مغربی کنارے میں نئی صیہونی سازش کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 9th, January 2025 GMT
عبری زبان میں شائع ہونے والے اخبار نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ اسرائیلی، مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے گھر مسمار کر کے انہیں وہاں سے نکال باہر کرنے کو ضروری سمجھتے ہیں، لکھا کہ ایک اسرائیلی وزیر نے مغربی کنارے کو بھی غزہ کی طرح تباہ کرنے کا منصوبہ پیش کیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے ایک طرف غزہ کی پٹی میں مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی شروع کر رکھی ہے جبکہ اب وہ مغربی کنارے میں بھی فلسطینی شہریوں کے خلاف ایسا ہی ظلم شروع کرنے کے منصوبے بنا رہی ہے۔ عبری زبان میں شائع ہونے والے اخبار ہارٹز نے اپنے ایک کالم میں فاش کیا ہے کہ مغربی کنارے میں مقیم یہودی آبادکار غزہ میں رونما ہونے والے واقعات پر رشک کر رہے ہیں اور صیہونی کابینہ اور فوج سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ جو اقدامات غزہ میں انجام دیے ہیں وہ مغربی کنارے میں بھی انجام دیں۔ ہارٹز میں شائع ہونے والے اس کالم میں مغربی کنارے کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا ہے اور لکھا ہے: "اسرائیل مغربی کنارے کو بھی غزہ کی طرح نابود کر دینا چاہتا ہے۔ بنجمن نیتن یاہو کی سربراہی میں اسرائیلی کابینہ ایک طرف غزہ میں فوجی موجودگی بڑھانے اور شاید وہاں حکومت قائم کرنے کے لیے اقدامات انجام دے رہی ہے جبکہ دوسری طرف یہودی بستیاں تعمیر کرنے والے ادارے فوج اور کابینہ کی مدد سے مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی تعمیر میں وسعت لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔" یہ عبری اخبار مزید لکھتا ہے: "اسرائیل کے وزیر خزانہ بزالل اسموتریچ نے ایک منصوبہ پیش کیا ہے جس کے مطابق مغربی کنارے میں فلسطینی شہر یعنی الفندق، نابلس اور جنین کو شمالی غزہ میں جبالیا کی طرح نابود کر دینے کا مشورہ دیا گیا ہے۔"
انتہاپسند صیہونی وزیر اسموتریچ نے اپنے منصوبے میں اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ اسرائیل کو مغربی کنارے میں بھی وسیع فوجی آپریشن انجام دینا چاہیے تاکہ مسلح عناصر (فلسطینی مجاہدین) کے ٹھکانوں کو تباہ کر دیا جائے۔ ہارٹز کے کالم میں مزید آیا ہے: "مغربی کنارے میں ایریل ہاوسنگ پراجیکٹ کے سربراہ یائیر شتیپون نے بھی 2002ء کی طرح مغربی کنارے میں وسیع فوجی آپریشن کرنے اور فلسطینی مہاجرین کی رہائش گاہوں کو تباہ کا مطالبہ کیا ہے۔" ہارٹز نے آخر میں اس بات پر زور دیا کہ مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاروں کا عقیدہ ہے کہ تمام فلسطینیوں کو جلاوطن کرنا اور ان کے گھروں کو تباہ کر دینا بہت ضروری ہے تاکہ "دو ریاستی راہ حل" کا امکان پوری طرح ختم ہو جائے۔ چند دن پہلے عبری ذرائع ابلاغ نے اعلان کیا تھا کہ مغربی کنارے کے شمالی شہر قلقیلیہ میں واقع یہودی بستی کدومیم میں ایک مزاحمتی کاروائی انجام پائی جس میں تین صیہونی ہلاک اور 9 زخمی ہو گئے۔ اس کاروائی نے اسرائیلی حکمرانوں خاص طور پر وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور دیگر وزیروں کو شدید غضبناک کر دیا ہے۔ اسموتریچ نے غصے میں کہا: "مغربی کنارے کے الفندق گاوں اور جنین اور نابلس شہر کو غزہ بنا دینا چاہیے۔"
اس سے پہلے بھی صیہونی انتہاپسند وزیر بزالل اسموتریچ نے مغربی کنارے کی وسیع زمینوں پر قبضہ جمانے کا اعلان کیا تھا جو اوسلو معاہدے کے بعد غاصب صیہونی حکمرانوں کا بڑا اقدام ہے۔ عبری ذرائع ابلاغ نے رپورٹ دی تھی کہ یہ اقدام مغربی کنارے پر مکمل قبضہ جمانے کی راہ میں اہم قدم ہے۔ اسی طرح عبری اخبار یدیعوت آحارنوت نے ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ اسرائیل مغربی کنارے میں 22 موبایل ٹاور نصب کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ اقدام مغربی کنارے پر تسلط بڑھانے کے لیے انجام پائے گا۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس پراجیکٹ کے اخراجات اسموتریچ کی زیر سرپرستی ایک فنڈ سے پورے کیے جائیں گے۔ یہ موبایل ٹاور مغربی کنارے میں غصب شدہ زمینوں سمیت فلسطینیوں کی ذاتی ملکیت والی عمارتوں اور زمینوں میں بھی نصب کیے جائیں گے۔ اب تک صیہونی حکمران مغربی کنارے میں غیر قانونی یہودی بستیوں کے اردگرد ایسے موبائل ٹاور تعمیر کر چکے ہیں۔ یدیعوت آحارنوت نے یہ بھی کہا ہے کہ اسرائیل کا وزیر اقتصاد مغربی کنارے میں 50 مزید زمینوں پر حکومتی قبضے کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ وہاں موبائل ٹاور تعمیر کیے جا سکیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: میں بھی نے ایک کی طرح
پڑھیں:
غزہ پر مستقل قبضے کا اسرائیلی خواب
اسلام ٹائمز: صیہونی پالیسی ساز اس حقیقت سے بخوبی واقف ہو چکے ہیں کہ وہ میدان جنگ میں فلسطینی مجاہدین کو شکست نہیں دے سکتے لہذا اب انہوں نے نرم جنگ کے ہتھکنڈے بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہی ہتھکنڈوں میں سے ایک اقتصادی دباو اور دوسرا فلسطینی عوام کو مجاہدین سے دور کرنا ہے۔ اس سے پہلے یہ حکمت عملی فرانسیسی فوج انیسویں صدی کے وسط میں الجزائر میں آزما چکی ہے۔ 1840ء کے عشرے میں شدید گرمی کے دوران فرانسیسی فوجیوں کا تجربہ غاصب صیہونی فوجیوں سے ملتا جلتا تھا اور انہیں الجزائر کے مجاہدین کے خلاف مکمل کامیابی حاصل نہیں ہو رہی تھی۔ لہذا تھامس رابرٹ باگہود کی سربراہی میں فرانسیسی فوج نے وہاں کے بنیادی انفرااسٹرکچر کو تباہ کرنا شروع کر دیا اور عوام کو ان کے دیہاتوں سے جبری جلاوطن کر دیا۔ کچھ عرصے بعد عوام خود ہی مجاہد لیڈر عبدالقادر کے خلاف ہو گئے اور اس سے گھٹنے ٹیک دینے کا مطالبہ کرنے لگے۔ تحریر: سید رضا حسینی
