ہم انسان نہیں ہندسے ہیں
اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT
عالمی ادارہِ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر تیدروس گیبریسس نے وارننگ دی ہے کہ جنگ بندی کے باوجود غزہ کی آبادی کی جسمانی و ذہنی صحت کا مسئلہ نسل در نسل چل سکتا ہے۔
وہاں صحت کے ڈھانچے کے نام پر کچھ نہیں بچا۔پوری آبادی ذہنی ٹراما میں مبتلا ہے اور یہ حالات محض دوا دارو اور ظاہری علاج سے آگے کا مرحلہ ہے۔
اگرچہ اسرائیل نے جنگ بندی کے بعد کچھ میڈیکل سپلائز کو اندر پہنچانے کی اجازت دی ہے۔مگر یہ اس قدر ناکافی ہیں کہ اس سے مجموعی مسئلے کی سنگینی کم نہیں ہو سکتی۔
غزہ کو اس وقت ایک بڑے غذائی اور طبی انجکشن کی ضرورت ہے۔ جتنی امداد پہنچانے کی اب تک اجازت دی گئی ہے وہ مجموعی ضرورت کا محض دس فیصد ہے۔
حالانکہ امریکا نے جو بیس نکاتی سمجھوتہ کروایا ہے اس میں واضح طور پر وعدہ کیا گیا ہے کہ انسانی امداد کی فراہمی بلا روک ٹوک جاری رہے گی اور اس عمل پر فریقین کے باہمی اختلافات اثرانداز نہیں ہوں گے۔
ڈاکٹر تیدروس کا کہنا ہے کہ بھلا کون سا ایسا انسانی مسئلہ ہے جو اس وقت غزہ کو درپیش نہیں۔ بھک مری ، طبی امداد اور انخلا کے منتظر ہزاروں زخمی، صاف پانی اور صفائی اور اسپتالوں کا تہہ و بالا نظام،پوری آبادی ہر طرح کی بیماریوں بالخصوص جلدی امراض کی زد میں ہے ۔
اس پر طرہ یہ کہ امدادی رسد بار بار کسی نہ کسی جواز کے تحت معطل ہو رہی ہے اور جو مدد متاثرین تک پہنچ بھی رہی ہے وہ ضرورت کے مقابلے میں انتہائی ناکافی ہے۔
ڈاکٹر تیدروس کے بقول اگر آپ قحط سالی اور ذہنی صحت کے مسائل یکجا کر کے دیکھیں تو اس کے مجموعی اثرات جانے کتنی نسلوں تک محسوس ہوتے رہیں گے۔
لہٰذا انسانی امداد کی ترسیل کے معاملے کو کبھی ہتھیار نہیں بنانا چاہیے۔ امریکا جنگ بندی سمجھوتے کا بنیادی ضمانتی ہے۔ یہ اس کی ذمے داری ہے کہ وہ تمام فریقوں کو اس سمجھوتے کے تحت عائد ذمے داریوں کا پابند رکھے۔
اس دوران عالمی ادارہِ خوراک کا کہنا ہے کہ جنگ بندی معاہدے کے تحت روزانہ دو ہزار ٹن غذائی اور دیگر امدادی سامان سے بھرے چھ سو ٹرکوں کو غزہ میں داخلے کی اجازت دی گئی ہے۔ عملاً دو سو سے تین سو ٹرک ہی داخل ہو پا رہے ہیں۔
چار سرحدی گذرگاہوں میں سے دو ( کارم شلوم اور کسوفم ) کھلی ہوئی ہیں اور ان پر بھی تفصیلی چھان پھٹک کو جواز بنا کے مزید تاخیر پیدا کی جا رہی ہے۔جب کہ سب سے بڑی رفاہ کراسنگ مسلسل بند ہے۔
حالانکہ تمام سرکردہ عالمی امدادی تنظیمیں جنگ بندی کے ذمے دار ثالثوں سے لگاتار اپیل کر رہی ہیں کہ تمام گذرگاہیں بلا روک ٹوک کھولی جائیں۔یہ سب راستے اسرائیل کے کنٹرول میں ہیں۔
