کراچی چیمبر کا شرح سود برقرار رکھنے کے فیصلے پر اظہار مایوسی
اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251028-06-27
کراچی (کامرس رپورٹر) کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر محمد ریحان حنیف نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے شرح سود کو گیارہ فیصد پر برقرار رکھنے کے فیصلے پر گہری مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اسے کاروباری اور صنعتی برادری کو ریلیف فراہم کرنے کا ضائع شدہ موقع قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ مہنگائی بڑی حد تک قابو میں ہے اس لیے کاروباری طبقہ کم از کم دو سو بیسز پوائنٹس کی کمی کی توقع کر رہا تھا تاکہ شرح سود کو تقریباً نو فیصد تک لایا جا سکے مگر بدقسمتی سے یہ توقع پوری نہیں ہوئی جو موجودہ معاشی حالات کے تناظر میں ناقابلِ فہم فیصلہ ہے۔ریحان حنیف نے زور دیا کہ حکومت کو اپنی مالیاتی پالیسی کو خطے کے دیگر ممالک سے ہم آہنگ کرنا چاہیے جہاں شرح سود نمایاں طور پر کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر شرح سود کو نو فیصد تک لانا ممکن نہیں تھا تو کم از کم دس فیصد تک کمی ضرور کی جانی چاہیے تھی۔کے سی سی آئی کے صدر نے بتایا کہ قرضوں کی تقسیم میں توازن قائم نہیں کیونکہ حکومتی قرضے اپنی بلند ترین سطح پر ہیں جبکہ نجی شعبے کو قرضوں کا بہاؤ محدود ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ صورتحال 23 فیصد کی ریکارڈ بلند شرح سے بہتر ہوئی ہے مگر موجودہ 11 فیصد شرح بھی ان کاروباروں کے لیے بوجھ ہے جو بے مثال لاگت کے دباؤ میں زندہ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے یاد دلایا کہ 2024 کے اختتام پر حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ شرح سود کو سنگل ڈیجٹ میں لایا جائے گا مگر یہ وعدہ تاحال پورا نہیں کیا گیا۔ اس وعدے کی عدم تکمیل سے کاروباری برادری مایوس ہوئی ہے جو ترقی پر مبنی مالیاتی پالیسی کی امید رکھتی تھی۔ریحان حنیف نے خبردار کیا کہ نجی شعبہ، جو پہلے ہی گیس اور بجلی کے ناقابلِ برداشت نرخوں کے باعث کاروبار کی بڑھتی ہوئی لاگت سے پریشان ہے، مہنگے قرضوں کا بوجھ مزید نہیں اٹھا سکتا۔ اگر حکومت واقعی صنعتی سرگرمیوں کو بحال کرنا، روزگار کے مواقع پیدا کرنا اور برآمدات میں اضافہ چاہتی ہے تو اسے فوری طور پر شرح سود اور یوٹیلیٹی اخراجات کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔انہوں نے اختتام پر کہا کہ کاروباری برادری نے مشکل حالات کے باوجود حوصلہ دکھایا ہے، مگر جب تک کاروباری لاگت میں نمایاں کمی نہیں کی جاتی، پاکستان کی معاشی بحالی ایک خواب ہی رہے گی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: شرح سود کو انہوں نے کہا کہ
پڑھیں:
ٹیکنالوجی ایک طاقتور حلیف لیکن انسانی فیصلے اور ہمدردی کی جگہ نہیں لے سکتی، جسٹس سوریا کانت
جسٹس سوریا کانت نے خبردار کیا کہ اے آئی پر ان کاموں میں بھروسہ کرنے میں احتیاط برتنی چاہیے جن میں فیصلہ، تخلیقی صلاحیت یا پیش گوئی کی ضرورت ہو۔ اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ آف انڈیا کے سینیئر جج جسٹس سوریا کانت نے زور دیا کہ ٹیکنالوجی عدلیہ اور عدالتی انتظامیہ کے لئے ایک طاقت بن چکی ہے۔ کبھی کاغذات سے بھرے عدالتی دفاتر اب ایسے ڈیش بورڈز سے بدل رہے ہیں جو حقیقی وقت میں مقدمات کی پیشرفت کو ٹریک کرتے ہیں، یہ شفافیت اور کارکردگی میں بے مثال اضافہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی ہماری پہنچ کو بڑھاتی ہے اور ہماری صلاحیتوں کو بہتر بناتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہمیں زیادہ مؤثر طریقے سے کام کرنے میں مدد دیتی ہے لیکن یہ انسانی فیصلے اور ہمدردی کی جگہ نہیں لے سکتی، انصاف کا جوہر ڈیٹا یا الگورتھم میں نہیں بلکہ ضمیر اور ہمدردی میں پنہاں ہے۔
جسٹس سوریا کانت نے واضح کیا کہ جج کا فیصلہ، وکیل کی دلیل اور فریقین کا وقار، یہ سب انصاف کے زندہ ریشے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئی مشین گواہ کی آواز میں لرزش، درخواست کے پیچھے کی تکلیف یا فیصلے کے اخلاقی وزن کو محسوس نہیں کر سکتی۔ مصنوعی ذہانت (اے آئی) تحقیق میں مدد کر سکتی ہے، لیکن یہ انسانی جذبات کو نہیں سمجھ سکتی۔ انہوں نے کہا کہ ہم وکیل یا جج کو تبدیل نہیں کر رہے، بلکہ ان کی رسائی کو بڑھا رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کو رہنما بننے دیں اور انسان کو حکمرانی کرنے دیں، انصاف کے نظام میں انسانی نگرانی ناگزیر ہے۔
ٹیکنالوجی کے فوائد کے ساتھ کچھ چیلنجز بھی ہیں۔ ڈیٹا کی حفاظت، رازداری اور معلومات کی رازداری انتہائی اہم ہیں۔ AI ٹولز غلط معلومات یا من گھڑت حقائق پیدا کر سکتے ہیں، اور ان میں تعصب بھی ہو سکتا ہے۔ جسٹس سوریا کانت نے خبردار کیا کہ اے آئی پر ان کاموں میں بھروسہ کرنے میں احتیاط برتنی چاہیے جن میں فیصلہ، تخلیقی صلاحیت یا پیش گوئی کی ضرورت ہو۔ ہمیں قانونی ٹیکنالوجی تک رسائی کو جمہوری بنانا چاہیے، نہ کہ اسے چند لوگوں کا استحقاق بننے دیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں قانونی ٹیکنالوجی کو نصاب کا گہرا حصہ بنانا چاہیئے۔ قانون کے کالجوں اور عدالتی اکیڈمیوں کو ڈیٹا سائنس، قانونی انفارمیٹکس اور اے آئی اخلاقیات جیسے کورسز شامل کرنے چاہیئے۔ عدلیہ اور بار دونوں میں ایسے رہنماؤں کی ضرورت ہے جو ٹیکنالوجی سے واقف ہوں اور مثال قائم کریں۔ ہم ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں، ہم ٹیکنالوجی کی مزاحمت کر کے جمود کا شکار ہو سکتے ہیں یا اسے اپنی قانونی اور اخلاقی اقدار کے ساتھ ڈھال کر انصاف کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