پانچ سال قبل تین جنوری کوٹرمپ ہی کی صدارت کے دوران قاسم سلیمانی کوامریکی فوج نے بغدادمیں ہلاک کردیاتھا۔قاسم سلیمانی ایران کی قدس فورس کے کمانڈرتھےجو پاسداران انقلاب کی وہ شاخ ہےجوغیرملکی سرزمین پر کارروائیاں کرتی ہے۔قاسم سلیمانی خطےمیں ایرانی اثرورسوخ اورعسکری حکمت عملی کی بنیادرکھنے والوں میں شامل تھے۔3 جنوری 2020 ء کوامریکی ڈرون سے ان کونشانہ بنائےجانےسےتین ماہ قبل قاسم سلیمانی نے پاسداران انقلاب کےکمانڈرز سے ایک خفیہ خطاب میں مزاحمت کے اتحادمیں کامیاب اورناقابل شکست وسعت کی بات بھی کی تھی۔
ایسامحسوس ہوتاہےجیسے قاسم سلیمانی اپنی موت کی توقع رکھتےتھےاورقدس فورس کی سربراہی کی دودہائیوں پرایک رپورٹ پیش کرناچاہتے تھے۔انہوں نے اس خطاب میں کامیابیوں کاذکرکرتےہوئےکہاتھاکہ ’’پاسداران انقلاب نےمعیاراورمقدارکےحساب سےمزاحمت تیار کی ہے،جنوبی لبنان میں دوہزارسکوائرکلومیٹرکے علاقےسےپانچ لاکھ سکوائرکلومیٹر تک وسعت دی ہے۔ مزاحمت کے بیچ زمینی کامیاب رابطہ قائم ہوگیاہے،یعنی ایران کوعراق،عراق کوشام، اورشام کولبنان سےجوڑدیاگیا۔آج آپ تہران سے اپنی گاڑی میں روانہ ہوکربیروت کے جنوبی مضافات تک پہنچ سکتےہیں۔‘‘مزاحمت کے اس اتحادکوقاسم سلیمانی کی اہم کامیابی کےطورپر دیکھا گیالیکن گزشتہ ایک سال میں اس اتحادکوشدید دھچکہ پہنچاہےاوریہ تکبر حالات کے ہاتھوں چکناچورہوگیا۔
خطےمیں ایرانی اثرورسوخ میں وسعت 1980ء کے اوائل میں شروع ہوئی جب تہران نے لبنان میں امریکااوراسرائیل کےخلاف حزب اللہ کےقیام میں مددفراہم کی۔بعدازاں خطے میں عدم استحکام کی وجہ سے امریکانے2003میں عراق پرحملہ کیا اور2011 میں عرب دنیامیں عدم استحکام کےبعددولت اسلامیہ جیساانتہاپسندگروہ سامنے آیاتوایران کواپنااثرورسوخ بڑھانےکا موقع مل گیا۔ شام میں پاسداران انقلاب کوبھیجنا اورعراق سمیت لبنان میں عسکری گروہوں کی وجہ سےایران کی سرحد سے لبنان تک ایک زمینی اورعلاقائی رابطہ قائم ہوگیاجواسرائیل کی سرحدتک پہنچتاتھا۔
2003ء میں عراق پرامریکی حملے سے قبل ایسا علاقائی اتحادممکن نہیں تھا۔عراق جنگ نے ایران کواس قابل بنایاکہ وہ نکتوں کو جوڑسکے،عراق،شام اوروہاں سے لبنان تک راستہ بنا سکے۔یہ بہت اہم تھاکیوںکہ لبنان میں حزب اللہ خطے میں ایران کاسب سے اہم اتحادی تھا۔دوسری جانب یمن میں خانہ جنگی کی وجہ سے متعددشہر ان باغیوں کے قبضے میں چلےگئےجوایران کےقریب تھے۔حالیہ برسوں کےدوران مزاحمت کااتحادشیعہ اورچندسنی گروہوں کےدرمیان اتحادکی علامت بھی بن گیا، جیساکہ حماس اوراسلامی جہاد،جس کا مقصد مشرق وسطیٰ میں مغربی اوراسرائیلی اثرورسوخ کوروکناتھا۔ یہ اتحادجس میں حزب اللہ،عراق کےعسکری گروہ،یمن کےحوثی باغی،شام میں بشارالاسدکی حکومت شامل تھے، ایران کے ہاتھ میں ایک طاقتورہتھیاربن گیا۔اس اتحادکی غیرموجودگی میں ممکن ہے کہ بشارالاسدکی حکومت بہت پہلے ہی گرجاتی،یوں اس اتحادنےاسرائیل کےگرد’’ آتشیں گھیرا‘‘قائم کرلیا۔ادھرامریکاکی عراق اورافغانستان میں جنگوں نے تہران کی پوزیشن اورمزاحمت کے اتحادکومزید مضبوط کردیا۔
