عمران دور میں جنرل عاصم منیر کا یو اے ای سے قرض کے حصول میں کلیدی کردار تھا، اسد عمر کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 9th, January 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان کے دور حکومت میں جنرل عاصم منیر نے متحدہ عرب امارات سے 2 ارب ڈالر کا قرض حاصل کرنے میں ’کلیدی کردار‘ ادا کیا تھا۔
سابق وزیرخزانہ اسد عمر نے دعویٰ کیا ہے کہ موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے متحدہ عرب امارات سے مالی قرض کے حصول میں ”کلیدی کردار“ ادا کیا جب وہ پاکستان تحریک انصاف کے دور میں انٹر سروسز انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔
آج نیوز کے پروگرام “ روبرو“ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”کیا وقت آگیا ہے کہ ہم قرضوں کا جشن منا رہے ہیں۔ وہ ایک پرانا قرض ہے اور انہوں نے ہمیں صرف اتنا کہا ہے کہ ہم آپ سے پشت پناہی نہیں لے رہے ہیں۔ ہم اسے اگلے سال لیں گے اور اس پر بہت خوشی ہے،“۔
اسد عمر نے کہا “جب ہمیں متحدہ عرب امارات سے یہ 2 بلین ڈالر کا قرض ملا تو میں وزیر خزانہ تھا۔ مجھے آپ کو بتانا ضروری ہے کہ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی اور موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اس میں کلیدی کردار ادا کیا تھا’’۔
جب ان سے دوبارہ پوچھا گیا تو سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ میں نے جیل میں بند سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ قریشی کے ساتھ مل کر امارات کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پہلے بھی جنرل منیر کو خلیجی ملک بھیجا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ اور جنرل منیر متحدہ عرب امارات کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زید النہیان کے قریبی نمائندے کے ساتھ حتمی مذاکرات میں ایک ساتھ تھے۔ ”لہذا، میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ ان کا اس میں مرکزی کردار تھا۔“
اس ہفتے کے شروع میں، وزیر اعظم شہباز شریف نے کابینہ کو بتایا تھا کہ متحدہ عرب امارات نے اس ماہ پاکستان کی طرف سے واجب الادا 2 بلین ڈالر کی ادائیگی پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
پاکستان کے لیے 7 بلین ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کو گرین لائٹ کرنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے لیے بیرونی فنانسنگ کا حصول ایک اہم ضرورت ہے۔
پچھلے سال پاکستان کو دوست ممالک بشمول چین، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی جانب سے اہم حمایت حاصل ہوئی، جنہوں نے آئی ایم ایف پروگرام کو محفوظ بنانے میں ملک کی مدد کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو 7 ارب ڈالر کے 37 ماہ کے قرض پروگرام کا اگلا جائزہ فروری میں متوقع ہے۔
اتوار کو متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زید النہیان نے پاکستان کے ساتھ کان کنی، معدنیات اور زراعت کے شعبوں میں تعاون کرنے میں امارات کی گہری دلچسپی ظاہر کی ہے۔
یہ بات انہوں نے وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کے دوران کہی جنہوں نے رحیم یار خان میں ان سے ملاقات کی۔ متحدہ عرب امارات کے صدر نے عوام سے عوام کے روابط اور مشترکہ خوشحالی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے پاکستان کے ساتھ اپنی دیرینہ شراکت داری کو بڑھانے کے لیے متحدہ عرب امارات کے عزم کا اعادہ کیا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: متحدہ عرب امارات کے انہوں نے ادا کیا کے ساتھ