ڈاکٹر تیدروس نے اقوامِ متحدہ کی امدادی ایجنسی برائے فلسطین انرا کا نام لیے بغیر کہا کہ ہر امدادی ادارے کو کام کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔کیونکہ ان میں سے بعض اداروں ( انرا ) کا جتنا زمینی تجربہ ہے کسی اور کا نہیں۔
واضح رہے کہ اٹھہتر برس سے فلسطینیوں کی ہر طرح کی مدد کرنے والے ادارے انرا کو اسرائیل نے ’’ دھشت گرد تنظیم ‘‘ قرار دے رکھا ہے اور امریکا بھی اس معاملے میں اسرائیل کا حامی ہے۔
انرا ذرایع کا کہنا ہے کہ اس وقت اس کی جمع کردہ امداد رفاہ کراسنگ کے اس پار مصری علاقے میں پڑی پڑی خراب ہو رہی ہے۔یہ امداد غزہ کی آبادی کی کم ازکم دو ماہ کی ضروریات پورا کر سکتی ہے۔اور اس کی مقدار چھ ہزار ٹرکوں کے برابر ہے۔
عالمی ادارہِ صحت کے ڈائریکٹر جنرل تیدروس نے بی بی سی ریڈیو فور کو انٹرویو دیتے ہوئے مزید کہا کہ اسرائیل نے ہماری بہت سی طبی رسد غزہ میں پہنچنے سے اس جواز کے تحت روک رکھی ہے کہ کچھ اشیا کا دوہرا استعمال ( فوجی و سویلین ) ہو سکتا ہے۔
اب آپ ہی بتائیں کہ کوئی بھی عارضی فیلڈ اسپتال بنانے کے لیے ترپالیں اور بانس درکار ہیں۔اگر بانس یہ کہہ کر روک لیا جائے کہ اس کا دوہرا استعمال ہو سکتا ہے تو ہم فیلڈ اسپتال کا خیمہ کیسے تانیں گے ؟
ڈاکٹر تیدروس نے بتایا کہ اب تک لگ بھگ سات سو زخمی بیرونِ ملک منتقل نہ کیے جانے کے سبب مر چکے ہیں۔ہزاروں دیگر منتقلی کے منتظر ہیں۔مگر گزشتہ دو ہفتے سے یہ کام اس لیے ٹھپ ہے کیونکہ اسرائیل میں دو ہفتے کی مذہبی چھٹی کے سبب متعلقہ ادارے بند رہے ہیں اور ان کے کسی متبادل کا بھی انتظام نہیں کیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ بہت سے شدید زخمی زمینی راستے سے منتقل نہیں کیے جا سکتے مگر ان کے لیے مطلوبہ تعداد میں پروازیں میسر نہیں۔
اقوامِ متحدہ کا اندازہ ہے کہ غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے کم ازکم ستر ارب ڈالر درکار ہیں۔ڈاکٹر تیدروس کا کہنا ہے کہ غزہ کے طبی ڈھانچے کی بحالی کے لیے کم از کم سات ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔
دس اکتوبر سے ہونے والی جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی حملوں میں اب تک سو سے زائد مزید فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ڈاکٹر تیدروس نے غزہ میں جنگ بندی کے باوجود شہریوں کی ہلاکت پر دکھ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ امن کا اعلان سن کر خوشی سے اچھل رہے تھے ان میں سے کئی یہ سننے کے بعد قتل ہو گئے کہ اب امن قائم ہو گیا ہے۔