ٹرمپ کی پہلی صدارت کے دوران امریکی قومی سلامتی کے مشیرجان بولٹن کے مطابق’’ایران نے کامیابی سے اتحادکووسعت دیتے ہوئےاپنی عسکری طاقت بھی بڑھائی‘‘۔ان کےمطابق ’’ایران نےمزاحمت کےاتحادکوقائم کرتےہوئے ،جسےقاسم سلیمانی اسرائیل کے گرد ’’رنگ آف فائر‘‘کی حکمت عملی کانام دیتےتھے، بہت سنجیدہ کام تھا۔انہوں نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی جس کاآغازلبنان میں حزب اللہ سے ہوا۔ ایران کاجوہری اوربیلسٹک میزائل پروگرام بھی دیکھیں توانہوں نے کافی اہم کامیابیاں حاصل کیں‘‘۔
پانچ سال قبل ٹرمپ نے قاسم سلیمانی کے قتل کا حکم دیکرایرانی مزاحمت کے اتحادکے زوال کی بنیاد ڈال دی۔اب جب ٹرمپ ایک بارپھروائٹ ہائوس میں لوٹ رہےہیں توایران دو دہائیوں میں خطےمیں سب سےکمزورحالت میں ہے۔ٹرمپ نے اپنےگزشتہ صدارتی دورمیں ایران پرکافی دبائو ڈالاجس میں سخت پابندیوں کی بحالی سمیت جوہری معاہدے سے دستبرداری بھی شامل تھی۔ گزشتہ سات سال میں ان پابندیوں نے ایران پرمعاشی دبائو میں اضافہ کیاہے۔قاسم سلیمانی کی موت اوراس دباؤکی وجہ سے ہی ایران کاکردارکمزورہوا۔
تاہم7اکتوبر2023ء کوحماس کے اسرائیل پرحملے کے بعدمزیدمسائل پیداہوگئے۔حماس کے رہنمائوں کی ہلاکت اورغزہ میں حماس کی عسکری طاقت میں کمی کے ساتھ ساتھ بیروت میں حزب اللہ سربراہ حسن نصراللہ سمیت متعددکمانڈرزکی ہلاکت نےاسرائیل کےخلاف ایرانی صلاحیتوں کوگہری چوٹ پہنچائی ہے۔خطے میں ایران کے سب سے مضبوط اور طاقتور بازوحزب اللہ کی عسکری مشینری کوچوٹ پہنچنے سےخطے میں اسرائیل کا پلڑا بھاری ہو گیا ہے۔ بہت سال تک حزب اللہ نے خود کومزاحمت کےاتحاد کے سب سے طاقتوررکن کے طور پر منوا رکھاتھا۔اب ہم ایک ایسی صورت حال دیکھ رہے ہیں جس میں اس اتحادکے باقی رہنے کی بحث ہورہی ہے جوحیران کن ہے۔
مزاحمت کے اتحادنےطاقت کاپلڑاایران کے حق میں کردیاتھالیکن اب صورتحال یکسربدل چکی ہے۔ دوسری جانب شام میں بشارالاسدکی حکومت کے خاتمے،جسے’’مزاحمت کے خیمے کااہم ستون‘‘ قراردیا جاتاتھا،نےاس ایرانی اتحادکوناقابل یقین چوٹ پہنچائی ہے۔بشارالاسد کی حکومت کاخاتمہ، جس کی کسی کوتوقع نہیں تھی، ایران کے لئے بہت بڑی چوٹ ہے،اس میں کوئی شک نہیں،حزب اللہ کوبھی اس سےنقصان ہواکیونکہ اب میزائل،اسلحہ اور دیگر سامان، جوایران سےپہنچتاتھا،نہیں پہنچ سکے گاتوحزب اللہ، جواسرائیل کی جانب سے شدید دباؤکاسامناکررہی ہے،اب رسدکے مسائل کابھی شکارہے۔
ایرانی اتحاد کے بہت سے رہنمانہیں رہے اورزمینی رابطے بھی ٹوٹ چکے ہیں۔ ایسے میں ایران کومشکل صورت حال کاسامنا ہے۔عراق میں چندعسکری گروہوں کےعلاوہ اس وقت یمنی حوثی باغی ہی خطے میں باقی بچے ہیں لیکن وہ بھی امریکا اور اسرائیل کےحملوں کی زد میں ہیں۔ایران کی جانب سےاربوں ڈالرکی سرمایہ کاری اورلاکھوں افرادکاخون بہنے کے باوجودخطے میں ایک زمانے میں طاقتورسمجھاجانے والااتحاداب غیرمعمولی مشکلات کی زدمیں ہے۔ادھردوسری طرف ٹرمپ کی واپسی سے ایسالگتاہے کہ اگرایران اور امریکا کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہواتوشاید وائٹ ہائوس اپنی توجہ چین اورعراق کی جانب کردے گا تاکہ ایران کوتیل سےحاصل ہونے والامنافع بھی نہ مل سکے۔
