Express News:
2025-11-27@21:15:37 GMT

دفاع پر کوئی سمجھوتہ نہیں

اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT

پاک افغان سرحد پر افغانستان کی جانب سے بلااشتعال فائرنگ کی گئی، پاک فوج نے فوری شدید رد عمل دیتے ہوئے متعدد افغان پوسٹوں کو مؤثر طریقے سے نشانہ بنایا۔ 19 افغان پوسٹوں پر پاکستانی پرچم لہرا دیا گیا، داعش اور خارجی ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لیے فضائی وسائل اور ڈرونز کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کے دفاع پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا اور ہر اشتعال انگیزی کا بھرپور اور مؤثر جواب دیا جائے گا۔

پاکستان کی جوابی کارروائی نے یہ واضح کردیا ہے کہ اب ’’ خاموش برداشت‘‘ کا وقت گزر چکا ہے۔ وہ وقت جب پاکستان صرف سفارتی زبان میں بات کرتا تھا اور افغان حکومت کی یقین دہانیوں پر بھروسہ کرتا تھا، اب قصہ پارینہ بنتا جا رہا ہے۔

دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں پر فضائی اور زمینی کارروائی، یہ واضح اشارہ ہے کہ اب پاکستان دشمن کو اس کی زبان میں جواب دے گا۔ جو دشمن ہماری شہ رگ پر ہاتھ ڈالے گا، اسے بازوؤں سے محروم ہونا پڑے گا۔ یہ صرف دفاع نہیں، بقا کی جنگ ہے۔

 یہ بھی افسوس ناک حقیقت ہے کہ افغان فورسز جنھیں برسوں تک بین الاقوامی معاونت، تربیت اور وسائل فراہم کیے گئے، وہ نہ صرف سرحدی قوانین کی خلاف ورزی کر رہی ہیں بلکہ خوارج اور دہشت گردوں کی ڈھال بنی ہوئی ہیں۔

پاکستانی انٹیلی جنس اداروں کی اطلاعات کے مطابق افغانستان میں موجود متعدد چیک پوسٹیں نہ صرف ٹی ٹی پی جیسے گروہوں کو کور فراہم کر رہی ہیں بلکہ بعض مقامات پر وہ خود براہِ راست پاکستانی علاقوں میں حملوں میں ملوث پائی گئی ہیں۔

ان چیک پوسٹوں کا خاتمہ خطے کے امن کے لیے ایک ناگزیر عمل ہے۔حالیہ واقعات کے تناظر میں یہ پہلو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ افغان وزیر خارجہ اس وقت بھارت کے دورے پر تھے جب افغان سرحدی فورسز کی جانب سے یہ اشتعال انگیزی کی گئی، یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا۔

پاکستان کے سیکیورٹی ادارے طویل عرصے سے اس امر کی نشاندہی کرتے آئے ہیں کہ افغانستان میں موجود بعض عناصر بھارت کے ایما پر پاکستان کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ فتنہ خوارج اور فتنہ ہندوستان جیسی اصطلاحات اسی پس منظر میں سامنے آئی ہیں۔

ان گروہوں کو افغان حدود میں محفوظ پناہ گاہیں میسر ہیں اور وہیں سے منصوبہ بندی کرکے پاکستانی علاقوں میں حملے کرتے ہیں۔ رواں برس مئی میں بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف ’’آپریشن سندور‘‘ کے بعد بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور امیر خان متقی کے درمیان پہلی بار براہ راست ٹیلیفونک رابطہ ہوا تھا، اس دوران بھارت نے طالبان کی جانب سے پہلگام حملے کی مذمت پر شکریہ ادا کیا اور افغان عوام سے اپنی ’تاریخی‘ دوستی کا اعادہ کیا۔

طالبان حکومت نے کابل میں بھارتی حکام سے ایک ملاقات کے دوران پہلگام میں ہونے والے حملے کی کھل کر مذمت کی تھی، جسے ماہرین بھارت اور طالبان کے درمیان بڑھتی ہم آہنگی کا اہم اشارہ قرار دے رہے ہیں۔

