لاہور (این این آئی) سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سالانہ انتخابات کا میدان آج16اکتوبر کو سجے گا ، پولنگ کے لئے تمام انتظامات مکمل کر لیے گئے ، بار کی 13نشستوں پر ملک بھر سے 34امیدوار مدمقابل ہیں ،انتخابات میں روایتی حریف عاصمہ جہانگیر گروپ اور حامد خان گروپ کے حمایت یافتہ امیدواروں کے درمیان سخت مقابلے کی توقع ہے۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات کے لئے 16اکتوبر کو ووٹنگ لاہور، ملتان، بہاولپور، راولپنڈی، کے پی، سندھ اور بلوچستان میں ہو گی۔ بار کی 13 نشستوں پر ملک بھر سے 34امیدوار مدمقابل ہیں ۔ صدارت کے لئے عاصمہ جہانگیر گروپ کے ایڈووکیٹ ہارون الرشید اور حامد خان گروپ کے توفیق آصف کے درمیان ون ٹو ون مقابلہ ہو گا جبکہ سیکرٹری کے عہدے کے لئے میاں عرفان اکرم اور ملک زاہد اسلم آمنے سامنے ہیں ۔ اس کے علاوہ ایڈیشنل سیکرٹری کے لئے قاضی غلام دستگیر اور سردار طارق حسین کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے ۔ فنانس سیکرٹری کے لئے تنویر چوہدری اور سائرہ خالد راجپوت مد مقابل ہیں ، نائب صدر (پنجاب)کے لئے حبیب قریشی، ارشد حسین اور خالد مسعود سندھو کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہو گا ۔ نائب صدر بلوچستان کے لئے لیاقت علی ترین اور رحمت اللہ صدوزئی مد مقابل ہیں ، نائب صدر خیبرپختونخوا کے لئے فضل شاہ محمود اور حبیب قریشی کے درمیان مقابلہ ہو گا اور نائب صدر سندھ کی نشست پر خوشحال خان اور لطف اللہ آرائیں آمنے سامنے ہوں گے ۔ سپریم کورٹ بار کے انتخابات میں 4ہزار 379وکلاء ووٹ کاسٹ کریں گے۔ لاہور میں 1ہزار 460وکلاء اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے جبکہ ملتان میں 315، بہاولپور میں 145، راولپنڈی میں 805، خیبرپختونخواہ میں 593، سندھ میں 741اور بلوچستان میں 322وکلاء ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے اہل قرار پائے ہیں ۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: سپریم کورٹ بار کے درمیان کے لئے

پڑھیں:

ججز میں جھڑپیں عدلیہ کی اتھارٹی کو مزید کمزور کر سکتی ہیں

اسلام آباد:

سپریم کورٹ کے ججوں کے درمیان کھلی عدالت میں جھڑپیں 26ویں  ترمیم کے منظور ہونے کے بعد بڑھ گئی ہیں جو اعلیٰ عدلیہ کی اتھارٹی کو مزید کمزور کر سکتی ہیں۔

گزشتہ روز 26 ویں ترمیم کے کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس عائشہ ملک کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور دونوں ججز نے سپریم کورٹ رولز  کی منظوری پر ایک دوسرے کے موقف سے اختلاف کیا۔

جسٹس عائشہ ملک ان 4ججز میں شامل ہیں جنھوں نے نئے رولز کی  سرکولیشن کے ذریعے منظوری پر اعتراض اٹھایا تھا۔2009 میں عدلیہ کی بحالی کے بعد سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کی قیادت میں ججوں میں مکمل اتحاد تھا۔

اسی وجہ سے اس دور میں اعلیٰ عدلیہ ملک کا سب سے طاقتور ادارہ بن کر ابھری۔ عوامی سطح پر ان جھڑپوں کا سلسلہ ثاقب نثار کے دور سے شروع ہوا جو گلزار احمد اور عمر عطا بندیال کے ادوار میں بھی جاری رہا۔

فائز عیسیٰ کے دور میں یہ شدت اختیار کر گیا جس کا فائدہ ایگزیکٹو نے اٹھایا۔ سینئر وکلا نے موجودہ   صورتحال کے لیے چیف جسٹس  یحییٰ آفریدی کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ اگر 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستیں بروقت مقرر کی جاتیں تو آج صورتحال مختلف ہو سکتی تھی۔

اسی طرح رولز کی منظوری کے لیے بھی وہ فل کورٹ  اجلاس طلب کر سکتے تھے۔  

سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر نے کہا 26 ویں  ترمیم کے بعد  سپریم کورٹ کے اندر دو دھڑے بن گئے، ایک ایگزیکٹو کے غلبے کا مخالف جبکہ دوسرا اس کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار ہے۔ ان حالات میں ادارے کے اندر تنازع فطری ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ بار الیکشن: ہارون الرشید اور توفیق آصف میں مقابلہ، پولنگ شروع
  • 26ویں ترمیم؛ کیا جوڈیشل کمیشن سپریم کورٹ سے بھی اوپر ہے؟ جسٹس عائشہ ملک کے سخت سوالات
  • سپر ٹیکس کیس: یہاں انکم ٹیکس نہیں دیتے تو سپر ٹیکس کیسے دیں گے، جج سپریم کورٹ
  • ججز میں جھڑپیں عدلیہ کی اتھارٹی کو مزید کمزور کر سکتی ہیں
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان فٹبال میچ 1-1 سے برابر
  • دہلی فسادات کے ملزم شرجیل امام نے بہار انتخابات لڑنے کیلئے عبوری ضمانت کی درخواست واپس لی
  • سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کیس کی سماعت کل تک ملتوی
  • مجھے جھوٹا کیا جا رہا ہے: جسٹس جمال مندوخیل
  • مسئلہ یہ کہ حق میں فیصلہ دیں تو خوش، خلاف دیں تو ناراض ہو جاتے ہیں: سپریم کورٹ