سندھ ہائیکورٹ کا جناح اسپتال کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر شاہد رسول کو بحال کرنے کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
کراچی: سندھ ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ نے جناح اسپتال کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر شاہد رسول کو عہدے پر بحال کر دیا۔
رپورٹ کے مطابق سندھ ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ نے ڈاکٹر شاہد رسول کی معطلی کے خلاف اپیل منظور کرتے ہوئے سنگل بینچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
عدالتی حکم میں کہا گیا کہ ڈاکٹر شاہد رسول کو بطور ایگزیکٹیو ڈائریکٹر جناح اسپتال بحال کیا جائے۔
عدالت نے تحریری حکمنامے میں کہا کہ ڈویژن بینچ عمومی طور پر عبوری حکمنامے میں مداخلت نہیں کرتی، تاہم انصاف کی فراہمی کے لیے مداخلت کرنا ضروری سمجھا۔
عدالتی حکم میں یہ بھی کہا گیا کہ بظاہر سندھ حکومت جناح اسپتال میں تعیناتیاں کرتی ہے اور وفاقی حکومت نے تعیناتیوں پر اعتراض نہیں کیا، جبکہ یہ نکات سنگل بینچ کے سامنے پیش نہیں کیے گئے تھے۔
واضح رہے کہ جناح اسپتال کا سربراہ نہ ہونے کے حوالے سے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا تھا کہ ڈیڑھ سے دو ماہ سے کیس عدالت میں چل رہا ہے، اور اگر پیر تک مسئلہ حل نہ ہوا تو وہ خود فیصلہ کریں گے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جناح اسپتال
پڑھیں:
سندھ ہائیکورٹ نے سندھ پبلک سروس کمیشن کیخلاف نیب انکوائری ختم کردی
—فائل فوٹوسندھ ہائی کورٹ نے سندھ پبلک سروس کمیشن کیخلاف نیب انکوائری ختم کر دی۔
سندھ پبلک سروس کمیشن کے افسران کے خلاف نیب انکوائری کے کیس کی سماعت ہوئی، عدالت نے نیب انکوائری کے خلاف سندھ پبلک سروس کمیشن کی درخواست منظور کر لی۔
جسٹس ذوالفقارعلی سانگی نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا، نیب امتحانات سے متعلق انکوائری نہیں کر سکتا ہے، نیب کو اختیارات کے ناجائز استعمال کی تحقیقات میں بھی کرپشن ثابت کرنا ہوگی۔
دوران سماعت جسٹس ذوالفقارعلی سانگی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کوئی کسی کے خلاف شکایت کرتا ہے تو نیب کیا پورے پاکستان کے خلاف تحقیقات شروع کردے گا، قانون کے مطابق امتحانات کی مارک شیٹس کو تحفظ حاصل ہے نیب جانچ پڑتال نہیں کر سکتا۔
نیب کے تفتیشی افسر نے کہا کہ نیب وزیراعظم کے خلاف تحقیقات نہیں کر سکتا ہے، کیونکہ قانون کے مطابق وزیر اعظم اور صدر پاکستان کو قانون تحفظ دیتا ہے۔
عدالت کی جانب سے تفتیشی افسر سے سوال کیا گیا کہ 6 سال میں نیب نے ملزمان کے خلاف کیا مواد اکٹھا کیا ہے؟
تفتیشی افسر نے بتایا کہ مجھے جنوری 2025ء میں انکوائری ملی ہے، وائٹ کالر کرائم کی تحقیقات میں وقت لگتا ہے، ملزمان کو تحقیقات کے لیے نوٹس بھیجا تو وہ عدالت آگئے۔
جسٹس ذوالفقار علی سانگی نے کہا کہ سپریم کورٹ ملزمان کے خلاف انکوائری بند کر چکی ہے، نیب تحقیقات نہیں کرسکتا۔ ایسا دنیا میں کہیں نہیں ہوتا 10، 10 سال کیس کی تحقیقات میں لگ جائیں۔
تفتیشی افسر نے کہا کہ نیب کے ایک ایک تفتیشی افسر کے پاس 20، 20 انکوائریاں ہیں، تحقیقات میں وقت لگتا ہے۔
جسٹس ذوالفقار علی سانگی نے کہا کہ جس نے سندھ پبلک سروس کمیشن افسران کے خلاف شکایت کی اس کے نہ تو شناختی کارڈ کی کاپی لی نہ حلف نامہ لیا۔
واضح رہے کہ سندھ پبلک سروس کمیشن و دیگرنے نیب انکوائری کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