سعودی حکومت کا حج کے دوران جدید ڈرون ٹیکنالوجی استعمال کرنے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 11th, November 2025 GMT
ریاض: سعودی وزارتِ صحت نے اعلان کیا ہے کہ آنے والے حج سیزن میں ادویات اور خون کے نمونوں کی منتقلی کے لیے جدید ڈرون ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی تاکہ طبی خدمات کو زیادہ تیز اور مؤثر بنایا جا سکے۔
سعودی وزیرِ صحت فہد الجلاجل کے مطابق، ماضی میں روایتی گاڑیوں کے ذریعے میڈیکل سیمپلز یا دوائیں ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچانے میں ڈیڑھ سے تین گھنٹے لگتے تھے، تاہم اب ڈرون کے استعمال سے یہ وقت صرف پانچ سے دس منٹ رہ جائے گا۔
وزیرِ صحت نے مزید بتایا کہ تمام عازمینِ حج کے لیے گردن توڑ بخار (میننجائٹس) کی ویکسین لازمی قرار دی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزارتِ صحت کی ہدایات کا مقصد عازمین کی صحت کا تحفظ اور متعدی امراض کے پھیلاؤ کی روک تھام ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ بعض ممالک کے لیے مخصوص ویکسینز لازمی ہیں، تاہم ہر حاجی کے لیے گردن توڑ بخار کے خلاف حفاظتی ٹیکہ ضروری ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں سولر ڈیٹا مراکزخلا میں قائم کرنے کی دوڑ میں شامل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: دنیا بھر کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں اب زمین سے آگے بڑھ کر خلا میں ڈیٹا مراکز قائم کرنے کی دوڑ میں شامل ہو گئی ہیں، اس انقلابی پیش رفت کا مقصد ایسے ڈیٹا سینٹرز بنانا ہے جو مکمل طور پر شمسی توانائی سے چلیں اور زمین کے قدرتی وسائل پر انحصار کم کریں۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق امریکی ٹیکنالوجی کمپنی اسٹار کلاؤڈ نے حال ہی میں ایک چھوٹی مصنوعی سیارچہ خلا میں بھیجی ہے، جس میں ایک جدید کمپیوٹر چپ نصب ہے، یہ قدم مستقبل میں خلا میں مکمل فعال ڈیٹا مراکز بنانے کی سمت پہلا عملی اور تجرباتی اقدام ہے۔
کمپنی کے سربراہ فلپ جانسٹن کا کہنا ہے کہ آنے والے برسوں میں خلا میں ڈیٹا مراکز قائم کرنا زمین پر تعمیر کیے جانے والے مراکز کے مقابلے میں زیادہ مؤثر، پائیدار اور ماحول دوست ثابت ہوسکتا ہے،خلا میں سورج کی توانائی مسلسل دستیاب ہوتی ہے جبکہ وہاں کا درجہ حرارت کمپیوٹنگ کے لیے زیادہ موزوں ماحول فراہم کرتا ہے۔
ذرائع کے مطابق دیگر بڑی عالمی کمپنیاں بھی اس دوڑ میں شامل ہیں، ایک معروف بین الاقوامی کمپنی 2027 تک تجرباتی سیٹلائٹس خلا میں بھیجے گی تاکہ شمسی توانائی سے چلنے والے ڈیٹا نیٹ ورک کا تجربہ کیا جا سکے، اسی طرح ایک بڑی خلائی کمپنی نے بھی اگلے سال اپنے خلا میں ڈیٹا نیٹ ورک کے قیام کا اعلان کیا ہے۔
اگرچہ اس منصوبے کی لاگت فی الحال بہت زیادہ ہے، لیکن ماہرین کو یقین ہے کہ راکٹ ٹیکنالوجی میں تیزی سے پیش رفت کے باعث 2030 کی دہائی کے وسط تک خلا میں قائم ڈیٹا مراکز زمین پر موجود سینٹرز کے مقابلے میں زیادہ مؤثر اور کم خرچ ثابت ہوں گے۔
ٹیکنالوجی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پیش رفت اس بات کا ثبوت ہے کہ مستقبل قریب میں ڈیجیٹل انفراسٹرکچر زمین سے نکل کر خلا کی سمت بڑھ رہا ہے اور یہی عالمی ٹیکنالوجی اور معیشت کا نیا سنگِ میل ثابت ہوگا۔