ایمان مزاری اور ان کے شوہر ہادی علی چٹھہ کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری منسوخ
اشاعت کی تاریخ: 6th, November 2025 GMT
ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ کے خلاف متنازع ٹویٹس کیس کی سماعت ہوئی، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج افضل مجوکا نے کیس پر سماعت کی۔
ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ عدالت میں پیش ہو گئے، سمیع اللہ وزیر نے ہادی علی چٹھہ کی جانب سے وکالت نامہ عدالت میں جمع کروا دیا۔
عدالت نے ہادی علی چٹھہ اور ایمان مزاری کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری منسوخ کر دیئے
ایمان مزاری نے مؤقف اپنایا کہ مجھے وکیل کرنے کیلئے وقت دیا جائے، جج افضل مجوکا نے کہا کہ ہفتے کے روز اپنے وکیل کی پاور آف اٹارنی جمع کروا دیں۔
ایمان مزاری نے مؤقف اپنایا کہ جس اسپیڈ سے کیس چل رہا ہے ہمارے حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، ہمیں عدالت فرد جرم پڑھ کر سنا دے، ہمیں سچ بولنے کی سزا دی جارہی ہے۔
جج افضل مجوکا نے کہا کہ عدالت تین مرتبہ فرد جرم پڑھ کی وکلا کی موجودگی میں سنا چکی ہے، ہادی علی چٹھہ نے کہا کہ میرے وکیل آگئے ہیں اسٹیٹ کونسل کو ختم کیا جائے ۔
جج افضل مجوکا نے کہا کہ اسٹیٹ کونسل کو ہم نے مقرر نہیں کیا، جس کمیٹی نے اسٹیٹ کونسل مقرر کیا وہی ہٹا سکتی ہے، ہفتے کے روز اسٹیٹ کونسل کے حوالے سے دلائل دے دیں فیصلہ کر لیں گے۔
عدالت نے ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ کے خلاف کیس کی سماعت ہفتے کے روز تک ملتوی کر دی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ جج افضل مجوکا اسٹیٹ کونسل نے کہا کہ
پڑھیں:
متنازع ٹوئیٹس کیس: ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ کی قلابازیاں جاری ہیں
وکیل ہادی علی چٹھہ اور ایمان مزاری کے متنازع ٹوئیٹس کیس میں ملزمان کی قلابازیاں ٹوئیٹر اور عدالت دونوں میں جاری ہیں۔
ذرائع کے مطابق میڈم مزاری کا روایتی گیم پلان جاری ہے لیکن لگتا ہے اس بار ٹکر کا جج جڑا ہے جو ان کے عدالت کے باہر بولے گئے جھوٹے بیانیے، رونے دھونے اور الزامات سے بےنیاز قانونی کارروائی کو آگے بڑھاتا جا رہا ہے۔
میڈم مزاری نے کم عرصے میں بڑا نام بنایا ہے جس کے پیچھے ایک گیم پلان ہمیشہ عمل میں رہا ہے۔
میڈم کی وکالت کا ایک رائج طریقہ کار ہے۔ چونکہ جج صرف اپنے آرڈر کے ذریعے بول سکتے ہیں اس لیے میڈم مزاری عدالت سے باہر سوشل میڈیا پر اپنی عدالت لگاتی ہیں جس میں سچ، قانون اور حقائق کا کوئی لینا دینا نہیں۔ یہاں حقائق کو تروڑ مروڑ کر جج، عدالت اور مخالفین کی عزتیں اچھالی جاتی ہیں۔ مظلومیت کا ایک نہ ختم ہونے والا ڈھونگ رچایا جاتا ہے اور ایک بیانیہ بنایا جاتا ہے جس سے عدالت کی کارروائی کو اپنی مرضی کے مطابق موڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ٹویٹ کیس میں جب FIR سامنے آئی تو میڈم مزاری ریکارڈ پہ ہیں کہ یہ کیا چارجز ہوئے مجھے تو ہنسی آ رہی ہے کہ یہ مقدمہ چلائیں گے کیسے؟
جب مقدمہ شروع ہوا تو دنیا نے عدالت میں دیکھا کہ میڈم مزاری اور ان کے شوہر نامدار کو اسی عدالت نے ضمانت کی سہولت دی۔ تب جج مجوکہ اچھے جج تھے۔ یاد رہے کہ آج جو ’یوٹیوبر بریگیڈ‘ میڈم کے عشق میں جج مجوکہ کے خلاف نعرے لگا رہا ہے، وہ انہی کے کچھ کورٹ آرڈرز کی تعریفیں کرتا نہیں تھکتا تھا۔
خیر عدالتی کارروائی شروع ہوتے ہی دونوں میاں بیوی عدالت کے سامنے گگھو بن کے کھڑے ہو گئے کہ ہمارا وکیل تو ابھی امریکا میں ہے، آئے گا تو عدالتی کارروائی آگے بڑھائی جائے۔ عدالت نے ان سے پوچھ کے ان کی مرضی کی تاریخ دے دی۔
