جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی آرمی چیف کا حماس کیخلاف جنگ جاری رکھنےکا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
جنگ بندی معاہدے کے باوجود اسرائیل کے جنگی عزائم کم نہ ہوئے، اور اسرائیلی فوج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ایال ضمیر نے واضح اعلان کیا ہے کہ غزہ میں جاری کارروائی اُس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک حماس کے قبضے سے آخری مغوی کی لاش واپس نہیں لائی جاتی۔ ان کے اس بیان نے ایک بار پھر خطے میں جاری کشیدگی کو بڑھا دیا ہے۔
اپنے فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی آرمی چیف نے کہا کہ اسرائیلی فوج مستقبل کی جانب دیکھ رہی ہے، مگر ماضی کے بوجھ اور قربانیوں کو فراموش نہیں کر سکتی۔ انہوں نے کہا کہ جنگ کے دوران حاصل ہونے والے تجربات اور غلطیوں سے سیکھنا ہمارا اخلاقی اور پیشہ ورانہ فریضہ ہے، اور ہم اس ذمہ داری کو عزم و ہمت کے ساتھ پورا کریں گے۔
لیفٹیننٹ جنرل ایال ضمیر نے کہا کہ جنگ ابھی اپنے اختتامی مرحلے میں نہیں پہنچی، فوج کو اپنے مشن کی تکمیل تک میدان میں ڈٹے رہنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ مغویوں کی واپسی اور حماس کے خلاف آپریشن کو ہر قیمت پر جاری رکھا جائے گا۔ انہوں نے اپنے اہلکاروں کو ہدایت دی کہ وہ ہر ممکن چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں، کیونکہ حالات کسی بھی وقت بدل سکتے ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
جنگ بندی کے باوجود غزہ کے زخم ہنوز تازہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251026-03-2
غزہ میں ابھی بھی بہت کچھ نہیں بدلا۔ جنگ بندی کے اعلان کے باوجود وہاں زندگی گزارنا مشکل ہے۔ عالمی طاقتوں کی خاموشی، مسلسل اسرائیلی دہشت گردی، امدادی قافلوں پر پابندیاں اور لاکھوں بے گھر فلسطینی، یہ سب اس حقیقت کی گواہی دیتے ہیں کہ جنگ بندی صرف کاغذی حقیقت ہے، زمینی نہیں۔ فلسطینی عوام اب بھی زندہ رہنے کی جنگ لڑ رہے ہیں، ایک ایسی زمین پر جو بموں، ملبے اور بارود سے بھری ہوئی ہے۔ الجزیرہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق، اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے باوجود غزہ میں انسانی بحران بدترین شکل اختیار کرچکا ہے۔ اسرائیلی حکام نے امدادی سامان کے داخلے پر سخت پابندیاں برقرار رکھی ہوئی ہیں، جس کے باعث لاکھوں فلسطینی خوراک، پانی اور طبی سہولتوں کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہزاروں زخمی افراد کو فوری علاج کی ضرورت ہے، مگر اسپتالوں کے پاس نہ دوائیں ہیں اور نہ ہی بجلی، خواتین اور بچے کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں، جب کہ شدید غذائی قلت نے بھوک اور بیماری کو ایک مستقل مسئلہ بنا دیا ہے۔ غزہ کی پٹی کے شمال سے جنوب تک صورتِ حال یکساں ہے۔ کوئی علاقہ محفوظ نہیں، کوئی خاندان پرسکون نہیں۔ لوگ کھنڈرات میں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں، پانی کے چند قطروں کے لیے گھنٹوں قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں، اور ادویات نایاب ہو چکی ہیں۔ بین الاقوامی امدادی ادارے مسلسل انتباہ کر رہے ہیں کہ اگر امداد کی فراہمی میں رکاوٹیں برقرار رہیں تو غزہ میں قحط جیسی صورتِ حال جنم لے سکتی ہے۔ یہ انسانی بحران صرف خوراک یا رہائشی مسائل تک محدود نہیں ہے۔ اسرائیلی جارحیت نے غزہ کو ایک ایسے کھلے بارودی میدان میں بدل دیا ہے جو لاکھوں ٹن دھماکا خیز مواد سے بھرا ہوا ہے۔ مرکز برائے انسانی حقوق غزہ نے خبردار کیا ہے کہ قابض اسرائیلی فوج کے پھینکے گئے لاکھوں بموں، گولوں اور میزائلوں میں سے ہزاروں اب تک نہیں پھٹے۔ ان غیرمنفجر بموں کی باقیات شہریوں اور امدادی کارکنوں کے لیے ایک مستقل خطرہ بن چکی ہیں۔ ابتدائی تخمینوں کے مطابق غزہ میں تقریباً 71 ہزار ٹن ناکارہ بارودی مواد دفن ہے، جو کسی بھی لمحے پھٹ کر مزید تباہی پھیلا سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دو سالہ جنگ کے دوران تباہ شدہ عمارتوں، بنیادی ڈھانچے اور رہائشی علاقوں سے ستر ملین ٹن ملبہ جمع ہو چکا ہے، جس کے نیچے یہ بم چھپے ہوئے ہیں۔ اس خوفناک صورتحال نے نہ صرف تعمیر ِ نو بلکہ روزمرہ کی زندگی کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ غزہ کے شہری جب اپنے گھروں کا ملبہ ہٹانے یا امدادی کارروائی میں شریک ہوتے ہیں تو ہر قدم پر موت ان کا تعاقب کرتی ہے۔ غزہ کے محکمہ دفاعِ کے مطابق امدادی عملہ روزانہ اپنی جان خطرے میں ڈال کر کام کر رہا ہے۔ ’’ہم ہر ملبے کے نیچے موت چھپی محسوس کرتے ہیں، کسی بھی لمحے ایک دھماکا ہمارے کارکنوں یا عام شہریوں کی زندگی ختم کر سکتا ہے‘‘۔ ان کے مطابق رہائشی عمارتوں، گلیوں، کھیتوں اور اسکولوں تک میں ایسے بم موجود ہیں جو پھٹنے سے رہ گئے تھے۔ گزشتہ چند مہینوں میں کئی ہلاکت خیز واقعات پیش آ چکے ہیں۔ غزہ شہر کے الزیتون محلے میں ملبہ صاف کرتے ہوئے ایک زیرِ زمین گولہ پھٹ گیا جس سے تین شہری شہید ہو گئے۔ اسی طرح النصیرات کیمپ اور خان یونس میں بھی اسی نوعیت کے دھماکے ہوئے، جن میں کئی مزدور زخمی ہوئے۔ یہ صورتحال بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ جنیوا کنونشنز کے مطابق، قابض طاقت پر لازم ہے کہ جنگ کے بعد غیرمنفجر ہتھیاروں کو ختم کرے، شہریوں کی سلامتی کو یقینی بنائے اور دنیا کو ان کے مقامات سے آگاہ کرے۔ مگر اسرائیل نے نہ صرف یہ ذمے داری پوری نہیں کی بلکہ غزہ میں امدادی سرگرمیوں پر رکاوٹیں کھڑی کر کے انسانی المیے کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ بین الاقوامی امدادی تنظیم ہیومینیٹی اینڈ انکلوژن کے سینئر عہدیدار نِک اور کے مطابق، غزہ کو مکمل طور پر صاف کرنے میں 20 سے 30 سال لگ سکتے ہیں۔ ان کے بقول ’’غزہ کی زمین بارود سے بھرا ایک کھلا قبرستان بن چکی ہے، جہاں ہر قدم موت کا پیغام ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ صورتحال دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانیہ کے بعض شہروں سے مشابہ ہے، جہاں برسوں تک لوگ زیر ِ زمین موجود بموں کے خوف میں زندگی گزارتے رہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسدادِ بارودی خطرات نے بھی اعتراف کیا ہے کہ اسرائیلی پابندیوں کی وجہ سے غزہ میں کسی بڑے پیمانے پر جانچ یا صفائی کا عمل ممکن نہیں ہو سکا۔ ان کے مطابق تقریباً 5 سے 10 فی صد بم پھٹنے سے رہ گئے ہیں۔ ان تمام خطرات کے باوجود فلسطینی عوام کا حوصلہ کم نہیں ہوا۔ وہ اپنے نصب العین، آزادی اور بقا کے عزم پر قائم ہیں۔ یہی مزاحمت ان کی شناخت ہے، اور یہی ان کی زندگی کا استعارہ ہے۔ اسی عزم کے تسلسل میں، قاہرہ میں فلسطینی دھڑوں کا دو روزہ اجلاس ایک اہم پیش رفت کے طور پر سامنے آیا۔ عرب جمہوریہ مصر کی دعوت اور صدر عبدالفتاح السیسی کی سرپرستی میں ہونے والے اس اجلاس میں مختلف فلسطینی گروہوں نے جنگ بندی کے استحکام، تعمیر ِ نو کے آغاز اور قومی اتحاد کی بحالی پر اتفاق کیا۔ اجلاس میں اس امر پر زور دیا گیا کہ فلسطینیوں کی بقا اور ان کے حقوق کی حفاظت صرف اتحاد میں مضمر ہے۔ اجلاس میں کئی اہم نکات پر اتفاق کیا گیا جن میں قابض افواج کا مکمل انخلا، محاصرے کا خاتمہ، رفح سمیت تمام گزرگاہوں کی بحالی، اور غزہ کی جامع تعمیر ِ نو شامل ہیں۔ فیصلہ کیا گیا کہ ایک فلسطینی تکنیکی کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو مقامی ماہرین پر مشتمل ہو اور عرب ممالک و بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے بنیادی خدمات بحال کرے۔ مزید یہ کہ ایک بین الاقوامی نگران کمیٹی تعمیر ِ نو کے عمل کی شفاف نگرانی کرے گی۔ تاہم ان حقائق کے ساتھ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری کا اصل کردار اب شروع ہوا ہے اور وہ اسرائیل کو اس کے جرائم پر جواب دہ نہیں ٹھیراتی منظر زیادہ نہیں بدلے گا، مغربی دنیا، خاص طور پر امریکا اور یورپی ممالک، نے ہمیشہ اسرائیل کی پشت پناہی کی ہے۔ وہ انسانی حقوق کے نام پر دوسروں پر پابندیاں عائد کرتے ہیں مگر اسرائیل کے مظالم پر آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ یہی دوہرا معیار غزہ کے المیے کو طول دے رہا ہے۔ مسلمان ممالک کی ذمے داری اس موقع پر سب سے زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ صرف بیانات اور قراردادوں سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم کو فوری طور پر ایک متفقہ لائحہ عمل طے کرنا چاہیے، تاکہ اسرائیل پر دباؤ ڈالا جا سکے اور غزہ کی تعمیر ِ نو کے لیے مشترکہ فنڈ قائم ہو۔ قطر، ترکیہ اور مصر کو مزید رول امریکا کی چھتری سے الگ بھی ادا کرنا ہو گا اور امت ِ مسلمہ کو اجتماعی قوت کے ساتھ میدان میں آنا ہوگا۔ دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ضرورت ہے۔ اگر اقوام متحدہ اور عالمی عدالت ِ انصاف واقعی اپنی غیرجانبداری پر یقین رکھتی ہیں تو اسرائیل کے جنگی جرائم کی تحقیقات اور مجرموں کو سزا دینا لازم ہے۔ حقیقت اس وقت ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ جنگ بندی کے باوجود غزہ کے زخم ہنوز تازہ ہیں۔ وہاں کے بچے بارود میں کھیل رہے ہیں، مائیں کھنڈرات میں اپنے لخت ِ جگر تلاش کر رہی ہیں، اور بوڑھے اپنی بستیوں کے ملبے پر بیٹھے انصاف کے منتظر ہیں۔ اگر دنیا نے اب بھی خاموشی اختیار کی تو آنے والی نسلیں اسے ظالموں کے ساتھ کھڑا دیکھیں گی، مظلوموں کے ساتھ نہیں۔ اہل ِ غزہ کے لیے اب صرف ہمدردی نہیں، عملی قدم اٹھانے کی ضرورت ہے، کیونکہ امن صرف جنگ کے ختم ہونے کا نام نہیں، بلکہ انصاف کے قیام کا دوسرا نام ہے۔