غزہ میں مقیم ایک رائٹر سارہ عواد لکھتی ہیں کہ ’’ اسرائیل موجودہ جنگ بندی کو سوئچ آن اور آف کی طرح استعمال کر رہا ہے۔ایک دن کسی بات کو بہانہ بنا کر بمباری کر دو اور گزشتہ روز نہ کرو۔
لوگ پھر امن کے دھوکے میں آ کر باہر نکلنا شروع کریں تو پھر اچانک بمباری کر دو۔یعنی فلسطینی بھی چن چن کے مارے جاتے رہیں اور دنیا بھی اس وہم میں مبتلا رہے کہ جنگ بندی قائم ہے۔
سارہ کے بقول کسی بھی فلسطینی کو یقین نہیں کہ جنگ بندی کا دھوکا کب تک چلے گا اور کب بموں کی برسات ہونے لگے گی۔یہ جنگ بندی نہیں مسلسل قتلِ عام میں محض عارضی وقفہ ہے۔
ہم اس وقت تک قاتل کے رحم و کرم پر ہیں جب تک دنیا باعزت زندگی گذارنے کا ہمارا بنیادی حق تسلیم نہیں کر لیتی اور اس حق کو قاتل سے منوا نہیں لیتی۔تب تک ہم انسان نہیں میڈیا کے لیے محض چند سو ، ہزار ، لاکھ کے ہندسے ہیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر تیدروس کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے کہ جنگ بندی تیدروس نے کہا کہ کے لیے ہے اور ہیں کہ رہی ہے کے تحت اور اس
پڑھیں:
انسان اور چھوٹی کائنات (پہلا حصہ)
یہ انسان جو اپنے آپ کو بہت طرم خان، عقل کُل اور ہمہ دان سمجھتا ہے ستاروں پر کمندیں ڈالتا ہے اور پوری کائنات کو فتح کرنے کا مدعی ہے۔
اتنا نادان اتنا ناسمجھ اور اتنا بے خبر ہے کہ باہر باہر دور دور اس وسیع کارخانہ قدرت کو ایک طرف کردیجیے کہ پہاڑ کے مقابل چیونٹی بھی نہیں ہے، کائنات میں موجودات، ستاروں اور سیاروں کہکشاؤں کے بارے میں تو کیا جانے گا کہ خود اپنے جسم کی اس چھوٹی کائنات کے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتا۔
مثال کے طور پر انسان کو اپنے بارے یہ بھی نہیں معلوم کہ میں خود اس کائنات کا ایک چھوٹا سا نمونہ یا ماڈل ہوں اور میرے اندر بھی ایک وسیع کائنات موجود ہے۔
اب یہ جو ہم سانس لیتے ہیں ہم اتنا تو جانتے ہیں کہ اس سے ہم زندہ ہیں لیکن کیوں کیسے؟یہ جو ہم سانس لیتے ہیں یہ ایک نہیں دو ہیں اور ایک دوسرے سے قطعی مختلف متضاد اور الگ الگ ہیں، یوں کہیے کہ ان میں بھی کائنات کا بنیادی نظام ازواج یا ثنویت یا منفی و مثبت کا زوج کار فرما ہے۔
جو سانس ہم اندر کھینچتے ہیں وہ آکسیجن ہوتی ہے اور جو باہر نکالتے ہیں کاربن ڈائی آکسائیڈ ہوتی ہے، یوں کہیے کہ آکسیجن زندہ جسم کا’’فیول‘‘ ہے اور کاربن دھواں ہے، خوراک ہے زندگی ہے
