Islam Times:
2025-12-13@16:27:44 GMT

اسٹریٹیجک ڈیبتھ

اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT

اسٹریٹیجک ڈیبتھ

اسلام ٹائمز: اول یہ کہ طالبان ایک حقیقت ہیں۔ دوم یہ کہ ان کا افغانستان کے نوے فیصد علاقے پر قبضہ ہے۔ طالبان کی اس سے بڑھ کر ترجمانی عمران خان کرتے تھے۔ اپنے اقتدار کے آخری دور میں انہوں نے جنرل فیض حمید سے مل کر دوبارہ طالبان کو افغانستان میں اقتدار دلوایا۔ بہرحال ہماری ناکامی کہ ہم افغانستان میں دور تک تزویراتی گہرائی کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک ایسے گڑھے میں چھلانگ لگا بیٹھے ہیں جہاں سے نکلنا جہنم کی تہ سے نکلنے کے مترادف ہے۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی

قتیل شفائی کا ایک معروف شعر ہے کہ:
یارو کسی قاتل سے کبھی پیار نہ مانگو
اپنے ہی گلے کے لیے تلوار نہ منگو
اچھے شعر کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ دل سے نکلتا ہے اور دل پر اثر کرتا ہے۔ شاعری کا ایک موضوع محبوب کی بے وفائی کی تشہیر ہے۔ محبوب اگر قاتل ہے تو شاعر اپنے قاری کو اس کے دام فریب سے بچنے کا مشورہ دیتا ہے۔ آج کے سیاسی منظر نامے میں ہمیں کسی ایسے محبوب سے واسطہ پڑا ہے جو ہمارے خون کا ”طالب“ ہے لیکن ہم اس سے وفا کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ افغانستان کی ”اسٹریٹیجک ڈیبتھ“ سے نکلا ہوا ہمارا یہ قیمتی خزانہ، جو ہم نے مشکل وقت کے لیے سنبھال رکھا تھا، آخرکار ہمارے لیے دھماکہ خیز مواد ثابت ہوا ہے۔ ہماری بے وقوفی یہ تھی کہ ہم زمین کی گہرائی سے برآمد ہونے والے اس خزینے کو بغیر اس کا کیمیائی تجزیہ کیے، اپنے گھر لے آئے اور اسے اپنا اثاثہ بنا بیٹھے۔

افغانستان کے کہساروں میں”خزانے کی تلاش“ کے نام سے شروع کی گئی مہم کے لیے پینٹا گون کی خواہش کے مطابق جو نقشہ تیار کیا گیا وہ افغانستان کی اصل جغرافیائی صورت حال کو جانے بغیر یا جان بوجھ کر اس سے چشم پوشی کرتے ہوئے ترتیب دیا گیا۔ ہم نے اپنے منصوبے پر عمل کرتے وقت خاص طور پر زبان کارڈ کا استعمال کیا۔ ہماری سرحدوں سے جڑے پشتون علاقے میں پشتو بولی جاتی ہے۔ ہم نے سمجھا کہ پشتو کیونکہ ہمارے اپنے ایک صوبے کی زبان ہے اس لیے اس مہم جوئی میں پشتون ہمارے سہولت کار بنیں گے۔

ہمارے ابن بطوطہ یہ سمجھتے رہے تھے کہ افغانستان جلال آباد سے کابل تک کا کوئی علاقہ ہے اور اس کے بعد جو علاقہ شروع ہوتا ہے وہ ”علاقہ غیر“ ہے۔ ہمیں نہیں خبر تھی کہ افغانستان کا خاصا بڑا حصہ فارسی بولنے والی اقوام پر مشتمل ہے۔ انگریز جب برصغیر سے رخصت ہوئے تو وہ جاتے ہوئے ہمارے آباو اجداد کی زبان فارسی کو بھی جلیانوالہ باغ کی طرح پامال کر گئے۔ قوموں کے درمیان باہمی ارتباط کا بڑا ذریعہ زبان ہوتی ہے۔ شاید اسی وجہ سے افغانستان کی تاجک، ازبک اور ہزارہ قومیتوں سے تعلق رکھنے والے عوام ہمارے لیے غیر ہیں۔

