ہندوتوا نظریہ امن کے لیے خطرہ
اشاعت کی تاریخ: 14th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251214-03-7
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
جنوبی ایشیا ہمیشہ تہذیبوں کے ملاپ، ثقافتی تنوع اور مذہبی ہم آہنگی کی پہچان رہا ہے، مگر گزشتہ چند دہائیوں میں بھارت میں ہندوتوا نظریے کے بڑھتے ہوئے اثرات نے خطے کی اس تاریخی شناخت کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ دلوں میں خوف اور آنکھوں میں بے یقینی کے سائے تب گہرے ہوتے ہیں جب کوئی سیاسی نظریہ ریاستی طاقت، عدالتی ڈھانچے، انتخابی سیاست اور سفارتی پالیسی کو اس طرح اپنے تابع کر لے کہ اقلیتیں خود کو غیرمحفوظ سمجھنے لگیں اور ہمسایہ ممالک کو بھی اپنی سلامتی کے بارے میں نئے خدشات گھیر لیں۔ یہی صورتحال آج کے بھارت میں دیکھنے کو مل رہی ہے جہاں ہندوتوا کا نظریہ صرف سیاسی مقاصد تک محدود نہیں رہا بلکہ ایک توسیع پسندانہ سوچ کی صورت اختیار کر چکا ہے جو خطے کے امن، بقا اور معاشرتی استحکام کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ ہندوتوا کا دعویٰ ہے کہ برصغیر صرف ہندو قوم کا خطہ ہے، اور باقی تمام مذاہب یا تو اس کے تابع ہیں یا پھر انہیں ثانوی حیثیت میں رہنا ہوگا۔ یہی سوچ بھارت کے داخلی ڈھانچے میں گہری سرایت کر چکی ہے جہاں شہریت قوانین سے لے کر تعلیم، میڈیا اور ثقافت تک ہر جگہ مذہبی قوم پرستی کی پرچھائیاں نظر آتی ہیں۔ بھارت میں شہریت ترمیمی قانون نے پہلی بار مذہب کو شہریت کے تعین کا پیمانہ بنا کر نہ صرف آئینی مساوات کو مجروح کیا ہے بلکہ ملک گیر این آر سی کے خدشے کے ساتھ یہ اندیشہ بھی گہرا ہو گیا ہے کہ لاکھوں مسلمان محض کاغذی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے شہریت کے پیچیدہ جال میں الجھ سکتے ہیں۔ اسی نظریے کی علامت ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مساجد کے انہدام، تاریخی ناموں کی تبدیلی، مسلم محلوں پر حملوں اور اقلیتوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت انگیزی نے بھارتی سماج کو شدید تقسیم کا شکار کر دیا ہے۔ جب ایک ملک کے اندر عدم برداشت بڑھے تو اس کے اثرات لازماً سرحدوں سے باہر بھی محسوس ہوتے ہیں، اور یہی بات خطے کے امن کے لیے تشویشناک ہے۔
خطے کے ممالک خصوصاً پاکستان، بنگلا دیش، نیپال اور سری لنکا اس خطے کی جغرافیائی و تہذیبی حقیقتوں کا حصہ ہیں، لیکن ہندوتوا کے نظریہ ساز انہیں ایک ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کے غیر اعلانیہ تصور کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ اس سوچ کو بھارتی سیاست میں جس طرح پذیرائی مل رہی ہے، وہ مستقبل میں علاقائی تنازعات کے خدشات کو بڑھاتی ہے۔ سرحدی جھڑپیں، سفارتی تناؤ، اور خطے میں اسلحے کی دوڑ کا بڑھنا اسی سوچ کا نتیجہ ہے۔ پاکستان کے خلاف مسلسل جارحانہ بیانات، بالاکوٹ واقعہ کے بعد بھارتی میڈیا کا جنگی جنون، اور لداخ میں چین کے ساتھ محاذ آرائی کا ماحول اس بات کی واضح مثالیں ہیں کہ مذہبی قوم پرستی جب سیاسی فیصلوں پر غالب آ جائے تو امن کی راہیں بند ہونے لگتی ہیں۔ ہندوتوا کے توسیع پسندانہ عزائم کا ایک اہم پہلو بھارت کی عسکری حکمت عملی میں بھی جھلکتا ہے۔ دفاعی بجٹ میں سالانہ مسلسل اضافہ، جدید میزائل سسٹمز کی خریداری، اور خطے میں اسٹرٹیجک برتری کے دعوے ایک ایسے ملک کی تصویر دکھاتے ہیں جو دفاع کے نام پر جارحانہ طاقت کو ترجیح دے رہا ہے۔ سال 2025–26 کے لیے بھارت کی حکومت نے دفاع کے لیے کل بجٹ چھے لاکھ اکیاسی ہزار کروڑ روپے مقرر کیا ہے، جو موجودہ تبادلے کی شرح کے مطابق تقریباً 78.
