Islam Times:
2025-10-28@17:17:51 GMT

اسٹریٹیجک ڈیبتھ

اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT

اسٹریٹیجک ڈیبتھ

اسلام ٹائمز: اول یہ کہ طالبان ایک حقیقت ہیں۔ دوم یہ کہ ان کا افغانستان کے نوے فیصد علاقے پر قبضہ ہے۔ طالبان کی اس سے بڑھ کر ترجمانی عمران خان کرتے تھے۔ اپنے اقتدار کے آخری دور میں انہوں نے جنرل فیض حمید سے مل کر دوبارہ طالبان کو افغانستان میں اقتدار دلوایا۔ بہرحال ہماری ناکامی کہ ہم افغانستان میں دور تک تزویراتی گہرائی کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک ایسے گڑھے میں چھلانگ لگا بیٹھے ہیں جہاں سے نکلنا جہنم کی تہ سے نکلنے کے مترادف ہے۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی

قتیل شفائی کا ایک معروف شعر ہے کہ:
یارو کسی قاتل سے کبھی پیار نہ مانگو
اپنے ہی گلے کے لیے تلوار نہ منگو
اچھے شعر کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ دل سے نکلتا ہے اور دل پر اثر کرتا ہے۔ شاعری کا ایک موضوع محبوب کی بے وفائی کی تشہیر ہے۔ محبوب اگر قاتل ہے تو شاعر اپنے قاری کو اس کے دام فریب سے بچنے کا مشورہ دیتا ہے۔ آج کے سیاسی منظر نامے میں ہمیں کسی ایسے محبوب سے واسطہ پڑا ہے جو ہمارے خون کا ”طالب“ ہے لیکن ہم اس سے وفا کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ افغانستان کی ”اسٹریٹیجک ڈیبتھ“ سے نکلا ہوا ہمارا یہ قیمتی خزانہ، جو ہم نے مشکل وقت کے لیے سنبھال رکھا تھا، آخرکار ہمارے لیے دھماکہ خیز مواد ثابت ہوا ہے۔ ہماری بے وقوفی یہ تھی کہ ہم زمین کی گہرائی سے برآمد ہونے والے اس خزینے کو بغیر اس کا کیمیائی تجزیہ کیے، اپنے گھر لے آئے اور اسے اپنا اثاثہ بنا بیٹھے۔

افغانستان کے کہساروں میں”خزانے کی تلاش“ کے نام سے شروع کی گئی مہم کے لیے پینٹا گون کی خواہش کے مطابق جو نقشہ تیار کیا گیا وہ افغانستان کی اصل جغرافیائی صورت حال کو جانے بغیر یا جان بوجھ کر اس سے چشم پوشی کرتے ہوئے ترتیب دیا گیا۔ ہم نے اپنے منصوبے پر عمل کرتے وقت خاص طور پر زبان کارڈ کا استعمال کیا۔ ہماری سرحدوں سے جڑے پشتون علاقے میں پشتو بولی جاتی ہے۔ ہم نے سمجھا کہ پشتو کیونکہ ہمارے اپنے ایک صوبے کی زبان ہے اس لیے اس مہم جوئی میں پشتون ہمارے سہولت کار بنیں گے۔

ہمارے ابن بطوطہ یہ سمجھتے رہے تھے کہ افغانستان جلال آباد سے کابل تک کا کوئی علاقہ ہے اور اس کے بعد جو علاقہ شروع ہوتا ہے وہ ”علاقہ غیر“ ہے۔ ہمیں نہیں خبر تھی کہ افغانستان کا خاصا بڑا حصہ فارسی بولنے والی اقوام پر مشتمل ہے۔ انگریز جب برصغیر سے رخصت ہوئے تو وہ جاتے ہوئے ہمارے آباو اجداد کی زبان فارسی کو بھی جلیانوالہ باغ کی طرح پامال کر گئے۔ قوموں کے درمیان باہمی ارتباط کا بڑا ذریعہ زبان ہوتی ہے۔ شاید اسی وجہ سے افغانستان کی تاجک، ازبک اور ہزارہ قومیتوں سے تعلق رکھنے والے عوام ہمارے لیے غیر ہیں۔

زبان کے علاوہ ہم نے اپنے اس تاریخی منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے ایک خاص قسم کی مذہبیت کو بھی استعمال کیا۔ ایسی مذہبیت جس میں تشدد پسندی کا عنصر غالب تھا۔ ہم نے اپنے اس مشن کے تکمیل کے لیے ایسے مذہبی جنونی افراد کو تربیت دے کر افغانستان کی جانب دھکیلا جو بالآخر کسی مس گائڈڈ میزائل کی طرح پلٹ کر ہمارے ہی سروں پر آ برسے۔ ایک وقت تک ہمارے حکمران ان کے باقائدہ ترجمان بنے رہے۔ نائن الیون سے پہلے جب جنرل مشرف سے سوال کیا جاتا تھا کہ آپ طالبان کی دہشت پسندی کو دیکھتے ہوئے بھی کیوں ان کی حمایت کرتے ہیں تو وہ جواب میں کہتے تھے کہ ہم دو وجوہات کی بناء پر طالبان کی حمایت کرتے ہیں۔