غاصب صیہونی رژیم نے 2 مارچ 2025ء کے دن یکطرفہ طور پر حماس سے جنگ معاہدہ ختم کر دیا اور غزہ جانے والی بین الاقوامی انسانی امداد بھی روک دی۔ اس کے تقریباً دو ہفتے بعد دوبارہ سے غزہ پر وسیع بمباری کا سلسلہ شروع کر دیا جبکہ صیہونی فوج جس نے جنگ بندی کے دوران پسماندگی اختیار کی تھی دوبارہ پیشقدمی کرنے لگی۔ برطانوی اخبار گارجین نے غزہ کے جن شہریوں سے انٹرویو لینے میں کامیاب رہا ان کا کہنا تھا کہ وہ فضائی بمباری سے زیادہ قحط اور غذائی قلت سے خوفزدہ ہیں۔ غزہ کے شمال میں واقع شہر بیت لاہیا کے 44 سالہ یونیورسٹی پروفیسر حکمت المصری نے کہا: "میں بارہا کھانے کی کمی کی وجہ سے اپنا حصہ بیٹے کو دینے پر مجبور ہوا ہوں۔ یہ بھوک مجھے مار دے گی اور یہ ایک مرحلہ وار موت ہے۔" غزہ جانے والی انسانی امداد کو روک دینا حماس کے خلاف اسرائیل کا نیا ہتھیار ہے۔
اسرائیلی فوجی کمانڈرز نے پہلی بار غزہ میں کھانے پینے کی اشیاء کی فراہمی کی ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لے لی ہے جو دراصل تل ابیب کی جانب سے اہل غزہ پر دباو ڈالنے کا ایک ہتھکنڈہ قرار دیا جا رہا ہے۔ تل ابیب کو امید ہے کہ وہ غزہ کے فلسطینیوں کو جبری طور پر جلاوطن کر کے اس کے اکثر حصوں میں جلی ہوئی زمین کی حکمت عملی اختیار کرے گا اور یوں غزہ کی پٹی پر اپنا قبضہ مکمل کر لے گا۔ یہ منصوبہ بظاہر تو بہت دلکش دکھائی دیتا ہے لیکن حماس کے ملٹری ونگ شہید عزالدین قسام بٹالینز گوریلا جنگ میں اعلی درجہ مہارت رکھتی ہیں اور وہ غزہ میں صیہونی فوج کی لاجسٹک سپورٹ بند کر دینے کی مکمل صلاحیت کی حامل ہیں۔ صیہونی فوج کی دوبارہ جارحیت شروع ہونے کے چند گھنٹے بعد بنجمن نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ وہ غزہ کی صورتحال تبدیل کرنے جا رہا ہے۔
جبری جلاوطنی
اخبار اکانومیسٹ کے بقول صیہونی حکمرانوں نے رفح کے شہریوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر چلے جانے کا حکم دیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ ان کا اصل مقصد غزہ کے جنوبی حصے کو مستقل طور پر خالی کروانا ہے۔ یاد رہے اس حصے میں غزہ کی آبادی کا 20 فیصد حصہ آباد ہے۔ اسی طرح کا منصوبہ غزہ کے شمالی حصے کے لیے بھی بنایا جا رہا ہے۔ یہ منصوبہ درحقیقت غزہ میں مقیم 20 لاکھ فلسطینیوں کو جبری جلاوطن کر کے بحیرہ روم کے مشرقی کنارے منتقل کرنے پر مبنی ہے۔ فی الحال مقدماتی مرحلے کے طور پر اسرائیل غزہ کے مختلف شہروں اور دیہاتوں میں "نو گو ایریاز" بنانا چاہتا ہے تاکہ وہاں سے عام شہریوں کے انخلاء کے بعد مجاہدین کے خلاف کھل کر فوجی کاروائی انجام دے سکے۔ اگلے مرحلے میں اسرائیل غزہ کے تمام فلسطینی شہریوں کو وہاں سے نکال کر دنیا کے دوسرے حصوں میں بھیج دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔
بنیادی اہمیت کی حامل راہداریوں پر قبضہ
