Express News:
2025-10-28@02:51:21 GMT

ہم انسان نہیں ہندسے ہیں

اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT

عالمی ادارہِ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر تیدروس گیبریسس نے وارننگ دی ہے کہ جنگ بندی کے باوجود غزہ کی آبادی کی جسمانی و ذہنی صحت کا مسئلہ نسل در نسل چل سکتا ہے۔

وہاں صحت کے ڈھانچے کے نام پر کچھ نہیں بچا۔پوری آبادی ذہنی ٹراما میں مبتلا ہے اور یہ حالات محض دوا دارو اور ظاہری علاج سے آگے کا مرحلہ ہے۔

اگرچہ اسرائیل نے جنگ بندی کے بعد کچھ میڈیکل سپلائز کو اندر پہنچانے کی اجازت دی ہے۔مگر یہ اس قدر ناکافی ہیں کہ اس سے مجموعی مسئلے کی سنگینی کم نہیں ہو سکتی۔

غزہ کو اس وقت ایک بڑے غذائی اور طبی انجکشن کی ضرورت ہے۔ جتنی امداد پہنچانے کی اب تک اجازت دی گئی ہے وہ مجموعی ضرورت کا محض دس فیصد ہے۔

حالانکہ امریکا نے جو بیس نکاتی سمجھوتہ کروایا ہے اس میں واضح طور پر وعدہ کیا گیا ہے کہ انسانی امداد کی فراہمی بلا روک ٹوک جاری رہے گی اور اس عمل پر فریقین کے باہمی اختلافات اثرانداز نہیں ہوں گے۔

ڈاکٹر تیدروس کا کہنا ہے کہ بھلا کون سا ایسا انسانی مسئلہ ہے جو اس وقت غزہ کو درپیش نہیں۔ بھک مری ، طبی امداد اور انخلا کے منتظر ہزاروں زخمی، صاف پانی اور صفائی اور اسپتالوں کا تہہ و بالا نظام،پوری آبادی ہر طرح کی بیماریوں بالخصوص جلدی امراض کی زد میں ہے ۔

اس پر طرہ یہ کہ امدادی رسد بار بار کسی نہ کسی جواز کے تحت معطل ہو رہی ہے اور جو مدد متاثرین تک پہنچ بھی رہی ہے وہ ضرورت کے مقابلے میں انتہائی ناکافی ہے۔

ڈاکٹر تیدروس کے بقول اگر آپ قحط سالی اور ذہنی صحت کے مسائل یکجا کر کے دیکھیں تو اس کے مجموعی اثرات جانے کتنی نسلوں تک محسوس ہوتے رہیں گے۔

لہٰذا انسانی امداد کی ترسیل کے معاملے کو کبھی ہتھیار نہیں بنانا چاہیے۔ امریکا جنگ بندی سمجھوتے کا بنیادی ضمانتی ہے۔ یہ اس کی ذمے داری ہے کہ وہ تمام فریقوں کو اس سمجھوتے کے تحت عائد ذمے داریوں کا پابند رکھے۔

اس دوران عالمی ادارہِ خوراک کا کہنا ہے کہ جنگ بندی معاہدے کے تحت روزانہ دو ہزار ٹن غذائی اور دیگر امدادی سامان سے بھرے چھ سو ٹرکوں کو غزہ میں داخلے کی اجازت دی گئی ہے۔ عملاً دو سو سے تین سو ٹرک ہی داخل ہو پا رہے ہیں۔

چار سرحدی گذرگاہوں میں سے دو ( کارم شلوم اور کسوفم ) کھلی ہوئی ہیں اور ان پر بھی تفصیلی چھان پھٹک کو جواز بنا کے مزید تاخیر پیدا کی جا رہی ہے۔جب کہ سب سے بڑی رفاہ کراسنگ مسلسل بند ہے۔