اول یہ کہ طالبان ایک حقیقت ہیں۔ دوم یہ کہ ان کا افغانستان کے نوے فیصد علاقے پر قبضہ ہے۔ طالبان کی اس سے بڑھ کر ترجمانی عمران خان کرتے تھے۔ اپنے اقتدار کے آخری دور میں انہوں نے جنرل فیض حمید سے مل کر دوبارہ طالبان کو افغانستان میں اقتدار دلوایا۔ بہرحال ہماری ناکامی کہ ہم افغانستان میں دور تک تزویراتی گہرائی کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک ایسے گڑھے میں چھلانگ لگا بیٹھے ہیں جہاں سے نکلنا جہنم کی تہ سے نکلنے کے مترادف ہے۔ ہم نے اپنا جان کر جن کے لیے اپنے دروازے کھولے وہ اب اپنے علاقے میں ہمارے دشمنوں کو پناہ دیے ہوئے ہیں۔
جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں
ان کو زباں ملی تو ہمیں پر برس پڑے
ہمارا یہ اثاثہ اب ہمارے لیے وبال جان بنا ہوا ہے۔ یہ طالبان نہ جانے اب ہم سے کس چیز کے طالب ہیں؟ شاید یہ اٹک کے پل تک ہماری پاک سر زمین کو اپنی امارت کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہماری سرحد کو تسلیم نہیں کرتے اور اسے ایسی ڈیورنڈ لائن سمجھتے ہیں جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اور جسے وہ کسی وقت بھی اپنی مرضی کے مطابق پار کر سکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: افغانستان میں افغانستان کی طالبان کی کے لیے

پڑھیں:

پاک افغان مذاکرات کا تیسرا دور: طالبان کے مسودے میں شامل دو بنیادی مطالبات کیا ہیں؟

پاک افغان مذاکرات کا تیسرا دور: طالبان کے مسودے میں شامل دو بنیادی مطالبات کیا ہیں؟ WhatsAppFacebookTwitter 0 27 October, 2025 سب نیوز

اسلام آباد(آئی پی ایس) استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان رجیم کے درمیان مذاکرات آج تیسرے روز بھی جاری رہنے کا امکان ہے۔ دونوں ممالک کے وفود اس وقت استنبول میں موجود ہیں، تاہم گزشتہ روز مذاکرات میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی۔

ترکیہ میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری مذاکرات دوسرے روز کوئی فیصلہ کن پیشرفت نہ ہوسکی۔ تاہم، دونوں ممالک کے وفود نے پندرہ گھنٹے طویل بات چیت کے بعد ممکنہ معاہدے کا مسودہ تیار کیا۔ اس دوران ثالثوں کی موجودگی میں دونوں جانب سے تجاویز کا تبادلہ بھی ہوا۔

افغان خبر رساں ادارے “طلوع نیوز“ نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ افغانستان کے وفد نے پاکستانی مذاکراتی ٹیم کے سامنے ایک مسودہ پیش کیا جس میں دو بنیادی مطالبات شامل تھے۔

اول یہ کہ پاکستان افغانستان کی فضائی حدود اور زمینی سرحدوں کی خلاف ورزی نہ کرے۔ اور دوم، پاکستان اپنی سرزمین کسی ایسی تنظیم یا گروہ کو استعمال کرنے کی اجازت نہ دے جو افغانستان کے خلاف کارروائی کرے۔

رپورٹ کے مطابق یہ مسودہ ثالثوں کے ذریعے پاکستانی وفد کو پہنچایا گیا جس کے جواب میں پاکستان نے بھی اپنا نیا مسودہ افغان حکام کے حوالے کیا ہے۔

پاکستان نے اپنے مؤقف میں اس بات پر زور دیا کہ افغانستان سے پاکستان میں دراندازی اور منصوبہ بند حملوں کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں۔

بین الاقوامی امور کے افغان ماہر واحد فقیری نے طلوع نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ”اگر ترکی میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات میں دونوں ممالک سرحدی کشیدگی کم کرنے اور باہمی تعاون پر متفق ہو گئے تو ایسا معاہدہ چند ماہ تک مؤثر رہ سکتا ہے۔“