زبان کے علاوہ ہم نے اپنے اس تاریخی منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے ایک خاص قسم کی مذہبیت کو بھی استعمال کیا۔ ایسی مذہبیت جس میں تشدد پسندی کا عنصر غالب تھا۔ ہم نے اپنے اس مشن کے تکمیل کے لیے ایسے مذہبی جنونی افراد کو تربیت دے کر افغانستان کی جانب دھکیلا جو بالآخر کسی مس گائڈڈ میزائل کی طرح پلٹ کر ہمارے ہی سروں پر آ برسے۔ ایک وقت تک ہمارے حکمران ان کے باقائدہ ترجمان بنے رہے۔ نائن الیون سے پہلے جب جنرل مشرف سے سوال کیا جاتا تھا کہ آپ طالبان کی دہشت پسندی کو دیکھتے ہوئے بھی کیوں ان کی حمایت کرتے ہیں تو وہ جواب میں کہتے تھے کہ ہم دو وجوہات کی بناء پر طالبان کی حمایت کرتے ہیں۔

اول یہ کہ طالبان ایک حقیقت ہیں۔ دوم یہ کہ ان کا افغانستان کے نوے فیصد علاقے پر قبضہ ہے۔ طالبان کی اس سے بڑھ کر ترجمانی عمران خان کرتے تھے۔ اپنے اقتدار کے آخری دور میں انہوں نے جنرل فیض حمید سے مل کر دوبارہ طالبان کو افغانستان میں اقتدار دلوایا۔ بہرحال ہماری ناکامی کہ ہم افغانستان میں دور تک تزویراتی گہرائی کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک ایسے گڑھے میں چھلانگ لگا بیٹھے ہیں جہاں سے نکلنا جہنم کی تہ سے نکلنے کے مترادف ہے۔ ہم نے اپنا جان کر جن کے لیے اپنے دروازے کھولے وہ اب اپنے علاقے میں ہمارے دشمنوں کو پناہ دیے ہوئے ہیں۔
جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں
ان کو زباں ملی تو ہمیں پر برس پڑے
ہمارا یہ اثاثہ اب ہمارے لیے وبال جان بنا ہوا ہے۔ یہ طالبان نہ جانے اب ہم سے کس چیز کے طالب ہیں؟ شاید یہ اٹک کے پل تک ہماری پاک سر زمین کو اپنی امارت کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہماری سرحد کو تسلیم نہیں کرتے اور اسے ایسی ڈیورنڈ لائن سمجھتے ہیں جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اور جسے وہ کسی وقت بھی اپنی مرضی کے مطابق پار کر سکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: افغانستان میں افغانستان کی طالبان کی کے لیے

پڑھیں:

پاک افغان تجارتی کشیدگی، اصل مسئلہ سرحد نہیں، دہشتگردی ہے

پاکستان نے افغانستان کے ساتھ حالیہ تجارتی تنازع کو صرف بارڈر یا تجارت کا معاملہ نہیں بلکہ سیکیورٹی اور سرحد پار سے بڑھتی دہشت گردی سے جوڑتے ہوئے واضح کیا ہے کہ تعلقات میں تناؤ کی بنیادی وجہ طالبان حکومت کا ٹی ٹی پی اور دیگر پاکستان مخالف گروہوں کے خلاف مؤثر کارروائی سے انکار ہے۔

پاکستان کی جانب سے واضح مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ افغانستان کے ساتھ تجارتی کشیدگی کی اصل وجہ سرحدی امور نہیں بلکہ وہ سیکیورٹی خدشات ہیں جو طالبان حکومت کے غیر تعمیری رویّے کی وجہ سے سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:پاک افغان سرحد کی بندش سے افغانستان کو کتنا تجارتی نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے؟

پاکستان، جو طویل عرصے تک افغانستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار رہا ہے، اب اس بات پر شدید تشویش کا اظہار کر رہا ہے کہ کابل کی پالیسیوں اور ڈھانچہ جاتی فیصلوں نے باہمی تجارت کے نظام کو نقصان پہنچایا ہے۔