بعض اعلی سطحی اسرائیلی فوجی افسران کے بقول غزہ میں اسرائیل جو نئی راہداریاں بنا رہا ہے ان کے فوجی اہداف کے علاوہ بھی کچھ اہداف ہیں۔ اسرائیل نے گذشتہ ایک ماہ سے غزہ کے شہریوں کے لیے جانے والی تمام بیرونی امداد بند کر رکھی ہے اور اس بندش کی وضاحت پیش کرتے ہوئے اس نے یہ بہانہ پیش کیا ہے کہ اس امداد کا زیادہ تر حصہ حماس کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ صیہونی فوج نے اعلان کیا ہے کہ غزہ کے فلسطینی جیسے ہی یہ علاقہ چھوڑ کر اس کے مطلوبہ علاقے میں چلے جائیں گے تو فوجی راہداریوں کے ذریعے ان تک انسانی امداد کی فراہمی کا کام شروع کر دیا جائے گا۔ یہ پالیسی اگرچہ بظاہر انسانی دکھائی دیتی ہے لیکن اس کا مقصد فلسطینیوں کو غزہ کی پٹی چھوڑ دینے پر مجبور کرنا ہے۔ اسی طرح اسرائیل اس طرح فلسطینی شہریوں اور حماس کے مجاہدین کے درمیان فاصلہ ڈالنا چاہتا ہے۔
نرم جنگ کا آغاز
صیہونی پالیسی ساز اس حقیقت سے بخوبی واقف ہو چکے ہیں کہ وہ میدان جنگ میں فلسطینی مجاہدین کو شکست نہیں دے سکتے لہذا اب انہوں نے نرم جنگ کے ہتھکنڈے بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہی ہتھکنڈوں میں سے ایک اقتصادی دباو اور دوسرا فلسطینی عوام کو مجاہدین سے دور کرنا ہے۔ اس سے پہلے یہ حکمت عملی فرانسیسی فوج انیسویں صدی کے وسط میں الجزائر میں آزما چکی ہے۔ 1840ء کے عشرے میں شدید گرمی کے دوران فرانسیسی فوجیوں کا تجربہ غاصب صیہونی فوجیوں سے ملتا جلتا تھا اور انہیں الجزائر کے مجاہدین کے خلاف مکمل کامیابی حاصل نہیں ہو رہی تھی۔ لہذا تھامس رابرٹ باگہود کی سربراہی میں فرانسیسی فوج نے وہاں کے بنیادی انفرااسٹرکچر کو تباہ کرنا شروع کر دیا اور عوام کو ان کے دیہاتوں سے جبری جلاوطن کر دیا۔ کچھ عرصے بعد عوام خود ہی مجاہد لیڈر عبدالقادر کے خلاف ہو گئے اور اس سے گھٹنے ٹیک دینے کا مطالبہ کرنے لگے۔
صیہونی منصوبے کو درپیش چیلنجز
صیہونی فوجی حماس کے مجاہدین کے خلاف اپنی سرگرمیوں میں تیزی لانا چاہتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے جو فوجی راہداریاں بنائی ہیں جو حماس مجاہدین کے حملوں کی زد میں ہیں۔ یوں القسام بٹالینز ان کی رصد میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں۔ دوسری طرف مظلوم فلسطینیوں پر صیہونی ظلم و ستم کا فائدہ حماس کو ہو رہا ہے۔ وہ یوں کہ فلسطینی شہریوں کی عزت نفس مجروح ہو رہی ہے اور وہ اس بات کے قائل ہو رہے ہیں کہ صیہونی رژیم سے مقابلے کا واحد راستہ مسلح جدوجہد ہے لہذا حماس کے مجاہدین میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مزید برآں، غزہ سے فلسطینیوں کا انخلاء بھی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔ مصر اور اردن اس منصوبے میں اسرائیل کا ساتھ نہیں دے رہے جبکہ مصر حکومت نے چین سے جنگی طیارے اور اسلحہ خرید کر صحرائے سینا میں فوج تعینات کرنا شروع کر دی ہے جس کا مقصد فلسطینیوں کی جبری جلاوطنی کو روکنا ہے۔