افغانستان اور بھارت کے درمیان قربت پاکستان کے لیے ہمیشہ سے تشویش کا باعث رہی ہے۔ پاکستان اسے صرف دو ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات کے طور پر نہیں دیکھتا بلکہ اسے اپنی سلامتی، جغرافیائی سیاست اور داخلی استحکام کے لیے ایک ممکنہ خطرہ تصور کرتا ہے۔ یعنی بھارت ایک طرف مشرقی سرحد پر موجود ہے اور اگر وہ مغربی سرحد (افغانستان) میں بھی اثر و رسوخ قائم کرے تو پاکستان کو دو طرفہ دباؤ کا سامنا ہو سکتا ہے۔

 بھارت افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان مخالف عناصر کی پشت پناہی کرتا ہے، خاص طور پر بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریکوں اور تحریک طالبان پاکستان جیسے گروہوں کو۔ پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کا دعویٰ ہے کہ بھارتی خفیہ ادارہ RAW افغانستان میں اپنے نیٹ ورک کے ذریعے ایسے گروہوں کو مالی، فنی اور انٹیلیجنس سپورٹ فراہم کرتا رہا ہے۔

کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کو پاکستان نے ایک ثبوت کے طور پر پیش کیا، جس کے بارے میں کہا گیا کہ وہ بھارت کا حاضر سروس نیوی افسر ہے اور بلوچستان میں تخریبی سرگرمیوں میں ملوث تھا۔ اسی طرح، افغانستان میں قائم بھارتی قونصل خانوں کے بارے میں بھی پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ صرف سفارتی مقاصد کے لیے نہیں بلکہ انٹیلیجنس سرگرمیوں کے لیے استعمال ہوتے رہے ہیں، جن کا ہدف پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانا تھا۔

سابق افغان حکومت، خاص طور پر اشرف غنی کے دور میں، بھارت سے قریبی تعلقات رکھتی تھی اور افغان انٹیلی جنس ادارہ NDS پر بھی بھارتی اثر و رسوخ کے ثبوت پیش کرتا رہا۔ اس صورت حال میں پاکستان کو یہ خدشہ رہا کہ افغانستان بھارت کے ساتھ مل کر اس کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنا سکتا ہے۔

کیونکہ پاکستان اور طالبان کے درمیان تعلقات بھی کشیدہ رہے ہیں، خاص طور پر تحریک طالبان پاکستان کے مسئلے پر، جس سے بھارت کو ایک بار پھر افغانستان میں محدود موقع مل سکتا ہے کہ وہ اپنے اثر و رسوخ کو دوبارہ بڑھائے۔ ان تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان افغانستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی قربت کو اپنے اسٹرٹیجک مفادات کے خلاف سمجھتا ہے۔

یہ بات قابلِ غور ہے کہ پاکستان نے بارہا افغانستان کو اپنی سرزمین پر موجود دہشت گرد عناصر کے بارے میں معلومات فراہم کیں جو پاکستان کے خلاف کارروائیوں میں ملوث ہیں، مگر بدقسمتی سے افغان حکومت کی جانب سے اس پر نہ توکوئی سنجیدہ اقدام اٹھایا گیا اور نہ ہی ایسے عناصر کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی کی گئی۔

دہشت گرد تنظیموں کو افغان سرزمین پر پناہ دینا یا کم از کم ان کے خلاف خاموشی اختیار کرنا، پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے ایک واضح خطرہ ہے جس پر اب مزید خاموشی ممکن نہیں۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان جب ایک آزاد ریاست کے طور پر ابھرا، تو افغانستان واحد ملک تھا جس نے اقوامِ متحدہ میں اس کی رکنیت کی مخالفت کی۔

مخالفت کی بنیاد ڈیورنڈ لائن تھی، وہ تاریخی لکیر جو 1893 میں برطانوی ہند اور افغان امارت کے درمیان کھینچی گئی اور جو آج بھی پاکستان کی مشرقی سرحدوں پر ایک سیاسی ارتعاش بن کر موجود ہے۔

پاکستان اسے بین الاقوامی قانون کی روشنی میں تسلیم شدہ سرحد سمجھتا ہے، جب کہ افغانستان کی بیشتر حکومتیں اور اب طالبان قیادت بھی، اسے ایک استعماری زخم تصورکرتی ہیں۔ پاکستانی مؤقف واضح اور قانونی بنیاد پر قائم ہے۔