رپورٹ کے مطابق دونوں ممالک نے جنگ بندی کے نفاذ اور اس پر عملدرآمد کی نگرانی کے لیے ایک چار فریقی مانیٹرنگ چینل قائم کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے۔ یہ چینل ممکنہ خلاف ورزیوں کا جائزہ لے گا اور معلومات کے تبادلے کا پلیٹ فارم فراہم کرے گا۔

بین الاقوامی تعلقات کے ماہر محمد بلال عمر نے بتایا کہ ”دونوں ملکوں کے درمیان معاہدے پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے خصوصی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی جو فریقین کے اقدامات کی نگرانی کریں گی۔“

پاکستان کا مؤقف ہے کہ افغان سرزمین کا استعمال دہشت گردی کے لیے نہیں ہونا چاہیے، جبکہ افغان طالبان نے دیگر ممالک کو مانیٹرنگ میکانزم میں شامل کرنے کی تجویز دی ہے۔

ذرائع کے مطابق پاکستان نے واضح کیا ہے کہ قطر کی طرح ترکیہ بھی مذاکرات میں ایک غیر جانبدار بروکر کے طور پر سہولت کاری کر رہا ہے اور سہولت کاروں کے کسی ایک جانب جھکاؤ کا تاثر غلط ہے۔

پاکستان نے کہا ہے کہ وہ کسی بھی ممکنہ خطرناک واقعے یا مِس ایڈونچر کا مناسب جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور قومی مفادات کا ہر حال میں دفاع کرے گا۔

پاکستان نے افغان طالبان کو حتمی موقف پیش کردیا
قبل ازیں، ترکیہ کے شہر استنبول گزشتہ روز ہونے والے پاک افغان مذاکرات میں پاکستانی وفد نے افغان طالبان کو حتمی موقف پیش کیا ہے۔

سیکیورٹی ذرائع کے مطابق استبول میں جاری مذاکرات میں پاکستان نے افغان طالبان کی جانب سے دہشت گردوں کی سرپرستی کو نا منظور قرار دیا ہے۔

پاکستانی وفد نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے پڑیں گے، اس کے برعکس طالبان کے دلائل غیرمنطقی اور زمینی حقائق سے ہٹ کر ہیں۔

پاکستان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ نظر آ رہا ہے کہ طالبان کسی اور ایجنڈے پر چل رہے ہیں اور یہ ایجنڈا افغانستان، پاکستان اور خطے کے استحکام کے مفاد میں نہیں ہے۔ مذاکرات میں مزید پیشرفت افغان طالبان کے مثبت رویے پر منحصر ہے۔

ذرائع کے مطابق گفتگو کا مرکزی محور افغانستان کی سرزمین سے دہشت گردی کی سرگرمیوں کو روکنا ہے۔ دونوں فریقین قابل تصدیق مانیٹرنگ میکانزم کو مزید مؤثر بنانے پر غور کر رہے ہیں، اور مذاکرات میں اس نظام کی تشکیل و عمل درآمد پر تفصیلی بات ہوگی۔

سفارتی ذرائع نے بتایا تھا کہ اس دوران افغان طالبان نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی نئی جگہ پر آباد کاری کی پیشکش کی تھی، جسے پاکستان نے مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کریں اور عالمی برادری کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے کریں۔

پاکستان کا مؤقف ہے کہ فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان کے حملے ہرصورت رکنے چاہئے، افغان سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال بند کرنا ہوگا۔

استنبول مذاکرات میں پاکستان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ دہشتگردی کنٹرول کرنے کے میکنزم کو واضح کرنا ہوگا، اینٹی ٹیرر میکنزم واضح اور موثر ہونا لازمی ہو، پاکستان کا یہ اصولی مطالبہ تسلیم ہوگا تو ہی بات آگے بڑھے گی۔

پاکستان نے واضح کیا کہ تسلی نہ ہوئی تو پاکستان کوئی لچک نہیں دکھائے گا، ہم اچھے ہمسایوں اور برادرانہ تعلقات کو فروغ دینا چاہیں گے اور اپنے تحفظ کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔

پاکستان کے 7 رکنی وفد میں سینئر عسکری، انٹیلی جنس اور وزارتِ خارجہ کے حکام شامل ہیں، جبکہ افغان طالبان کی قیادت نائب وزیرِ داخلہ کر رہے ہیں۔

ذرائع کے مطابق مذاکرات میں دونوں فریقین کے درمیان تجاویز کا تبادلہ جاری ہے اور ثالثوں کی موجودگی اس عمل کو مزید سہولت فراہم کر رہی ہے۔

قبل ازیں ترکیہ کی میزبانی میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور استنبول میں نو گھنٹے طویل مشاورت کے بعد اختتام پذیر ہوگیا تھا۔ مذاکرات میں دونوں ملکوں کے وفود نے دوحہ میں ہونے والے پہلے مذاکرات میں طے پانے والے نکات پر عمل درآمد کا تفصیلی جائزہ لیا۔