مشرق وسطیٰ کی صورت حال پرایران کے رہبراعلی آیت علی خامنہ ای نےدسمبرمیں کہاتھا کہ ’’مزاحمت پرجتنادباؤڈلے گا،یہ اتنا پرعزم ہوگا۔مزاحمت کااتحادپہلے سے زیادہ پھیلے گا‘‘۔ ان کابیان اس بات کاعندیہ ہے کہ ایران اس اتحادکوازسرنوبحال کرنے اور اپنے کھوئے ہوئے رابطے دوبارہ قائم کرنے میں سنجیدہ ہے۔اسرائیلی فوج کے سابق انٹیلیجنس افسر ابراہیم لیون کے مطابق “مزاحمت کے اتحادمیں بدلے کاعزم عروج پرہے۔شام کھودینے کےباوجودایران رسائی حاصل کرنےکی کوشش کرےگا،شاید موجودہ رہنما سےرابطہ قائم کرکے،شام کی زمین کو استعمال کرنے کی اجازت حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ مشرق وسطیٰ میں حالیہ صورت حال سیاسی جدت کے لئے اہم ہے۔شائد اسرائیل اورفلسطین کا تنازع حل کرنےکاایک موقع ہے۔سیاست دانوں کوچاہیے اس وقت کواستعمال کریں،جنگ کے نتائج کاجائزہ لیں اورخطے میں بہترمستقبل کے لئے متبادل راستوں پرغورکریں۔
یادرہےکہ ایران اوراسرائیل دونوں ممالک نےایک دوسرے کےعسکری اہداف پرکامیاب حملوں کادعویٰ توکیامگریہ ابھی تک واضح نہیں ہوسکاکہ فریقین کے نقصان کی حدکیاہے اورکہاں کہاں ان کونشانہ بنایاگیاہے۔دونوں فریق حملوں کی تصدیق کرتےہوئے کامیابی کے ساتھ مقابلہ کابھی دعوی توکرتے ہیں لیکن عالمی میڈیاکوان علاقوں سےکوسوں دوررکھا جارہاہے اور کسی کو بھی وہاں جانے کی اجازت نہیں مل رہی کہ سچائی سامنے آسکے تاہم ایران کی فضائی دفاعی افواج نے ایک بیان میں کہاہے کہ اسرائیل نے تہران،خوزستان اورایلام صوبوں میں اس کے فوجی اڈوں پرحملے کیے ہیں جس کاکامیابی سے مقابلہ کیاگیالیکن کچھ مقامات پرمحدودنقصان ہواہے لیکن اسرائیل نے ابھی تک اپنے نقصان کی بھنک تک نہیں پڑنے دی۔
اس صورتحال میں دونوں ملک اپنی اپنی جگہ پربظاہریہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ مضبوط ہیں توسوال یہ ہے کہ آخران میں سے عسکری اعتبارسے زیادہ طاقتورکون ہے؟(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پاسداران انقلاب قاسم سلیمانی میں حزب اللہ اسرائیل کے مزاحمت کے میں ایران کی وجہ سے صورت حال ایران کے ایران کی ہے کہ ا
پڑھیں:
محبت رسول ﷺاور گستاخانہ فتنہ
پاکستان میں گستاخانہ فتنےکو پروان چڑھانے میں جو مکروہ قوتیں اوران کےراتب خور ملوث ہیں،اب آہستہ آہستہ ان کے چہروں سے نقاب سرک رہے ہیں، مقدس شخصیات کی توہین میں گرفتار گستاخوں کےحقوق کا سیاپا ڈالنے والے ابلیسی ایجنٹوں کو کوئی بتائے کہ ہم آقا ومولیٰﷺکےحقوق کی جنگ آخری سانسوں تک جاری رکھیں گے، ہم اپنی تحریروں، تقریروں اور عمل کےذریعےمحبت رسول ﷺ عام کرتےرہیں گے، گلشن جمال کراچی میں نوجوانوں کے اجلاس سے خطاب کرتےہوئے اس خاکسار نےعرض کیا،کہ عالمی صہیونی ایجنٹوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم مسلمان حضور ﷺکی سنتوں پر عمل کرنے والے بن جائیں ،محبت رسول ﷺ اسی مسلمان کے دل میں سما سکتی ہے کہ جو عقیدہ ختم نبوت پر ایمان رکھتا ہو،نئی نسل کو سیکولر شدت پسند بنا کر ان کے دلوں سے محبت رسول ﷺکھرچنے کی کوششیں کرنے والے عقل وخرد سے فارغ عالمی اندھوں اور ان کے مقامی ٹاوٹوں کو کوئی بتائےکہ دین اسلام نے اپنے پیروکاروں کو یہ ضابطہ دیاہے کہ جو شخص جس سے محبت کرے گا اس کو اس کی رفاقت نصیب ہو گی۔