اقوام متحدہ سمیت بیشتر عالمی ادارے ڈیورنڈ لائن کو ایک جائز سرحد مانتے ہیں، مگر افغانستان کی متعصبانہ اور نفرت پر مبنی سوچ نے ان تعلقات میں بد اعتمادی کا وہ بیج بویا، جو نصف صدی بعد بھی لہلہا رہا ہے۔

پاکستان کے قبائلی علاقوں میں قوم پرست تحریکوں کی پشت پناہی، سردار داؤد خان کی حکومت کے دوران بلوچ مزاحمت کاروں کو تربیت دینے جیسے اقدامات، کابل کی مداخلت پسندی کی روشن مثالیں ہیں۔ 1989 تک سوویت یلغار کے خلاف جنگ میں پاکستان نے جو کردار ادا کیا، وہ محض اسٹرٹیجک ڈیپتھ کا مظہر نہیں بلکہ ایک قومی قربانی کا باب ہے۔

تین ملین سے زائد افغان مہاجرین کو پناہ دینا، ہزاروں مدارس میں تعلیم وقیام، یہ وہ بوجھ ہے جس کی قیمت آج بھی پاکستان چکا رہا ہے۔ پاکستان نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ہراول دستہ رہا، بلکہ 80 ہزار سے زائد قربانیاں دے کر، 150 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان سہہ کر، خود دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار بنا۔

یہ وہ حقائق ہیں جن پر عالمی برادری اکثر خاموش رہی، اور افغانستان نے مسلسل الزام تراشی کی روش اپنائی۔ پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیوں نے بارہا یہ نشاندہی کی ہے کہ ٹی ٹی پی اور دیگر گروہ انھی مہاجر کیمپوں میں پناہ لیتے ہیں۔

تجارتی سطح پر بھی دونوں ممالک کے درمیان متعدد پیچیدہ مسائل موجود ہیں۔ 2010 میں طے پانے والا افغانستان، پاکستان راہداری تجارت معاہدہ (APTTA) بظاہر دوطرفہ اقتصادی تعاون کا ایک اہم سنگِ میل تھا، جس کے تحت افغان تاجروں کو کراچی اور گوادر کی بندرگاہوں کے ذریعے اپنی اشیاء عالمی منڈیوں تک پہنچانے کی سہولت دی گئی۔

تاہم، اس جیسے معاہدوں کی بارہا خلاف ورزی، واہگہ کے راستے بھارت تک رسائی کا تنازع، اور سرحدی چوکیوں پرکرپشن اور بدسلوکی کے الزامات،یہ تمام ایسے امور ہیں جن پر افغان فریق پراپیگنڈہ کر رہا ہے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ بھارت سے افغان تجارت کو بعض اوقات ایک اسٹرٹیجک دباؤ کے آلے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، جو پاکستان کے قومی سلامتی واقتصادی مفادات سے متصادم ہو سکتا ہے۔

پانی کا تنازع ایک خاموش مگر شدید حساس معاملہ ہے۔ کابل دریا پاکستان کے لیے آبی زندگی کی حیثیت رکھتا ہے۔ افغانستان کی جانب سے ڈیم سازی اور پانی کے بہاؤ کو محدود کرنے کی کوششوں کو اگر بروقت نہ روکا گیا، تو یہ تنازع آیندہ دہائیوں میں ایک نیا سنگین بحران بن سکتا ہے۔

پاکستان دہائیوں سے اس موضوع پر مذاکرات کی اپیل کر رہا ہے۔ افغانستان کو سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کی امن پسندی کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ پاکستان نے ہمیشہ ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات کی خواہش کا اظہارکیا ہے، مگر قومی سلامتی، ارضی سالمیت اور عوام کے تحفظ پرکوئی سمجھوتہ ممکن نہیں۔

وقت آگیا ہے کہ افغان قیادت سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور ان عناصر کو لگام دے جو سرحد پارکشیدگی کو ہوا دے رہے ہیں۔ بصورت دیگر، پاکستان اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے اور آیندہ بھی ایسا ہی مؤثر جواب دیا جائے گا جیسا کہ حالیہ کارروائی میں دیا گیا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: افغانستان میں افغانستان کی پاکستان کی کہ پاکستان پاکستان کے پاکستان نے کی جانب سے ان کے خلاف گروہوں کو اور افغان کے درمیان کے طور پر کہ افغان ہیں بلکہ بھارت کے کے لیے ا سکتا ہے رہے ہیں رہا ہے

