بھارت کے 3 گاؤں میں پراسرار آفت، لوگ اچانک گنجے ہونے لگے!
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
مہاراشٹر کے ضلع بلڈھانہ کے تین دیہاتوں بوڈگاؤں، کلواڑ، اور ہنگنا میں بال گرنے کے غیر معمولی واقعات نے لوگوں کو خوف و تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ مرد، خواتین اور بچوں سمیت تقریباً 30 سے 40 فیصد افراد اچانک بال گرنے اور گنجا ہونے کی شکایت کر رہے ہیں، جبکہ بعض افراد کے بال چند دنوں میں مکمل جھڑ گئے ہیں۔
ضلعی محکمہ صحت کی ٹیم نے فوری طور پر علاقے کا دورہ کیا اور پانی، غذائی عادات، اور دیگر ممکنہ وجوہات کی جانچ شروع کر دی ہے۔ ابتدائی تحقیقات میں کھوپڑی میں فنگل انفیکشن کے امکانات ظاہر کیے گئے ہیں، جبکہ پانی کے نمونے جانچ کے لیے بھیج دیے گئے ہیں تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ اس میں بھاری دھاتوں کی موجودگی تو نہیں۔
متاثرہ افراد نے بتایا کہ انہیں بال گرنے کا سامنا اچانک ہوا۔ ایک بزرگ خاتون نے اپنے جھڑے ہوئے بال ایک تھیلے میں محفوظ کیے ہیں، جبکہ ایک نوجوان نے بتایا کہ نہ صرف سر کے بلکہ داڑھی کے بال بھی تیزی سے گر رہے ہیں۔ کچھ افراد نے اس پریشانی کے باعث اپنے سر منڈوا لیے ہیں۔
تحقیقاتی ٹیم میں شامل ایک اسکن اسپیشلسٹ نے متاثرہ افراد کی جلد کی بائیوپسی کرانے کا مشورہ دیا ہے تاکہ اس پراسرار مسئلے کی اصل وجہ معلوم کی جا سکے۔ ضلعی صحت اہلکار امول گیتے کے مطابق، پانی اور جلد کے نمونوں کی رپورٹ دو سے تین دن میں متوقع ہے، جس کے بعد معاملے کی وضاحت ممکن ہو سکے گی۔
دیہات کے سرپنچ کی اطلاع پر محکمہ صحت نے یہ اقدامات کیے، لیکن بال گرنے کے مسلسل واقعات نے علاقے کے عوام کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ ماہرین اس مسئلے کے حل کے لیے متحرک ہیں اور جلد ہی وجوہات کا تعین کر کے علاج تجویز کریں گے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بال گرنے
پڑھیں:
لائن آف کنٹرول پر دراندازی کا بھارت کا ایک اور جھوٹ بے نقاب ہو گیا
لائن آف کنٹرول پر دراندازی کا بھارت کا ایک اور جھوٹ بے نقاب ہوگیا. 23 اپریل کو لائن آف کنٹرول کے علاقے سرجیور میں 2 مبینہ دراندازوں کو ہلاک کرنے کا بھارتی دعویٰ جھوٹا نکلا۔ذرائع کے مطابق جھوٹا بھارتی دعویٰ بظاہر ایک من گھڑت بیانیے کو پھیلانے کی دانستہ کوشش ہے. وقت کے تسلسل، زمینی حقائق اور جاری کردہ تصویری شہادتوں میں سنگین تضادات پائے جاتے ہیں .جس واقعے میں 2 افراد کو درانداز قرار دیا جا رہا ہے ان کی شناخت مقامی افراد کے طور پر ہوئی ہے۔ملک فاروق ولد صدیق اور محمد دین ولد جمال الدین گاؤں سجیور کے پُرامن شہری تھے، مارے جانے والے افراد کے لواحقین نے 22 اپریل کی صبح ان کے لاپتہ ہونے کی اطلاع دی تھی. ان افراد کی گمشدگی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ وہ کسی ممکنہ دراندازی سے پہلے ہی غائب ہو چکے تھے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی ذرائع کی جانب سے جاری کردہ تصاویر واضح طور پر بھارت کے مؤقف کو جھٹلا رہی ہے کہ تصویر میں ایک متوفی کی لاش صاف ستھری، چمکتی ہوئی کالی جوتیوں کے ساتھ دکھائی دیتی ہے. یہ لاش دشوار گزار پہاڑی راستے سے دراندازی کرنے والے کی ہرگز نہیں ہو سکتی. مارے جانے والے شخص کے کپڑے بھی حیران کن حد تک صاف ہیں. اس کے ہتھیار پر مٹی یا خون کے نشانات تک نہیں، اس کے ساتھ ساتھ جائے وقوع پر کسی قسم کی لڑائی کے آثار بھی دکھائی نہیں دیتے۔اسی طرح دوسری لاش کے پاس کسی قسم کا لوڈ بیئرر، اضافی گولہ بارود، پانی کی بوتل، یا کوئی بھی جنگی ساز و سامان موجود نہیں. اگر یہ واقعی ایک درانداز ہوتا تو وہ اس طرح ناپختہ اور غیر محفوظ حالت میں کبھی بھی حرکت نہ کرتا. ایک شخص کے پاس تو صرف پستول ہے جو کہ دراندازی کی کسی بھی فوجی حکمت عملی سے مطابقت نہیں رکھتا۔مقامی افراد اور متاثرہ خاندانوں کے بیانات اس حقیقت کو مزید تقویت دیتے ہیں کہ یہ دونوں افراد پُرامن شہری تھے.ہلاک ہونے والے افراد کا کسی بھی عسکری یا غیر قانونی سرگرمی سے کوئی تعلق نہیں تھا .بھارتی افواج نے انہیں بے دردی سے قتل کر کے اسے ایک فالس فلیگ آپریشن کا رنگ دے دیا. بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ اس انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کا سختی سے نوٹس لے۔