پاکستانی وفد نے استنبول (ترکیہ) میں افغانستان سے متعلق جاری مذاکرات کے دوران ثالثوں کو ثبوتوں، شواہد اور بین الاقوامی قوانین کی بنیاد پر اپنے واضح اور منطقی مطالبات پیش کر دیے ہیں، جن کا مقصد سرحد پار دہشتگردی کے خاتمے کو یقینی بنانا ہے۔

ذرائع کے مطابق، ثالثوں نے پاکستان کے مؤقف کو نہ صرف مبنی برحقائق قرار دیا ہے بلکہ فراہم کردہ شواہد اور بین الاقوامی اصولوں کے مطابق اس کی مکمل تائید بھی کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ثالث اس وقت پاکستانی مطالبات کو افغان طالبان وفد کے ساتھ نقطہ بہ نقطہ زیرِ بحث لا رہے ہیں۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی اطلاعات، خصوصاً کچھ افغانی اکاؤنٹس سے پھیلائی جانے والی باتیں، یا تو محض قیاس آرائیاں ہیں یا جان بوجھ کر پھیلائی گئی غلط معلومات۔

واضح رہے کہ پاکستان نے حالیہ مہینوں میں افغان سرزمین سے ہونے والی دہشتگردانہ کارروائیوں اور سرحدی حملوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

اسلام آباد کا مؤقف ہے کہ پاکستان دشمن گروہوں کو افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں حاصل ہیں، جہاں سے وہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز اور شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

ان بڑھتے ہوئے حملوں کے بعد پاکستان نے ثالثی عمل کے ذریعے افغانستان سے مؤثر اقدامات کا مطالبہ کیا، جن میں دہشتگرد گروہوں کے خاتمے، سرحدی نگرانی کے سخت انتظامات، اور دو طرفہ سیکیورٹی تعاون کے فریم ورک پر عمل درآمد شامل ہے۔

ذرائع کے مطابق، ثالثی عمل میں خلیجی اور اسلامی ممالک کے نمائندے بھی شامل ہیں، جو دونوں فریقوں کے درمیان اعتماد سازی اور عملی پیش رفت کے لیے رابطہ کاری کر رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: کے مطابق

پڑھیں:

افغانستان میں سچ بولنا جرم بن گیا، طالبان دور میں آزادیِ صحافت کا جنازہ نکل گیا

افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد آزادیِ صحافت بری طرح متاثر ہوئی ہے، جہاں سنسرشپ، گرفتاریوں اور تشدد نے میڈیا کا ماحول مفلوج کر دیا ہے۔

آمو ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق طالبان کے دورِ حکومت میں میڈیا پر سخت پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں اور پریس فریڈم انڈیکس میں افغانستان کی درجہ بندی مسلسل نیچے جا رہی ہے۔ 2024 میں افغانستان 180 ممالک میں سے 178ویں نمبر پر آ گیا ہے، جو عالمی سطح پر تشویش کا باعث ہے۔

افغانستان میڈیا سپورٹ آرگنائزیشن کے مطابق 2021 کے بعد سے 539 واقعات ایسے سامنے آئے جن میں صحافیوں پر تشدد، گرفتاریوں اور زبردستی نشر شدہ اعترافی ویڈیوز شامل ہیں۔ تنظیم کے مطابق، متعدد صحافی اب بھی بے بنیاد الزامات پر طالبان کی قید میں ہیں۔

بین الاقوامی ادارہ رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز (RSF) نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان میں 12 میڈیا ادارے بند کر دیے گئے، جب کہ خواتین صحافیوں کی 80 فیصد نوکریاں ختم ہو چکی ہیں۔

اقوام متحدہ معاون مشن برائے افغانستان (UNAMA) کے مطابق طالبان نے ٹی وی چینلز پر کسی بھی جاندار کی تصویر دکھانے پر پابندی لگا کر میڈیا کو مزید محدود کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر خبردار کیا کہ افغانستان میں آزادیِ اظہار شدید خطرے میں ہے۔

افغان صحافیوں کا کہنا ہے کہ ملک میں سچ بولنا اب جرم بن چکا ہے، جب کہ خوف اور دباؤ کی فضا میں خاموشی مجبوری بن گئی ہے۔ عالمی برادری سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ افغانستان میں آزادیِ صحافت اور اظہارِ رائے کے تحفظ کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کیے جائیں۔

متعلقہ مضامین

  • افغان طالبان سے مذاکرات؛ پاکستان نے ثالثوں کو شواہد پر مبنی مطالبات فراہم کر دیے
  • افغانستان سے سرحدی کشیدگی، پاکستان نے شواہد پر مبنی مطالبات ترکیے میں  ثالثوں کے حوالے کردیئے
  • پاکستان نے مطالبات ثبوتوں کے ساتھ طالبان کے سامنے رکھ دیے، ثالثوں کی مکمل تائید
  • افغانستان، طالبان دور میں آزادیِ صحافت کا جنازہ نکل گیا
  • افغانستان میں سچ بولنا جرم بن گیا، طالبان دور میں آزادیِ صحافت کا جنازہ نکل گیا
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکراتی بیٹھک جمعرات کو استنبول میں ہوگی، وزیر دفاع کی شرکت متوقع
  • دوحہ معاہد ے کی خلاورزی ‘ افغانستان پھر دہشتگر د تنظیموں کی پناہ گاہ بن چکا : اقوام متحدہ 
  • پاک افغان طالبان مذاکرات کا اگلا دور، 6 نومبر کو ہونے والی بیٹھک کی کامیابی کے کتنے امکانات ہیں؟
  • سو خطرناک قیدی رہا کرنا، چالیس ہزار طالبانوں کو واپس لانا سنگین غلطی تھا، اسحاق ڈار