پاکستانی حکام کے مطابق تعلقات اس وقت بگڑنے شروع ہوئے جب سرحد پار دہشتگردی میں اضافہ ہوا اور طالبان نے ٹی ٹی پی سمیت پاکستان مخالف گروہوں کے خلاف کارروائی سے گریز کیا۔

ثبوت کے طور پر ٹی ٹی پی کی ازسرِنو منظم ہونے کی کوششیں اور افغان سرزمین سے حملوں میں اضافہ سامنے لایا گیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کی حالیہ سرحدی پابندیوں کا مقصد تجارتی دباؤ نہیں بلکہ دہشتگردوں کے داخلے کے راستے بند کرنا اور اپنے شہریوں کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔

پاکستان نے افغان مہاجرین کے معاملے پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 4 دہائیوں تک 40 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی میزبانی کے باوجود سیکیورٹی خطرات، معاشی دباؤ اور کابل کی عدم تعاون پر مجبور ہو کر اقدامات کیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں:پاک افغان تناؤ، جے شنکر کے بیان سے امید باندھیں؟

اس کے باوجود پاکستان کا مؤقف ہے کہ وہ افغان عوام کی انسانی بہبود اور تجارت کی بحالی کے لیے تعاون پر تیار ہے۔ حکام نے یاد دلایا کہ پاکستان نے دہائیوں تک افغانستان کو انسانی، معاشی اور تجارتی سہولتیں فراہم کیں، جن میں بندرگاہ تک رسائی، ٹرانزٹ ٹریڈ اور مہاجرین کی میزبانی شامل ہے۔

دوسری جانب طالبان حکام نے نہ صرف ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے انکار کیا بلکہ الٹا پاکستان کو نشانہ بناتے ہوئے افغان شہریوں کو ملک چھوڑنے کے احکامات بھی جاری کیے۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ طالبان کے ایسے فیصلوں نے افغانستان میں انسانی امداد تک رسائی مزید مشکل بنادی ہے، جب کہ ملک کی نصف سے زیادہ آبادی پہلے ہی انسانی امداد پر انحصار کرتی ہے۔

پاکستان نے زور دیا کہ آگے بڑھنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اصل مسئلے یعنی دہشتگردی کو حل کیا جائے۔ بارڈر یا تجارت پر بات چیت پاکستان کے لیے ممکن ہے، لیکن افغانستان کی سرزمین سے پاکستان مخالف عسکری گروہوں کا خاتمہ ایک غیر متنازع اور لازمی شرط ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

افغانستان پاک افغان تجارت پاکستان طالبان

متعلقہ مضامین

  • نواز شریف نےملک برباد کرنےوالوں کے نام لیےتو ہمارے رہنما سٹیج سے چھلانگیں مارکر دوڑ گئے، جاوید لطیف
  • نواز شریف نےملک برباد کرنےوالوں کے نام لیےتو ہمارے رہنما اسٹیج سے چھلانگیں مارکر دوڑ گئے، جاوید لطیف
  • نواز شریف نےملک برباد کرنےوالوں کے نام لیےتو ہمارے رہنما اسیٹج سے چھلانگیں مارکر دوڑ گئے، جاوید لطیف
  • دہشتگردی کا نیا خطرہ افغانستان سے اٹھ رہا ہے، عالمی برادری طالبان پر دباؤ ڈالے: وزیراعظم
  • افغانستان: عالمی دہشت گردوں کا ہیڈ کوارٹر
  • پاکستان اور افغان طالبان میں روایتی معنوں میں جنگ بندی نہیں، دفتر خارجہ
  • پاک افغان تجارتی کشیدگی، اصل مسئلہ سرحد نہیں، دہشتگردی ہے
  • افغانستان: پنج شیر میں این آر ایف کا بڑا آپریشن، طالبان کے 17 جنگجو ہلاک
  • افغانستان: طالبان حکومت نے موسیقی کے درجنوں آلات ضبط کرکے جلادیئے
  • پنجشیر میں مزاحمتی فورس کا حملہ، اہم شخصیت سمیت 17 طالبان ہلاک