دفاعی ماہرین کے مطابق یہ بجٹ حقیقت پسندانہ انداز میں بھارت کی عسکری ضروریات اور خطے میں اپنی اسٹرٹیجک پوزیشن کو مستحکم رکھنے کی نیت کے مطابق ہے، اور یہ کہنا کہ بھارتی دفاعی بجٹ تقریباً 78–79 بلین ڈالر کے قریب ہے۔ جب ایک ملک اس حد تک عسکری طاقت پر انحصار بڑھے اور اس کے فیصلے مذہبی قوم پرستی کے زیر ِ اثر ہوں تو یہ پورے خطے کے لیے خطرے کی گھنٹی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے اندرونی معاملات پر بیانات، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں اور کنٹرول لائن پر مسلسل اشتعال انگیزی خطے میں غیر یقینی کو بڑھاتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ ہندوتوا سیاست کا مرکزی محور بن چکا ہے۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کی صورتحال عالمی سطح پر تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔ مقبوضہ کشمیریوں کو مسلسل عسکری محاصرے، میڈیا بلیک آؤٹ، گرفتاریاں اور نقل و حرکت کی پابندیوں کا سامنا ہے۔ ہندوتوا نظریہ مقبوضہ کشمیر کو صرف جغرافیائی مسئلہ نہیں بلکہ ایک مذہبی اور سیاسی علامت کے طور پر دیکھتا ہے، اور اسی لیے اس کے حل میں طاقت کے استعمال کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ مگر طاقت سے حل ہونے کے بجائے مسائل مزید پیچیدہ شکل اختیار کرتے ہیں، اور یہ صورتحال پاکستان سمیت پورے خطے کے امن کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ خطے کے امن کے لیے ایک اور بڑا خطرہ بھارتی معاشرے میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہاپسندی ہے جسے سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہے۔ گائے کے نام پر قتل، مساجد پر حملے، مسلم کاروباروں کا بائیکاٹ، اور میڈیا میں مسلسل نفرت انگیز پروپیگنڈہ اقلیتوں کے معمولاتِ زندگی کو مفلوج کر رہا ہے۔ جب ایک ملک اپنا سماجی توازن کھو بیٹھے تو اس کی خارجہ پالیسی بھی شدت پسندی کی طرف جھکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی سفارتی زبان میں بھی سختی، الزام تراشی اور جارحیت بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ رویہ نہ صرف پڑوسی ممالک کے ساتھ کشیدگی کو بڑھاتا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھارت کے کردار پر بھی سوالات اٹھا رہا ہے۔ خطے کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ ہندوتوا کا سیاسی ماڈل ہندوستان کے آئین، جمہوریت اور سیکولر ریاست کے دعوے سے براہِ راست متصادم ہے۔ اگر اس نظریے کو لگام نہ دی گئی تو جنوبی ایشیا کی یہ بڑی ریاست اپنے اندر بھی انتشار کا شکار ہو سکتی ہے اور بیرونی سطح پر بھی غیر ضروری تصادم کو جنم دے سکتی ہے۔ عالمی طاقتوں کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ اقتصادی مفادات کے باوجود مذہبی قوم پرستی کو سیاسی سرپرستی دینا خطے کے امن کے ساتھ سنگین کھلواڑ ہے۔
امن کی راہ اسی وقت ہموار ہو سکتی ہے جب بھارت کے اندر آفاقی برابری، مذہبی آزادی اور آئینی اصولوں کی بحالی کو ترجیح دی جائے۔ خطے کے ممالک سفارتی سطح پر مکالمے کو مضبوط کریں، انتہاپسندانہ بیانیوں کو چیلنج کیا جائے، اقوامِ متحدہ کو مقبوضہ کشمیر سمیت تمام تنازعات کے منصفانہ حل میں فعال کردار ادا کرنا ہوگا، اور جنوبی ایشیا کی قیادت کو یہ احساس کرنا ہوگا کہ امن، ترقی اور انسانی حقوق کے بغیر کوئی بھی نظریہ، چاہے وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، مستقل استحکام نہیں لا سکتا۔ یہی وہ اقدامات ہیں جو ہندوتوا کے توسیع پسندانہ عزائم کو محدود کرنے اور خطے کے مستقبل کو محفوظ سمت میں لے جانے کے لیے ناگزیر ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مذہبی قوم پرستی خطے کے امن بھارت کی کے ساتھ اور خطے کے لیے امن کے رہا ہے رہی ہے
پڑھیں:
کندھکوٹ، صوبائی وزیر اوقاف، عشر و زکوٰۃ و مذہبی امور سید ریاض حسین شاہ شیرازی کھلی کچہری میں عوامی مسائل سن رہے ہیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251213-05-19