حالانکہ تمام سرکردہ عالمی امدادی تنظیمیں جنگ بندی کے ذمے دار ثالثوں سے لگاتار اپیل کر رہی ہیں کہ تمام گذرگاہیں بلا روک ٹوک کھولی جائیں۔یہ سب راستے اسرائیل کے کنٹرول میں ہیں۔

ڈاکٹر تیدروس نے اقوامِ متحدہ کی امدادی ایجنسی برائے فلسطین انرا کا نام لیے بغیر کہا کہ ہر امدادی ادارے کو کام کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔کیونکہ ان میں سے بعض اداروں ( انرا ) کا جتنا زمینی تجربہ ہے کسی اور کا نہیں۔

واضح رہے کہ اٹھہتر برس سے فلسطینیوں کی ہر طرح کی مدد کرنے والے ادارے انرا کو اسرائیل نے ’’ دھشت گرد تنظیم ‘‘ قرار دے رکھا ہے اور امریکا بھی اس معاملے میں اسرائیل کا حامی ہے۔

انرا ذرایع کا کہنا ہے کہ اس وقت اس کی جمع کردہ امداد رفاہ کراسنگ کے اس پار مصری علاقے میں پڑی پڑی خراب ہو رہی ہے۔یہ امداد غزہ کی آبادی کی کم ازکم دو ماہ کی ضروریات پورا کر سکتی ہے۔اور اس کی مقدار چھ ہزار ٹرکوں کے برابر ہے۔

عالمی ادارہِ صحت کے ڈائریکٹر جنرل تیدروس نے بی بی سی ریڈیو فور کو انٹرویو دیتے ہوئے مزید کہا کہ اسرائیل نے ہماری بہت سی طبی رسد غزہ میں پہنچنے سے اس جواز کے تحت روک رکھی ہے کہ کچھ اشیا کا دوہرا استعمال ( فوجی و سویلین ) ہو سکتا ہے۔

اب آپ ہی بتائیں کہ کوئی بھی عارضی فیلڈ اسپتال بنانے کے لیے ترپالیں اور بانس درکار ہیں۔اگر بانس یہ کہہ کر روک لیا جائے کہ اس کا دوہرا استعمال ہو سکتا ہے تو ہم فیلڈ اسپتال کا خیمہ کیسے تانیں گے ؟

ڈاکٹر تیدروس نے بتایا کہ اب تک لگ بھگ سات سو زخمی بیرونِ ملک منتقل نہ کیے جانے کے سبب مر چکے ہیں۔ہزاروں دیگر منتقلی کے منتظر ہیں۔مگر گزشتہ دو ہفتے سے یہ کام اس لیے ٹھپ ہے کیونکہ اسرائیل میں دو ہفتے کی مذہبی چھٹی کے سبب متعلقہ ادارے بند رہے ہیں اور ان کے کسی متبادل کا بھی انتظام نہیں کیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ بہت سے شدید زخمی زمینی راستے سے منتقل نہیں کیے جا سکتے مگر ان کے لیے مطلوبہ تعداد میں پروازیں میسر نہیں۔

اقوامِ متحدہ کا اندازہ ہے کہ غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے کم ازکم ستر ارب ڈالر درکار ہیں۔ڈاکٹر تیدروس کا کہنا ہے کہ غزہ کے طبی ڈھانچے کی بحالی کے لیے کم از کم سات ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔

دس اکتوبر سے ہونے والی جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی حملوں میں اب تک سو سے زائد مزید فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ڈاکٹر تیدروس نے غزہ میں جنگ بندی کے باوجود شہریوں کی ہلاکت پر دکھ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ امن کا اعلان سن کر خوشی سے اچھل رہے تھے ان میں سے کئی یہ سننے کے بعد قتل ہو گئے کہ اب امن قائم ہو گیا ہے۔

غزہ میں مقیم ایک رائٹر سارہ عواد لکھتی ہیں کہ ’’ اسرائیل موجودہ جنگ بندی کو سوئچ آن اور آف کی طرح استعمال کر رہا ہے۔ایک دن کسی بات کو بہانہ بنا کر بمباری کر دو اور گزشتہ روز نہ کرو۔