پڑھیں:

دہشت گردوں کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی

ایف سی ہیڈ کوارٹر پشاور پر 3 دہشت گردوں نے حملے کی کوشش کی، دہشت گردی کی اس کارروائی میں 3 جوان شہید اور 11 زخمی ہوئے، جوابی کارروائی میں تینوں دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔ دہشت گردی کے واقعے کی تحقیقات کے حوالے سے سی ٹی ڈی کے مطابق تینوں حملہ آور ایک ہی موٹر سائیکل پر آئے تھے۔ دہشت گردوں کے پاس کلاشنکوف اور 8 سے زائد دستی بم موجود تھے۔ پولیس نے دہشت گردی میں استعمال ہونے والی موٹر سائیکل بھی تحویل میں لے لی ہے۔

 پشاور میں فیڈرل کانسٹیبلری کے ہیڈکوارٹر پر ہونے والا دہشت گرد حملہ ایک بار پھر اس تلخ حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا خطرہ نہ صرف موجود ہے بلکہ اپنی پوری شدت کے ساتھ ملک کی سلامتی اور امن کو چیلنج کر رہا ہے۔ یہ حملہ صرف ایک عمارت یا چند افراد پر نہیں تھا، بلکہ یہ پاکستان کی ریاست، اس کے اداروں اور اس کی سالمیت پر حملہ تھا۔

دہشت گردوں کے عزائم ہمیشہ سے یہی رہے ہیں کہ وہ خوف پھیلائیں، ریاست کو کمزور دکھائیں اور دنیا کو باور کرائیں کہ پاکستان عدم استحکام کا شکار ہے، مگر اس بار بھی، ہمیشہ کی طرح، ہمارے سیکیورٹی اہلکاروں نے اپنی جانیں قربان کر کے نہ صرف حملے کو محدود کیا بلکہ تینوں دہشت گردوں کو جہنم واصل کر کے دشمن کے ارادے خاک میں ملا دیے۔

یہ امر نہایت قابل توجہ ہے کہ تین مسلح دہشت گرد بغیر کسی رکاوٹ یا چیکنگ کے حساس ادارے کے قریب تک پہنچ گئے، اگرچہ سیکیورٹی فورسز نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حملہ ناکام بنایا، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے عناصر شہر کے اندر تک کیسے داخل ہوئے؟ موٹر سائیکل کی برآمدگی، دستی بموں اور کلاشنکوفوں کی موجودگی ظاہر کرتی ہے کہ حملہ نہایت منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا۔

سی ٹی ڈی کے مطابق ہلاک شدہ دہشت گردوں کے جسمانی اعضا ڈی این اے ٹیسٹنگ کے لیے لیبارٹری بھجوائے جا چکے ہیں، تاکہ ان کی شناخت، ان کے نیٹ ورک اور ان کے ممکنہ سہولت کاروں تک پہنچا جا سکے۔ اس عمل کا مقصد صرف اس حملے کی ذمے داری طے کرنا نہیں بلکہ اس پوری کڑیاں توڑنا ہے جو دہشت گردی کے دھاگے کو مضبوط کرتی ہیں۔

پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر کا براہِ راست تعلق افغانستان کی موجودہ صورتحال سے جوڑا جا رہا ہے۔ یہ کوئی چھپی ہوئی بات نہیں کہ افغانستان کی سرزمین پچھلے کئی برسوں سے پاکستان مخالف گروہوں، بالخصوص تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے لیے محفوظ پناہ گاہوں کا کردار ادا کر رہی ہے۔

افغانستان کی عبوری حکومت نے دنیا سے وعدے کیے تھے کہ وہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گی، لیکن عملی صورتحال اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔ سرحد پار سے آنے والے دہشت گردوں کی تعداد میں اضافہ، ان کے حملوں کی شدت اور اسلحے کی جدید اقسام کا استعمال اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی اب محض چند چھوٹے گروہوں کا کھیل نہیں رہا بلکہ اس کے پیچھے منظم نیٹ ورک، تربیت یافتہ عناصر اور ریاست مخالف ایجنڈے کو پروان چڑھانے والی قوتیں سرگرم ہیں۔

 افغانستان اور بھارت کا تعلق اس معاملے میں بھی بار بار زیرِ بحث آ رہا ہے۔ یہ حقیقت کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ بھارت خطے میں پاکستان کو کمزور کرنے کی پالیسی پرگامزن ہے اور افغانستان اس کے لیے ایک کلیدی پلیٹ فارم بن چکا ہے۔ افغانستان میں بھارتی اثرورسوخ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، اور بھارت کی جانب سے وہاں کیے گئے سرمایہ کاری کے نام پر ایسے ڈھانچے قائم کیے گئے جن کا مقصد پاکستان مخالف کارروائیوں کو سہولت دینا تھا۔ آج بھی، جب خطے کی صورتحال بدل چکی ہے، بھارتی نیٹ ورک مختلف روپوں میں فعال ہیں اور وہ افغانستان کو پاکستان کے خلاف پراکسی کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ یہ نہ صرف پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے بلکہ خطے کی مجموعی امن و استحکام کے لیے بھی تشویش ناک امر ہے۔

پاکستان نے افغانستان کے لیے ہمیشہ اپنا دامن خیرسگالی سے بھرا رکھا۔ لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی سے لے کر افغان امن مذاکرات کی حمایت تک، پاکستان نے ہر موڑ پر خیر خواہی ثابت کی لیکن افغان عبوری حکومت کی جانب سے اس کا جو بدلہ دیا جا رہا ہے، وہ افسوسناک ہے۔ سرحد پار سے بڑھتی دہشت گردی، پاکستان مخالف دھڑے مضبوط ہونے، اور افغان سرزمین کے دہشت گردوں کے لیے استعمال ہونے جیسے اقدامات نہ صرف اعتماد کے رشتے کو مجروح کر رہے ہیں بلکہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کر رہے ہیں۔

افغانستان کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ اگر وہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے عزائم رکھنے والوں کے ہاتھوں استعمال ہوتا رہے گا تو وہ خود بھی طویل المدتی نقصان سے نہیں بچ سکے گا۔ دہشت گرد کسی کے وفادار نہیں ہوتے، وہ صرف تباہی کی زبان سمجھتے ہیں، اور اگر انھیں وقت پر لگام نہ ڈالی گئی تو ان کا رخ بغاوت اور خونریزی کی طرف ہی ہوتا ہے، جس سے کوئی ملک محفوظ نہیں رہتا۔

پاکستان کے اندر موجود سہولت کار اس جنگ کو مزید مشکل بنا دیتے ہیں۔ یہ عناصر کبھی مذہب کا سہارا لیتے ہیں، کبھی سیاست کا اور کبھی معصومیت کا لبادہ اوڑھ کر دہشت گردوں کی مدد کرتے ہیں۔

سیکیورٹی فورسز ملک کی سرحدوں کی حفاظت تو کر سکتی ہیں، مگر اندرونِ ملک موجود ایسے دشمنوں سے نمٹنے کے لیے ریاستی اداروں، پولیس، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدلیہ کو ایک مشترکہ حکمت عملی درکار ہے۔ جب تک ان سہولت کاروں کا مکمل خاتمہ نہیں ہوتا، دہشت گردی کے خاتمے کا خواب ادھورا رہے گا۔ ریاست کو نہایت سختی کے ساتھ یہ پیغام دینا ہوگا کہ جو پاکستان کے دشمنوں کی مدد کرے گا وہ بھی اتنا ہی مجرم ہے جتنا ہتھیار اٹھانے والا دہشت گرد۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک سامنے سے وار کرتا ہے اور دوسرا پشت سے، مگر دونوں ہی قومی سلامتی کے مجرم ہیں۔