جب میڈم کے وکیل قیصر امام آئے اور چارج پڑھ کر سنایا گیا تو ہادی چٹھہ نے بہانہ کیا کہ ان کا کوئی وکیل نہیں۔ اس پر عدالت نے ان سے پوچھ کر آئینی ضابطے کے تابع سرکاری وکیل مقرر کیا۔ اس کےبعد 30 اکتوبر کو دوبارہ چارج پڑھ کے سنایا گیا اور ملزمان کو تیاری کے لیے درکار وقت دیا گیا۔
آج تک یہ دونوں ملزمان عدالتی نرمی کا غلط فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔ کبھی ایک آ جاتا ہے کبھی دوسرا تاکہ نہ دونوں ایک وقت عدالت میں ہوں نہ ہی عدالتی کارروائی کا آغاز ہو سکے۔
جب تک جج مجوکہ ان کے چوہے بلی کے کھیل کو برداشت کرتے رہے وہ اچھے جج تھے۔ جب انہوں نے یاد کرایا کہ بھائی! آپ دونوں ٹورسٹ نہیں، ملزمان ہیں اور جیسے باقی ملزمان ہیں ویسے ہی آپ کی حیثیت ہے۔ قانون کے سامنے تو میڈم اپنے روایتی ہتھکنڈوں کے ساتھ میدان میں آ گئیں کہ چارج تو ابھی ہوا نہیں، میرے میاں کی ضمانت کیوں کینسل کی؟ یہ غیر آئینی ہے، یہ سب فوج کروا رہی ہے۔
جج مجوکہ کے خلاف ایک منظم سوشل میڈیا مہم چلائی گئی اور وہی مظلومیت کا ڈھول چیخ چیخ کر پیٹا گیا۔ خود عدالت سے وقت مانگتی ہیں کبھی اس بہانے سےکہ وکیل کرنا ہے، کبھی اس بہانے سے کہ میرا کیس ہے۔ جب عدالت وقت دیتی ہے تو کہتی ہیں کہ عدالت بار بار بلاتی کیوں ہے؟ مزاری کے دانت عدالت میں اور یو ٹیوب پہ اور !
جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے۔ میڈم نے اپنے غصے میں اپنے ہی وکیل قیصر امام کو بھی رگڑ دیا۔ وہ عزت دار انسان ہیں چنانچہ انہوں نے میڈم کی وکالت کرنے سے ہی معذرت کر لی۔ ریکارڈ کا حصہ ہے کہ بھری عدالت میں قیصر امام جیسا سینئر وکیل ان دونوں ملزمان کے لقموں سے تنگ آ کر بول پڑا کہ وکالت مجھے کرنے دیں یا پھر آپ اپنی وکالت خود کر لیں۔ خیر یہ زعم تو میڈم مزاری کا پرانا ہے کہ ان سے زیادہ قانون کسی کو نہیں آتا اور ایک وہی حق پر ہیں باقی سب غلط۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ جس طرح میڈم مزاری قانون اور عدالت کا کھلواڑ کر رہی ہیں کیا کوئی اور ملزم کر سکتا ہے؟
کیس ہے کیا؟ میڈم کی اپنی ٹویٹس ہیں جو خلاف قانون ہیں۔ پہلے کہہ رہی تھیں کہ اس کیس میں ہے ہی کچھ نہیں اور اب اتنا ڈر کہ ہر حیلے بہانے سے عدالتی کارروائی سے بھاگنے کی کوشش کر رہی ہیں یا اس میں رخنہ ڈال رہی ہیں۔ اس کی خاطر بے شرمی سے جھوٹ پہ جھوٹ بول رہی ہیں۔ اگر ہے ہی کچھ نہیں تو غم کاہے کا؟
میڈم مزاری کے بیانات ریکارڈ پر ہیں کہ پاکستانی عدالتیں تاخیری کاروائی کے لیے بدنام ہیں۔ بروقت فیصلے نہیں آتے۔ آج اپنے پہ آئی ہے تو کہتی ہیں 3-4 سال تو لگ جاتے ہیں فیصلوں میں عمومی طور پہ، تو جلدی کیوں ہو رہی ہے۔ جلدی کیسی میڈم! 2 مہینے سے آپ دائیں بائیں بھاگ رہی ہیں۔ عدالت کے باہر جا کے روزانہ عدالت لگا رہی ہیں کہ کسی طرح یہ جج بھی ڈر جائے۔ اصل میں منہ کو خون لگ گیا ہے۔ شاید انہوں نے چیف جسٹس اسلام آباد پہ الزام لگا کر یہ سمجھا کہ کسی بھی جج کو ڈرانے سے عدالتی کاروائی روکی جا سکتی ہے۔
بات سادہ سی ہے، اپنے ہی الفاظ ہیں ٹوئٹر پر اور ان کا دفاع کرنا ہے تو اس میں کیا پرابلم ہے؟ ابھی تک کی حرکتوں سے تو لگتا ہے قانونی دفاع ہے نہیں تو بیانیہ بنا کے عدالت کو ہی گندہ کرنا شروع کر دیا۔ ایک امیر زادی کو شاید یہ بات ناگوار گزری ہے کہ اس سے بھی سوال ہو سکتا ہے صرف یہی ہر ایک سے بدتمیزی سے سوال نہیں کر سکتیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں