بھی کہتا ہے مجھے کاروبار کا ماحول دے۔ ریاست اور پھر قانون سازی نے مجھے کاروبار کا ماحول نہیں دیا جو آئین مجھے دینے کا کہتا ہے۔ ٹیکس کی بدترین قسم اس وقت پاکستان میں ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ سازگار ماحول کیسے پیدا کرنا چاہیے ؟ ٹیکس نیٹ کو بڑھایا جائے ؟۔ وکیل عزیز نشتر نے جواب دیا کہ مجھے منافع نہیں ہورہا، تب بھی میں ٹیکس دے رہا ہوں۔ آج کے اس دور میں ریڑھی والے کو بھی جیو ٹیگ لگایا جا سکتا ہے۔ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ حکومت کو فوری ضرورت پڑی تو اس نے سپر ٹیکس لگا دیا ہے ، جس پر وکیل عزیز نشتر نے کہا کہ انویسٹرز اور کمانے والوں کے لیے سزا کے طور پر سپر ٹیکس لاگو کیا گیا ہے۔ وکیل اعجاز احمد نے کہا کہ فنانس بل آرٹیکل 73 کے تقاضے پورے کیے بغیر پاس ہوا۔ اس وقت کے وفاقی وزیر نے بیان دیا کہ 300 ملین پر 2 فیصد ٹیکس لگے گا۔ وکیل عزیز نشتر نے کہا کہ ایف بی آر کو ٹیکس ریٹ کو کم جب کہ پرفارمنس پر زیادہ فوکس کرنا چاہیے۔ وکیل اعجاز احمد زاہد نے کہا کہ 10 جون کو بجٹ پیش کیا جاتا ہے اس سے پہلے پالیسی اسٹیٹمنٹ لاگو نہیں ہو سکتی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو ڈالر اتنے کا ہی مل رہا ہے جتنے کا پہلے مل رہا تھا، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ اگر بین الاقوامی سطح پر انرجی کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو پاکستان میں بھی بڑھیں گی۔ بعد ازاں عدالت نے سماعت آج تک کے لیے ملتوی کردی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل عزیز نشتر نے نے اپنے دلائل نے کہا کہ سپر ٹیکس کہا کہ ا پر ٹیکس دیا کہ
پڑھیں:
عدالت کا بڑا فیصلہ , وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا برقرار، جے یو آئی کی اپیل خارج
پشاور ہائی کورٹ نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کی جانب سے وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا کے انتخاب کو کالعدم قرار دینے سے متعلق درخواست خارج کردی۔نومنتخب وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے عمل کے خلاف درخواست پر فیصلہ سنا دیا گیا. جسٹس ارشد علی اور جسٹس وقار احمد کی عدالت نے محفوظ فیصلہ سنایا۔سلمان اکرام راجا نے کہا کہ اب یہ درخواست زائد المیعاد ہوچکی ہے، گورنر نے کہا ہے کہ آج حلف لینگے۔جسٹس سید ارشد علی نے کہا کہ ہمیں پتہ ہے، لیکن درخواست گزار وکیل کو سنتے ہیں، وہ کیا کہتے ہیں۔وکیل درخواست گزار نے کہا کہ آئین کہتا ہے جب استعفی دینگے تو پھر دوسرے وزیراعلی کا انتخاب ہوگا، آئین کہتا ہے کہ جب استعفی منظور ہوگا تو آفس خالی تصور ہوگا. 8 اکتوبر کو وزیراعلی نے استعفی دیا، پھر 11 اکتوبر کو ہاتھ سے لکھا گیا استعفی بھجوا دیا گورنر ہاوس۔جسٹس سید ارشد علی نے کہا کہ 2 لیٹر تھے اور دونوں گورنر ہاؤس کو موصول ہوئے، وکیل درخواست گزار مؤقف اپنایا کہ جی دونوں گورنر ہاؤس کو موصول ہوئے۔جسٹس ارشد علی نے ریمارکس دیے کہ مجھے آپ کا یہ پوائنٹ سمجھ گیا کہ جب تک استعفیٰ منظور نہ ہو عہدہ خالی نہیں ہوتا، جب وزیر اعلیٰ نہیں رہا تو کابینہ کہاں سے آگئی۔وکیل درخواست گزار نے کہا کہ جو الیکشن ہوا وہ غیر آئینی ہوا، ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، استعفیٰ منظور ہوتا. پھر الیکشن کرتے، باقی بھی حصہ لیتے. ایک وزیر اعلیٰ کے ہوتے ہوئے دوسرا وزیر اعلیٰ منتخب کرنا آئینی ہل چل پیدا کرسکتا ہے. کابینہ بھی تحلیل نہیں ہے، موجود ہے۔جسٹس ارشد علی نے کہا کہ جب وزیر اعلیٰ نہیں رہا تو کابینہ کہاں سے آگئی، وکیل نے کہا کہ یہی تو کہنا چاہتا ہوں کہ وزیر اعلیٰ اب بھی علی امین گنڈاپور ہے۔جسٹس ارشد علی نے کہا کہ آپ نے کل چیف جسٹس کا آرڈر پڑھا ہے، وکیل نے جواب دیا کہ جی میں نے پڑھا ہے، انہوں نے وہاں پر بھی غلط درخواست دی ہے، جسٹس سید ارشد علی نے کہا کہ مخصوص نشستوں کے کیس میں گورنر کے حلف لینے کے بعد اسپیکر نے چیلنج کیا ہے۔سلمان اکرم راجا نے کہا کہ کل چیف جسٹس کے آرڈر پر گورنر نے آج حلف برداری کے لیے بلایا ہے. تمام تیاریاں مکمل کی جا چکی ہیں. صوبے میں 48گھنٹے سے کوئی وزیر اعلی نہیں ہے۔دلائل سننے کے بعد جسٹس سید ارشد علی نے وکیل درخواست گزار کو ہدایت دی کہ آپ واپس درخواست لینا چاہتے ہیں، یا ہم میرٹ پر فیصلہ کریں، ہمیں تھوڑی دیر میں بتا دیں. آپ دوسری درخواست دائر کرنا چاہتے ہیں تو وہ بھی کرسکتے ہیں۔وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ہمیں ٹائم دیں، ہم عدالت کو آگاہ کریں گے، بعد ازان جسٹس ارشد علی اور جسٹس وقار احمد کی عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے درخواست گزار کی درخواست خارج کردی۔جے یو آئی ف نے نو منتخب وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے عمل کو چیلنج کیا تھا۔