WE News:
2025-11-27@20:19:10 GMT

پاکستان تیسری عالمی جنگ لڑ رہا ہے

اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT

پاکستان حال ہی میں بھارتی جارحیت کا ایسا منہ توڑ جواب دے چکا ہے کہ انڈیا چاہے بھی تو یہ ہزیمت نہیں بھول سکتا۔ بھارت کو شکست دیے زیادہ وقت نہیں گزرا کہ افغانستان میں دہشتگرد گروہوں نے پاکستان کی چیک پوسٹوں پر حملہ کر دیا۔ ان کو بھی عبرت ناک شکست ہوئی۔ وہ بھی بھارت کی طرح سیز فائر کی بھیک مانگتے رہے۔ مگر اس دفعہ جارح کو گھر تک پہنچانے کا فیصلہ کیا گیا۔ افغان دہشتگردوں کی چیک پوسٹوں پر جب تک پاکستانی پرچم ایستادہ نہیں ہوا، ادھر کے جوانوں کی تشفی نہیں ہوئی۔

یہ بات درست ہے کہ پاکستانی افواج بہت دلیری سے لڑیں۔ ہم نے ہر دو معرکوں میں دشمن کی طبیعت ٹھیک ٹھاک صاف کر دی۔ ان کو ایسی عبرت انگیز شکست دی کہ اب وہ شرم سے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ اب دنیا بھارت اور افغان دہشتگردوں کا تمسخر اڑا رہی ہے۔ شکست ان کے چہروں پر ہمیشہ کے لیے ثبت ہو گئی ہے۔ پاکستان کی بہادر افواج نے ہر مرحلے پر اپنی برتری تسلیم کروائی۔ فضا میں بھی ہمارا راج رہا اور زمین بھی ہماری افواج کی دلیری کے ترانے گاتی رہی۔ ان فتوحات کے پیچھے پوری قوم کی دعائیں بھی ہیں اور شہیدوں کے خون کی لالی بھی۔

جنگ جیتنے کے بعد  دنیا  میں پاکستان کے حوالے سے نقطہ نظر ہی بدل گیا۔ پہلے جو یہ سمجھتے تھی کہ شاید پاکستان صرف امداد مانگتا ہے اب اسی پاکستان  کو مدد گار  تصور کیا جا رہا ہے۔ امریکا، پاکستان کو اپنے صف اول کے حلیفوں میں شامل کرنے لگا۔ دوحہ سربراہان اجلاس میں پاکستان کی جتنی توصیف ہوئی ہماری سوچ سے بڑھ کر تھی۔ سعودی عرب سے دفاعی معاہدہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ دنیا ہماری عسکری طاقت کا لوہا مانتی ہے۔ سب کچھ پاکستان کے حق میں جا رہا ہے مگر 3 ممالک اس سے خوش نہیں ہیں۔

اس وقت دنیا کے امن کو سب سے زیادہ خطرہ بھارت، افغانستان اور اسرائیل سے ہے۔ ان 3 ممالک نے ہر مقام پر عالمی امن  کی خواہش کا مذاق اڑایا، انسانی حقوق پامال کیے۔ نفرت کو شعار بنایا۔ تشدد کی پرورش کی۔ دنیا بھر میں انتشار پھیلانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اسرائیل نے جو رویہ فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھا ہے وہی مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ایک پوری وادی کو حبس بے جا میں رکھا گیا، ایک پوری نسل کو قتل کیا گیا۔

دنیا کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ تیسری عالمی جنگ اس کے دہانے پر کھڑی ہے۔ اسرائیل کی جارحیت بڑھتی ہے تو سارے عالم اسلام کی سلامتی کو خطرہ ہے۔ فلسطینیوں کا خون بہت ارزاں ہو چکا ہے۔ اب معاہدہ ہو چکا ہے۔ حماس بھی رضامند ہے مگر اس مرحلے سے گزرنے سے پہلے 70 ہزار نہتے فلسطینی شہید کر دیے گئے۔ دنیا کا دباؤ بڑھا، پاکستان کی ضمانت ملی، سعودی عرب کا احسن کردار سامنے آیا تو بات بنی۔ ورنہ ظلم کی روایت جانے کتنی نسلوں تک جاری رہتی۔

