data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251029-03-5
سعود عثمانی
انسانی غذائوں اور ان کی تاریخ کا احاطہ کرنے بیٹھیں تو یہ موضوع پوری طرح دسترس میں نہیں آ سکتا۔ ہم صرف ان سبزیوں‘ پھلوں اور غذائوں کی بات کر رہے ہیں جو زیادہ پرانی نہیں۔ ہم قدیم ادوار کی بات فی الحال نہیں کر رہے اور برصغیر سے باہر بھی قدم نہیں رکھ رہے‘ ویسے بھی اس کا احاطہ کرنے کے لیے پلندے چاہئیں۔ زیادہ پھیلا لیں تو اس کی وسعت سے پریشان ہو کر کام ہی چھوڑ دیں گے۔ ہمارے دور کو یہ سہولت ہے کہ انسانوں اور جانوروں کی طرح سبزیوں اور پھلوں کے ڈی این اے سے بھی ان کی تاریخ اپنے ارتقائی سفر کے ساتھ روشن ہو جاتی ہے۔ سائنس اب بہت تیقن سے بات کر سکتی ہے ورنہ زیادہ تر اندازوں اور قیاسات کے ذریعے ہی بات ہو سکتی تھی۔
کولمبس نے 12 اکتوبر 1492ء کو امریکا کی نئی دنیا دریافت کی تو اسے اندازہ ہی نہیں تھا کہ یہ صرف جغرافیائی زمین کا تعارف نہیں بلکہ سبزیوں‘ پھلوں اور غذائوں کی بھی ایک نئی دنیا کھل گئی ہے۔ صرف چھے سال بعد‘ 20 مئی 1498ء کو پرتگیز جہاز ران واسکوڈی گاما نے کالی کٹ‘ ہندوستان کی زمین پر قدم رکھ کر یورپ اور ہندوستان کے مابین تجارت کا نیا دور آغاز کیا۔ یورپ کو ہندوستانی مسالوں کی خوشبو اور ذائقہ بے چین کیے دیتا تھا اور پرتگیز‘ برطانوی اور فرانسیسی جہاز ران ہندوستان کے مسالوںکی کھوج میں در بدر پھرا کرتے تھے۔ جہاز رانی میں یورپ کو ہندوستانیوں پر بڑی فوقیت حاصل تھی۔ ہندوستان کی رسائی نئی دنیا تک کیا‘ یورپ تک بھی نہیں تھی؛ چنانچہ سمندری تجارت نے یورپ پر خوشحالی کے در کھول دیے۔ سوا سو سال کا طویل عرصہ یونہی گزرا اور پھر 1600ء کے لگ بھگ جنوبی امریکا کی سبزیاں‘ پھل اور پودے ہندوستان میں آنے لگے۔ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ آلو‘ ٹماٹر اور مرچ سمیت بہت سی سبزیاں جنوبی امریکا سے ہندوستان کی یورپین آبادیوں میں آئیں اور بتدریج مقبول ہوتی گئیں۔ ایک دلچسپ سوال یہاں یہ ہے کہ کیا مرچ کی آمد سے پہلے ہندوستانی کھانے مسالوں اور تیکھے پن کے بغیر تھے؟ خدایا! کیا ہم بھی پھیکے کھانے کھایا کرتے تھے؟ حقیقت یہ ہے کہ ایسا نہیں تھا۔ برصغیر کے کھانے کالی مرچ‘ لونگ‘ دار چینی‘ ادرک‘ املی‘ اچار‘ سرسوں کے تیل وغیرہ سے چٹپٹے بنائے جاتے تھے۔ تڑکا لگا کر بھی انہیں مرچیلا ذائقے دار بنایا جاتا تھا۔ البتہ سرخ مرچ اور ہری مرچ نے آکر ان سب کو اپنی گرمی‘ تیزی اور تیکھے پن میں پیچھے چھوڑ دیا۔ ابتدا میں مرچ جنوبی ہند تک محدود رہی لیکن اٹھارہویں صدی میں مرہٹوں نے دلّی اور شمالی ہندوستان میں قدم جمائے تو مرچ بھی ان کے ساتھ پہنچ گئی۔ شملہ مرچ بھی اسی قبیلے سے ہے جو انگریزوں نے شاید ابتدا میں شملہ کے پہاڑی علاقوں میں کاشت کی تھی اور ہندوستانیوں کے لیے یہ شملہ والی مرچ ہی تھی۔ ابھی املی کا ذکر ہوا تو ایک مزیدار بات سن لیں۔ ہندوستان میں املی مقامی پھل ہے جبکہ عرب اسے نہیں جانتے تھے۔ عرب ہندوستان میں آئے تو انہوں نے حیرت سے املی کو دیکھا اور اس اجنبی پھل کو انہوں نے ’’تمر ہند‘‘ کا نام دیا یعنی ہندوستانی کھجور۔ وہ اسی نام سے اسے یاد کرتے رہے حتیٰ کہ یورپین برصغیر میں آ پہنچے۔ ان کے لیے بھی املی نئی چیز تھی۔ انہوں نے عربوں کا دیا نام تمر ہند اٹھا لیا اور املی آج تک انگریزی میں تمرند (Tamarind) کے نام سے جانی جاتی ہے۔
کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ گوبھی جیسی سبزی جو صدیوں سے کسانوں اور عام آدمی کی پسندیدہ رہی ہے‘ کبھی پورے ہندوستان کے لیے اجنبی رہی ہو گی۔ آج یقین کرنا مشکل ہے کہ پنجاب کی من بھاتی غذا پنجاب میں تھی ہی نہیں‘ لیکن یہی حقیقت ہے۔ یہ بحر روم کے علاقوں کی سبزی تھی۔ البتہ یورپ میں گوبھی کا سراغ ایک ہزار سال قبل مسیح میں بھی موجود ہے۔ مصر میں بھی گوبھی موجود تھی۔ یورپ کی گوری چٹی سبزی ہندوستان میں گوروں‘ خاص طور پر پرتگیزوں کے ساتھ آئی اور یہاں آ کر اس نے قدم جما لیے۔ مغل عہد میں اس کی کاشت شروع ہو چکی تھی۔ یہ بھی عظیم مغل کارناموں میں ہی سمجھیے ورنہ ہم گوبھی کے پراٹھے کیسے کھاتے۔ یہی حال بند گوبھی کا ہے‘ اور بروکلی کے فضائل پر تو کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ میرے ایک مہربان دوست جیکسن ول‘ فلوریڈا میں رہتے ہیں اور بہت مشہور امریکی فوڈ چین کی کئی شاخوں کے مالک ہیں۔ انہوں نے یہ بتا کر مجھے حیران کر دیا کہ وہ سالہا سال سے دوپہر کے کھانے میں صرف بروکلی اور سلاد کھایا کرتے ہیں اور ماشاء اللہ صحت ایسی ہے کہ ستر سال کی عمر میں وہ میراتھن میں حصہ بھی لیا کرتے ہیں۔ ہری سبزیوں کی اہمیت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئی ہے۔
توری بھی وہ سبزی ہے جو باقاعدہ ہندوستان میں کھیتی کے طور پر بہت بعد میں شروع ہوئی۔ یہ جنگلی سبزی تھی۔ افریقا سے وہ قسم ہندوستان پہنچی جسے یہاں باقاعدہ اُگایا گیا اور کھانوں میں استعمال کیا گیا۔ میں اب توری کی سبزی‘ چھلکوں کے کباب اور اس کی بھری ہوئی روٹی کھاتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ اکبر اعظم اور جہانگیر کیسے لطف سے محروم رہے۔ اسی طرح کدو یعنی Squash کی زیادہ تر قسمیں تو باہر سے آئیں لیکن اس گھرانے کی کئی سبزیاں مثلاً ٹینڈے مقامی طور پر موجود تھے۔ کدو اور لوکی جو ہمارے یہاں عام ہیں‘ ہندوستان میں نہیں تھیں۔ یہ قسمیں اور پیٹھا کدو‘ ہندوستان میں ہسپانیوں نے متعارف کرایا۔ یہ وسطی امریکا اور میکسیکو میں تو سات ہزارسال قبل مسیح سے کاشت ہو رہے تھے لیکن امریکا سے باہر یہ ہسپانیہ کے ذریعے آئے۔ یہ پہلے جنوبی امریکا سے یورپ پہنچے اور ہسپانیوں نے پندرہویں صدی عیسوی میں اپنی ایشیائی نو آبادیوں میں انہیں خوب پھیلایا۔ کیا حیرت نہیں ہوتی یہ جان کر کدو مقامی سبزی نہیں ہے؟ کدو کی سبزی جیسی پسندیدہ ہے اور اسے طرح طرح سے بنایا جاتا ہے‘ کیا بیان کرنے کی ضرورت ہے؟ اسی طرح شادی بیاہ کی دعوتوں میں پیٹھا کدو کا حلوہ ہر دلعزیز میٹھا ہے جسے بہت پسند کیا جاتا ہے‘ اس کی مقبولیت میں کوئی شک ہے؟ گاجر کا معاملہ ذرا سر کھجانے والا ہے۔ اسے مقامی کہہ بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی! سرخ گاجر بنیادی طور پر ہمالیہ اور ہندوکش کے پہاڑی علاقوں کی دین ہے۔ آج کے افغانستان اور ایران سمجھ لیجیے۔ ہندوستان کے میدانی اور جنوبی علاقوں کے لیے گاجر اجنبی تھی۔ پھر شاہراہ ریشم کے ذریعے یہ میدانی علاقوں میں پھیلی۔ اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ قدیم ہندو مذہبی روایات میں گاجر موجود نہیں۔ دسویں اور گیارہویں صدی عیسوی میں گاجر ہندوستان میں موجود تھی۔ اسے مغل بھی استعمال کرتے تھے۔ یوں بھی وسط ایشیا سے آنے والے مغل گاجر سے نہ صرف پہلے سے واقف تھے بلکہ کہا جاتا ہے کہ ہمارا مرغوب گاجر کا حلوہ مغلوں ہی کی ایجاد ہے۔ البتہ زرد گاجر سترہویں صدی میں ولندیزی ہندوستان لائے۔
اور سنیے۔ ساگو دانہ (Tapioca) کے نام سے کون شخص انجان ہو گا؟ دوائوں اور غذائوں میں ساگو دانہ ہماری دیسی چیز سمجھی جاتی ہے لیکن یہ برازیل کے شمالی علاقوں کی دین ہے۔ اسے بھی پرتگیز لائے تھے اور سترہویں صدی عیسوی میں اس کا برصغیر سے تعارف ہوا۔ البتہ انیسویں صدی کے مشہور قحط میں کیرالہ میں اس کی اہمیت اور کاشت بہت بڑھ گئی۔ اسے چاول کے متبادل کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ لیکن ان باتوں سے یہ مت سمجھیے گا کہ یورپینز نے ہی غذائی اشیا ہندوستان میں متعارف کرائیں۔ ہندوستان نے یورپ اور باقی دنیا کو جو نادر چیزیں دیں‘ وہ الگ فہرست ہے۔ صرف گنے کی مثال لے لیجیے جو ہندوستان کی دین ہے۔ اس کے رس سے کھانڈ یعنی چینی ہندوستان نے بنائی۔ اسی کھانڈ کے لفظ کو فارسی میں قند کہا گیا۔ اسی لفظ سے انگریزوں نے کینڈی بنائی۔ کھانڈ وسط ایشیا پہنچی تو اسی لفظ سے بظاہر تاشقند اور سمرقند نکلے۔ اسی کھانڈ کی کرسٹلز مصریوں نے الگ طریقے سے بنائیں‘ جو ہمارے ہاں مصری کی ڈلی کہلائی۔ خیر سوچ رہا ہوںکہ ابھی تو ہم سبزیوں سے باہر نہیں نکلے تو پھلوں اور مشروبات کی بات کب ہوگی؟ چائے یا کافی منگوائیے‘ اس پر بھی بات کرتے ہیں۔ (بشکریہ: روزنامہ دنیا)
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ہندوستان میں ہندوستان کی ہندوستان کے انہوں نے کے ساتھ کی سبزی کے لیے
پڑھیں:
توبہ، توبہ، توبہ!!
