26ویں ترمیم: کیا جوڈیشل کمیشن عدالت عظمیٰ سے بھی اوپر ہے؟، جسٹس عائشہ ملک کے سخت سوالات
اشاعت کی تاریخ: 16th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251016-08-23
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) عدالت عظمیٰ کے آئینی بینچ نے 26ویں ترمیم کے خلاف کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی، جسٹس عائشہ ملک نے سوال اٹھایا کہ کیا جوڈیشل کمیشن عدالت عظمیٰ سے بھی اوپر ہے؟ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ عدالت عظمیٰ کا اپنا اختیار ہے اور جوڈیشل کمیشن کی اپنی اتھارٹی ہے۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ وکیل عابد زبیری کے بینچ پر اعتراضات سے متعلق دلائل مکمل ہوگئے۔ سماعت شروع ہوئی تو درخواست گزار ایڈووکیٹ اکرم شیخ نے کہا کہ میری دو گزارشات ہیں، عدالتی کارروائی کا آغاز بسمہ اللہ سے ہونا چاہیے، اس سے عدالتی ماحول بہتر رہے گا، یہ بات میں ہلکے پھلکے انداز میں کہہ رہا ہوں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کل جو ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ وکیل اکرم شیخ نے کہا دوسری گزارش ہے کہ وکلاء کو دلائل دینے کے لیے وقت مقرر کر دیں، میں گزشتہ جمعرات سے طالب علم کے طور پر عزت مآب عابد زبیری کے دلائل کے نوٹس لے رہا ہوں۔ عابد زبیری نے فوراً جواب دیا کہ میں عزت مآب نہیں ہوں۔ جسٹس امین الدین خان نے ہدایت کی کہ وقت کی پابندی سب پر لاگو ہوگی۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آرٹیکل 191 اے جوڈیشل کمیشن کو اختیار دیتا ہے کہ وہ آئینی بینچز کے لیے ججز نامزد کرے، جوڈیشل کمیشن پر یہ پابندی تو نہیں ہے اس نے کس جج کو نامزد کرنا ہے کسے نہیں کرنا، عدالت عظمیٰ کا یہ 8 رکنی آئینی بینچ جوڈیشل کمیشن کو ہدایت دے سکتا ہے کہ وہ فل کورٹ بنائے، جوڈیشل کمیشن کو ایسا آرڈر نہ دینے کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ اگر جوڈیشل کمیشن ایک جج کو آئینی بینچ کے لیے نامزد نہیں کرتا تو کیا ہم آرڈر دے سکتے ہیں اسے شامل کریں؟ ہم جوڈیشل کمیشن کو کیا آرڈر دے سکتے ہیں کہ فلاں جج کو آئینی بینچ میں شامل کریں، جوڈیشل کمیشن کی کارروائی اس کا اندرونی معاملہ ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے سوال اٹھایا کہ کیا جوڈیشل کمیشن عدالت عظمیٰ سے بھی اوپر ہے؟ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ عدالت عظمیٰ کا اپنا اختیار ہے اور جوڈیشل کمیشن کی اپنی اتھارٹی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے عابد زبیری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ فل کورٹ نہیں مانگ رہے، آپ تو کہہ رہے ہیں 16 ججز چاہیں، فرض کریں جوڈیشل کمیشن کہہ دے ہمیں آئینی بینچز کے لیے نامزد ججز میں سے 4 کی ضرورت نہیں، کیا وہ 4 ججز عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کریں گے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اگر جوڈیشل کمیشن کسی جج کو آئینی بینچ کے لیے نامزد نہیں کرتا تو کیا عدالت عظمیٰ آئینی ذمے داری ادا نہیں کرے گی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے عابد زبیری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس عائشہ ملک کی آبزرویشن کے بعد آپ نے تو اپنے دلائل ہی تبدیل کر دیے، پہلے آپ کی دلیل تھی عدالت عظمیٰ کا یہ بینچ 8 ججوں کو شامل کرنے کے لیے جوڈیشل آرڈر کرے اور اب آپ کہہ رہے ہیں جوڈیشل کمیشن کو ہدایت دی جائے۔ وکیل عابد زبیری نے کہا میری دلیل یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ جوڈیشل آرڈر کرے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ٹھیک ہے پھر تو جوڈیشل کمیشن والی بات ہی ختم ہوگئی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آئینی بینچز کی تشکیل کا معاملہ تو ججز آئینی کمیٹی اکثریت سے طے کرتی ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان جب آئینی بینچ کے لیے نامزد نہیں ہیں تو انھیں معاملہ کیسے بھیجا جا سکتا ہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ پاکستان میں آئینی بینچز کو ایک سال سے کم ہوا، کیا دنیا کے دیگر ممالک میں ایسی مثالیں ہیں جہاں ایسی صورت حال کو ڈیل کیا گیا ہو۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اگر عدالت حکم نہیں دے سکتی پھر تو فل کورٹ بیٹھ ہی نہیں سکتا، کمیشن اگر صرف پانچ ججز کو کہہ دے تو صرف پانچ ججز ہی بیٹھیں گے۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن صرف ججز نامزد نہیں کرتا بلکہ طے بھی کرتا ہے، کیا عدالتی حکم کے ذریعے ہم ووٹنگ کے عمل کو بائی پاس کر سکتے ہیں؟ وکیل عابد زبیری نے کہا کہ عدالتی حکم کی سب پر پابندی ہے۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ آپ کا مطلب ہے ہم جوڈیشل کمیشن کو حکم دے سکتے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اندر کی بات بتا دوں، آئینی کمیٹی ممبران نے ججز تعداد بڑھانے کا لکھا تو اعتراض اٹھایا گیا اور اعتراض کرنے والوں کا کہنا تھا ججز کی تعداد آپ نہیں بتا سکتے۔ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ میرا موقف کمیشن میں تھا کہ میں ججز نام کمیشن کے سامنے رکھ سکتا ہوں۔ وکیل عابد زبیری نے دلائل میں کہا کہ فل کورٹ بنے گا تو اپیل کا حق نہیں رہے گا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ چیف جسٹس سمیت متاثرہ ججز نکال دیں تو بات پھر جسٹس امین الدین کے پاس آئے گی۔ وکیل عابد زبیری نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے اختیارات کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ سپریم کورٹ ٰ بار ایسوسی ایشن کے سابقہ صدور کے وکیل عابد زبیری کے دلائل مکمل ہوگئے۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کل سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے الیکشن بھی ہیں، پیر کو کیس سنیں گے۔ عدالت نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جسٹس جمال خان مندوخیل نے جسٹس امین الدین خان نے وکیل عابد زبیری نے نے ریمارکس دیے کہ جسٹس عائشہ ملک نے جوڈیشل کمیشن کو کہ عدالت عظمی کے لیے نامزد نامزد نہیں نے کہا کہ ا سکتے ہیں فل کورٹ سے بھی
پڑھیں:
26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں کی سماعت میں آئینی بینچ اور فل کورٹ پر ججز کے سخت سوالات
اسلام آباد:سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت 8 رکنی آئینی بینچ نے کی، جس میں آئینی بینچ اور فل کورٹ پر سخت سوالات کیے گئے۔
اہم کیس کی سماعت کی سربراہی جسٹس امین الدین خان نے کی جب کہ جبکہ بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال شامل ہیں۔
سماعت کے آغاز پر مختلف بار ایسوسی ایشنز کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل عابد زبیری نے اپنے دلائل دیتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ 26ویں آئینی ترمیم سے پہلے تعینات ججز پر مشتمل فل کورٹ اس کیس کی سماعت کرے۔ بینچ کی تشکیل کسی فریق کا حق نہیں، تاہم اس معاملے کی نوعیت آئینی ہے، اس لیے اسے فل کورٹ کے سامنے سنا جانا چاہیے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا کسی فریق کو خاص بینچ کی ڈیمانڈ کا حق حاصل ہے؟ اگر ہم آپ کی استدعا مان لیں تو کیا ججز بھی مرضی کے ہوں گے؟۔ اس پر عابد زبیری نے جواب دیا کہ وہ مخصوص ججز کی نہیں بلکہ فل کورٹ کی استدعا کر رہے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ جس ترمیم کے تحت آئینی بینچ قائم ہے، اگر اسی پر اعتراض ہے تو پھر فیصلہ کون کرے گا؟۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 191 اے کے تحت آئینی معاملات آئینی بینچ ہی سن سکتا ہے، اس لیے فل کورٹ کی تشکیل کا اختیار آئین میں واضح طور پر درج نہیں۔
سماعت کے دوران جسٹس عائشہ ملک نے پوچھا کہ آپ کی درخواست کیا ہے؟" جس پر وکیل نے کہا کہ 26ویں ترمیم سے پہلے تعینات ججز پر مشتمل فل کورٹ کیس سنے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ کا کہنا مان لیا جائے تو پھر موجودہ ججز کو باہر کرنا ہوگا، تو کیس سنے گا کون؟۔
جسٹس نعیم افغان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کے تمام دلائل پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ اور ترمیم سے پہلے کے ہیں۔ اب آئین کے تحت بینچز کی تقسیم واضح ہے اور چیف جسٹس بھی آئینی بینچ میں ججز شامل نہیں کرسکتے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے مزید کہا کہ چیف جسٹس 26ویں آئینی ترمیم کے تحت بنے ہیں، اگر یہ ترمیم نہ ہوتی تو یحییٰ آفریدی چیف جسٹس بنتے؟۔ اب اگر ہم خود بینیفیشری ہیں تو کیا ہم کیس سن سکتے ہیں؟۔ اس پر وکیل نے کہا کہ وہ کسی جج کو متعصب نہیں کہہ رہے، بلکہ چاہتے ہیں کہ آئین کے مطابق فل کورٹ تشکیل پائے۔
عدالت میں دورانِ سماعت فل کورٹ، آئینی بینچ کے دائرہ اختیار، چیف جسٹس کے اختیارات اور آرٹیکل 191 اے کی تشریح پر تفصیلی بحث جاری رہی۔
وکیل عابد زبیری نے مؤقف اختیار کیا کہ فل کورٹ کی تشکیل سے تمام ججز کی اجتماعی رائے سامنے آئے گی، جس سے آئین کی وضاحت مضبوط ہوگی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ 17 ججز پر مشتمل فل کورٹ کیوں چاہتے ہیں؟ سپریم کورٹ میں تو اس وقت 24 ججز موجود ہیں۔
بحث کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے واضح کیا کہ فل کورٹ کا لفظ آئین میں موجود نہیں اور اب چیف جسٹس کو بینچ بنانے کا اختیار نہیں رہا۔ آئینی معاملات صرف آئینی بینچ ہی سنے گا۔
تفصیلی دلائل کے بعد عدالتِ عظمیٰ نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