متحدہ عرب امارات میں 2 سالہ ملازمت ویزا حاصل کرنے کا طریقہ
اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT
ویب ڈیسک :متحدہ عرب امارات دنیا بھر کے ہنر منداور کاروباری افراد کے لئے پرکشش منزل کے طور پر سامنے آیا ہے۔
جدید انفراسٹرکچر، بہترین سیکیورٹی، ٹیکس فری آمدنی اور مضبوط معیشت کی بدولت ہزاروں غیر ملکی یہاں کی افرادی قوت کا حصہ بننے کے خواہش مند ہیں۔
اسی سلسلے میں 2 سالہ روزگار ویزا سب سے عام رہائشی اجازت ناموں میں سے ایک ہے، جو ان غیر ملکی ملازمین کو دیا جاتا ہے جنہیں کسی اماراتی کمپنی نے ملازمت پر رکھا ہو۔
بھارتی سٹار کرکٹرICUمیں داخل، وجہ کیا بنی؟
دو سالہ ملازمت ویزا پاکستانیوں اور دیگر غیر ملکیوں کو یو اے ای میں دو سال تک رہنے اور کام کرنے کا قانونی حق دیتا ہے۔ اس ویزا کی اسپانسر شپ عام طور پر امارات میں رجسٹرڈ کمپنی کرتی ہے جو ملازم کے ویزے کے تمام مراحل مکمل کراتی ہے۔
ویزا ہولڈر کو دوران ویزا ملک میں آزادانہ آمد و رفت کی اجازت حاصل ہوتی ہے جبکہ ملازمت جاری رہنے کی صورت میں اسے مزید دو سال کے لیے تجدید (Renew) کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کے تمام ائیرپورٹس کو کیش لیس بنانے کا فیصلہ
دنیا کے مختلف ممالک کے لوگ متحدہ عرب امارات کا انتخاب کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ 2025 میں متحدہ عرب امارات دنیا کے سب سے پرکشش روزگار بازاروں میں شامل ہے، کیونکہ متحدہ عرب امارات کی معیشت مستحکم اور جدید ٹیکنالوجی پر مبنی ہے، ٹیکس سے پاک آمدنی اور بہتر سہولیات میسر ہیں۔
متحدہ عرب امارات کو بین الاقوامی کاروباری مرکز کی حیثیت حاصل ہے، یہاں عالمی معیار کی صحت و رہائشی سہولتیں دستیاب ہیں، محفوظ اور کثیر الثقافتی ماحول ہے اور طویل المدتی رہائش کے مواقع موجود ہیں۔
غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافے سے ملکی معیشت مستحکم، اسٹیٹ بینک کا اعتراف
یو اے ای ملازمت ویزا کی اقسام
اگرچہ زیادہ تر معاہدے دو سالہ مدت کے لیے ہوتے ہیں، مگر ویزا uae visa کی مختلف اقسام ہیں ان میں ایک پرائیویٹ سیکٹر ویزا ہے جو وزارتِ انسانی وسائل و اماراتی کاری کے تحت رجسٹرڈ کمپنیوں کے ملازمین کے لیے ہے۔
ایک قسم فری زون ویزا ہے جو فری زون میں کام کرنے والی کمپنیوں کے ملازمین کے لیے ہے، ایک حکومتی ویزا ہے جو سرکاری اداروں یا نیم سرکاری محکموں کے لیے ہے، گھریلو کام کرنے والے افراد جیسے ڈرائیور، خانساماں، یا ذاتی معاونین کے لیے گھریلو ملازمین ویزا ہے۔
کشمیر سب سے زیادہ ملٹری قبضہ زدہ خطہ، مزید نظر انداز نہ کیا جائے: مشعال ملک
اہلیت
یو اے ای کا 2 سالہ ویزا حاصل کرنے کے لیے درخواست گزار کو چند شرائط پوری کرنا ضروری ہیں، ان میں امارات میں رجسٹرڈ آجر کی جانب سے مستند ملازمت کی پیشکش یا معاہدہ، آجر کے پاس درست ٹریڈ لائسنس ہونا ضروری ہے، درخواست دہندہ کے پاس مناسب قابلیت یا تجربہ، لازمی طبی معائنہ میں کلیئرنس، جرائم سے پاک ریکارڈ، آجر کی جانب سے رہائش و ملازمت کی ضمانت ضروری ہے۔
ویزا کے حصول کے لئے ضروری دستاویزات