ادھر افغان دہشتگردوں کا بھی یہی حال ہے۔ دہشتگردی ان کا کاروبار ہے۔ ساری دنیا ان کی کرتوتوں سے واقف ہے۔ ان کے شر سے نہ امریکا محفوظ ہے نہ جرمنی نہ فرانس نہ پاکستان۔ یہ مذہب کے نام کو بٹہ لگا رہے ہیں۔ ان کو آپ چاہیں تحریک طالبان پاکستان کے نام  سے پکاریں،  افغانی طالبان کہیں، یا یہ داعش کے قاتل  ہوں۔ ان کے شر سے دنیا پناہ مانگتی ہے۔ ایک عالم ان سے نجات چاہتا ہے۔ ایک زمانہ ان کے ظلم کا گواہ ہے۔ یہ اس عہد  کے سب سے بڑے گناہ گار ہیں۔

تو قصہ مختصر اگر اسرائیل کو کھلی چھوٹ مل جاتی ہے تو عالم اسلام کے لیے خطرہ بڑا واضح ہے۔ افغان دہشتگردوں کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی تو ساری دنیا کے امن کو خطرہ ہے۔ کوئی ملک محفوظ نہیں۔ کوئی خطہ اس خوف سے مبرا نہیں۔ اس میں اگر بھارت کو بھی شامل کر لیں تو یہ 3 ممالک دنیا میں دہشتگردی، انسانی حقوق کی پامالی اور فسادات کی وجہ ہیں۔ ان کی بدمست قوتوں کے آگے بند باندھے بغیر دنیا میں امن کا تصور ممکن نہیں۔ دنیا کو بارود سے بچانے کے لیے ان ممالک کی سیاہ کاریوں کو ختم کرنا ہو گا۔

اب دیکھیں تو بات بڑی واضح ہے۔ بھارتی جبر ہے تو اس کے خلاف ایک ہی قوت کھڑی ہے اوروہ قوت ہے پاکستان۔ ورنہ  اس خطے کے کسی ملک میں اتنی جرات نہیں کہ بھارتی استبداد کے سامنے کھڑا ہو سکے۔ افغان دہشتگردوں کی قوت کے سامنے کون سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہے تو جواب پاکستان کی صورت میں ملتا ہے۔ اسی طرح اسرائیل کو قابو کرنا ہو تو دنیا کو پاکستان کو مدد کے لیے پکارنا پڑتا ہے۔ پاکستان ہی  اس وقت  دنیا میں امن کا ضامن ہے۔

بات یہاں سے شروع ہوئی تھی کہ دنیا اس وقت تیسری عالمی جنگ کے دھانے پر کھڑی ہے۔ ایک غلطی بھی ساری دنیا کو بارود کا ڈھیر بنا سکتی ہے۔ ایک چنگاری بھی سارے جنگل کو راکھ بنا سکتی ہے۔ بدمست قوتوں کے آگے بند صرف پاکستان باندھ سکتا ہے۔ یہی قوت ہے جو اسرائیل کے استبداد کا بھی جواب ہے۔ بھارت کے نفرت انگیز عزائم کی روک تھام بھی پاکستان کر سکتا ہے۔ افغانیوں کو نکیل بھی پاکستان ڈال سکتا ہے۔ پاکستان ان تمام قوتوں سے نبرد آزما ہوا اور اپنا طاقت کا لوہا بھی منوایا اور دنیا کے امن کی خاطر اپنا کردار بھی ادا کیا۔