حضرت انس سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺسے پوچھا ،یارسول اللہ ﷺ قیامت کب آئے گی ؟ آپ ﷺنے فرمایا تونے قیامت کے لئے کیا تیاری کررکھی ہے؟عرض کیا میں نے روزقیامت کے لئے اتنی زیادہ نمازوں ، روزوں اورصدقات کے ساتھ تیاری نہیں کی لیکن اللہ اور رسول سے محبت رکھتا ہوں ، آپﷺنے فرمایاتو اپنے محبوب کے ساتھ ہی ہوگا ۔(بخاری)
اس مبارک اور اہم ضابطہ پر صحابہ کرام ؓجس قدرخوش ہوئے اس کا بیان حضرت انس ؓ کی زبانی سنیئے فرماتے ہیں اسلام لانے کے بعد آج تک ہم کبھی اتنے خوش نہیں ہوئے جتنے آج آپ کایہ فرمان سن کرخوش ہوئےکہ محبت کرنے والے کومحبوب کی رفاقت نصیب ہوگی ‘پھر اسی خوشی میں وہ جھوم اٹھے اور کہنے لگے،اگرچہ میں نے اِن پاکیزہ ہستیوں جیسے عمل نہیں کئےمگرمیں حضور ﷺ،ابوبکروعمررضی اللہ تعالی عنہماکے ساتھ محبت ضرور رکھتا ہوں اور پرامید ہوں کہ اسی محبت کی وجہ سے مجھےان کی رفاقت نصیب ہوگی ۔حضور علیہ السلام کی محبت اس قدراہم اورافضل واعظم ہےکہ خداوندقدوس ارشادفرماتے ہے،ترجمہ ’’تم فرما اگرتمہارے باپ اوربیٹےاورتمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہاراکنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سوداجس کے نقصان کاتمہیں ڈرہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اوراس کے رسول کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھ ،یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے‘‘ (سورہ توبہ) اس آیت کریمہ میں واضح طورپر معلوم ہواکہ جسے دنیا میں کوئی معززیاعزیزیامال اللہ اور رسول سے زیادہ عزیزہو وہ بارگاہ الٰہی میں مردود ہے اورمستحق عذاب ہے،تاریخ گواہ ہے کہ رسول اکرم ﷺکے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نےاپنے والہانہ عشق ومحبت سے سرشارہوکر جس شانداراندازمیں اپنے آقاومولی ﷺسے اپنی عقیدت کااظہارکیا اس کی نظیر نہیں مل سکتی،بعض صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ قسم اٹھا رکھی تھی کہ جب ہم صبح اٹھیں گے تو سب سے پہلے نبی علیہ السلام کا دیدارکریں گے، چنانچہ وہ نبی علیہ السلام کے حجرہ کے باہر بیٹھ کر انتظار کرتے جب آپ ﷺتشریف لاتے تو آپ ﷺکا دیدار کرنے کے لئے آنکھیں کھولتے،بعض حضرات رات کے وقت گھر سوئےہوئےہوتے آنکھ کھل جاتی تو نبی علیہ السلام کے خیال مبارک سے دل اداس ہوجاتا ،گھر سے باہر آکر نبی ﷺکے حجرات کی زیارت کرتے رہتے، گھنٹو ں بیٹھے دیکھتے رہتے کہ یہ وہ جگہ ہے کہ جہاں میرامحبوب ﷺ سویا ہواہے،ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایمان لائےاورکچھ عرصہ صحبت نبوی ﷺمیں رہنے کے بعد گھر واپس گئے ،وہاں ان کے کسی عورت کے ساتھ مراسم اور تعلقات تھے،وہ عورت ان سے ملنے کے لئے آئی، انہوں نے رخ پھیرلیا،وہ کہنے لگی ،کیابات ہوئی ؟