پاکستان نے افغان طالبان کو دہشت گردی کی روک تھام کے لیے ایک جامع پلان پیش کیا تھا۔ افغان طالبان نے اس پلان پر غور و خوض شروع کر دیا ہے اور آئندہ چند روز میں اپنے حتمی جواب سے پاکستان کو آگاہ کرنے کا عندیہ دیا۔

افغانستان کو ہرصورت فتنہ الخوارج کو لگام ڈالنا ہوگی، پاکستان نے پھر واضح کردیا

پاکستان کی جانب سے دو رکنی وفد مذاکرات میں شریک ہوا، جبکہ افغانستان کی نمائندگی نائب وزیر داخلہ رحمت اللہ مجیب نے کی۔ مذاکرات کا آغاز دوپہر ڈھائی بجے شروع ہوا تھا اور رات گئے تک جاری رہا تھا۔ ترکیہ نے مذاکراتی عمل کی میزبانی کی، جبکہ قطر اس سفارتی کوشش میں ثالثی کے کردار میں شامل تھا۔

یاد رہے کہ قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں ہی پاک افغان مذاکرات کا پہلا دور دوحہ میں ہوا تھا، جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق ہوا تھا۔

ٹی ٹی پی کا سرحد پار نیٹ ورک بے نقاب: افغان خودکش بمبار کا اعترافی بیان منظرعام پر

دوسری جانب وزیر دفاع خواجہ آصف نے سیالکوٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے واضح اعلان کیا ہے کہ اگر مذاکرات میں معاہدہ نہ ہوا تو پاکستان افغان طالبان کے خلاف کھلی جنگ کے لیے تیار ہے۔

انہوں نے کہا کہ دوحہ مذاکرات میں شریک افغان وفد وہی لوگ ہیں جو پاکستان میں جوان ہوئے۔ پاکستان نے چالیس برس تک افغان عوام کی میزبانی کی، مگر اب بغیر ویزے کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوگی۔

پاکستان خطے کا فاتح قرار، بھارت کو 25 سالہ محنت اور سفارتی اعتماد کے ضیاع کا خدشہ

خواجہ آصف نے مزید کہا کہ بھارت افغان سرزمین کے ذریعے پاکستان کے خلاف پراکسی جنگ لڑ رہا ہے، لیکن پاکستان اپنی سرحدوں کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔

ان مذاکرات کو پاک افغان تعلقات میں ایک اہم موڑ قرار دیا جا رہا ہے، جہاں ایک طرف دہشت گردی کے خاتمے اور سرحدی استحکام کے لیے کوششیں جاری ہیں، تو دوسری جانب اگر معاہدہ نہ ہوا تو خطے میں ایک نئی کشیدگی کے خدشات بھی پیدا ہو گئے ہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرچیف جسٹس کا ایک سالہ دور، قانونی ماہرین کا کارکردگی پر عدم اعتماد چیف جسٹس کا ایک سالہ دور، قانونی ماہرین کا کارکردگی پر عدم اعتماد آوارہ کتوں کے خاتمے اور نسل کشی کیخلاف کیس: سی ڈی اے، میونسپل کارپوریشن نے رپورٹ عدالت میں جمع کرادی کشمیر سب سے زیادہ ملٹری قبضہ زدہ خطہ، مزید نظر انداز نہ کیا جائے: مشعال ملک صدر مملکت اور وزیراعظم نے کتنے غیرملکی دورے کئے؟ تفصیلات منظرعام پر عمر ایوب، شبلی فراز کی نااہلی سے متعلق اپیلیں سپریم کورٹ سے واپس لے لی گئیں غزہ فورس میں کن ممالک کی فوج شامل ہوگی؟ نیتن یاہو نے بڑا اعلان کر دیا TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • پاک افغان مذاکرات کی ناکامی، افغان طالبان کو فیل کرے گی
  • مذاکرات کی آڑ میں افغانستان کی منافقانہ پالیسیاں
  • استنبول میں طالبان اور پاکستان کے مذاکرات مسلسل تیسرے دن بھی جاری
  • طالبان رجیم کسی غلط فہمی کا شکار ہے۔۔۔
  • پاک افغان مذاکرات کا تیسرا دور: طالبان کے مسودے میں شامل دو بنیادی مطالبات کیا ہیں؟
  • انڈیا کی افغانستان سے دشمنی
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور ترکیہ میں جاری
  • بھارت کو پاکستان کیخلاف افغان طالبان رجیم کی حمایت مہنگی پڑ گئی
  • افغان طالبان تحریک طالبان پاکستان سے کس طرح لاتعلقی کر سکتے ہیں؟