یہ آکسیجن پھیپھڑوں کے ذریعے خون میں شامل ہوجاتی ہے پھر پھیپھڑے اسے دل کو دیتے ہیں اور دل اس صاف’’خون‘‘ کو جسم میں پمپ کرتا ہے اور اس کی جگہ استعمال شدہ کاربن سے بھرا ہوا خون کھینچ کر پھیپڑوں کو صفائی کے لیے بھیجتا ہے، پھیپھڑے اس سے کاربن نکال کر باہر نکال دیتے ہیں اوراس کی جگہ خون میں آکسیجن بھر کر دل کو واپس بھیجتے ہیں۔
اس مرحلے میں ان دو عضویات دل اور پھیپھڑوں کی کارکردگی کا ذکر ضروری ہے۔ پھیپھڑے تو دوسرے انسانی اعضا اور کائنات کی ہر چیز کی طرح دو کا زوج ہیں لیکن دل جو بظاہر ایک دکھائی دیتا ہے’’ٹو ان ون‘‘ ہے یعنی اس کے بھی دو حصے ہوتے ہیں ایک وہ جو پھیپھڑوں سے تازہ آکسیجن سے بھرا خون لے کر جسم کو پمپ کرتا ہے اور دوسرا جسم سے کاربن بھرا خون کھینچ کر پھیپھڑوں کو صفائی کے لیے بھیجتا ہے۔
یوں جسم میں آکسیجن اور کاربن کا توازن برقرار رہتا ہے اور انسان جب آرام سے بیٹھا ہوتا ہے تو تب بھی اس کی سانس ہموار رہتی ہے، آکسیجن اور کاربن اپنا اپنا کام کررہی ہوتی ہیں توازن کے ساتھ۔لیکن کوئی انسان متحرک ہوتا ہے تو آکسیجن تیزی سے خرچ ہوکر کاربن میں بدلنے لگتی ہے آکسیجن کی کھپت زیادہ ہونے کا لازمی نتیجہ کاربن کا بڑھ جانا ہوتا ہے، جسم جتنا زیادہ متحرک ہوتا ہے اتنا ہی آکسیجن زیادہ خرچ ہوتی ہے اور کاربن بڑھتی ہے۔
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ سخت کام کرنے والوں اور بھاگ دوڑ کرنے والوں کی سانس پھول جاتی ہے ایسے میں انسان شعوری طور پر یہ کرتا ہے کہ رُک جاتا ہے، کام چھوڑ کر آرام کرتا ہے۔لیکن جسم کا نظام خود بھی خودکار طریقے پر کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہے۔
کیونکہ ضروری نہیں کہ رُکنے، بیٹھنے لیٹنے آرام کرنے کا موقع جسم کو میسر ہو۔ چناں چہ وہ گانے لگتا ہے آوازیں نکالنے لگتا ہے ہنسنے لگتا ہے اور کسی طرح کوئی ایسا عمل کرتا ہے جس سے کاربن نکلے اور آکسیجن آئے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ملاح، مزدور، مسافر وغیرہ اونچی آواز میں گاتے ہیں ہلہ ہلہ ہاو ہو کرتے ہیں ،ہنستے ہیں ایک دوسرے کا مذاق اڑاکر قہقہے لگاتے ہیں اور یہ سب لاشعوری طور پر جسم کا خودکار نظام کرتا ہے آکسیجن اور کاربن کا توازن برقرار رکھنے کے لیے۔
صرف انسان ہی نہیں جانور اور چرند پرند بھی ایسا کرتے ہیں آوازیں نکالتے ہیں، کتے بھونکتے ہیں، پرندے چہچہاتے ہیں باقی جانور بھی کوئی نہ کوئی آواز نکالتے ہیں۔یہ سب ان کے جسموں کا خود کار نظام کرتا ہے اور مسئلہ وہی ہے آکسیجن کھینچنے اور کاربن نکالنے کا۔
