پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر رہنما شیر افضل مروت نے کہا ہے کہ سلمان اکرم راجہ پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل نہیں، پارٹی میں ان کی حیثیت ایک اجنبی کی سی ہے۔

نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ پارٹی آئین کے مطابق الیکشن میں منتخب شخص ہی جنرل سیکرٹری ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ سلمان اکرم راجہ اگر پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل ہیں تو ان کے نام سے کوئی نوٹیفکیشن کیوں جاری نہیں کیا جاتا، وہ جنرل سیکریٹری بن ہی نہیں سکتے۔

یہ بھی پڑھیں شہدا کے خون کے حساب تک حکومت سے کوئی بات نہیں ہوگی، سلمان اکرم راجہ

شیر افضل مروت نے کہاکہ بیرسٹر گوہر سے پوچھا جائے کہ سلمان اکرم راجہ کیسے جنرل سیکریٹری بن گیا، اور جب یہ جنرل سیکریٹری ہی نہیں تو میرے خلاف کیسے کارروائی کرسکتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ سلمان اکرم راجہ 15 دن لاہور اور ایک دن اسلام آباد آتے ہیں، انہیں صورت حال کا کیسے ادراک ہوگا۔

شیر افضل مروت نے کہاکہ 9 مئی کے وقت سلمان اکرم راجہ کہاں تھے؟ اب ٹھیکیدار بن گئے ہیں۔ اس کے بعد ہمیں کوئی ترجمان نہیں مل رہا تھا، تب ترجمان اور عمران خان کا وکیل میں ہی تھا۔

انہوں نے کہاکہ دیگر پارٹیوں میں ایک دوسرے کے خلاف بیان نہیں دیے جاتے، ایسا صرف پی ٹی آئی میں ہوتا ہے۔ کل عمران خان کو سلمان اکرم راجہ کے حوالے سے بتاؤں گا کیونکہ یہ ذاتیات پر اتر آئے ہیں۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہاکہ مجھے یقین ہے کہ مذاکرات کامیابی سے ہوں گے کیونکہ یہ سیاستدانوں کی خواہش ہے، سیاستدان مذاکرات کے ٹی او آرز طے کریں گے پھر اسٹیبلشمنٹ سے بات کریں گے، آنے والے چند دنوں میں یہ ساری چیزیں سامنے آجائیں گی۔

شیر افضل مروت نے کہاکہ حکومت پی ٹی آئی کے اسٹیبلشمنٹ سے ممکنہ رابطے کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے، کیونکہ یہ مذاکرات پس پردہ کسی دوسرے مذاکرات کے نتیجے میں شروع ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے استعفیٰ واپس لے لیا

انہوں نے کہاکہ عادل راجہ اور حیدر مہدی دونوں ’را‘ کے ایجنٹ ہیں، یہ بھلے سوشل میڈیا پر میرے پیچھے پڑ جائیں لیکن ان کے خلاف بات ضرور کروں گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews آمنے سامنے پاکستان تحریک انصاف پی ٹی آئی سیکریٹری جنرل تنقید سلمان اکرم راجہ شیر افضل مروت عمران خان وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: سلمان اکرم راجہ شیر افضل مروت وی نیوز شیر افضل مروت نے سلمان اکرم راجہ پی ٹی ا ئی کے

پڑھیں:

بھارتی فوج بھی انتہاپسند ہندوتوا ایجنڈے کے رنگ میں رنگ گئی

حالیہ دنوں میں بھارتی آرمی چیف جنرل اوپندر دویدی کی مذہبی سرگرمیوں نے سوشل میڈیا سے لے کر سیاسی حلقوں تک میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ کیا اب انڈین فوج محض دفاعی ادارہ نہیں رہی بلکہ ہندوتوا کے ایجنڈے کی محافظ بن چکی ہے؟

جنرل دویدی نے حال ہی میں وردی میں نہ صرف کیدارناتھ کے مندر میں حاضری دی بلکہ رام بھدرآچاریہ کے آشرم میں بھی ماتھا ٹیکتے دکھائی دیے۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو انہوں نے فوجی وردی کو ہندو عقیدت کا لباس بنا ڈالا۔

سوال یہ نہیں کہ کسی کا ذاتی عقیدہ کیا ہے، سوال یہ ہے کہ جب ایک سیکولر ملک کی مسلح افواج کا سربراہ وردی میں مذہبی رسومات ادا کرے تو اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ کیا فوجی وردی صرف ہندو دیوی دیوتاؤں کی خدمت کےلیے مخصوص ہوچکی ہے؟