بات صرف اتنی ہے کہ تاریخ کے اس مقام پر پاکستان صرف اپنی سلامتی کی جنگ نہیں لڑ رہا بلکہ دنیا کے امن کی خاطر،  امن کے دشمنوں سے نبرد آزما ہے۔ یہ بات سارے عالم پر واضح ہو چکی ہے کہ  امن کے ان دشمنوں کے سامنے اگر کوئی طاقت سیسہ پلائی دیوار بن سکتی ہے تو وہ صرف اور صرف پاکستان ہے۔ خوش قسمتی یہ ہے کہ دنیا عالمی امن کے لیے پاکستان کی اہمیت سے واقف ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے اندر سے ہی چند شر پسند جبر کی قوتوں کے ساتھ مل کر  ہمیں ہی زک پہنچا رہے ہِیں۔ دنیا کی جنگ میں ہم اپنے آپ کو منوا چکے، دشمن کو ناکوں چنے چبوا چکے ہیں۔ یہ بات  ہمارے اندرونی دشمنوں کو بھی سمجھ آ جانی چاہیے کہ ہم نے نہ  اپنی سرحدوں، نہ عالم اسلام پر حرف آنے دیا  اور نہ ہی امن عالم پر سمجھوتہ کیا۔

یاد رکھیں! تاریخ اس بات کو ہمیشہ یاد رکھے گی کہ مسلمانوں کی ایک مملکت نے تن تنہا دنیا کے امن کی خاطر تیسری عالمی جنگ ان ملکوں کے خلاف لڑی جن سے ٹکرانے کی کوئی جرات نہیں کرتا تھا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افغان دہشتگردوں تیسری عالمی جنگ دنیا کے امن پاکستان کی کے سامنے کے ساتھ دنیا کو کہ دنیا رہا ہے کے لیے

پڑھیں:

پاکستان کا مستقبل اور تاریخ کے عالمی اسباق

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251125-03-3
دنیا کے بدلتے ہوئے سیاسی اور معاشی منظرنامے میں پاکستان ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں ماضی کے تجربات اور مستقبل کے تقاضے ایک دوسرے سے گتھم گتھا نظر آتے ہیں۔ تاریخ ہمیشہ انسان کو رہنمائی دیتی ہے، مگر صرف اْن اقوام کے لیے جو اس سے سبق حاصل کریں۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی، معاشی اور سماجی کیفیت کو دیکھتے ہوئے یہ سوال ناگزیر ہے کہ کیا ہم نے اپنے ماضی سے کچھ سیکھا؟ اور کیا ہم تاریخ کے عالمی اسباق کی روشنی میں اپنے مستقبل کی سمت درست کر سکتے ہیں؟ قیامِ پاکستان سے آج تک ہمارا قومی سفر نشیب و فراز، قربانیوں، اور داخلی و خارجی چیلنجز سے عبارت رہا ہے۔ ابتدا میں قیادت نے جغرافیائی پیچیدگیوں، وسائل کی کمی اور سیاسی عدم استحکام کے باوجود قوم کو متحد رکھنے کی کوشش کی۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی مفادات نے قومی وحدت کو متاثر کیا۔