کیونکہ آکسیجن اور کاربن قوت ہے عموماً ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی بستیوں میں دن کو تو سب اپنا اپنا کام کرتے ہیں لیکن شام کو کسی جگہ اکٹھے ہوکر گاتے بجاتے ہیں، کھیلتے ہیں مذاق کرکے ہنستے اور قہقہے لگاتے ہیں، ناچتے ہیں یا ہلکے پھلکے کھیل کھیلتے ہیں ، جب کہ خانہ بدوش اور مسافر لوگ کہیں بیٹھ کر گاتے بجاتے ہیں، ہنستے مسکراتے ہیں یا آلاؤ کے گرد ناچتے یا اور کوئی دلچسپ مظاہرہ کرتے ہیں۔
یہ سب ان سے ان کے جسموں کا خودکار نظام کراتا ہے اور جو ایسا نہیں کرتے ہیں یا دن میں سخت کام نہیں کرتے وہ جمائیاں لیتے ہیں اور سوجاتے ہیں۔انھی چیزوں نے آخر ان سرگرمیوں کو جنم دیا جنھیں ہم ’’ثقافت‘‘ یا کلچر کہتے ہیں۔
اگرچہ زمانے کے ساتھ ساتھ ایسے تمام کام جو ابتدا میں تفریح تھے کاروبار اور پیشے بھی ہوتے چلے گئے لیکن ابتدا بہرحال اسی بنیاد پر ہوئی ہے۔اور اگر ہم بہت پیچھے جاکر تحقیق کریں تو ابتدا میں اکثر آلات موسیقی پھونک اور سانس والے تھے پہلے صرف سیٹیاں پھر ہلہ ہلہ آ آ۔
اور پھر بانسری نفیری شہنائیاں وغیرہ۔اس سلسلے میں ’’شنک‘‘ یعنی آبی جانوروں کی سیپیاں اور شیل جانوروں کے سینگوں سے بنائے گئے آلات لفظ’’قرتا‘‘ قرن یعنی سینگ سے ہے۔ ہندیوں کے دیوتا شیو کو اسی لیے سنکر (شینک بجانے والا بھی کہتے ہیں)کہ پیالہ تیرے نام کا۔
یہ ’’پیالہ‘‘ بھی ایک خاص پس منظر رکھتا ہے جس پر کبھی تفصیل سے لکھیں گے۔’’حدی خوان ‘‘ان لوگوں کو کہا جاتا تھا جو قافلوں میں چلتے چلتے گایا کرتے تھے اور الفاظ بہت کم لیکن آوازیں بلند ہوتی تھیں ۔کچھ ہی عرصہ پہلے ہم نے خود دیکھا ہے کہ جب کوئی اجتماعی کام ہوتا تھا جیسے بوائی کٹائی اور گہائی تو ایک ڈھول والا ڈھول بجاتا تھا اور کام کرنے والوں میں سے کوئی ناچنے لگتا باقی اس کے گرد کھڑے ہوکر تالیاں بجاتے اور گاتے یا ہاہو کرتے اور آوازیں نکالتے۔
خلاصہ ان ساری باتوں کا یہ ہے کہ گانا بجانا ہنسنا مسکرانا قہقہے لگانا اور آوازیں نکالنا ایک سانس والی مخلوق کی فطری ضرورت ہیں اوراسی کو اکثر مدنیت، ثقافت، اجتماعیت اور کلچر کہتے ہیں جو غلط ہے۔
بہتر ہوگا کہ ہم اس سلسلے میں استعمال ہونے والے ان الفاظ کا بھی تھوڑا سا تجزیہ کرلیں جو اکثر غلط استعمال کیے جاتے ہیں ثقافت، تمدن، تہذیب وغیرہ جسے انگریزی لفظ کلچر میں بھی ادا کیا جاتا ہے لیکن یہ صرف الگ الگ الفاظ ہیں بلکہ ان کے معانی و مفاہیم بھی الگ ہیں، سب سے پہلے ثقافت جو عربی لفظ ’’ثقف‘‘سے بنا ہے، ثقات عرب میں اسے بہت معنی دیے گئے ہیں لیکن مجموعی اور متفقہ معنی ہیں کسی کام یا چیز یا ہنر میں مہارت حاصل کرنا اور اس میں جیت حاصل کرنا ممتاز ہونا خاص ہونا۔ (جاری ہے)