بھارتی آئین کی شقیں شاید کتابوں میں اب بھی سیکولرزم کا دعویٰ کرتی ہوں، مگر زمین پر حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ بھارتی فوج جسے تمام قومیتوں، مذاہب اور ثقافتوں کا محافظ ہونا چاہیے تھا، اب زعفرانی رنگ میں رنگتی جا رہی ہے۔ جنرل دویدی کے مذہبی مندر دوروں سے یہ تاثر ملتا ہے جیسے وہ صرف ایک مخصوص اکثریتی مذہب کے وفادار ہوں، اور اقلیتوں کے لیے ان کی فوجی قیادت سوالیہ نشان بن چکی ہو۔

اگر آرمی چیف ہندو مندر میں ماتھا ٹیک سکتے ہیں، تو کیا وہ کسی مسجد میں دو گھڑی سکون کی دعا کے لیے رکیں گے؟ کیا وہ کسی چرچ جا کر دعائیہ کلمات سنیں گے؟ سکھوں کے گوردوارے میں عقیدت سے جھکیں گے؟ یا یہ سب صرف آر ایس ایس کی ’’ہندو راشٹر‘‘ کی مہم کا حصہ ہے، جہاں وردی کو ایک مذہبی پرچم میں بدل دیا گیا ہے؟

یہ سارا معاملہ صرف ایک فرد کا مذہبی رجحان نہیں بلکہ اس پورے ادارے کے غیر جانب دار تشخص پر ایک سنجیدہ سوال ہے۔ جب جنرل دویدی میڈیا کے سامنے وردی میں پوجا پاٹ کرتے ہیں تو وہ نہ صرف آئین کے سیکولر اصولوں کی نفی کرتے ہیں بلکہ اقلیتوں کو بھی ایک واضح پیغام دیتے ہیں کہ ان کی نمائندگی اس فوج میں شاید صرف کاغذوں کی حد تک رہ گئی ہے۔

بھارت میں ہندوتوا کی سیاسی اور سماجی بالادستی اب اتنی گہری ہو چکی ہے کہ ملک کا ہر ادارہ اس کی جھلک دکھانے لگا ہے، حتیٰ کہ فوج جیسا حساس اور غیر جانبدار ادارہ بھی۔ اس تناظر میں جنرل دویدی کی مندر یاترا صرف ایک ذاتی عقیدے کا اظہار نہیں بلکہ ایک طاقتور پیغام ہے، اور وہ پیغام یہ ہے کہ نئی دہلی کی راہ صرف ہندوتوا کے قدموں کی چاپ سننے کو تیار ہے۔

کیا ہندوستانی سپہ سالار اب صرف ایک عقیدے کا نمائندہ ہے؟ اگر ایسا ہے تو اقلیتوں کو سوچ لینا چاہیے کہ ان کی حفاظت کے دعوے صرف کاغذی تحریر رہ گئے ہیں، کیونکہ وردی پہنے وہ ہاتھ جو ملک کی سرحدوں کے محافظ کہلاتے ہیں، اب شاید صرف ایک مخصوص مذہب کے سامنے جھکنے کے لیے اٹھتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پانی ہماری ناگزیر ضرورت ہے اس پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو گا: بلاول بھٹو زرداری
  • لکی مروت: اہم مقامی دہشت گرد کمانڈر چھوٹا وسیم گنڈی خانخیل سمیت 3 خوارج ہلاک
  • بھارتی فوج بھی انتہاپسند ہندوتوا ایجنڈے کے رنگ میں رنگ گئی
  • سیکریٹری جنرل اقوامِ متحدہ اور اراکینِ سلامتی کونسل سے اچھی بات چیت ہوئی: جلیل عباس جیلانی
  • سینیٹر علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے علامہ قاضی نادر حسین علوی کو ایم ڈبلیو ایم جنوبی پنجاب کا صوبائی آرگنائزر مقرر کردیا 
  • ایم ڈبلیو ایم کے چیئرمین سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے پنجاب اور بلوچستان میں نئے سیٹ اپ کا اعلان کردیا 
  • قربانی کیلئے زیادہ تعداد میں جانور لینے چاہئیں یا بہت قیمتی جانور ؟ کیا افضل ہے؟
  • اویس احمد خان لغاری کا سابق وفاقی وزیر سینیٹر عباس خان آفریدی کی وفات پر اظہارِ افسوس
  • مولانا فضل الرحمان کا سابق سنیٹر عباس آفریدی کے انتقال پر اظہار افسوس
  • بلاول بھٹو زرداری کی زیرِ قیادت ’امن مشن‘ کو امریکی کانگریسی استقبالیے میں مرکزی حیثیت حاصل