پاک افغان مسئلہ اچھے سے حل کر سکتا ہوں، لیکن فی الحال مجھےکچھ کرنے کی ضرورت نہیں، ٹرمپ
اشاعت کی تاریخ: 26th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کوالالمپور: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بڑھتے ہوئے تنازعات کے حل میں ذاتی دلچسپی رکھتے ہیں اور اس مسئلے کو جلد اور مؤثر انداز میں حل کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں جاری آسیان سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ ان کے دورِ صدارت میں متعدد علاقائی تنازعات ختم کیے گئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ “تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان ہونے والی لڑائی ان آٹھ جنگوں میں سے ایک تھی جنہیں میں نے صرف آٹھ ماہ میں رکوا دیا، اب ایک اور تنازع باقی ہے جسے ختم کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔”
ٹرمپ نے کہا کہ انہیں حال ہی میں اطلاع ملی ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوبارہ کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ “مجھے لگتا ہے کہ میں اس معاملے میں مثبت کردار ادا کر سکتا ہوں، کیونکہ میں دونوں ممالک کو اچھی طرح جانتا ہوں اور ان کے رہنماؤں سے میرے اچھے تعلقات ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے وزیراعظم اور فیلڈ مارشل بااعتماد اور سمجھدار شخصیات ہیں، اور انہیں یقین ہے کہ دونوں ملک امن کے لیے مخلص ہیں۔ “مجھے ان دونوں پر بھروسہ ہے، اور میرا ماننا ہے کہ ہم مل کر اس خطے میں دیرپا امن قائم کرنے میں کامیاب ہوں گے۔”
ٹرمپ نے اپنے خطاب کے اختتام پر کہا کہ پاک افغان تنازع کا خاتمہ نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ دنیا کے امن کے لیے اہم ہے، اور وہ اس مقصد کے حصول کے لیے ہر ممکن سفارتی کوشش کرنے کو تیار ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
ٹیکنالوجی ایک طاقتور حلیف لیکن انسانی فیصلے اور ہمدردی کی جگہ نہیں لے سکتی، جسٹس سوریا کانت
جسٹس سوریا کانت نے خبردار کیا کہ اے آئی پر ان کاموں میں بھروسہ کرنے میں احتیاط برتنی چاہیے جن میں فیصلہ، تخلیقی صلاحیت یا پیش گوئی کی ضرورت ہو۔ اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ آف انڈیا کے سینیئر جج جسٹس سوریا کانت نے زور دیا کہ ٹیکنالوجی عدلیہ اور عدالتی انتظامیہ کے لئے ایک طاقت بن چکی ہے۔ کبھی کاغذات سے بھرے عدالتی دفاتر اب ایسے ڈیش بورڈز سے بدل رہے ہیں جو حقیقی وقت میں مقدمات کی پیشرفت کو ٹریک کرتے ہیں، یہ شفافیت اور کارکردگی میں بے مثال اضافہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی ہماری پہنچ کو بڑھاتی ہے اور ہماری صلاحیتوں کو بہتر بناتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہمیں زیادہ مؤثر طریقے سے کام کرنے میں مدد دیتی ہے لیکن یہ انسانی فیصلے اور ہمدردی کی جگہ نہیں لے سکتی، انصاف کا جوہر ڈیٹا یا الگورتھم میں نہیں بلکہ ضمیر اور ہمدردی میں پنہاں ہے۔
جسٹس سوریا کانت نے واضح کیا کہ جج کا فیصلہ، وکیل کی دلیل اور فریقین کا وقار، یہ سب انصاف کے زندہ ریشے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئی مشین گواہ کی آواز میں لرزش، درخواست کے پیچھے کی تکلیف یا فیصلے کے اخلاقی وزن کو محسوس نہیں کر سکتی۔ مصنوعی ذہانت (اے آئی) تحقیق میں مدد کر سکتی ہے، لیکن یہ انسانی جذبات کو نہیں سمجھ سکتی۔ انہوں نے کہا کہ ہم وکیل یا جج کو تبدیل نہیں کر رہے، بلکہ ان کی رسائی کو بڑھا رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کو رہنما بننے دیں اور انسان کو حکمرانی کرنے دیں، انصاف کے نظام میں انسانی نگرانی ناگزیر ہے۔
ٹیکنالوجی کے فوائد کے ساتھ کچھ چیلنجز بھی ہیں۔ ڈیٹا کی حفاظت، رازداری اور معلومات کی رازداری انتہائی اہم ہیں۔ AI ٹولز غلط معلومات یا من گھڑت حقائق پیدا کر سکتے ہیں، اور ان میں تعصب بھی ہو سکتا ہے۔ جسٹس سوریا کانت نے خبردار کیا کہ اے آئی پر ان کاموں میں بھروسہ کرنے میں احتیاط برتنی چاہیے جن میں فیصلہ، تخلیقی صلاحیت یا پیش گوئی کی ضرورت ہو۔ ہمیں قانونی ٹیکنالوجی تک رسائی کو جمہوری بنانا چاہیے، نہ کہ اسے چند لوگوں کا استحقاق بننے دیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں قانونی ٹیکنالوجی کو نصاب کا گہرا حصہ بنانا چاہیئے۔ قانون کے کالجوں اور عدالتی اکیڈمیوں کو ڈیٹا سائنس، قانونی انفارمیٹکس اور اے آئی اخلاقیات جیسے کورسز شامل کرنے چاہیئے۔ عدلیہ اور بار دونوں میں ایسے رہنماؤں کی ضرورت ہے جو ٹیکنالوجی سے واقف ہوں اور مثال قائم کریں۔ ہم ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں، ہم ٹیکنالوجی کی مزاحمت کر کے جمود کا شکار ہو سکتے ہیں یا اسے اپنی قانونی اور اخلاقی اقدار کے ساتھ ڈھال کر انصاف کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