’’ کدو کیا کیا بھاؤ ہے؟‘‘ … ’’ اف!! توبہ !‘‘
’ ٹینڈے؟ ‘‘ … ’’ توبہ،’’ٹماٹر؟‘‘ … ’’ اف غضب خدا کا!‘‘
’’ بھنڈی، بند گوبھی، پھول گوبھی، بینگن، توری، شلجم، پالک، کھیرے، ہری پیاز، چقندر، مٹر اور جانے کیا کیا اور ہر بار توبہ۔ اس کے بعد پھلوں کی باری آ گئی اور پھر وہی بھاؤ پوچھنے اور توبہ کی گردان۔ لو بھلا آدمی کیا کھائے اور کیا پکائے‘‘ وہ مسلسل بول رہی تھیں۔
’’ ویسے باجی آپ ڈائریکٹ جنتی ہیں‘‘ سبزی فروش ان کے لیے آلو اور پیاز تولتے ہوئے بولا۔
’’ تم نے بتایا نہیں کہ تم نے مجھے جنتی کیوں کہا؟‘‘ انھوں نے سوال کیا۔
’’ وہ باجی، اتنی بار آپ نے آدھے گھنٹے میں توبہ توبہ کی ہے کہ شاید ہی کوئی اتنی زیادہ توبہ استغفار کرتا ہو۔‘‘ اس کے کہنے پر مجھے بمشکل ہنسی پر قابو پانا پڑ اتھا۔
خاتون حالات کی بہت ستائی ہوئی لگ رہی تھی۔ وہ اپنا بل ادا کر رہی تھیں اور میں نے اپنی ٹوکری کاؤنٹر پر رکھی ۔ دیکھا، کوئی بھی ایسی مہنگی سبزی اور پھل لینا افورڈ نہیں کر سکتا، دکان سے باہر نکل کر دیکھو، کتنی بڑی گاڑی میں آئی ہیں مگر انھوں نے بھی انگور لیا ہے اور نہ ٹماٹر‘‘ ان کاتجزیہ مکمل معلومات پر مبنی تھا، دکان میں سبزی چنتے اور مختلف چیزوں کے بھاؤ تاؤ کرتے ہوئے بھی انھیں علم تھا کہ باہر سے آنے والا کس قسم کی گاڑی میں آیا ہے۔
’’ اصل میںآ… ‘‘ میں رک گئی، انھیں آنٹی کہنے لگی تھی کہ ذہن میں فورا آیا کہ انھیں آپا کہہ دوں مگر جانے وہ اس بات پر بھی برا نہ مان جائیں۔ ’’ آپ کا نام نہیں جانتی اس لیے، میں اس لیے یہ سبزیاں نہیں لے رہی ہوں کہ مجھے استطاعت نہیں ہے، ہمارا مختصر سا کنبہ ہے اور چند ایک سبزیاں لے بھی لوں تو کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہو گا‘‘
’’ وہ تو اس کالونی میں رہنے والے ہر گھر کی کہانی ہے بی بی، ہر گھر میں دو یا تین لوگ رہتے ہیں اور اللہ کے فضل سے سب ہی صاحب حیثیت ہیں-‘‘ انھوںنے فورا کہا، ’’ لینے کو میں بھی جو سبزی چاہے لے سکتی ہوں مگر میں تو قیمتیں سن سن کر توبہ تلا کر رہی تھی۔‘‘ مجھے پہلے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ ہر سبزی کا بھاؤ اپنی معلومات میں اضافے کے لیے پوچھ رہی تھیں، انھیں بھی کون سا ہر سبزی لینا تھی۔’’ میں اس لیے انگور اور ٹماٹر نہیں لے رہی ہوں کہ ان کی قیمتوں میں بے جا اضافہ کر دیا گیا ہے ۔ ابھی آپ نے حوالہ دیا کہ اگر ٹماٹر میسر نہ ہوں تو ان کی جگہ شلجم ڈال دیں، اسی طرح ہم ٹماٹر کی جگہ دہی بھی ڈال سکتے ہیں اور اگر چاہیں تو ٹماٹر، دہی اور شلجم کے بغیر بھی سب کچھ پکاسکتے ہیں، بھنڈی اور کریلے بھی۔کچھ سال پہلے تک تو ہمارے ہاں عام لوگ ٹماٹر سے آشنا بھی نہ تھے۔ ‘‘ انھوں نے میری بات کی تائید کی-