لوگ پھر امن کے دھوکے میں آ کر باہر نکلنا شروع کریں تو پھر اچانک بمباری کر دو۔یعنی فلسطینی بھی چن چن کے مارے جاتے رہیں اور دنیا بھی اس وہم میں مبتلا رہے کہ جنگ بندی قائم ہے۔

سارہ کے بقول کسی بھی فلسطینی کو یقین نہیں کہ جنگ بندی کا دھوکا کب تک چلے گا اور کب بموں کی برسات ہونے لگے گی۔یہ جنگ بندی نہیں مسلسل قتلِ عام میں محض عارضی وقفہ ہے۔

ہم اس وقت تک قاتل کے رحم و کرم پر ہیں جب تک دنیا باعزت زندگی گذارنے کا ہمارا بنیادی حق تسلیم نہیں کر لیتی اور اس حق کو قاتل سے منوا نہیں لیتی۔تب تک ہم انسان نہیں میڈیا کے لیے محض چند سو ، ہزار ، لاکھ کے ہندسے ہیں۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ڈاکٹر تیدروس کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے کہ جنگ بندی تیدروس نے کہا کہ کے لیے ہے اور ہیں کہ رہی ہے کے تحت اور اس

پڑھیں:

جنگ بندی کے بعد اب تک اسرائیلی فوج کے حملوں میں 97 فلسطینی شہید

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

غزہ /تل ابیب /واشنگٹن /جنیوا /لندن (مانیٹرنگ ڈیسک /صباح نیوز)غزہ میں جنگ بندی کے باوجود اسرائیل باز نہ آیا۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی فوج نے10 اکتوبر کو جنگ بندی نافذ ہونے کے بعد سے97 فلسطینیوں کو قتل کرتے ہوئے جنگ بندی کی 80 خلاف ورزیاں کی ہیں، ادھر ہفتے کو بمباری سے دیر البلاح میں مزید2 فلسطینی شہید ہو گئے۔ غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق غزہ میں جنگ
بندی کے باوجود اسرائیل کا ظلم جاری ہے، صرف چند امدادی ٹرکوں کو ہی غزہ میں داخلے کی اجازت مل سکی ہے۔ جس سے بنیادی ضروریات پوری ہونا ممکن نہیں۔ اسرائیل کی رکاوٹوں کے باعث فلسطینیوں کو خوراک، پانی اور پناہ کے لیے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ مصر میں جلاوطن کیے گئے فلسطینی قیدیوں کو آباد کرنے کے لیے جن ممالک پر غور کیا جا رہا ہے ان میں قطر، ترکیہ اور ملائیشیا کے علاوہ پاکستان بھی شامل ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکی ثالثی سے ہونے والے جنگ بندی معاہدے کے بعد، جو 10 اکتوبر سے نافذ العمل ہے، حماس نے تقریباً 2 ہزار فلسطینی قیدیوں کے بدلے تمام 20 زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کر دیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر قیدی غزہ اور مغربی کنارے واپس چلے گئے، تاہم 154 فلسطینی سابق قیدیوں کو جلاوطن کر کے بسوں کے ذریعے مصر بھیج دیا گیا، جہاں حکام نے انہیں ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں رکھا ہوا ہے جہاں سے وہ اجازت کے بغیر باہر نہیں نکل سکتے۔فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے عالمی برادری سے اسرائیل پر جنگ بندی معاہدے کی پاسداری کے لیے دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کردیا۔ حماس ترجمان حازم قاسم نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں جاری ہیں، جنگ بندی کے بعد سے اب تک 97 فلسطینیوں کو شہید کیا جاچکا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ امریکا، ممکنہ طور پر اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کے تحت غزہ میں بین الاقوامی افواج تعینات کرنے کے امکانات کا جائزہ لے رہا ہے اور امید کرتا ہے کہ جلد ہی غزہ میں جنگ بندی کی نگرانی کے لیے ایک فورس تشکیل دی جائے گی۔ روبیو نے میڈیاسے بات کرتے ہوئے کہا کہ کچھ ممالک اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کے بغیر اس میں حصہ نہیں لے سکتے‘ شاید یہ اقوام متحدہ کی قرارداد کے ذریعے ہو ۔ برطانوی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں تعینات کی جانے والی بین الاقوامی فوج میں ترکیہ کے شامل ہونے پر اعتراض کے بعد اب یہ امکان بڑھ گیا ہے کہ ترکیہ اس فورس کا حصہ نہیں ہوگا۔ دی گارجین کے مطابق شام کے مسئلے پر اسرائیل اور ترکیہ کے تعلقات کشیدہ ہیں، اور اسرائیلی حکومت ترک صدر رجب طیب اردوان کو حماس کے قریب سمجھتی ہے تاہم ترکی کو فورس سے خارج کرنا متنازع ہو سکتا ہے کیونکہ یہ ملک ٹرمپ کے 20 نکاتی جنگ بندی منصوبے کے ضمانت دہندگان میں شامل ہے اور سب سے مضبوط مسلم افواج میں شمار ہوتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق غزہ میں تعینات کی جانے والی بین الاقوامی فورس 5 ہزار اہلکاروں پر مشتمل ہوگی اور اس کی قیادت ممکنہ طور پر مصر کے پاس رہے گی۔ اقوام متحدہ کے ادارے براے اطفال(یونیسیف) نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں تعلیم کا نظام تباہ ہونے کے باعث ایک پوری نسل تعلیم سے محروم ہے۔ یونیسیف کے مشرقِ وسطی و شمالی افریقا کے علاقائی ڈائریکٹر ایڈوارڈ بیگ بیدیر نے خبردار کیا ہے کہ یہ تیسرا سال ہے جب بچے اسکول نہیں جا پا رہے‘ قابض اسرائیلی جارحیت سے غزہ میں85 فیصد تعلیمی ادارے تباہ ہو چکے ہیں اور باقی بیشتر کو بے گھر شہریوں کے پناہ مراکز کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت اساتذہ خود اپنے گھروں کے لیے پانی اور خوراک کی فراہمی میں مصروف ہیں، ایسے میں تعلیم جاری رکھنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق قاہرہ میں فلسطینی تنظیموں کے اجلاس میں غزہ کے نئے منظر نامے پر غورکیا گیا، اجلاس میں فلسطینی عوام کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا، خصوصاً ان عظیم اہلِ غزہ کو جنہوں نے 2 برس تک جاری صہیونی درندگی کے مقابلے میں بے مثال صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا۔ 2 روزہ اجلاس کل ختم ہوگیا۔

مانیٹرنگ ڈیسک

متعلقہ مضامین

  • غزہ جنگ بندی کی نگرانی: اسرائیل نے ترکی کے فوجیوں کی تعیناتی مسترد کر دی
  • پاک افغان جنگ بندی: جارحانہ بیانات غیرضروری ہیں‘لیاقت بلوچ
  • دل کی بھوک اور ایمان کا علاج
  • تھائی لینڈ کمبوڈیا جنگ بندی معاہدہ، سعودی عرب کا خیر مقدم
  • غزہ یا لبنان میں اہداف پر حملے کے لیے کسی سے اجازت نہیں لیں گے، اسرائیلی وزیراعظم
  • جنگ بندی کے بعد اب تک اسرائیلی فوج کے حملوں میں 97 فلسطینی شہید
  • جنگ بندی کے باوجود غزہ کے زخم ہنوز تازہ
  • غزہ جنگ بندی کے بعد(1)
  • نماز پڑھ کر بھی نماز برائیوں سے نہیں بچا رہی تو انسان اپنے اعمال پر نظر ثانی کرے، مولانا ضیاءالحسن نجفی