پڑھیں:
اقوام متحدہ: 2026 کے مجوزہ بجٹ میں اصلاحات اور 500 ملین ڈالر کٹوتیاں
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 17 ستمبر 2025ء) اقوام متحدہ نے 2026 کے لیے اپنے مجوزہ پروگرام بجٹ کے ترمیم شدہ تخمینوں کو حتمی شکل دے دی ہے جس میں 500 ملین ڈالر سے زیادہ کٹوتیاں کی گئی ہیں جبکہ ادارے کو مزید مضبوط و موثر بنانے کی کوشش (یو این 80) کے تحت ابتدائی اقدامات بھی متعارف کرائے گئے ہیں۔
گزشتہ روز مشاورتی کمیٹی برائے انتظامی و میزانیہ امور (اے سی اے بی کیو) کو پیش کیے نظرثانی شدہ تخمینوں میں رواں سال کے مقابلے میں اقوام متحدہ کے وسائل میں 15.1 فیصد اور اسامیوں میں 18.8 فیصد کمی کی تجویز دی گئی ہے۔
26-2025 میں قیام امن کی کارروائیوں کے لیے استعمال ہونے فنڈ میں بھی کٹوتیاں کی جائیں گی۔ اس فنڈ کے ذریعے امن کاری سے متعلق مشن اور عملے کے لیے مالی وسائل مہیا کیے جاتے ہیں۔(جاری ہے)
(اے سی اے بی کیو) جنرل اسمبلی کا ذیلی مشاورتی ادارہ ہے جو ان تجاویز کا جائزہ لینے کے بعد اپنی سفارشات جنرل اسمبلی کی پانچویں کمیٹی کو پیش کرے گا جہاں اقوام متحدہ کے تمام 193 رکن ممالک انتظامی اور میزانیے (بجٹ) کے امور پر فیصلے کریں گے۔
مالی کٹوتیاں اور اضافےاقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے رکن ممالک کے نام خط میں کہا ہے کہ یہ کٹوتیاں ان اقدامات کے بعد کی گئی ہیں جو اس بات کا جائزہ لینے کے لیے اٹھائے گئے تھے کہ اقوام متحدہ کی ذمہ داریوں کا نفاذ کیسے ہو رہا ہے اور ان کے لیے وسائل کس طرح مختص کیے جا رہے ہیں۔
ادارے کے چارٹر کے تین بنیادی ستونوں یعنی امن و سلامتی، انسانی حقوق اور پائیدار ترقی کے درمیان توازن کو برقرار رکھتے ہوئے سیکرٹریٹ کی مختلف اکائیوں نے خدمات کی فراہمی بہتر بنانے کے طریقے ڈھونڈے تاکہ وسائل کے استعمال کو مؤثر بنایا جا سکے۔
انہوں نے واضح کیا کہ یہ کٹوتیاں ہر شعبے پر یکساں طور سے لاگو کرنے کے بجائے سوچ سمجھ کر اور مخصوص جگہوں پر کی گئی ہیں۔ رکن ممالک بالخصوص کم ترین ترقی یافتہ، خشکی سے گھرے اور چھوٹے جزائر پر مشتمل ترقی پذیر ممالک کی مدد اور براعظم افریقہ کی ترقی سے متعلق پروگراموں اور سرگرمیوں کے لیے مالی وسائل میں کٹوتیاں نہیں کی گئیں۔ اسی طرح، قیام امن کے لیے فنڈ اور رکن ممالک میں ریذیڈنٹ کوآرڈینیٹر کے نظام کے لیے بھی وسائل کو برقرار رکھا گیا ہے۔
علاقائی اقتصادی کمیشن کے لیے وسائل میں معمولی ردوبدل ہو گا جبکہ تکنیکی تعاون کے لیے باقاعدہ پروگرام (آر پی ٹی سی) کے لیے وسائل میں اضافہ جاری رہے گا تاکہ ترقی پذیر ممالک کی صلاحیت بڑھانے میں مزید مدد فراہم کی جا سکے۔
سیکریٹری جنرل نے کہا ہے کہ اس پیمانے کی کٹوتیاں لازمی طور سے بعض سمجھوتوں کا تقاضا کرتی ہیں۔ اداروں نے ان کے ممکنہ اثرات کی نشاندہی بھی کی ہے تاہم بنیادی ذمہ داریوں اور خدمات کے معیار کو برقرار رکھ کر ان اثرات کی تلافی کی جائے گی۔
اس ضمن میں اعلیٰ اثرات کے حامل نتائج کو ترجیح دینا، مختلف اداروں کے درمیان مہارتوں کو جمع کرنا اور ورچوئل ذرائع و خودکاری پر انحصار بڑھانا شامل خاص طور پر اہم ہے۔ان کا کہنا ہے کہ آج اقوام متحدہ ایک ایسے عالمی ماحول میں کام کر رہا ہے جو سیاسی اور مالیاتی لحاظ سے مسلسل غیر یقینی کا شکار ہے۔ ایسے حالات میں 'یو این 80' اقدام کا مقصد اقوام متحدہ کو مزید مضبوط و مستحکم بنانا ہے۔