پنجاب کے تمام تعلیمی اداروں میں ہفتے کی چھٹی مقرر
ان دستاویزات میں درست پاسپورٹ، سفید پس منظر کے ساتھ پاسپورٹ سائز تصاویر، ملازمت کا خط یا معاہدہ، تعلیمی و پیشہ ورانہ اسناد (یو اے ای ایمبیسی و وزارتِ خارجہ سے تصدیق شدہ)، کمپنی کا ٹریڈ لائسنس اور رجسٹریشن سرٹیفکیٹ، انٹری پرمٹ فارم، طبی فٹنس رپورٹ، اماراتی شناخت فارم، رہائش یا رہائشی انتظام کا ثبوت، ہیلتھ انشورنس کا ثبوت اور درخواست فیس کی ادائیگی شامل ہے۔
ویزا کی تجدید
دو سال مکمل ہونے سے قبل آجر ویزا کی تجدید کرا سکتا ہے۔ تجدید کے دوران دوبارہ میڈیکل ٹیسٹ، امارات آئی ڈی اور ویزا اسٹیمپنگ ضروری ہوتی ہے،ویزا ختم ہونے سے کم از کم 30 دن پہلے تجدید کا عمل لازمی شروع کیا جائے۔
ملازمت کی تبدیلی
اگر ملازم کمپنی بدلنا چاہتا ہے تو موجودہ ویزا منسوخ کیا جاتا ہے اور نئی کمپنی کی جانب سے نیا ویزا اسپانسر کیا جاتا ہے، یہ عمل وزارتِ انسانی وسائل کے تحت شفافیت کے ساتھ مکمل کیا جاتا ہے۔
ویزا مسترد ہونے کی وجوہات
ویزا مسترد ہونے کی وجوہات میں نامکمل یا غلط دستاویزات، غیر رجسٹرڈ یا خلاف ضابطہ آجر، میڈیکل ٹیسٹ میں ناکامی، قابلیت و عہدے میں عدم مطابقت اور سابقہ ویزا جرمانے یا خلاف ورزیاں شامل ہیں۔
ذریعہ: City 42
پڑھیں:
چیف جسٹس کے ایک سالہ دور پر قانونی ماہرین کا تحفظات کا اظہار
سپریم کورٹ نے اپنے چیف جسٹس جسٹس یحییٰ آفریدی کے ایک سالہ دور میں انصاف کی فراہمی کے نظام میں بہتری کے دعوے کیے ہیں، مگر قانونی ماہرین کی اکثریت اس کارکردگی سے متاثر نہیں اور عدلیہ پر اعتماد میں کمی کا اظہار کر رہی ہے۔
اتوار کو عدالت کی کارکردگی کو اجاگر کرنے کے لیے مختلف اعداد و شمار پیش کیے گئے۔ چیف جسٹس نے ایک سال کے دوران ججوں، وکلا اور وفاقی حکومت کے تعاون اور ثابت قدمی کی تعریف کی۔
تاہم، سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر نے اس پریس ریلیز کو آئینی اختیار کے بجائے ادارہ جاتی کمزوری کی علامت قرار دیا اور کہا کہ اس میں عدالتی اختیارات کی درست عکاسی نہیں کی گئی بلکہ یہ غیر ضروری انتظامی بیان بازی ہے۔ ان کے مطابق اہم مسائل کو نظر انداز کیا گیا اور وہ ابھی بھی حل طلب ہیں۔
عبدالمعیز جعفری ایڈووکیٹ نے کہا کہ پچھلے سال حکومت کی طرف سے تشکیل دیے گئے بینچوں کے ذریعے انصاف فراہم کیا گیا، جن میں حکومت کے مقرر کردہ جج شامل تھے اور انہوں نے فرض شناسی کے ساتھ فیصلے دیے۔
ردا حسین ایڈووکیٹ نے کہا کہ چیف جسٹس کی خود کو مبارکباد دینے والی پریس ریلیز اس حقیقت کو نظر انداز کرتی ہے کہ عوام کا عدلیہ پر اعتماد نچلے ترین سطح پر ہے۔ نئے ضابطہ اخلاق کے تحت ججز کو انتظامی یا عدالتی معاملات پر عوامی طور پر بات کرنے سے روک دیا گیا ہے، جو شفافیت کے بجائے سنسرشپ کا تاثر دیتا ہے۔
حافظ احسان احمد ایڈووکیٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ ایک سال کے دوران کئی تعمیری اقدامات کیے، جن میں قوانین میں ترامیم، ڈیجیٹل نظام کی بہتری اور فوجداری و ٹیکس کے معاملات پر توجہ شامل ہے۔ یہ مثبت پیش رفت ہیں، مگر عدلیہ پر عوام کے اعتماد کو مضبوط کرنے کے لیے ابھی بہت کام باقی ہے۔