آج 2025ء میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ معاشی کمزوری اور پالیسیوں کا تسلسل نہ ہونا ہے۔ شرحِ نمو غیر یقینی، زرمبادلہ کے ذخائر دباؤ میں، اور برآمدی استعداد کمزور ہو چکی ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں پر انحصار نے ہماری خودمختاری کو محدود کر دیا ہے۔ مگر یہی وہ مقام ہے جہاں تاریخ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ زوال اْس وقت آتا ہے جب قوم اپنی سمت کھو دیتی ہے، اور عروج اْس وقت جب وہ داخلی اصلاحات کے ذریعے اپنے نظام کو از سرِ نو تشکیل دیتی ہے۔ دنیا آج یک قطبی نہیں بلکہ کثیرالقطبی (Multipolar) ہو چکی ہے۔ امریکا، چین، روس، یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کے نئے اتحادوں نے طاقت کے محور بدل دیے ہیں۔ اس پس منظر میں پاکستان کے لیے ’’غیر جانب داری‘‘ یا ’’توازن پر مبنی سفارت کاری‘‘ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ چین ہمارا قریبی شراکت دار ہے، مگر اس کی سست ہوتی معیشت اور عالمی تجارتی دباؤ ’’سی پیک‘‘ منصوبے کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب امریکا اور بھارت کا بڑھتا اتحاد خطے میں اسٹرٹیجک توازن کو بدل رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان کو محض ردِعمل کے بجائے فعال اور متوازن حکمت ِ عملی اپنانا ہوگی جہاں قومی مفاد، اقتصادی خودمختاری اور علاقائی استحکام تینوں کو ساتھ لے کر چلنا ضروری ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ قومیں اسی وقت مضبوط ہوتی ہیں جب وہ اپنی معیشت کو پائیدار بنیادوں پر استوار کریں۔ ہمیں قرض پر انحصار کے بجائے پیداواری معیشت، برآمدی توسیع، زرعی جدیدیت، اور ٹیکنالوجی پر مبنی صنعتوں کو ترجیح دینا ہوگی۔

2025ء میں ڈیجیٹل معیشت، مصنوعی ذہانت، اور گرین انرجی جیسے شعبے دنیا کی ترقی کا نیا محور ہیں۔ پاکستان اگر نوجوان افرادی قوت، فری لانسنگ، آئی ٹی ایکسپورٹ اور زرعی ٹیکنالوجی کے ذریعے عالمی منڈیوں میں داخل ہوتا ہے، تو نہ صرف زرمبادلہ میں اضافہ ممکن ہے بلکہ روزگار کے مواقع بھی وسیع ہوں گے۔ تاریخ ہمیں جاپان، جنوبی کوریا اور سنگاپور کی مثالیں دیتی ہے، جنہوں نے محدود وسائل کے باوجود علم، نظم و ضبط اور قومی یکجہتی سے ترقی کے نئے باب رقم کیے۔ پاکستان کے پاس وسائل کی کمی نہیں کمی صرف وژن، شفافیت اور تسلسل کی ہے۔ کسی بھی ریاست کا پائیدار استحکام صرف خارجہ پالیسی سے ممکن نہیں۔ اندرونی یکجہتی، اداروں کے درمیان اعتماد، اور عوامی شرکت اْس کی بنیاد ہوتی ہے۔ پاکستان میں سیاسی محاذ آرائی، ادارہ جاتی کشمکش اور بداعتمادی نے فیصلہ سازی کو سست کر دیا ہے۔ تاریخ کے سبق کے مطابق، ریاستیں تب مضبوط ہوتی ہیں جب عوامی فلاح کو مرکزی حیثیت دی جائے، تعلیم، صحت، انصاف اور روزگار کے مواقع مساوی بنیادوں پر فراہم کیے جائیں۔ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ قومی سلامتی صرف سرحدوں کے دفاع میں نہیں بلکہ معیشت کی مضبوطی، نوجوانوں کی تعلیم، اور شہری مساوات میں مضمر ہے۔