نظرثانی شدہ تخمینے اسی عزم کی عکاسی کرتے ہیں اور ان میں یہ تجاویز شامل ہیں کہ ادارہ بہتر طریقے سے کیونکر کام کر سکتا ہے۔اصلاحاتی اقداماتنظرثانی شدہ تخمینے 'یو این 80' اقدام کے تحت اقوام متحدہ کے سیکریٹریٹ کے لیے اولین تجاویز بھی پیش کرتے ہیں جس کا تعلق ادارے کے انتظام و انصرام سے ہے۔ یہ اقدامات درج ذیل ہیں:
تنخواہوں کی ادائیگی کا نظام نیویارک، اینٹیبے اور نیروبی کے درمیان ایک واحد عالمی ٹیم میں ضم کرنا اور چند ذمہ داریاں نیویارک اور جنیوا جیسے مہنگے مراکز سے کم لاگت والے مراکز میں منتقل کرنا۔
مزید بچت املاک میں کمی کے ذریعے کی جائے گی اور ادارہ 2027 تک نیویارک میں کرائے پر لی گئی دو عمارتوں کو خالی کر دے گا جس کی بدولت 2028 سے سالانہ سطح پر بچت متوقع ہے۔
ان اقدامات کے ذریعے کام کی تکرار کو کم کیا جائے گا، معیار میں بہتری لائی جائے گی، ذمہ داریوں کی انجام دہی کو تحفظ ملے گا اور رکن ممالک کی ہدایات کے تحت اقوام متحدہ کو زیادہ موثر اور کفایت شعار ادارہ بنایا جائے گا۔
یو این 80 اقداممارچ 2025 میں شروع کیا گیا 'یو این 80' اقدام تین بنیادی ورک سٹریم (سلسلہ ہائے کار) کے گرد تشکیل دیا گیا ہے۔
ورک سٹریم 1: انتظامی بہتری اور تاثیر
اس کے تحت انتظامی اصلاحات اور مؤثر طریقہ کار سے متعلق تجاویز کو پہلی بار نظرِ ثانی شدہ تخمینوں میں شامل کیا گیا ہے جبکہ مزید اصلاحاتی تجاویز بعد میں پیش کی جائیں گی۔
ورک سٹریم 2: ذمہ داریوں پر عملدرآمد کا جائزہ
اس کے تحت تیار کردہ جائزہ رپورٹ اگست میں پیش کی گئی جو اب ایک نئے قائم کردہ غیر رسمی ایڈ ہاک ورکنگ گروپ کے پاس زیر غور ہے۔ اس گروپ کا اجلاس آج ہو رہا ہے۔
ورک سٹریم 3: ساختیاتی و عملی ہم آہنگی
اس کے تحت اقوام متحدہ کے مختلف اداروں کے درمیان ساختیاتی اور عملی ہم آہنگی بڑھانے پر غور کیا جا رہا ہے۔
اس ضمن میں ابتدائی تجاویز اسی ہفتے کے آخر میں رکن ممالک کو پیش کیے جانے کی توقع ہے۔سیکریٹری جنرل کے مطابق، یہ تینوں ورک سٹریم مل کر اقوام متحدہ کے کام کرنے کے انداز میں ایک بڑی تبدیلی لائیں گی تاکہ ادارہ موثر، قابل بھروسہ اور مستحکم رہے۔
آئندہ اقداماتسب سے پہلے مشاورتی کمیٹی ان نظر ثانی شدہ تخمینوں کا جائزہ لے گی جس کی سماعتیں اسی ہفتے سے شروع ہونے کی توقع ہے۔
اس کے بعد یہ تجاویز جنرل اسمبلی کی پانچویں کمیٹی کو بھیجی جائیں گی، جہاں اقوام متحدہ کے تمام 193 رکن ممالک انتظامی اور بجٹ سے متعلق معاملات پر بات چیت اور فیصلے کریں گے۔منظوری ملنے کی صورت میں یہ تبدیلیاں 2026 میں مرحلہ وار نافذ ہونا شروع ہوں گی جبکہ مختلف ورک سٹریم سے جڑی آئندہ اصلاحات کو مستقبل کے بجٹ میں شامل کیا جائے گا۔
سیکرٹری جنرل کا خطاقوام متحدہ کے عملے کے نام ایک خط میں سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ یہ تبدیلیاں ان کے روزمرہ کام اور پیشہ ورانہ زندگی کو متاثر کریں گی، لیکن انہوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ عملے کو اس تمام عمل میں پوری طرح شامل کیا جائے گا اور ان کی معاونت کی جائے گی۔
انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ اس معاملے میں ادارے کے عملے کو معلومات کی متواتر فراہمی، مشاورت کے مواقع اور ہر مرحلے پر عملی رہنمائی فراہم کی جائے گی۔
سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ ان فیصلوں پر سب سے پہلے وہ خود جوابدہ ہوں گے۔ تبدیلیوں کو انصاف، ہمدردی اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ نافذ کیا جانا چاہیے اور ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس عمل کے دوران اقوام متحدہ کی اقدار کا تحفظ کرے۔