ضلعی اسپتالوں کی حالت بہتر بنانے کیلیے ڈی سی کی زیرصدارت اجلاس
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251020-11-15
نوشہرو فیروز (جسارت نیوز) صوبائی وزیرِ صحت و پاپولیشن ویلفیئر عذرا فضل پیچوہو کی ہدایات پر صحت کی سہولیات میں بہتری کے حوالے سے ایک اجلاس ڈپٹی کمشنر نوشہرو فیروز محمد ارسلان سلیم کی زیر صدارت منعقد ہوا۔اجلاس میں ضلعی صحت کے افسران، اسسٹنٹ کمشنرز اور متعلقہ محکموں کے افسران نے شرکت کی۔ اجلاس کے دوران ڈپٹی کمشنر نے محکمہ صحت میں بہتری لانے، اسپتالوں کی نگرانی مضبوط بنانے اور عطائی ڈاکٹرز کے خلاف کارروائیاں مزید تیز کرنے کے احکامات جاری کیے۔ڈپٹی کمشنر محمد ارسلان سلیم نے محکمہ صحت کے افسران کو ہدایت دی کہ وہ ضلع کی تمام سرکاری و نجی اسپتالوں، لیبارٹریوں اور بلڈ بینکوں کا تفصیلی دورہ کریں اور صحت کی مجموعی صورتحال سے متعلق جامع رپورٹ پیش کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہیلتھ کیئر کمیشن، محکمہ صحت اور اسسٹنٹ کمشنرز کی نگرانی میں ضلع بھر میں غیر قانونی اسپتالوں، لیبارٹریوں اور عطائی ڈاکٹروں کے خلاف مؤثر کارروائی کی جائے اور قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف فوری اقدامات اٹھائے جائیں۔ڈپٹی کمشنر نے واضح کیا کہ ضلع میں ایچ آئی وی، ہیپاٹائٹس اور دیگر بیماریوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ غیر قانونی اسپتال، بلڈ بینک اور لیبارٹریاں ہیں، جو بغیر اجازت کام کر رہی ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ڈپٹی کمشنر
پڑھیں:
بچوں میں مثبت رویہ کیسے اجاگر کریں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بچوں کی تربیت میں سب سے اہم ہےکہ والدین واضح اور مستقل اصول بنائیں۔ بچے اس وقت بہتر سیکھتے ہیں جب انہیں معلوم ہو کہ ان سے کیا توقع کی جا رہی ہے۔ اصولوں میں بار بار تبدیلی بچے کو اُلجھن میں ڈال سکتی ہے۔ اگر سونے کا وقت رات نو بجے ہے تو اسے بغیر کسی خاص وجہ کے تبدیل نہ کریں۔والدین کو چاہیے کہ خود عملی نمونہ بنیں۔ بچے وہی رویہ اپناتے ہیں جو وہ والدین میں دیکھتے ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ نرمی اور سچائی کا مظاہرہ کرے تو خود بھی یہی رویہ اختیار کریں۔اچھے کام کی تعریف بچوں کو وہی کام بار بار کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ جیسے اگر بچہ اپنے کھلونے خود سمیٹ لے تو اس کی تعریف کریں کہ ’تم نے بہت اچھا کام کیا۔‘ اس سے بچے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔اس کے علاوہ بچوں کو ان کے کیے ہوئے عمل کے نتیائج کا سامنا کرنے دیں تاکہ وہ سیکھ سکیں۔ مثلاً اگر وہ جیکٹ نہ پہنیں تو سردی لگنے پر انہیں اندازہ ہوگا کہ جیکٹ کیوں پہننا ضروری ہے۔ اسی طرح اگر ہوم ورک نہ کریں تو کچھ دیر کے لیے ان کا تفریحی وقت کم کیا جاسکتا ہے۔چیخنا یا غصہ کرنا بچوں میں خوف پیدا کرتا ہے،فرمانبرداری نہیں۔ نرمی سے مضبوط انداز میں بات کرنا بہتر نتائج دیتا ہے اور بچہ جذبات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔بچے ان اصولوں کو بہتر انداز میں اپناتے ہیں جن کی وجہ انہیں معلوم ہو۔ مثلاً اگر آپ کہیں کہ ’کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا اس لیے ضروری ہے تاکہ بیمار نہ ہوں،‘ تو وہ زیادہ آسانی سے بات مانیں گے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ’جب والدین محبت اور نظم و ضبط کا توازن رکھتے ہیں، تو بچے نہ صرف فرمانبردار بنتے ہیں بلکہ بہتر انسان بھی بنتے ہیں۔‘