’’ میرا ایک چھوٹا سا اصول ہے کہ میں ایسی ہر چیز کا بائیکاٹ کر دیتی ہوں جو یوں اچانک اس قدر مہنگی ہو جائے، جس چیزکے بغیر انسان کا گزارا ہو سکے یہاں تک کہ زندگی اور موت کا معاملہ درپیش نہ ہو جائے، ایسی ہر چیز کا بائیکاٹ کر دینا چاہیے۔‘‘ میں نے کہا۔
ہم کسی اور کو تبدیل کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس معاشرے کے ہر فرد کی سوچ کو مگر ہم اپنے آپ کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ میں خود بھی بائیکاٹ کرتی ہوں، جن جن لوگوں سے میرا رابطہ ہوتا ہے، ان سے فون پر، پیغامات کے ذریعے اور خود اپنے عمل سے انھیں بتاتی ہوں کہ ہمارا انفرادی بائیکاٹ بعد ازاں اجتماعی بائیکاٹ بن سکتا ہے، جتنا چاہے چھوٹا یا بڑا اجتماع ہو، دس لوگوں کا ہو یا سو لوگوں کا، ہماری بات اگر کسی ایک دل پر بھی دستک دے دیا ایک اور کی ایک اور کی سوچ کوبھی بدل د تو ہمارا حق تو ادا ہوگیا۔
’’ سو تو ہے، تم بہت اچھی بات کر رہی ہو، میرے دل میں بھی ایسے خیالات آتے ہیں مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ کسی سے کیسے بات کروں کہ لوگ مجھے کنجوس نہ کہنا شروع کردیں۔ ‘‘ ’’ کسی کے کچھ کہہ دینے سے ہم کون سا ویسے بن جاتے ہیں۔‘‘ میں نے فورا کہا۔ ’’ میں لکھاری بھی ہوں، لفظوں سے کھیلتی ہوں اور انھی کو دوسروں کی سوچ تبدیل کرنے کے لیے استعمال کرتی ہوں۔‘‘ وہ میرے بارے میں مزید دریافت کرنے لگیں، کس اخبار میں، کس رسالے میں… کیا وغیرہ-
’’ آپ دونوں باجیاں اگر اپنی خریداری مکمل کر چکی ہیں تو پلیز اب جائیں، اپنے سنہری خیالات سے میری دکانداری پر لات تونہ ماریں۔ سارے گاہک خراب کر دیے ہیں آپ نے۔‘‘ دکاندار کے لہجے میں احترام اپنی جگہ مگر ساتھ تلخی بھی تھی۔ اسے کیا ہوا تھا، میںنے حیرت سے دیکھا، جو لوگ اپنی ٹوکریوں میں ٹماٹر اور انگور ڈال کر لائے تھے… انھوں نے بل بنواتے وقت اپنے سامان سے یہ دونوں چیزیں نکال کر کاؤنٹر پر چھوڑ دی تھیں۔
’’ کون کہتا ہے کہ دل سے نکلی بات اثر نہیں کرتی…‘‘ ان خاتون سے کہا اور میرا کندھا تھپک کر چل دیں ۔