وہ بھی وقت تھا جب تم میری محبت میں بے قرارہوکر گلیوں کے چکر لگاتے تھے ،مجھے ایک نظر دیکھنے کے لئے تڑپتے تھے ،میری ملاقات کے شوق میں ٹھنڈی آہیں بھرتے تھے،اب میں خودچل کرتمہارے پاس ملنے کے لئے آئی ہوں ،تو تم نے آنکھیں بندکرلیں،وہ فرمانے لگےکہ میں ایسی ہستی کودیکھ کر آیاہوں کہ اب میری نگاہیں کسی غیر پر نہیں پڑسکتیں ۔میں دل کاسوداکرچکا ہوں،وہ عورت ضدمیں آکرکہنے لگی اچھا ایک مرتبہ میری طرف دیکھ تولو،اس صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےفرمایا،اے عورت !چلی جاورنہ میں تلوارسے تمہاراسرقلم کردوں گا۔
ایک حبشی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سرکے بال گھنگریالے تھے وہ غسل کرنے کے بعد چاہتے کہ سرکے بالوں میں مانگ نکالیں مگر نہ نکلتی،انہیں بہت حسرت رہتی کہ میراسر بھی نبی علیہ السلام کے سرمبارک سے مشابہہ ہونا چاہئے ۔ ایک دن فرط جذبات میں انہوں نے لوہے کی سلاخ گرم کی اور سرکے درمیان میں پھیر دی ۔ چمڑااور بال جلنے کی وجہ سے سر کے درمیان ایک لکیر نظر آنے لگی،لوگوں نے پوچھا کہ آپ نے اتنی تکلیف کیوں اٹھائی ؟فرمایا ،تکلیف تو بھول جائوں گا جب میرے سرپر یہ مانگ اسی طرح نظر آئے گی جس طرح نبی علیہ السلام کے سرپر نظر آتی ہے،عشق رسولﷺ میں صحابیات رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےبھی بہت اعلیٰ اورنمایاں مثالیں پیش کیں،ان کےسینے عشق نبوی ﷺسے معمورتھے اور ان کے پاکیزہ قلوب اس نعمت کے حصول پر مسرور تھے۔جنگ احد میں یہ افواہ چاروں طرف پھیل گئی کہ نبی اکرم ﷺشہید ہوگئے ہیں مدینہ کی عورتیں شدت غم سے روتی ہوئی گھروں سے باہر نکل آئیں،ایک انصاریہ صحابیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگیں کہ میں اس بات کو اس وقت تک تسلیم نہیں کروں گی جب تک کہ خود اس کی تصدیق نہ کرلوں ۔چنانچہ وہ اونٹ پر سوار ہوکر احد کی طرف نکل پڑیں جب میدان جنگ کے قریب پہنچیں تو ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سامنے سے آتےہوئے دکھائی دیئے ، ان سے پوچھنے لگیں کہ محمد ﷺکا کیا حال ہے؟انہوں نےکہامعلوم نہیں لیکن تمہارے بھائی کی لاش فلاں جگہ پڑی ہے،وہ اس خبر کوسن کر ذرابھی نہ گھبرائی اور آگے بڑھ کردوسرے صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا ’’مابال محمدﷺ‘‘ انہوں نےجواب دیا معلوم نہیں مگر تمہارے والدکی لاش فلاں جگہ میں نےدیکھی ہےیہ خبر سن کربھی پریشان نہ ہوئی بلکہ آگے بڑھ کر تیسرے صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا ’’مابال محمدﷺ‘‘ انہوں نے بتایاکہ میں نے تمہارے خاوند کی لا ش فلاں جگہ دیکھی ہے ،یہ سن کر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی پھر پو چھا کہ نبی ﷺکی خیریت کے بارےمیں بتائو کسی نے کہاکہ میں نے نبی ﷺکو فلاں جگہ بخیریت دیکھا ہے تواس عورت نے آپ ﷺکے قریب پہنچ کر چادرکا ایک کونہ پکڑکر کہا(ہر مصیبت نبی ﷺکے بعد آسان ہے) اس سے پتا چلتا ہے کہ صحابیات رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے قلوب میں جو محبت نبیﷺ کے لئے تھی وہ والد،بھائی اور شوہر کی محبت سے بھی زیادہ تھی یہی ایمان کامل کی نشانی بتائی گئی ہے ۔