دنیا کے 60 فی صد سے زیادہ ممالک نے اپنی ترقی کی بنیاد ٹیکنالوجی اور تعلیم پر رکھی۔ پاکستان کے نوجوان آج سب سے بڑی قوت ہیں اگر اْنہیں ہنر، جدید تعلیم، تحقیق اور عالمی رسائی فراہم کی جائے تو یہی نسل ملک کو نئی بلندیوں پر پہنچا سکتی ہے۔ تعلیم کا بجٹ بڑھانا، جامعات کو تحقیق سے جوڑنا، اور نجی و سرکاری سطح پر انوویشن کو فروغ دینا وہ قدم ہیں جو ہمیں مستقبل کی دوڑ میں شامل کر سکتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں امن، تجارت اور توانائی کے راستے کھولنا پاکستان کے مفاد میں ہے۔ افغانستان میں استحکام، ایران کے ساتھ تجارتی راہداری، اور وسطی ایشیا تک اقتصادی رابطہ ہمارے مستقبل کا کلیدی جزو ہو سکتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ علٰیحدگی اور مخاصمت سے کوئی ملک ترقی نہیں کرتا۔ برعکس، علاقائی شراکت داری، باہمی تجارت اور اعتماد کی فضا ہی حقیقی طاقت کی بنیاد ہے۔ پاکستان کو اپنی سفارت کاری میں یہ پہلو نمایاں رکھنا ہوگا۔

پالیسی سفارشات و سمت ِ عمل: 1۔ معاشی اصلاحات: برآمدات میں اضافہ، ٹیکس نیٹ کی توسیع، اور سرمایہ کار دوست ماحول پیدا کرنا۔ 2۔ تعلیم و ہنرمندی: جدید سائنسی و ٹیکنیکل تعلیم کو ترجیح دینا تاکہ نوجوان طبقہ عالمی مارکیٹ کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔ 3۔ توانائی و وسائل: قابل ِ تجدید توانائی (شمسی و ہوائی) کے منصوبوں پر سرمایہ کاری۔ 4۔ سفارتی توازن: چین، امریکا، خلیجی ممالک اور وسطی ایشیا کے ساتھ متوازن تعلقات رکھنا۔ 5۔ شفاف طرزِ حکمرانی: بدعنوانی کے خاتمے اور ادارہ جاتی اصلاحات کے لیے غیر سیاسی مگر مستحکم اقدامات۔ 6۔ میڈیا و فکری استحکام: قومی بیانیہ تحقیق، حقیقت اور مثبت سوچ پر مبنی ہونا چاہیے سنسنی پر نہیں۔

تاریخ نے ہمیں بارہا بتایا کہ زوال اْن قوموں کا مقدر بنتا ہے جو وقت کے اشارے کو نظرانداز کر دیں۔ پاکستان کے لیے اب وقت آ گیا ہے کہ وہ ماضی کی غلطیوں کو دہرانے کے بجائے اْن سے سیکھے، اپنی پالیسیوں میں تسلسل، شفافیت اور عوامی اعتماد پیدا کرے۔ دنیا تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور اب یہ فیصلہ ہمیں خود کرنا ہے کہ ہم تاریخ کے تماشائی رہیں گے یا مستقبل کے معمار۔

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • طالبان خطے اور دنیا کیلئے مسئلہ بن رہے ہیں
  • بھارت محفوظ نہیں، اسرائیلی وزیراعظم نے مودی کو لال جھنڈی دکھا دی، تیسری بار دورہ منسوخ
  • بھارت محفوظ نہیں؛ اسرائیلی وزیراعظم نے تیسری بار دورہ منسوخ کردیا
  • بھارت محفوظ نہیں؛ اسرائیلی وزیراعظم نے مودی کو لال جھنڈی دکھا دی؛ تیسری بار دورہ منسوخ
  • کراچی ایکسپوسینٹر میں تیسری بین الاقوامی فوڈ اینڈ ایگریکلچرنمائش کا افتتاح
  • کراچی ایکسپو سینٹر میں تیسری بین الاقوامی فوڈ اینڈ ایگریکلچر نمائش کا افتتاح
  • چین بیرون ملک سرمایہ کاری کے حجم کے لحاظ سے دنیا میں مستقل طور پر تیسرے نمبر پر برقرار
  • چین اور روس کے درمیان توانائی کے شعبے میں تعاون کی بنیادیں مضبوط ہیں، چینی صدر
  • عالمی اقتصادی گورننس میں مزید “جنوبی طاقت” کا اضافہ
  • پاکستان کا مستقبل اور تاریخ کے عالمی اسباق