سپریم کورٹ میں بین المذاہب ہم آہنگی اور بنیادی حقوق کے موضوع پر سمپوزیم منعقد ہوا، جس کے مہمانِ خصوصی مسلم ورلڈ لیگ کے سیکریٹری جنرل محمد بن عبدالکریم العیسیٰ تھے۔

چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی نے استقبالیہ خطاب میں کہا کہ اسلام برداشت، رواداری اور قانون کی حکمرانی کا درس دیتا ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ میں آئینی ترمیم پر بحث، ججز کے سوالات نے سماعت کو نیا رخ دے دیا

انہوں نے کہا کہ بنیادی حقوق کسی بھی معاشرے کے استحکام کی ضمانت ہیں اور دعا کی کہ یہ سمپوزیم قانون کی بالادستی کو مضبوط بنانے میں مددگار ثابت ہو۔

محمد بن عبدالکریم العیسیٰ نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسلام انصاف پسند دین ہے جو مساوات اور رواداری کی تعلیم دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بروقت اور سستے انصاف کی فراہمی معاشرے کے استحکام کا باعث بنتی ہے، جبکہ ناانصافی معاشرے کی جڑیں کھوکھلی کرتی ہے۔

مزید پڑھیں:‘گلگت بلتستان میں مقامی طور پر استعمال ہونے والی اشیا پر ٹیکسز عائد نہ کیے جائیں،’ سپریم کورٹ کے ریمارکس

سمپوزیم میں سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، سپریم کورٹ و ہائیکورٹ کے ججز اور قانونی ماہرین نے بھی شرکت کی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بین المذاہب ہم آہنگی اور بنیادی حقوق چیف جسٹس پاکستان سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی، سپریم کورٹ سمپوزیم سیکریٹری جنرل محمد بن عبدالکریم العیسیٰ مسلم ورلڈ لیگ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، یحییٰ آفریدی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بین المذاہب ہم آہنگی اور بنیادی حقوق چیف جسٹس پاکستان سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی سپریم کورٹ سمپوزیم سیکریٹری جنرل محمد بن عبدالکریم العیسی مسلم ورلڈ لیگ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ یحیی آفریدی بنیادی حقوق سپریم کورٹ چیف جسٹس کہا کہ

پڑھیں:

ججز میں جھڑپیں عدلیہ کی اتھارٹی کو مزید کمزور کر سکتی ہیں

اسلام آباد:

سپریم کورٹ کے ججوں کے درمیان کھلی عدالت میں جھڑپیں 26ویں  ترمیم کے منظور ہونے کے بعد بڑھ گئی ہیں جو اعلیٰ عدلیہ کی اتھارٹی کو مزید کمزور کر سکتی ہیں۔

گزشتہ روز 26 ویں ترمیم کے کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس عائشہ ملک کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور دونوں ججز نے سپریم کورٹ رولز  کی منظوری پر ایک دوسرے کے موقف سے اختلاف کیا۔

جسٹس عائشہ ملک ان 4ججز میں شامل ہیں جنھوں نے نئے رولز کی  سرکولیشن کے ذریعے منظوری پر اعتراض اٹھایا تھا۔2009 میں عدلیہ کی بحالی کے بعد سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کی قیادت میں ججوں میں مکمل اتحاد تھا۔

اسی وجہ سے اس دور میں اعلیٰ عدلیہ ملک کا سب سے طاقتور ادارہ بن کر ابھری۔ عوامی سطح پر ان جھڑپوں کا سلسلہ ثاقب نثار کے دور سے شروع ہوا جو گلزار احمد اور عمر عطا بندیال کے ادوار میں بھی جاری رہا۔

فائز عیسیٰ کے دور میں یہ شدت اختیار کر گیا جس کا فائدہ ایگزیکٹو نے اٹھایا۔ سینئر وکلا نے موجودہ   صورتحال کے لیے چیف جسٹس  یحییٰ آفریدی کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ اگر 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستیں بروقت مقرر کی جاتیں تو آج صورتحال مختلف ہو سکتی تھی۔

اسی طرح رولز کی منظوری کے لیے بھی وہ فل کورٹ  اجلاس طلب کر سکتے تھے۔  

سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر نے کہا 26 ویں  ترمیم کے بعد  سپریم کورٹ کے اندر دو دھڑے بن گئے، ایک ایگزیکٹو کے غلبے کا مخالف جبکہ دوسرا اس کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار ہے۔ ان حالات میں ادارے کے اندر تنازع فطری ہے۔

متعلقہ مضامین

  • قانون کی حکمرانی لازم ، سب کیلئے انصاف و احترام ضروری ہے: چیف جسٹس یحییٰ آفریدی
  • سپریم کورٹ میں بنیادی حقوق پر سمپوزیم، سیکریٹری جنرل مسلم ورلڈ لیگ کی سپریم کورٹ آمد
  • سپر ٹیکس سرمایہ کاروں کے لیے سزا کے طور پر لاگو کیا گیا، سپریم کورٹ میں وکیل کے دلائل
  • 26ویں ترمیم؛ کیا جوڈیشل کمیشن سپریم کورٹ سے بھی اوپر ہے؟ جسٹس عائشہ ملک کے سخت سوالات
  • سپر ٹیکس کیس: یہاں انکم ٹیکس نہیں دیتے تو سپر ٹیکس کیسے دیں گے، جج سپریم کورٹ
  • ججز میں جھڑپیں عدلیہ کی اتھارٹی کو مزید کمزور کر سکتی ہیں
  • سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کیس کی سماعت کل تک ملتوی
  • مجھے جھوٹا کیا جا رہا ہے: جسٹس جمال مندوخیل
  • مسئلہ یہ کہ حق میں فیصلہ دیں تو خوش، خلاف دیں تو ناراض ہو جاتے ہیں: سپریم کورٹ