سیکیورٹی لیپسز کا مسئلہ بھی سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردوں کا ایک ہی موٹر سائیکل پر مسلح ہو کر حساس اداروں کے قریب تک پہنچ جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ کہیں نہ کہیں نگرانی، چیکنگ اور احتیاط میں کمی موجود ہے۔ یہ درست ہے کہ ریاست ہر لمحے ہر جگہ موجود نہیں ہو سکتی، مگر حساس تنصیبات، سرکاری عمارات اور اہم مقامات پر نگرانی کا نظام مضبوط ہونا چاہیے۔ سی سی ٹی وی کیمرے، جدید ٹیکنالوجی، بائیو میٹرک سسٹمز، بہتر تربیت یافتہ سیکیورٹی اہلکار اور مربوط انٹیلی جنس کا نیٹ ورک اس وقت کی بنیادی ضرورت ہیں۔

قومی سطح پر اتحاد و یکجہتی بھی نہایت اہم ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف فوج یا پولیس نہیں لڑسکتی، یہ پورے ملک کی جنگ ہے۔ جب قوم تقسیم کا شکار ہوتی ہے تو دہشت گرد مضبوط ہوتے ہیں اور جب قوم متحد ہوتی ہے تو دشمن کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ قومی سلامتی ایسے معاملات میں سیاست سے بالاتر ہوتی ہے۔ اختلافات اپنی جگہ، مگر دہشت گردی کے معاملے میں ایک آواز ہونا ہی پاکستان کے مفاد میں ہے۔

 اس حملے کی تحقیقات صرف اس واقعے تک محدود نہیں رہنی چاہییں۔ دہشت گرد کہاں سے آئے؟ کس نے انھیں سہولت دی؟ کس نے انھیں راستے دکھائے؟ کون ان کے نظریات کو ہوا دیتا رہا؟ کون ان کے لیے ذرایع فراہم کرتا رہا؟ جب تک ان تمام سوالوں کے جوابات نہیں ملتے، پاکستان کے اندر امن مکمل طور پر بحال نہیں ہو سکے گا۔ ریاست کو فیصلہ کن اقدامات کرنا ہوں گے، سخت فیصلے کرنے ہوں گے اور پاکستان دشمن عناصر کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔

افغانستان کی حکومت کو بھی اپنا کردار دیکھنا ہوگا۔ اسے اپنے وعدے پورے کرنا ہوں گے، اپنی سرزمین دہشت گردوں کے لیے استعمال ہونے سے روکنی ہوگی اور پاکستان کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا، جو ہمیشہ اس کا خیر خواہ رہا ہے۔ بصورتِ دیگر خطے میں کشیدگی مزید بڑھے گی، جس کا نقصان صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ افغانستان کو بھی بھرپور بھگتنا پڑے گا۔ یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، مگر یقین رکھنا چاہیے کہ پاکستان اس جنگ میں سرخرو ہوگا، کیونکہ یہ وطن لاکھوں قربانیوں کے بعد حاصل ہوا تھا، اور آج بھی اس کی حفاظت کے لیے ہمارے جوان جانیں نچھاور کرنے کو تیار ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • قومی اسمبلی میں بھارتی وزیردفاع کے متنازع بیان کے خلاف قرارداد منظور
  • بھارتی وزیر دفاع کا اشتعال انگیز بیان ، نیا اُبھرتا خطرہ
  • ملکی سالمیت اور شہری تحفظ پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا: فیلڈ مارشل
  • سرزمین کا تحفظ اور قومی سالمیت اولین ترجیح ہے، اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، فیلڈ مارشل
  • فیض  حمید  کا کورٹ  مارشل  قانونی  معاملہ  ‘ قیاس  آرائی  نہ کی جائے : افغانستان  بلڈاور  بزنس  ساتھ  نہیں  چل  سکتے : ڈی جی آئی ایس  پی آر 
  • عام شہریوں پر حملہ کرنا ہماری پالیسی نہیں،وزیر دفاع
  • دہشت گردوں کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی
  • افغانستان پرحملہ نہیں کیا، پاکستان کارروائی کا باقاعدہ اعلان کرتا ہے: آئی ایس پی آر
  • فیض حمید کا کورٹ مارشل قانونی اور عدالتی عمل ہے،قیاس آرئیاں نہیں ہونی چاہئیں: ڈی جی آئی ایس پی آر
  • کیا بھارت افغانستان کے وسائل پر قبضہ جما لے گا؟ نئی سرمایہ کاری پیشکش نے سوالات کھڑے کر دیے